پراپرٹی کے کاروبار کو قانونی شکل دی جائے

فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے مرکزی صدر سردار طاہر محمود کا انٹرویو

فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان، ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرنے والے افراد اور تنظیموں کی ایک نمائندہ فیڈریشن ہے۔ اس میں ملک کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والے لوگ شامل ہیں۔
گزشتہ دنوں رئیل اسٹیٹ بزنس انڈسٹری کی ملک گیر کاروباری شخصیت، فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے صدر سردار طاہر محمود سے فرائیڈ اسپیشل کے لیے انٹرویو کیا گیا جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے مقاصد کیا ہیں، اس کا دائرۂ کار کہاں تک ہے؟
سردار طاہر محمود: پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ یہ شعبہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان میں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم کررہا ہے۔ فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان، ملک گیر سطح کی تنظیم ہے۔ اس میں پشاور، کراچی، کوئٹہ، فیصل آباد، لاہور، فاٹا سمیت تمام بڑے شہروں میں رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرنے والے افراد اور اُن کی نمائندہ ایسوسی ایشنز بطور ممبر شامل ہیں۔ فیڈریشن ان تمام ایسوسی ایشنز کا مجموعہ ہے۔ اس تنظیم کا مقصد ملک میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو ترقی دینا اور اس انڈسٹری کے مسائل حل کرنا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت ملک میں پانچ سال کے دوران پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ پیش کررہی ہے، نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم بھی بنائی گئی ہے۔ کیا آپ کی تنظیم اس پروگرام میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے؟
سردار طاہر محمود: نہیں، ہم بطور فیڈریشن تو حکومت کے ساتھ اس پروگرام میں حصے دار نہیں ہیں، لیکن چونکہ یہ تعمیرات کے شعبے سے وابستہ کام ہے، لہٰذا ہم اس میں ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر ضرور میدان میں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اس شعبے کے بنیادی مسائل کیا ہیں، ٹیکسوں کے معاملے میں ایف بی آر کے ساتھ مذاکرات میں رئیل اسٹیٹ بزنس سے وابستہ افراد بھی شریک رہے ہیں، بنیادی مسائل بتائیے؟
سردار طاہر محمود: بنیادی مسائل تو یہ ہیں کہ حکومت ایسی شفاف پالیسی بنائے جس سے ہر پاکستانی جو اپنا گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے، پلاٹ کی خریداری سے لے کر گھر کی تعمیر تک کم سے کم ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑے۔ ہمارے ہاں تو پلاٹ کی خریداری سے لے کر گھر کی تعمیر شروع کرنے تک بہت سے مسائل ہیں، اور جگہ جگہ رکاوٹیں اور ٹیکس ہیں، این او سی کے لیے ترقیاتی ادارے بھی رکاوٹ ڈالتے ہیں، اور اب تو یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ پیسہ کہاں سے لائے ہو۔ حالیہ ٹیکسوں اور سوالات نے رئیل اسٹیٹ کے بزنس کی رفتار کم کردی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ چاہتے ہیں کہ پوچھا نہ جائے؟
سردار طاہر محمود: نہیں، ہم یہ نہیں چاہتے۔ ٹیکس بھی ہونے چاہئیں، سوالات بھی ہونے چاہئیں، لیکن صارف کو اس حوالے سے آسانی بھی میسر آنی چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ بطور فیڈریشن کیا چاہتے ہیں؟
