قائداعظم رائٹرز گلڈ، جمعیت الفلاح میں تعزیتی ریفرنس
جانے کیوں! پروفیسر ہارون رشید کو قلم ”تھے“ نہیں لکھ پارہا، لگتا ہے ابھی وہ کسی تقریب میں گلاب چہرے پہ مسکراہٹ سجائے خلوص بھری آواز میں پوچھیں گے ”تاجی صاحب کیسے ہیں؟“ قائداعظم رائٹرز گلڈ کے نومنتخب صدر ہوئے انہیں چند ہی روز ہوئے تھے کہ آرٹس کونسل کی ایک تقریب میں ملے، رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد میں نے کہا ”سر، اُس چکی کا پتا مجھے بھی بتادیں تاکہ پائو ڈیڑھ پائو آٹا میں بھی خرید لوں“۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے برجستہ کہا ”تاجی صاحب پائو ڈیڑھ پائو تو آپ شاید نہ خرید پائیں، پہلے چھٹانک ڈیڑھ چھٹانک کے پیسے جمع کرلیں، گھر کے نزدیک ہر چکی پر یہ آٹا ملتا ہے۔“
جمعیت الفلاح میں مرحوم مظفر ہاشمی کے فرماں بردار ہونہار صاحب زادے علی ہاشمی نے بتایا کہ ”میں ایک دن انہیں آرٹس کونسل لے کر جارہا تھا کہ مجھ سے کہا کہ پاکستان کواٹرز کی طرف سے چلنا، ایک صاحب سے دو منٹ کے لیے ملنا ہے۔ اتفاق سے وہ صاحب گھر کے دروازے کے باہر ہی مل گئے، آپ نے ایک لفافہ انہیں دیا اور کہا کہ اپنی بیگم کا آپریشن آج ہی کرالیں۔ میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا کہ کبھی کسی دفتر میں میرے ساتھ کام کرتے تھے، کل ان کا فون آیا تھا کہ ان کی بیگم کا آپریشن ہونا ہے، 65000 روپے کی ضرورت ہے۔“ ایک واقعے کے گواہ تو علی ہاشمی میاں ہیں، مگر ایسے نجانے کتنے واقعات ہوں گے۔ ایسے ہی کئی واقعات مرحوم مجاہد برکاتی بھائی، مرحوم خلیفہ انوار اور بھائی احسان الحق احسان، اللہ انہیں صحت عطا فرمائے، کے ہیں جن کا میں گواہ ہوں۔
سب سے پہلا تعزیتی ریفرنس قائداعظم رائٹرز گلڈ کے بانی جلیس سلاسل نے نارتھ ناظم آباد کے ایک تعلیمی ادارے میں منعقد کیا، جس کی صدارت قائم مقام صدر پروفیسر اسحٰق منصوری نے فرمائی۔ اسی اجلاس میں خواجہ رضی حیدر کو گلڈ کا موجودہ صدر منتخب کیا گیا۔ پروفیسر اسحٰق منصوری نے کہا کہ ”وہ ہمیشہ اسلام اور پاکستان کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ وہ ساری زندگی انسانیت کی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ ڈائریکٹر کالجز، ٹیچرز ایسوسی ایشن کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، چند ماہ قبل ہی جب وہ گلڈ کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنے ابتدائی خطاب میں اسے بہت آگے لے جانے کے عزم کا اظہار کیا تھا، پروردگار ان کی مغفرت فرمائے۔“ گلڈ کے موجودہ نومنتخب صدر خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ ”پروفیسر ہارون رشید سے میرے قدیم مراسم تھے، وہ اپنے مقصد سے مخلص تھے لہٰذا ان کی تمام زندگی ان مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے گزری۔ بحیثیت استاد انہوں نے ایک کامیاب اورمعروف زندگی گزاری۔ چند ماہ قبل وہ گلڈ کے صدر منتخب ہوئے تھے اور اس تنظیم کے حوالے سے قومی مقاصد کے لیے کچھ نمایاں کرنے کے سلسلے میں بہت پُرجوش تھے، مگر افسوس زندگی نے انہیں مہلت نہیں دی۔ ان کی اچانک وفات ایک بڑا قومی نقصان ہے۔“
