کتابِ ہدایت قرآنِ حکیم میں بار بار سود کو معیشت کی تباہی کا سبب قرار دیاگیا ہے، اور سود سے بچنے ہی کو انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیت 130 اور 131 میں ارشاد ہے ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پائو گے۔ اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔ سورۂ البقرہ آیت 276 میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘۔ اس سے قبل کی آیت میں سود خور کی کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھوکر بائولا کردیا ہو، اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام…‘‘اس سورہ کی آیت 279 میں تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے سود خوروں کو کھلا انتباہ کیا ہے کہ ’’آگاہ ہوجائو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘ اس کے علاوہ بھی کئی مقامات پر سود کی مذمت اور اس سے اجتناب کا حکم قرآن مجید میں دہرایا گیا ہے۔ ذخیرۂ احادیث میں بھی بہت سے ارشاداتِ نبویؐ میں سود کی ممانعت اور اس حرام میں مبتلا لوگوں کے بارے میں شدید وعیدیں رحمت للعالمینؐ کی جانب سے سنائی گئی ہیں، مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی معیشت کو سودی نظام نے اپنے چنگل میں لیا ہوا ہے، اور اس کے اثراتِ بد بھی عالمی معیشت پر نمایاں ہیں جن کے سبب ماہرینِ معاشیات اور عام لوگ سب ہی پریشان ہیں، حتیٰ کہ دنیا کی واحد سپر پاور اور بظاہر خوش حالی کی علامت امریکہ کی معیشت کا بھی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ بھی اربوں کھربوں ڈالر کے قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت اُس کے دیوالیہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔
پاکستان، جسے کلمۂ طیبہ کے نعرے کی اساس اور اسلام کے نام پر اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ اسے اسلام کی شریعتِ مطہرہ کی تجربہ گاہ بنایا جائے گا، مگر 72 برس گزر جانے کے باوجود آج تک یہاں نظامِ کفر سے نجات اور اسلامی نظام کے نفاذ کی نوبت نہیں آسکی۔ یہاں بھی پوری دنیا کی طرح معاشی نظام اور ہر طرح کی معاشی سرگرمیوں کو سودی نظام نے اپنے شکنجے میں بری طرح جکڑ رکھا ہے، اور اسی کے نتیجے میں پاکستانی قوم غربت و افلاس، معاشی بدحالی، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، بدعنوانی اور نہ جانے کن کن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے۔ ابھی کچھ روز قبل وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے وزیر مملکت برائے اقتصادی امور حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر سید شبر زیدی کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اگر سود کی ادائیگی کا بوجھ قومی خزانے سے ہٹادیا جائے تو ملکی معیشت میں کوئی خسارہ باقی نہیں رہتا۔ گویا مغربی سودی نظامِ معاشیات کے ایک اہم کل پرزے اور زندگی کا طویل عرصہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دینے والے ہمارے مشیر خزانہ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ پر مبنی سودی معاشی نظام ہی ہمارے ملک میں اقتصادی پریشانیوں، مسائل اور خسارے کا اصل محرک ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ہم قرض اور سود کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے مسلسل اس جان لیوا دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ چنانچہ تازہ اطلاع یہ ہے کہ حکومت کی سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے ملک میں تجارتی اور سرمایہ کاری اصلاحات کے لیے 2.5 کروڑ ڈالر (39 ارب روپے) کا غیر ملکی سودی قرضہ حاصل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس ضمن میں وزارتِ منصوبہ بندی کی رائے یہ تھی کہ تجارتی اور سرمایہ کاری کی مجوزہ اصلاحات ملکی خزانے پر غیر ملکی قرض کا بوجھ مزید بڑھائے بغیر ملکی وسائل سے بھی کی جاسکتی ہیں، مگر ماضی میں بیرونی قرضوں کو سخت الفاظ میں ہدفِ تنقید بنانے والے وزیراعظم عمران خان کی اپنی حکومت میں ایسے قرضے بے دریغ حاصل کیے جا رہے ہیں جن کے ملکی معیشت پر منفی اثرات سے انکار ممکن نہیں۔
اسی اثنا میں پیر کے روز قومی اسمبلی میں وقفۂ سوالات کے دوران یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ وزارتِ مذہبی امور حجاجِ کرام کی جانب سے درخواستوں کے ساتھ حج اخراجات کے لیے بینکوں میں جمع کرائی جانے والی رقوم پر باقاعدگی سے سود وصول کرتی ہے۔ وزارتِ مذہبی امور نے اپنے تحریری جواب میں تفصیل یوں بتائی ہے کہ گزشتہ برس 3 لاکھ 74 ہزار 857 پاکستانیوں نے حج درخواستیں جمع کرائیں جن کے ساتھ 106 ارب 41 کروڑ روپے سے زائد رقم وصول ہوئی، اور حجاج کی اس رقم پر وزارت نے 21 کروڑ روپے کا سود وصول کیا، جب کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران سود کی مد میں وصول کی گئی رقم ایک ارب 17 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔ وزارت نے تحریری جواب میں مزید وضاحت کی ہے کہ سود کی یہ رقم حجاج کو مناسک ِحج کی تربیت، انہیں حفاظتی ٹیکے لگانے، ادویہ کی فراہمی اور ذرائع ابلاغ سے تشہیری مہم پر خرچ کی جاتی ہے… گویا حج جیسے مقدس فریضے کو بھی حکومت نے مشکوک بنا دیا ہے، اور جو پاکستانی عمر بھر کے گناہ بخشوانے کی امید پر اپنے رب کے گھر کا قصد کرتے ہیں انہیں بھی وزارتِ مذہبی امور کی ’’مہربانی‘‘ سے اللہ اور رسولؐ سے جنگ کرنے والوںکی فہرست میں جبراً شامل کردیا جاتا ہے۔ عوام کی خیر اور نیکی کے حصول کی خواہش میں اُن کی مرضی کے بغیر سود جیسے شر کو شامل کردینا کیا صریحاً ظلم نہیں…؟
چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا مانند مسلمانی
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے گزشتہ دنوں سینیٹ سیکریٹریٹ میں ایک قرارداد جمع کرائی ہے۔ اس جامع قرارداد میں ایوانِ بالا کے ذریعے وفاقی حکومت سے مہنگائی، بے روزگاری، بجلی اور گیس وغیرہ کے بلوں میں وصول کیے جانے والے ظالمانہ، غیر منصفانہ اور بلاجواز ٹیکسوں کے خاتمے سمیت 13 مطالبات کیے گئے ہیں جن میں چوتھا مطالبہ بلاتاخیر سودی نظام کے خاتمے کا ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اس قرارداد کو ایوان سے متفقہ طور پر منظور کروائے، بلکہ اس میں اٹھائے گئے اہم نکات خصوصاً سود کے فوری خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات بھی بروئے کار لائے، تاکہ قوم کو سود کی نحوست کے باعث درپیش ہمہ نوع مسائل و مشکلات سے نجات مل سکے، اور ملک وزیراعظم کے اعلانات کے مطابق جلد از جلد ’’مدینہ کی اسلامی ریاست‘‘ کے قیام کی جانب پیش رفت کرسکے۔
(حامد ریاض دوگر)