۔16 دسمبر یومِ سقوطِ ڈھاکا ،تاریخ پاکستان کا سیاہ ترین دن

حافظ نوید احمد زبیری
۔16دسمبر پاکستان کی تاریخ کا ایسا سیاہ ترین دن ہے کہ جس کے زخم کو ہر سال تازہ کردیا جاتا ہے۔ ملک کے اندر ہونے والی تقریبات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری قوم اس واقعے پر بہت شرمندہ ہے، وہ آنے والے وقت میں اس سے سبق حاصل کرنا چاہتی ہے اور پاکستان کو جو نقصان ہوا ہے اس پر بھی دل کی گہرائی اور گیرائی سے ندامت محسوس کررہی ہے۔ درحقیقت یہ سب کچھ خود فریبی ہے جس میں ہماری سیاسی جماعتیں اوردیگر ملکی ادارے برابر کے شریک ہیں۔
انتخابی مہم جو کہ یکم جنوری 1970ء کو شروع ہوئی تھی، سوا گیارہ ماہ چلتی رہی، جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ تھا۔ اس میں شیخ مجیب نے ’’چھ نکات‘‘ اور بھٹو نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعروں کے ساتھ حصہ لیا۔ مسٹر بھٹو نے پورا سال چھ نکات کی کوئی مخالفت نہ کی، جبکہ مجیب کی عوامی لیگ نے انہی نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی۔ دونوں لیڈر لیگل فریم ورک آرڈر کی دھجیاں اڑاتے رہے مگر مارشل لا ضابطے سوئے رہے۔ ایک اور خرابی یہ ہوئی کہ مجیب نے تو مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 6 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے، مگر بھٹو نے مشرقی پاکستان میں پی پی پی کا ایک امیدوار بھی کھڑا نہیں کیا تھا، جبکہ مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور نواب زادہ نصر اللہ خان کی قومی جمہوری پارٹی نے مشرقی پاکستان کی بیشتر نشستوں پر اپنے اپنے امیدوار نامزد کیے تھے۔ دراصل عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں علاقائی جماعتیں تھیں اور ان دونوں کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں الگ الگ حاصل اکثریت کرنے سے ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کی پیش گوئی مردِ درویش سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اکتوبر 1970ء میں نہرو پارک، سنت نگر، لاہور کے جلسے میں یوں کردی تھی: ’’اگر یہ دو علاقائی جماعتیں اکثریتی ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئیں تو ملک کے متحد رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی‘‘۔ مگر اُس وقت تک روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر اس قدر دھول اڑائی جاچکی تھی کہ کوئی عقل کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ مسٹر بھٹو ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے، چنانچہ جب انہوں نے ایئر مارشل (ر) اصغر خان اور ڈاکٹر جاوید اقبال کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی اور ان دونوں نے بھٹو سے اُن کا پروگرام پوچھا تو بھٹو صاحب نے قہقہہ لگا کر دونوں سے یہی کہا تھا کہ پروگرام کیا ہے، عوام کو بے وقوف بناکر اقتدار حاصل کرنا ہے۔ تب اصغر خان نے یہ کہہ کر پی پی پی میں شامل ہونے سے معذرت کی تھی کہ ’’میں عوام کو بے وقوف بناکر اقتدار حاصل کرنے کے پروگرام میں شامل نہیں ہوسکتا‘‘۔ جناب اصغر خان اور ڈاکٹر جاوید اقبال اپنے انٹرویوز میں یہ راز افشا کرچکے ہیں۔
7 دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے جس کی 313 نشستوں میں سے 300 پر چنائو ہوا تھا۔ باقی 13نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کی گئی تھیں۔ 300 قابلِ انتخاب نشستوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان کی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرلی، جبکہ باقی دو نشستوں میں سے ایک پر قومی جمہوری محاذ کے جناب نورالامین اور دوسری پر اقلیتی بدھ رہنما (چکما قبیلے کے سردار) راجا تری دیو رائے منتخب ہوئے۔ پی پی پی کو مغربی پاکستان سے 81 نشستیں حاصل ہوئیں جن میں بھاری اکثریت یعنی 63 نشستیں پنجاب سے تھیں، کیونکہ پنجابی و کشمیری عوام کی اکثریت بھٹو کے کھوکھلے نعروں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ اور ’’ہم کشمیر کے لیے ایک ہزار سال لڑیں گے‘‘ پر مر مٹی تھی، (اب بھٹو کی وراثت پر قابض زرداری پارٹی کو یاد ہی نہیں کہ بھٹو نے آزادیِ کشمیر کا نعرہ بھی لگایا تھا، اور یہ لوگ کشمیر اور پاکستان کے دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے لیے بے چین ہورہے ہیں)، باقی تین صوبوں سے پی پی پی کی جیتی ہوئی نشستیں یوں تھیں: سندھ سے 30 میں سے 17، صوبہ سرحد سے ایک، اور بلوچستان کی کُل 4 نشستوں میں سے صفر۔
یوں انتخابات 1970ء نے بھٹو کو اپوزیشن لیڈر کا مقام دیا تھا جو انہیں کسی طور گوارا نہ تھا۔ تقریباً سال بھر کی انتخابی مہم میں انہوں نے مجیب کے چھ نکات کی مخالفت کا تکلف نہ کیا، مگر اب انتخابات کے بعد اچانک ان کی مخالفت شروع کردی۔ اگر چھ نکات ایسے ہی برے تھے تو انتخابات سے پہلے وہ جنرل یحییٰ سے کہہ کر مجیب کو چھ نکات کے پرچار سے روک سکتے تھے، مگر انتخابات کے بعد ان کی مخالفت سیاسی مفاد کی وجہ سے تھی۔ اوائل جنوری 1971ء میں جنرل یحییٰ ڈھاکا ایئرپورٹ پر شیخ مجیب کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے چکے تھے، جبکہ شیخ مجیب نے ان نکات کو صرف انتخابات جیتنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا تھا اور وہ مغربی پاکستان کے دیگر لیڈروں سے کہہ چکے تھے کہ چھ نکات کوئی حدیث نہیں، اسمبلی میں ان پر بات ہوگی۔ لیکن بھٹو نے وسط جنوری 1971ء میں پی پی پی کے وفد کے ہمراہ ڈھاکا جاکر مجیب کے ساتھ سودے بازی کی کوشش کی۔ کشتی میں دونوں لیڈروں نے بوڑھی گنگا کی سیر بھی کی، اور بھٹو نے ساڑھے پانچ نکات تسلیم کرنے کا اعلان کردیا، مگر پھر آدھے نکتے پر بات اٹک گئی۔ اگر بھٹو مخلص ہوتے تو وہ ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیتے، اس طرح اس آدھے نکتے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا۔ لیکن دراصل وہ مرکزی سطح پر مجیب سے اقتدار میں شرکت کی ضمانت چاہتے تھے، یہ کہ انہیں نائب وزیراعظم یا صدرِ مملکت کا منصب دیا جائے۔ لیکن مجیب نے ایسی یقین دہانی کرانے سے انکار کردیا۔
مغربی پاکستان سے دیگر سیاسی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی یوں تھی: پاکستان مسلم لیگ دولتانہ گروپ 14، پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ 2، کنونشن مسلم لیگ 2، نیشنل عوامی پارٹی (NAP) 9، جمعیت العلمائے پاکستان 7، جمعیت علمائے اسلام 7، جماعت اسلامی 4۔ مسلم لیگ کے میاں ممتاز دولتانہ اور نیپ (اے این پی کی پیشرو) کے لیڈر خان عبدالولی خان سے شیخ مجیب کی گاڑھی چھنتی تھی، وہ ان دونوں کے ساتھ آسانی سے مخلوط حکومت بنا سکتے تھے جس میں جمعیت العلمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام بھی شریک ہوسکتی تھیں۔ ان کی معاونت سے آئین سازی کا مرحلہ بخوبی طے ہوسکتا تھا، اور ملکی سلامتی کی حدود کے اندر رہ کر چھ نکات کے معاملے میں بنگالیوں کو مطمئن کیا جا سکتا تھا۔ مگر بھٹو تو حصولِ اقتدار کے لیے تڑپ رہے تھے۔ جب انہوں نے اقتدار کی لیلیٰ ہاتھ سے جاتے دیکھی تو وہ سب کچھ ڈھا دینے پر تل گئے۔(مسٹر بھٹو نے یحییٰ خان کو لاڑکانہ بلا کر کیا پلان بنایا، کس طرح مینارِ پاکستان کے سائے تلے ڈھاکا جانے والے ارکانِ اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی، اور پھر بنگالیوں کو ’’بونگلے‘‘ کہہ کر انہیں فوجی آپریشن سے کچل دینے کی روش اختیار کی۔
تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سقوطِ ڈھاکا پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کے بجائے تلخ حقائق کا جائزہ لیں جن کے سبب ہمیں مشرقی پاکستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہوا۔ خرابیاں تو پاکستان بننے کے بعد ہی واضح ہوگئی تھی جن کا احاطہ کرنا تفصیل طلب ہے، اس لیے اس وعدہ خلافی پر مشرقی پاکستان میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور احتجاج کو دبانے کے لیے 25 مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا۔ ہماری مغربی پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے سُکھ کا سانس لیا کہ ’’خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا‘‘۔ جبکہ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ برا وقت آنے والا ہے۔ لیکن پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو آج کس جرم کی سزا دی جارہی ہے، یہ بات بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے راہنما عبدالقادر مُلّا کو پھانسی دینے سے واضح ہوجاتی ہے جنہیںصرف اس جرم میں پھانسی دے دی گئی کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں جب ہماری فوج وہاں حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی تھی تو جماعت اسلامی نے پاکستان کی جنگ لڑتے ہوئے بڑی قربانیاں دیں۔ عبدالقادر مُلّا پر الزام یہ لگایا گیا کہ البدر کا حصہ ہوتے ہوئے، جن کی عمر اُس وقت 21 سال تھی، انہوں نے بنگالیوں پر ظلم کیا، انہیں قتل کیا اور خواتین کی بے حرمتی کی۔ ان الزامات کی بنیاد پر انہیں اور جماعت اسلامی کے دوسرے اہم قائدین کو اُس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جسے کینگرو کورٹ کا نام دیا جائے تو کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوگی۔ اس کینگرو کورٹ کو جنگی جرائم کے خلاف انٹرنیشنل ٹرائل کورٹ کا نام دیا گیا، جبکہ اس عدالت میں تینوں جج بنگلہ دیشی تھے، اور جس طرح شہادتیں پیش کی گئیں اور کئی سال تک استغاثہ ہی کے ہاتھوں ’’جنگی مجرموں‘‘ کے خلاف کارروائی ہوتی رہی اور پھانسی کی سزائیں دی گئیں، اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف حکومتِ پاکستان نے احتجاج کو درکنار، ہلکا سا بھی اعتراض کا ایک لفظ نہ بولا، بلکہ یہ کہہ کر زبان کو تالا لگا لیا کہ ’’یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔‘‘
یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ نظریۂ پاکستان کے تقدس اور عزت کا معاملہ ہے، پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اس لیے کہ ہمارا مشرقی پاکستان کا علاقہ کہ جہاں مسلم لیگ ایک جماعت کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آئی تھی، اور جہاں کے مسلمانوں نے یک زبان ہوکر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، آج ہم ان سے اس قدر بیگانہ ہوچکے ہیں کہ ہم اپنے اُن ہم وطنوں کو بھی بھلا بیٹھے ہیں جنہوں نےملک کی بقا کی جنگ لڑی، قربانیاں دیں۔
جماعت اسلامی کے بزرگ رہنمائوں کو بھارتی اشارے پر اسلام اور پاکستان سے محبت کی سزا دی جارہی ہے۔ بنگلہ دیشی عوام حسینہ واجد حکومت کی اسلام اور پاکستان دشمن پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ عبدالقادر ملا کا قصور کیا تھا؟ صرف پاکستان سے محبت۔ وہ پاکستان کی تقسیم کے مخالف تھے۔ اس محب وطن پاکستانی کا خیال تھا کہ بھارت سے سازباز کرکے پاکستان کو توڑنے کی سازش کرنے والے شیخ مجیب الرحمان کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس باہمت نوجوان نے پاکستان، نظریۂ پاکستان اور اسلام کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان سے محبت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا 65 سالہ بوڑھا شخص آج پاکستانیوں کی نظر میں اجنبی ہے، خود پاکستانی میڈیا اسے جنگی جرائم کا مرتکب سمجھ رہا ہے۔ وہ شخص جو دین و وطن کی خاطر پھانسی کے پھندے پر جھول گیا اسے مجرم قرار دیا جارہا ہے۔