آرٹس کونسل کراچی کے زیراہتمام بارہویں عالمی اردو کانفرنس

علم، ادب، شاعری،کتاب اور زبان جیسے عنوانات سے ہمارا رشتہ کمزور سے کمزور ہوتا جارہا ہے جس کے بہانے میں ایک وجہ ڈیجیٹل انقلاب بھی ہے، اور شاید اس کے ساتھ ہماری مصروفیات میں بے پناہ اضافہ، کمرشلائزیشن، مادیت، تیز رفتار طرزِ زندگی اور معیاری ادب کا تخلیق نہ ہونا بھی شامل ہیں۔ لیکن پاکستان کے شہر کراچی میں ہر سال ’’عالمی اردو کانفرنس‘‘کے نام سے ایک چراغ جل رہا ہے جس میں دنیا کے کئی ممالک سے اردو ادب سے وابستہ اہم شخصیات شریک ہوتی ہیں، گو کہ ان میں سوائے ایک یا دو کے زیادہ تر پاکستانی ہی ہوتے ہیں، جو پلٹ کر کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے آتے ہیں۔ اس اہم کانفرنس میں جہاں موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے وہاں کئی کتب کی رونمائی بھی ہوتی ہے۔اور یہی سب کچھ امسال بارہویں عالمی اردو کانفرنس میں بھی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام ہوا۔ ویسے تو شہر کراچی میں اس طرح کی تقریبات کے لیے پیاس موجود ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی جارہی ہے، لیکن گزشتہ ہونے والی دیگر کانفرنسوں کے مقابلے میں 12 ویں اردو کانفرنس میں سب سے زیادہ سیشنز کا انعقاد کیا گیا، جس میں سلیم احمد اور حسن عسکری جیسے نقاد و ادیبوں کے سیشن کی کمی بھی محسوس ہوئی، لیکن پھر بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ اپنی نوعیت کی شہر کراچی میں بھرپور اور منفرد کانفرنس تھی۔ کانفرنس میں زبردست گہما گہمی تھی۔ اس مرتبہ سنجیدہ نوعیت اور صبح کے اوقات میں منعقد ہونے والے سیشن میں لوگوں کی دلچسپی نظر آئی۔ مداح اپنے پسندیدہ ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ سیلفیاں بھی بناتے رہے۔ آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ مہمانوں کو خوش آمدید کہتے نظر آئے۔ جنرل سیکریٹری اعجاز فاروقی اور دیگر عہدیدار بھی اس موقع پر موجود رہے۔ احمد شاہ کے مطابق کانفرنس میں دنیا بھر سے تقریباً دوسو محقق، ادیب، نقاد اور شاعروں نے شرکت کی۔

عالمی اردو کانفرنس کا پہلا روز:۔

پہلے روز 12ویں عالمی اردو کانفرنس میں غالب کی 150سالہ برسی کی مناسبت سے خصوصی اجلاس بعنوان ’غالب ہمہ رنگ شاعر‘ منعقد ہوا، جس میں غالب کا کلام بہ زبانِ ضیاء محی الدین پیش کیا گیا۔ ناصرہ زبیری نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے، اس اجلاس کی صدارت بھارت سے آئے ہوئے نامور ادیب شمیم حنفی نے کی اور ڈاکٹر نعمان الحق، تحسین فراقی اور ہیرو کتاؤ جی نے مقالے پیش کیے۔ ڈاکٹر نعمان الحق نے’’یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں‘‘، جبکہ تحسین فراقی نے ’’حیات اور تصورِ حیات‘‘ کے عنوان سے مقالے پیش کیے۔ بھارت سے آئے ہوئے شمیم حنفی نے کہا کہ ’’غالب ایسے شاعر تھے جنہیں عالمی سطح پر قبول کیا گیا، اُن کے پائے کا کوئی شاعر نہیں“۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے غالب پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر غالب نہ ہوتے تو ہم 19ویں صدی کی دستاویز سے محروم ہوجاتے۔ نسلی اعتبار سے غالب کا تعلق ایبک سے تھا۔ غالب کا انسان کے ساتھ تعلق اٹوٹ ہے۔ انہیں انسانی تصورات سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر نعمان الحق نے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غالب ایک عظیم شاعر تھے۔ ان کی طرح کا کوئی اور شاعر نہیں۔ عظیم شاعر نے زمین اور آسمان کے حوالے سے کمال کے نکاتِ علمی بیان کیے ہیں۔