پروفیسر خیال آفاقی نے مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ساری زندگی معاشرے کی اصلاح اور نظام تعلیم کی خرابیوں کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کے لیے تعمیری تجاویز اور ان تجاویز پر عمل کرانے کی جدوجہد میں گزری۔ وہ ایک نفیس، خوش اخلاق،خوش لباس انسان تھے۔ معروف ناول نگار، کالم کار نسیم انجم نے کہا کہ ”میری ان سے ملاقات انجمن ترقی اردو کے دفتر میں ہوئی جہاں انور شعور نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ میں نے اپنا ناول انہیں پیش کیا۔ جس کی بعد میں انہوں نے بہت تعریف کی۔ وہ ایک نفیس، دردِ دل رکھنے والے انسان تھے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے چند لمحات مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے۔“ گلڈ کی سیکریٹری پروفیسر یاسمین فاروقی نے کہا کہ ”وہ درس و تدریس کے حوالے سے اپنی ایک پہچان رکھتے تھے، ایک جید استاد، دانشور اور علمی و سماجی دنیا کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی تشنگانِ علم کی سیرابی کے لیے صرف کی۔ اپنی خوشگوار اور فعال شخصیت کی وجہ سے وہ کراچی کے علمی، ادبی حلقوں میں معروف رہے۔ ان کے انتقال سے تعلیمی میدان میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کا بھرنا بہت مشکل ہے۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر“
پروفیسر شاہین حبیب نے کہا کہ ”مرحوم نہایت خوش اخلاق، ملنسار اور وضع دار انسان تھے، ہمارے ان سے قریبی مراسم تھے، وہ ”نظم کائنات“ کی تقاریب میں شریک ہوتے اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے، ”نظم کائنات“ ان کی شخصیت اور خدمات پر خصوصی شمارہ شائع کرے گا۔“
جمعیت الفلاح میں ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”بڑی بات ہے کہ جمعیت الفلاح اپنے بزرگوں کو یاد رکھتی ہے۔ پروفیسر ہارون رشید اصلاحِ احوال کی کوششوں میں آخر دم تک کوشاں رہے، وہ ایک بہتر نظام تعلیم چاہتے تھے۔ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں مختلف نظامِ تعلیم رائج ہیں، حکومت کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں، جس کا جو دل چاہتا ہے وہ اپنا نظام بنالیتا ہے، یہ مملکت جو ایک قوم اور اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی، لیکن جب ہم اپنے نظریے سے دور ہوئے تو ہم سے ہمارا ایک ٹکڑا الگ ہو گیا۔ ہمیں ایک نظام، ایک زبان، ایک نصاب کے لیے تحریک چلانا ہوگی، اسی میں ہماری فلاح ہے اور یہی ہارون رشید چاہتے تھے۔ ہمیں ان کی تحریروں کو یکجا کرکے شائع کرنا چاہیے، جمعیت الفلاح آگے بڑھ کر یہ کام کرے۔“
معروف دانشور رضوان صدیقی نے کہا کہ ”ان کے ساتھ گزرا ہر لمحہ یادگار ہے۔ کراچی میں جو لعل و جواہر تھے وہ ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں، ہارون رشید بھی ایسا ہی ایک جوہر تھے۔ وہ بڑے انسان تھے اور ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کے لہجے سے کبھی رعونت کی بو نہیں آتی تھی۔ وہ کبھی اپنے سامنے والے کو کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ وہ بڑےاداروں کے ساتھ وابستہ رہے اور آخر تک تعلیم اور نظام تعلیم سے جڑے رہے۔ وہ نظام تعلیم کی خامیوں کو دور کرنے میں پُرعزم تھے، انہوں نے علم کو اپنا لباس بنایا، ان کی ساری تحریریں تعلیم سے متعلق ہیں۔ ان کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ ان کی زندگی میں پاکستان کا نظام تعلیم بہتر ہوجائے۔ وہ بڑے خوش بخت آدمی تھے۔ گلاب چہرے کے ساتھ ہنستے مسکراتے خالقِ حقیقی سے جا ملے، ہمیں ان کے تمام مضامین کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا اہتمام کرنا ہے جس میں ہم بھرپور تعاون کریں گے۔“
اویس ادیب انصاری نے کہا کہ ”مجھے آج ہارون رشید اور مظفر ہاشمی کی جوڑی یاد آرہی ہے، یہ آج ہم میں موجود نہیں مگر ان کی یادوںکی خوشبو ہمارے ساتھ ہے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میری زندگی کا حسین سرمایہ ہیں۔“