سردار طاہر محمود: ہم بطور فیڈریشن اس بزنس سے متعلق مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں، مگر حکومتی پالیسی اور قانون سازی کے لیے رئیل اسٹیٹ کی مناسب نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا حکومتی سطح پر ہم نے رابطے اور مشاورت کے عمل کے ذریعے مسائل کا قانونی حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اور حکومت جو بھی پالیسی ہماری مشاورت کے ساتھ بنائے گی وہی قابل عمل ہوگی اور حکومت کے محاصل بھی بڑھ جائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پراپرٹی کے بزنس کو ایک قانونی شکل دی جانی چاہیے تاکہ اس کی خریدو فروخت بھی ریگولر ہو جیسا کہ یورپ میں ہے، جہاں کوئی بھی جائداد رئیلٹرز کے بغیر خریدو فروخت نہیں کی جاسکتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ کے بزنس کے لیے یونیورسٹی کی سطح اور مقامی سطح پر ایسوسی ایشنز کی مدد کے ساتھ ڈپلومہ کورسز کا آغاز ہونا چاہیے، اور اس کے لائسنس کے اجراء کے لیے تعلیمی معیار ہونا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مستحق افراد کے لیے ویلفیئر فنڈ قائم کیا جائے جس کے ذریعے ہم اپنے شعبے سے وابستہ افراد کے بچوں کے لیے تعلیمی وظائف بھی شروع کریں گے، اور جس کے پاس بھی رئیل اسٹیٹ بزنس کے لیے لائسنس ہوگا اُسے رئیلٹرز کے شعبے میں کنسلٹنٹ کے حقوق دلائیں گے۔ ملک بھر میں اس وقت پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ تمام کے تمام افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تاکہ اس انڈسٹری کو درپیش مسائل کے حل کی عملی کوشش کامیاب طریقے سے کی جائے اور مثبت نتائج بھی حاصل کیے جائیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ تعمیرات ایسا شعبہ ہے کہ جب یہاں حرکت ہوتی ہے تو اس سے جڑی ہوئی ساٹھ دیگر صنعتیں بھی حرکت میں آجاتی ہیں، لیبر کے لیے روزگار نکل آتا ہے، اینٹ بھٹہ کے مالکان کے لیے بزنس کے در کھل جاتے ہیں، ریت، بجری سیمنٹ، سریا اور پھر گھر کی تعمیر کے بعد سینیٹری ورک، بجلی، پینٹ… غرض تقریباً ساٹھ صنعتیں ہیں جن میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت حال کسی دوسرے شعبے میں نہیں ہے۔ ہم جائداد کی خرید و فروخت میں مدد فراہم کرتے ہیں، کلائنٹ مہیا کرتے ہیں، فروخت کنندہ اور خریدار کے مابین ایک پل، بلکہ بااعتماد پل کا کردار ہمارا ہی ہوتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ملک میں ٹیکس کلچر کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے، ایک رائے یہ ہے کہ ٹیکس تو ہر شخص دینا چاہتا ہے لیکن جائز ٹیکس لینے کے لیے کوئی بھی حکومت عملی طور پر کوئی میکنزم نہیں بنا سکی۔ آپ کی رائے کیا ہے؟
سردار طاہر محمود: آپ کی بات سے اتفاق ہے، ٹیکس دیے بغیر کوئی ملک اور ریاست ترقی نہیں کرسکتی، اس پر ہم بھی متفق ہیں اور چاہتے ہیں کہ ٹیکس دیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنا اور کیسے دیا جائے؟ شرح کیا ہونی چاہیے؟ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر برسوں سے بحث ہورہی ہے اور مستقبل میں بھی یہ بحث جاری رہے گی۔ ایف بی آر نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے کاروباری اداروں پر چھاپے مار کر موجودہ ٹیکس دہندگان کو ہی نچوڑنے کی کوشش کرتا رہتا ہے جس سے تاجر برادری میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے اور حکومتی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے اب یقین دہانی کرائی ہے کہ چھاپے نہیں مارے جائیں گے دیکھیں، ٹیکس دہندگان کے خلاف تفتیش کا ایک طریقہ کار قانون میں موجود ہے اس پر عمل ہونا چاہیے، لیکن اس کے باوجود کاروباری اداروں پر چھاپہ مارنا، ریکارڈ قبضے میں لے لینا، ملازمین کو گرفتار کرنا، کیش ضبط کرنا مناسب اقدام نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے ٹیکس دہندگان کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اگر ایف بی آر کو کسی تاجر یا صنعت کار کے خلاف ٹیکس سے متعلق کوئی شکایت ہے تو پہلے ایسوسی ایشن اور متعلقہ مارکیٹ کی یونین کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ مشترکہ کوششوں سے ٹیکس شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ بڑے عملے کے ساتھ اچانک کاروباری اداروں پر چھاپے مارنا اور کاروباری اداروں کو سیل کرنا ایسے اقدامات ہیں جن سے ٹیکس دہندگان کی توہین ہوتی ہے، جبکہ ٹیکس دہندگان کا یہ حق بنتا ہے کہ ٹیکس محکمہ ان کو عزت دے۔ تاجر برادری کبھی بھی ٹیکس ادائیگی کے خلاف نہیں ہے، وہ چاہتی ہے کہ ایف بی آر دوستانہ انداز میں ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کی کوشش کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے بجائے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے اس شعبے کی سرپرستی کرے۔ ہم ملک میں ٹیکس نیٹ کے حامی ہیں، لیکن حکومت ٹیکس کے نفاذ سے قبل مارکیٹ کی اصل صورت حال کو بھی مدنظر رکھے۔ یہ نجی شعبہ نوجوانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بنا ہوا ہے، اس لیے اس شعبے پر جی ایس ٹی جیسا ٹیکس نافذ کرنے کے بجائے ریلیف دیا جائے۔ ریلیف نہ ملا تو اس شعبے سے وابستہ نوجوان بے روزگار ہوجائیں گے۔ اس وقت بلاشبہ رئیل اسٹیٹ ایک صنعت کا درجہ رکھتی ہے، حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ سے قبل ہم سے مشاورت کرے۔ عوام اس وقت معاشی ریلیف چاہتے ہیں، رئیل اسٹیٹ سے وابستہ لوگ بھی معاشی صورت حال کے بارے میں متفکر ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ملکی معیشت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس شعبے کی سرپرستی ہونی چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے کہا کہ اس بزنس سے ملک بھر میں مجموعی طور پر چھوٹے بڑے سیٹ اپ کے ساتھ لاکھوں افراد وابستہ ہیں، اس میں نوجوان کتنے ہیں؟ اور کیا اس بزنس کی جانب رغبت بڑھ رہی ہے اور یہ بزنس کس قدر پُرکشش ہے؟
سردار طاہر محمود: ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ روزگار سے لاکھوں نوجوان وابستہ ہیں اور حکومت نے اتفاق سے اعلان کررکھا ہے کہ وہ نوجوانوں کے لیے ایک کروڑ نوکریوں کا بندوبست کرے گی۔ آپ دیکھیں پورے ملک میں ایک ہمارا ہی شعبہ ہے جو کروڑوں نوکریاں دے سکتا ہے، یہ شعبہ نوجوانوں کو کھپا بھی چکا ہے، اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے ہوئے ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے کو ترقی دے تاکہ اس شعبے میں کام کرنے والے نوجوان اطمینان محسوس کریں اور ملکی ترقی کے لیے حکومت کے ویژن کو آگے بڑھائیں۔ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ملکی کی معیشت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پراپرٹی کے شعبے میں ٹیکس کے نفاذ کے حوالے سے قومی سطح پر یک جان ہوکر آواز اٹھائی جائے گی اور اس شعبے کو بہتر سے بہتر بنایا جائے گا۔ بہت جلد اچھی خبریں ملیں گی۔ ہم رئیل اسٹیٹ کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور بھرپور کوشش کرکے مسائل حل کیے جائیں گے۔ ہم چاہتے تھے کہ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں ایسی قیادت آئے جو مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس شعبے کو قومی سطح پر اجاگر کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے بجائے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے اس شعبے کی سرپرستی کرے۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت تو ہر چیز پر جہاں وہ سمجھتی ہے ٹیکس لگانا چاہتی ہے۔ یہ بتائیے کہ آپ کی نظر میں ملک میں ٹیکس کلچر کیسا ہونا چاہیے؟
سردار طاہر محمود: ہماری نظر میں ٹیکس عدل کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے، حکومت کو بھی فائدہ پہنچے اور ٹیکس دینے والا بھی پریشان نہ ہو اور اسے بوجھ نہ سمجھے۔ ٹیکس بوجھ بنے گا تو کسی کا بھی بھلا نہیں ہوگا۔ تنخواہ دار طبقے پر، اور اسی طرح مختلف اشیاء پر عائد کیے گئے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی جی ایس ٹی کی صورت میں تو لازمی اور جبری وصولی ہوجاتی ہے، حکومتوں نے بھی جبری ٹیکس وصولی کے نظام کو ہی ٹیکسوں کی وصولی کا مجرب نسخہ سمجھ لیا ہے۔ اگر حکومت مختلف طبقات کے ذرائع آمدن و وسائل کی مکمل جانچ پڑتال کرکے ٹیکس نیٹ کا دائرہ متعین کرے اور پھر ٹیکس نیٹ میں آنے والے ہر فرد اور ہر ادارے سے واجب الادا ٹیکس کی وصولی یقینی بنائے تو اسے بجٹ میں متعینہ اہداف پورے کرنے کے لیے آئے روز ضمنی میزانیے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ حکومت نے جولائی 2016ء سے ڈبل ٹیکسیشن کا نظام نافذ کیا ہوا ہے، ایک طرف ٹیکس ریشو ڈبل کردیا اور ساتھ ہی قیمت کے تعین میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ فلاحی ریاست میں تو شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، اگر حکومت ٹیکسوں کی وصولی کا نظام مربوط بنانے کے لیے باوسیلہ طبقات کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ میں لا کر اُن سے ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنالے تو ریاست مدینہ کے تصور کو عملی قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ عام آدمی معیشت کی باریکیوں کو نہیں سمجھتا، اسے سب سے پہلے اپنی روٹی روزی، پھر اپنی اور خاندان کی صحت اور تعلیم کی فکر ہوتی ہے جو حکومتی کارکردگی سے بے چینی اور تشویش میں بدل رہی ہے۔ حکومت کو اب تمام خرابیوں کا ذمہ دار پیشروئوں کو قرار دینے کی روایت اور رویّے پر مٹی ڈالنی چاہیے۔ جو خرابیوں کے ذمہ دار تھے اُن کو عوام نے مسترد کرکے آپ پر اعتبار کیا۔ آپ اچھے کا کریڈٹ لیتے ہیں تو مسائل اور بحرانوں کی ذمہ داری بھی کھلے دل سے قبول کرنے کا حوصلہ دکھائیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ملک کے ٹیکس نظام سے متعلق اپنی رائے دیں اور تجویز بھی پیش کریں۔
سردار طاہر محمود: ٹیکس دو طرح کا ہوتا ہے۔ پہلی قسم تو ڈائریکٹ ٹیکس ہے جس میں آپ کسی شہری یا کاروباری ادارے سے اُس کی ذاتی آمدنی کے حساب سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ یہ ایک جائز اور قانونی طریقہ ہے۔ لیکن اس ٹیکس کے زمرے میں عام طور پر خوشحال، طاقتور اور مراعات یافتہ طبقے آتے ہیں، وہ ٹیکس حکام پر اثرانداز ہوجاتے ہیں، جس کی بہت سی شکلیں ہوتی ہیں۔ دوسری قسم بالواسطہ ٹیکس کی ہے جو کہ ٹیکس کی ظالمانہ ترین شکل ہے۔ یہ ٹیکس امیروں کے بجائے غریبوں پر لاگو ہوجاتا ہے جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ ٹیکس ریونیو میں ڈائریکٹ ٹیکس مجموعی ٹیکس کا 20 فیصد ہے، جبکہ باقی 80 فیصد غریب عوام کا خون نچوڑ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ ہمارا ٹیکس جمع کرنے کا نظام انتہائی پیچیدہ اور فرسودہ ہے جس میں ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ٹیکس چوری اور رشوت ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ اگر ہم اپنے ٹیکس قوانین کے تناظر میں دیکھیں تو صورت حال واضح نظر آنے لگتی ہے۔ اِن ڈائریکٹ ٹیکس اُس وقت لگایا جاتا ہے جب آپ اصل ٹیکس دہندگان سے مطلوبہ وصولی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ مگر ناکہ لگا کر ہر گزرنے والے راہ گیر کی جیب سے جتنے پیسے ہیں وہ گن پوائنٹ پر چھین لیے جائیں، یہ کہیں بھی درست طریقہ نہیں سمجھا جاتا۔ بس یہی ہمارا ٹیکس نظام ہے، یہی ہماری ٹیکس پالیسی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم ٹیکس ریونیو کو 4000 ارب سے 8000 ارب یعنی دوگنا کردیں گے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس قوانین میں اصلاحات لائی جائیں اور انہیں آسان بنایا جائے۔ پاکستان میں اس وقت 45 سے زیادہ قسم کے ٹیکس ہیں جو عوام کو دینا پڑتے ہیں، اس میں خیرات، زکوٰۃ اور صدقات شامل نہیں ہیں، مگر اس کے باوجود ٹیکس ملکی خزانے میں جانے کے بجائے ٹیکس چوروں اور ٹیکس اہلکاروں کی جیبوں میں جارہا ہے۔ پاکستان میں رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد 18لاکھ ہے جو مجموعی آبادی کا 1.4فیصد ہے جنہیں ٹیکس فائلر کہا جاتا ہے۔ فائلرز کی تعداد میں یعنی Tax Base میں اضافہ کرنے کے بجائے انہی ٹیکس دہندگان کو تنگ کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملکی خزانے کو فائلر کے بجائے نان فائلر کی جانب سے اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں زیادہ وصولی ہوتی ہے۔