پہلے روز کے دوسرے اجلاس میں جون ایلیا کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی جس کی نظامت انیق احمد نے کی۔ جبکہ سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جون ایلیا کو ہر اُس جگہ اچھی طرح پڑھا اور سمجھا جاتا ہے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ جون ایلیا نے تراجم کے ذریعے بھی نام پیدا کیا۔ جون ایلیا متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے، انہوں نے گفتگو کو شاعری بنادیا۔ ان کا رویہ طنز، انکار اور اذیت ظاہر کرتا ہے۔

عالمی اردو کانفرنس کا دوسرا روز:۔

دوسرے روز کا آغاز ”شعر و سخن کا عصری تناظر“ کے عنوان سے سیشن سے ہوا جس میں مبصرین اور محققین نے جدید نظم، غزل اور شعری تناظر کے حوالے سے اندیشے اور امکانات اور اردو شاعری اور پاکستان میں ہونے والی گفتگو پر مقالات پڑھے۔ اجلاس کی صدارت معروف ادباء و شعراء امجد اسلام امجد، افتخار عارف، کشور ناہید، امداد حسینی، عذرا عباس، منظر ایوبی اور افضال احمد سید نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیے۔ دوسرا سیشن نماز جمعہ کے وقفے کے بعد ہوا جو ”عصرِ حاضر میں نعتیہ اور رثائی ادب پر ایک جائزہ“ کے عنوان سے تھا، اس کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف، مشہور نقاد و محقق تحسین فراقی اور ہلال نقوی نے کی۔ اس سیشن میں ’’شعروسخن کا عصری تناظر‘‘ کے موضوع پر اہلِ علم و دانش نے مختلف عنوانات پر اپنے اپنے مقالے پیش کیے۔ مبین مرزا نے ’’جدید شعری تناظر، اندیشے اور امکانات‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک سوال ہم سب کے لیے بہت اہم ہے، اور سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل قریب میں شاعری ختم ہوجائے گی؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب دینا اتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ یہ سوال ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے۔ مگر بعض سنجیدہ اذہان اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس سوال کا اطمینان بخش جواب کیا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمانے کے بدلتے رنگ اور انسانی صورت حال کے پیچیدہ رویوں سے یہ سوال تعلق رکھتا ہے اور انسانی حالات سے اس سوال کا تعلق ہے۔ شاعری بے شک اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے مگر امرِ واقع یہ ہے کہ فرد کے نظام کا طریقہ کار اس سے وضع ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تغیرات کا عمل حقیقت ہے، مگر بڑی تبدیلی کو تبدیلی کا روزمرہ نہیں کہا جاسکتا، اس طرح کی آہٹ کو پہلے سے جانچنا ضروری ہے۔ یورپ میں ادب کی صورت حال پر کافی گفتگو ہوئی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری حقائق کے ساتھ اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ مبین مرزا کا کہنا تھا کہ ہم اہلِ اُردو ہنوز دِلّی دُور است کا مزاج رکھتے ہیں۔ شاعری سماجی رویوں پر اثرانداز ہوتی ہے، اگر شعر وسخن پر بات کرنی پڑے تو ہمیں اس معاملے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے، کیونکہ بے تحاشہ ترقی نے وہ گَرد اُڑائی ہے کہ انسانی افتخار کا کوئی شعور ہی باقی نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ مشاعرے تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے آئے ہیں، سب سے پہلے شعر سننے اور سنانے کے قاعدے سیکھے جاتے ہیں، آج مشاعرے کا تفریح گاہ بن جانا شعرو سخن کی موت ہے، میڈیا نے بھی اس میں بڑا کردار ادا کیا ہے، مشاعروں کے نام پر شعر گوئی تماشا گوئی ہوکر رہ گئی ہے- اس عہد کا انسان جن حالات میں رہ رہا ہے وہ اس کی سوچ اور رویوں کو بدل رہے ہیں اور ردِعمل کے شعور کو بھی ختم کررہے ہیں۔ کوئی بھی تخلیق کار تخلیق کے موقع پر تو تنہائی پسند کرسکتا ہے مگر اپنے فن کو دوسرے تک پہنچانے کے لیے اُسے دوسروں میں آنا ہی پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوہرِ انسانیت نہ ہو تو انسان اور روبوٹ میں کس طرح فرق محسوس کیا جاسکتا ہے! پہلے انسان کی تباہی کا سبب جنگیں ہوا کرتی تھیں، مگر اب انسان اپنے ہی بنائے ہوئے دلچسپ کھلونوں کے ہاتھوں تباہ ہورہا ہے۔ شاعری لمسِ حیات کے طور پر انسان کو ودیعت کی گئی ہے، شعرو سخن کی بقاء کی جنگ انسان دشمن قوتیں کبھی نہیں جیت سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ شاعری کے خاتمے کا مطلب انسانیت کا خاتمہ ہوگا۔ لہٰذا یہ جنگ تب تک جاری رہنی چاہیے جب تک ایک شخص بھی اس زمین پر انسانیت کا نام لینے والا ہے۔

آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں
مجھ کو میری دانشِ افکار میں دیکھیں

کی خالق ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ’’جدید غزل میں نسائیت کی معنوی جہات‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزل روایتی صنفِ سخن ہے، خواتین نے جب اپنے پورے وجود کے ساتھ لکھنا شروع کیا تو وہی جدید غزل کا دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشور ناہید نے نظم اور نثر دونوں میں تہلکہ مچایا، جبکہ فہمیدہ ریاض نے غزلیں کم لکھیں مگر اُن کی نظموں کی تعداد زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروین شاکر کے حصے میں غیر معمولی شہرت آئی۔
شاداب احسانی نے ’’اُردو شاعری اور پاکستانی بیانیہ‘‘پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ جس قوم کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ اس کا تاریک ترین پہلو ہوتا ہے۔ پاکستان کی بقا پاکستانی بیانیے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصناف ثقافت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، شاعری انسان کا اوّلین اظہار ہے، قبلِ مسیح کا ادب ہو یا اس کے بعد کا ادب۔۔۔ سماج شاعری ہی سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ ادب اور شعر کی بات میں زندگی سے جڑا اظہار ہی ادب کہلاتا ہے۔ شاعری معاشرے کی ترجمان ہوتی ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اُردو خطے کی مرکزی زبان ہے جسے تمام لوگ اظہارِ کا وسیلہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی بیانیے کی بات تو کرتے ہیں مگر اندر سے مغرب کے بیانیے کے معترف ہیں۔
یاسمین حمید نے ’’جدید نظم میں طرزِ احساس کی تبدیلیاں‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جدیدیت کا لفظ نظم اور غزل کے لیے بارہا استعمال ہوا ہے، اور یہ وہ وقت تھا جب 1939ء کے جدیدیت پسند حلقے نے اسے استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمومی سطح پر جدیدیت پسندی تخلیق پر حاوی ہوتی گئی، اُردو میں آزاد نظم کی پہلی اشاعت 1932ء میں ہوئی۔ نظم کے اظہار میں پھیلائوہے،نظمیں عموماً ایک جگہ پر جامد اور ساکت رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پسند کا راستہ بھی اجتماعی فکرو عمل کا راستہ تھا۔ طرزِ احساس ایک ردِعمل ہے، انسان کی زندگی اور خود انسان جتنا سادہ ہوگا یہ ردِعمل بھی اُتنا ہی سادہ ہوگا۔ تنویر انجم نے ’’اُردو نثری نظم اور مابعد جدید صورتِ حال‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بے ترتیبی کو ترتیب میں لانا ہے، مغرب نے اسی مقصد کو پانے کے لیے اور اسی مقصد کو جواز بناکر دنیا کے بیشتر ملکوں کے معاملات میں حصہ لیا تاکہ وہاں پھیلی ہوئی بے ترتیبی کو ترتیب میں لاسکے۔ سماجی عمل کے ذریعے ترتیب اور بے ترتیبی پیدا کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طاقت کی تقسیم سماجی عمل ہے، نہ کہ ابدی حقیقت۔ انہوں نے کہا کہ جدید اُردو غزل میں جدید نظم کا بھی استعمال ہوا ہے۔
رخسانہ صبا نے ’’طویل نظم کی روایت اکیسویں صدی میں‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طویل نظم نہیں بلکہ مختلف نظموں کا مجموعہ ہوتی ہے، دنیا کی عظیم شاعری طویل نظموں کی ہی صورت میں موجود ہے، بیسویں صدی میں اردو میں طویل نظموں کی ایک بڑی فہرست ہمارے سامنے آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طویل اور مختصر نظم میں وہی فرق ہے جو ایک افسانے اور ناول میں ہے۔ طویل نظم ناقدانہ مزاج رکھتی ہے جبکہ مختصر نظم عاجزانہ مزاج رکھتی ہے۔ طویل نظم کی روایت اکیسویں صدی میں آگے بڑھی ہے، طویل نظم اپنے عہد سے جڑی ہوئی ہے مگر آزاد نظم کا تناسب زیادہ ہے۔ منظوم ڈرامہ گزشتہ صدی کی طرح اِس صدی میں بھی نظر انداز ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طویل نظم عجلت پسند نہیں ہے بلکہ قاری کو مثبت سوچ فراہم کرتی ہے۔
تیسرے سیشن میں کتابوں کی رونمائی ہوئی، نظامت کے فرائض ڈاکٹر اوج کمال نے ادا کیے۔ اس سیشن میں اردو زبان کے مشہور محقق اور ماہر لسانیات رشید حسن خان مرحوم کی کتاب ”گنجینہ معنی کا طلسم“ پر مبین مرزا نے تبصرہ پیش کیا۔ اس موقع پر تحسین فراقی بھی تشریف فرما تھے جنہوں نے اس کتاب کو پاکستان سے شائع کیا۔اسی سیشن میں شاعر صابر ظفر کی کتاب ”آواز کی لہر“، اصغر ندیم سید کے ناول ”ٹوٹی ہوئی طناب ادھر“، اور فاطمہ حسن کی کتاب ”فاصلوں سے ماورا“ پر بھی تبصرہ کیا گیا۔ ایک سیشن میں ”اردو کی نئی بستیاں“ کے عنوان سے دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین نے اپنے مقالے پڑھے اور گفتگو کی۔ آج کے مشہور اور بہت مقبول شاعر انور مسعود کے ساتھ سیشن ہمیشہ کی طرح یادگار رہا۔ انہوں نے اپنی شیریں بیانی اور مزاحیہ شاعری سے لوگوں کے دل جیت لیے۔ انہیں سننے کے لیے شہریوں کی بڑی تعداد آرٹس کونسل میں موجود تھی۔ اسی طرح فیض احمد فیض اور ضیاء محی الدین کی زندگی اور کارہائے نمایاں پر دستاویزی فلم ”کوئی عاشق کسی محبوب سے“ پیش کی گئی۔

عالمی اردو کانفرنس کاتیسرا روز:۔

تیسرے روز کا آغاز بھی گزشتہ روز کی طرح اردو نثر سے ہوا جس کا عنوان ”اردو فکشن: معاصر منظرنامہ تھا‘‘ جہاں مقالات پیش کیے گئے اور طویل سیشن میں افسانہ اور ناول پر پڑنے والے عالمی سیاسی اثرات کا بھی ذکر کیا گیا۔ سیشن کی مجلسِ صدارت اسد محمد خاں، حسن منظر اور مسعود اشعر پر مشتمل تھی۔ اس موقع پر برطانیہ سے آئی ہوئی نجمہ عثمان نے’’اُردو فکشن انگریزی فکشن کے تناظر میں‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ افسانے نے کئی منازل طے کیں، پہلا افسانہ ہندوستان میں منشی پریم چند نے لکھا تھا، تقسیم سے پہلے جو افسانے لکھے گئے اُس زمانے میں راشد الخیری نے پہلا افسانہ لکھا جو اصلاحی اور سماجی نوعیت کا تھا، اسی دوران ’’عصمت‘‘ کی ایڈیٹر آمنہ نے بھی افسانے لکھے، منشی پریم چند کے بعد جدیدیت کا دور آیا، مگر یہ دور زیادہ نہیں چل سکا، پھر اس کے بعد افسانے نے ایک نئی راہ اختیار کی جس میں جمالیاتی تصور بھی افسانے میں شامل ہونے لگا۔ قرۃالعین حیدر نے مشرق اور مغرب کا بہت خوبصورت امتزاج پیش کرکے کئی افسانے تحریر کیے، اس کے بعد عصمت چغتائی آئیں اور پھر راجندر سنگھ بیدی۔۔۔ یہ سب اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے ہی لکھتے رہے۔
