بلوچستان کو اوّل روز سے گوناگوں و ہمہ پہلو مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ صوبہ وفاق اور طاقتور افسر شاہی کے ساتھ اپنوں کی نااہلی، بدعنوانیوں اور اہلِ سیاست کے فریب کا شکار بھی رہا ہے۔ صوبے کے مسائل کے حل اور حقوق کے حصول کے لیے سنجیدہ اور مبنی بر اخلاص سیاست بھی ہوئی ہے، لیکن صوبائی حقوق و خودمختاری کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ وسیع و عریض خطہ شاہراہِ ترقی پر کماحقہٗ گامزن نہ ہوسکا۔
بلوچستان ملک کے43 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کے اضلاع چاغی، خاران اور واشک کا رقبہ فاٹا کے انضمام سے قبل کے خیبر پختون خوا کے مجموعی رقبے کے برابر ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس قدر وسیع رقبے پر پھیلے صوبے کے مسائل کس قدر زیادہ ہوں گے، جہاں صرف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہری معیار کے تقاضے پوری کرتا ہے۔ اب جاکر گوادر کو اسمارٹ سٹی کا درجہ ملا ہے۔ آئندہ ماہ و سال میں گوادر کی ہیئت بدل جائے گی، جہاں ملک بھر کے سرمایہ دار چینیوں کے غول ہوں گے… تب یہ ترقی کس کا مستقبل سنوارے گی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الوقت تو بلوچستان کی گھریلو صنعت بھی معدوم ہوتی جارہی ہے، کیوں کہ چین سے روایتی ٹوپیاں، شال اور دستکاری کیے ہوئے ملبوسات بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔ غرض وقت جماعتی و گروہی تضادات سے پاک سیاسی تحرّک و تحریک کا تقاضا کرتا ہے۔ وفاق، افسر شاہی اور دوسرے بالادست مقتدر حلقوں کی دسترس سے صوبے کی سیاست، صنعت و معیشت کے اختیارات لینے ہوں گے۔ وزیراعلیٰ جام کمال کہہ چکے ہیں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبے کو ملنے والے اختیارات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے قانون سازی کا عمل جاری ہے۔ وہ یہ بھی فرما چکے ہیں کہ معدنی وسائل کی تلاش و ترقی کے منصوبوں میں صوبے کی شراکت داری اور حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی حکومت مضبوط مؤقف پر قائم ہے۔ (7دسمبر2019ء)
بلاشبہ صوبے کا مفاد مقدم ہے، اور ایک حکومت جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی ہو، اس کے لیے سب سے پہلے اپنی مکمل رٹ کا قیام ضروری ہے۔ بات یہ بھی ہے کہ ایک خودمختار اور عوامی حکومت عوام اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتی ہے، اور یہ حکومت ہدایات و احکامات لینے کے بجائے احکامات و ہدایات جاری کرتی ہے۔ یوں صوبائی خودمختاری کا خواب پورا ہوگا۔ وسائل عوام اور صوبے کی ترقی و بہبود پر خرچ ہوں گے۔
جیسا کہ کہا گیا بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، لیکن قومی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ چناں چہ قومی اسمبلی میں نشستیں بڑھانے کا مطالبہ بھی دیرینہ ہے ۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف 5دسمبر کو کوئٹہ پہنچی۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محمد جاوید عباسی خود بھی ہمراہ تھے۔ بلوچستان اسمبلی کے کانفرنس ہال میں میٹنگ منعقد کی جس میں حکومتی اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین شریک ہوئے، جنہوں نے بلوچستان کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کا مطالبہ پیش کیا اور اس ضمن دلائل اور تجاویز بھی پیش کیں۔ بلوچستان کے ارکان نے قومی اسمبلی کے لیے 37 اور صوبائی اسمبلی کے لیے 80 نشستوں کا مطالبہ کیا۔ ظاہر ہے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف اپنی تجاویز اور سفارشات آگے ایوانِ بالا میں پیش کرے گی۔ اس وقت قومی اسمبلی کے 342 رکنی ایوان میں بلوچستان کی نمائندگی16نشستوں پر مشتمل ہے۔ یہ امر بھی کمیٹی کے پیش نظر رہا کہ کوئٹہ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے۔ این اے 270 پنجگور کم واشک کم آواران 60 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد علاقے پر مشتمل قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ہے۔ مکران سرحد تک قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے۔ اب ذرا غور کیا جائے کہ اتنے وسیع حلقۂ انتخاب میں منتخب نمائندہ کس طرح دورہ کرسکے گا، اور کس طرح اتنے بڑے حلقے کی ضروریات پوری کرسکے گا۔ اس کے لیے تو شاید پورا ایک بجٹ درکار ہو۔ بلوچستان کا ایک دیرینہ مطالبہ دراصل این ایف سی ایوارڈ آبادی کے بجائے رقبے کی بنیاد پر تقسیم کا ہے۔ بلوچستان کے سامنے سینیٹ میں نمائندگی بھی پریشان کن بن جائے گی، یعنی جب پنجاب دو صوبوں میں تقسیم ہوگا تو اس سے بلوچستان کی نمائندگی متاثر ہوگی۔ رہی بات وسائل پر اختیار کی، تو اس وقت تک بلوچستان کا غالب حصہ اپنی قدرتی گیس سے محروم ہے۔ صوبے کے اندر اقتدار و اختیار کے مراکز ایک کے بجائے دو بن چکے ہیں۔ گویا یقینی طور پر صوبے کا اختیار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں سیاسی و انتخابی آزادیاں سلب ہوں گی، فکری و جمہوری شعور پس منظر میں چلا جائے گا۔ اور اگرعوام کی نمائندہ حکومتوں کی رٹ ہوگی تو سیاسی و جمہوری ماحول پروان چڑھے گا۔ ویسے اگر بلوچستان کی تقسیم ہو، یعنی دو صوبے بن جائیں تو اس طرح علاقے کی ترقی ہوگی اور انتظامی طور پر آسانیاں پیدا ہوں گی۔