مختصر عرصے میں اردو ادب میں اپنی پہچان بنانے والے عرفان جاوید نے ’’فکشن کیوں پڑھا جائے؟‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ روسی دانشور انتون چیخوف سے کسی نے پوچھا کہ تم کہانی کیوں لکھتے ہو، ناول کیوں نہیں لکھتے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنی چھوٹی سی زندگی میں وہ سب کہانیاں سنا دینا چاہتا ہوں جو میں سنانا چاہتا ہوں۔ چیخوف 44 سال کی عمر میں ہی انتقال کرگیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ کئی زندگیاں جی لے تو اُسے چاہیے کہ فکشن پڑھے۔ فکشن کا ادیب ایک دنیا تخلیق کرکے قاری کو دعوت دیتا ہے، فکشن کے مطالعے سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں۔
افسانہ نگار اور صحافی اخلاق احمد نے ’’جدید افسانے میں عصری حسیت‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادب اپنے سماج کا آئینہ نہیں ہوگا تو ادب ہی کیوں کہلائے گا! ہمارا زمانہ کہنے کو تو ایک ہے، مگر دراصل یہ دو زمانے ہیں، لکھنے والوں کے دو متوازن زمانے ہیں، ایک اُن کے لیے جو آزاد معاشرے میں لکھتے ہیں، اور ایک ہمارے لیے کہ جہاں سانس لینا بھی مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی کے تقریباً 28 سال صحافت میں گزارے ہیں مگر یہ بات میں بہت ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ جیسی خاموش سنسر شپ آج ہے ایسی ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ قدغن لگانے والے سارا کام کررہے ہیں اور سامنے کوئی بھی نہیں ہے۔
لاہور سے آئے ہوئے خالد محمود سنجرانی نے ’’جدید افسانہ اور سماجی معنویت‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کلاسیکی کہانیاں ڈھول پر تھاپ جیسی ہیں، جو فرق ڈھول اور ڈرم میں ہے وہی فرق کہانی کی کلاسیکی اور جدید صورت میں سامنے آیا ہے۔ کہانی ایک آزاد پنچھی ہے جس کی آنکھوں میں جھیلیں ہوتی ہیں، شہروں کی فصیلیں اس کے سینے پر، دریا اس کی لہر میں اور وسیع میدان اس کے پَروں میں۔۔۔ مگر ظلم یہ ہوا کہ اس پنچھی کو جدیدیت کے پنجرے میں ڈال دیا گیا۔
اسلام آباد سے تشریف لائے اختر رضا سلیمی نے ’’اردو میں ناول کی کمی: ایک بحث‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ کوشش کررہا ہوں کہ شائع ہونے والے ناولوں کی فہرست مرتب کروں، 1869ء سے آج تک انگریزی کے ناول کی عمر 150 سال ہوچکی ہے جبکہ اُردو ناول کی عمر اس سے آدھی ہے، انگریزی ہر جگہ بولی جاتی ہے، اردو دنیا کی 5 بڑی زبانوں میں سے ایک ہے مگر ہم اس کو اپنے ہی ملک میں قومی زبان نہیں بنا سکے، اردو اپنے ہی ملک میں دربدر ہے۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ’’اردو افسانے، 9/11 کے تہذیبی و سیاسی اثرات‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کا خیال آتے ہی جو الفاظ ذہن میں آتے ہیں ان میں دہشت گردی، تشدد اور عدم برداشت شامل ہیں، مگر اب یہ سادہ الفاظ نہیں رہے، بلکہ اصطلاحات بن چکے ہیں، دہشت گردی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی تعریف متعین نہیں کی جاسکتی۔
جاپان کے شہر ٹوکیو سے تعلق رکھنے والے ٹوکیو یونیورسٹی کے سویامانے یاسر نے ’’جاپان میں اردو افسانے کا مطالعہ‘‘ پر اپنے مخصوص اور دل نشین انداز میں اردو زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرانے جاپان میں ’’عالم‘‘ کا مطلب بدھ مت کا پیر ہوا کرتا تھا، پہلی جنگ عظیم کے بعد ہم عصر برصغیر کا مطالعہ شروع ہوا، ٹوکیو اور اوساکا میں اسکول آف فارن اسٹڈیز قائم ہوئے اور وہاں شعبہ ہندوستانی بنایا گیا، دوسری جنگ عظیم سے پہلے ’’ادارہ دنیائے اسلام‘‘ قائم ہوا، اس ادارے سے ’’باغ و بہار‘‘ کا ترجمہ شائع ہوچکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جدید ادب کا مطالعہ شروع ہوا۔ انہوں نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ جاپان میں اب تک 200 سے زائد اردو افسانوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ سویامانے یاسر کے ساتھ علم و ادب سے تعلق رکھنے والوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد سیلفیاں بھی بناتی نظر آئی۔ دوسرے سیش میں ”پاکستانی ثقافت: تخلیقی و تنقیدی جائزہ“ پیش کیا گیا۔ اس سیشن کی صدارت جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر سید جعفر احمد نے کی، جبکہ شرکا میں چاروں صوبوں کے دانشور شامل تھے۔ سیشن میں شاعر سرور بارہ بنکوی کی کلیات کا بھی اجرا کیا گیا۔ افتخار عارف نے مرحوم شاعر کی شخصیت اور فن پر گفتگو کی، جبکہ افسانہ نگار آصف فرخی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز پنجابی ادب، جدید سندھی ادب اور جاپان اور پاکستان کے ادبی، ثقافتی روابط کے علاوہ نعیم بخاری کے ساتھ بھی ایک سیشن رکھا گیا تھا۔ یورپین لٹریری سرکل ایوارڈ اور امرجلیل کے ساتھ سیشن میں نورالہدیٰ شاہ اور ایوب شیخ نے میزبانی کی۔ کتابوں کی رونمائی کے سیشن میں قاسم بگھیو کی کتاب ”لسانیات تا سماجی لسانیات“ کی رونمائی کی گئی، جس پر جامعہ کراچی شعبہ اردو کے ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے لسانیات کے حوالے سے گفتگو کی۔ فراست رضوی کی کتاب ”سلام فلسطین“ پر ایس ایم طٰہٰ اور ”دوزخ نامہ“ پر معروف صحافی غازی صلاح الدین نے تبصرہ پیش کیا۔ میڈیا کی صورت حال پر خصوصی سیشن بھی تھا جس میں سینئر صحافیوں نے شرکت کی اور اپنے تجربات اور خدشات سے آگاہ کیا۔ سیشن میں وسعت اللہ خان، مظہر عباس، اویس توحید، عاصمہ شیرازی اور عامر ضیا نے گفتگو کی۔ عالمی مشاعرے کے ساتھ تیسرا روز مکمل ہوا جس کو سننے کے لیے شہریوں کی بڑی تعداد آرٹس کونسل میں موجود تھی، اور امجد اسلام امجد، پیرزادہ قاسم، انور شعور، صابر ظفر، یاسمین حمید، اشفاق حسین، ایوب خاور، ناصر کاظمی کے صاحبزادے باصر کاظمی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور عباس تابش سمیت مشہور شعرا اس محفل کا حصہ تھے۔ بھارت سے شرکت کے لیے رنجیت سنگھ چوہان اس بار بھی آئے اور اپنی شاعری سے لطف اندوز کرتے رہے۔

عالمی اردو کانفرنس کا چوتھا اور آخری روز:۔

چوتھے روز پہلے اجلاس کا عنوان ’’معاصر اور تنقید‘‘ تھا۔ مجلسِ صدارت میں شمیم حنفی اور تحسین فراقی تھے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے انجام دیے۔ مقررین میں انوار احمد نے معاصر اور تنقید کا منظرنامہ، مسلم شمیم نے عصر حاضر میں اردو کا مقدمہ، محمد حمید شاہد نے فکشن کی تفہیم میں تنقید کا کردار، ڈاکٹر آصف فرخی نے بین الاقوامی تناظر اور اَدبی انعامات کی سیاست، ڈاکٹر ضیاء الحسن نے نئے تنقیدی تصورات اور اَدب کی تفہیم، جبکہ ناصر عباس نیر نے اکیسویں صدی میں تنقید، افکار و تصورات پر اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھ میں بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی اور بازار کا خوف ہے، کہیں اَدب مشین کے بازار میں گم نہ ہوجائے، اَدب اور موسیقی کی دنیا میں مجھے جس راستے سے داخلے کی اجازت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس راستے سے آنا پڑے جہاں سے میں سفر کرنا نہیں چاہتا۔ دنیا اکائی ہے، سارے انسان ایک اکائی ہیں، تنقید کا لہجہ بھی انسانی ہونا چاہیے، انسانی اسلوب اور جہاں انسان کی بات ہوگی بالآخر سیاست کی بات ہوگی۔ ڈاکٹر انوار احمد نے اپنے مقالے میں کہا کہ اردو جرائد کے بعض مدیر نظریہ ساز نقاد بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں، بھارت میں تنقید کا معیار ہمارے ملک کے برابر ہے۔ مسلم شمیم نے اردو کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے شرکاء کو بور کیا اور وہ اپنے موضوع سے ہٹے نظر آئے، انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی جنم بھومی بھارت ہے لیکن یہ برصغیر کے عوام کی زبان ہے۔ محمد حمید شاہد نے کہا کہ اردو میں فکشن پر جس قرینے سے تنقید کی جانی چاہیے تھی وہ نہیں لکھی گئی۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے فرائیڈے اسپیشل سے گفتگو کرتے ہوئے اس سیشن پر کہا کہ مجموعی طور پر ایک آدھ کے سوا اچھے مقالے پڑھے گئے۔ چوتھے اور آخری روز بچوں کا ادب پر خصوصی اجلاس کا بھی انعقاد کیا گیا، شرکائے گفتگو میں رضا علی عابدی، محمود شام، فرزانہ روحی اسلم، حنیف سحر، فاروق احمد اور ابن آس شامل تھے، جبکہ میزبانی کے فرائض سلیم مغل نے سرانجام دیے۔ گفتگو کے آغاز میں سلیم مغل نے بچوں کا ادب میں کہانی کی اہمیت پر گفتگو کی، فرزانہ روحی اسلم نے کہاکہ بچوں کی کہانیاں اور نظمیں بڑے ادیبوں کو جنم دیتی ہیں جن سے نئے خیالات اور سماج کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ حنیف سحر نے تجویز پیش کی کہ آئندہ بچوں کا ادب کے حوالے سے جو بھی اجلاس ہو اُس میں بچوں کی شمولیت بھی ہونی چاہیے۔ ابنِ آس نے بتایا کہ اس وقت بچوں کے 54 رسالے نکل رہے ہیں جن کے قاری بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ فاروق احمد نے کہا کہ موجودہ دور میں کمرشلزم بچوں کے ادب پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ محمودشام نے سلوگن دیا ”بچوں کا ادب کرو“ اور بچوں کے ادب پر مزید کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ رضا علی عابدی نے کہا کہ اس وقت ہم یہاں اس لیے موجود ہیں کہ یہاں نیکی بٹ رہی ہے اور بچوں کے لیے لکھنا عین عبادت ہے۔ اسی طرح ایک اہم سیشن ’’یادِ رفتگاں‘‘ کے عنوان سے ہوا جو آخری سیشن تھا، جس کی صدارت عباس نقوی نے کی، اس موقع پر مسعود اشعر نے انور سجاد، تحسین فراقی نے ڈاکٹر جمیل جالبی، امجد شاہ نے نیاز احمد، عقیل عباس جعفری نے لیاقت علی عاصم، شاہد رسام نے ذکاء الرحمٰن اور صوبیہ نقش نے اپنے والد معروف مصور جمیل نقش پر گفتگو کی۔
بحیثیتِ مجموعی عالمی اردو کانفرنس ایک ایسے دور اور ماحول میں کہ کتاب کی روایت دم توڑ رہی ہو، جب فنون لطیفہٍ زبان اور شعر و ادب پر زوال ہو ایک مثبت اور تادیر یاد رکھی جانے والی کانفرنس تھی، اور آج بھی اگر معاشرے میں علم، کتاب اور ادب کو پھیلانا ہے تو اپنے گھروں میں کتاب اور لائبریریوں کو پھر سے آباد کرنا ہوگا اور اس طرح کی کانفرنسیں علم اور کتاب کے ماحول اور کلچر کو بنانے میں یقیناً اہم کردار ادا کرتی ہیں۔