کتاب : خطابات سید مودودی (جلد سوم)۔
26جنوری 1956ء۔26جون 1961ء)۔
مرتب : پروفیسر نورورجان
صفحات : 312 قیمت:300 روپے
اہتمام : ادارہ معارف اسلامی۔ منصورہ، ملتان روڈ۔ لاہور
فون : 042-35252475-76
ای میل : imislami1979@gmail.com
ویب گاہ : www.imislamic.org
تقسیم کنندہ : مکتبہ معارف اسلامی۔ منصورہ
ملتان روڈ لاہور 54790
فون : 042-35252419,35419520-4
بڑی خوشی کی بات ہے کہ پروفیسر نورورجان صاحب نے جس عظیم کام میں ہاتھ ڈالا ہے اس کی تیسری جلد طبع ہوکر قارئین تک پہنچ گئی ہے۔ باقی جلدیں بھی طباعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد تحریر فرماتے ہیں:
’’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے گزشتہ صدی میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے فکری اور عملی لحاظ سے عظیم الشان جدوجہد کی، اسی مقصد کی خاطر جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ 75 ارکان کی ٹیم کو میدانِ علم و عمل میں اتارا گیا اور اب کروڑوں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا جارہا ہے۔ سید مرحوم و مغفور اور آپ کے رفقا کے اس ہمہ جہت کام کے ہزاروں پہلو ہیں۔
یہی سبب ہے کہ بے شمار لوگ تحریر و تقریر میں تجزیاتی اور تحقیقی انداز سے اپنے اپنے میدان میں کام کررہے ہیں۔ سید مرحوم کی تصنیفات بلاشبہ دنیا بھر کی تحریکوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں، لیکن آپ نے تحریکِ اسلامی کی رہنمائی صرف علمی تصنیفات سے نہیں کی تھی بلکہ لاکھوں میل کا سفر کرکے اور سیاست کے میدان میں اتر کر اعلائے کلمۃ الحق کا علَم بلند کیا۔ چھوٹے بڑے اجتماعات سے خطاب اور پریس کانفرنس اور بیانات کے ذریعے پالیسی واضح کی۔ مقامِ شکر ہے کہ یہ ریکارڈ محفوظ رہا اور اب سامنے آرہا ہے۔
تحریکِ اسلامی کے ساٹھ ستّر سال پرانے رسائل تک رسائی حاصل کرنا انتہائی مشکل کام تھا، لیکن رضائے الٰہی کا حصول جب سامنے ہو اور کام عشق اور لگن سے کیا جائے تو کوئی کام ناممکن نہیں رہتا۔
پروفیسر نورورجان نے اس نیک مقصد کے لیے عمرِ عزیز وقف کر رکھی ہے۔ اُن کے قلم نے مولانا معین الدین خٹکؒ، ملک غلام علیؒ، نعیم صدیقیؒ کی سوانح مرتب کر ڈالیں، اصولِ فقہ ترتیب دیے۔’’سید مودودیؒ سرحد میں‘‘ میں سید کے بارہ اسفار سامنے آئے۔
اب انہوں نے سید مودودیؒ کی تقاریر، مکتوبات، سید کے 14 بین الاقوامی اسفار، سید شعرا کی نظر میں، سید کے بیانات اور پریس کانفرنسیں، اپیلیں اور ٹیلی گرامز، انٹرویوز کو الگ الگ مکمل حوالہ جات کے ساتھ مرتب کردیا ہے۔ یقیناً پروفیسر صاحب کا یہ علمی و دعوتی کام سخت محنت و تحقیق اور استقامت کا طالب تھا۔ لیکن اس کام کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سرانجام دے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا پرانا لوازمہ فراہم کرنا اور ترتیب دینا مشکل کام تھا، دراصل یہ اداروں کا کام تھا۔
اس لوازمے کی تحقیق اور حوالوں کے لیے پروفیسر صاحب نے جن رسائل و جرائد سے استفادہ کیا ہے، وہ قابلِ اعتماد ذرائع ہیں۔
واضح رہے کہ پروفیسر موصوف نے ’’مولانا مودودیؒ کی تقاریر‘‘ میں 16 مئی 1955ء سے مئی 1979ء تک تقاریر کو مرتب کیا ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کی تقاریر پروفیسر ثروت صولت (مرحوم) نے 14 اگست 1947ء سے مئی 1955ء تک دو جلدوں میں مرتب کی تھیں، اور ابوطارق مرحوم نے سید مودودیؒ کے انٹرویوز دو جلدوں میں مرتب کیے تھے، لیکن پروفیسر موصوف نے مزید 24 انٹرویوز مرتب کردیے۔
تقاریر میں پہلے ’’سپاس نامہ‘‘، پھر سید کی تقریر اور پھر سوالات و جوابات یکجا کرکے ہمیں اُس ماحول میں پہنچادیا ہے جس میں سید مرحوم نے خطاب فرمایا تھا۔
میں اس مبارک کام پر انہیں تحسین پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ جناب پروفیسر نورورجان کی اس علمی اور دعوتی کوشش کو قبول فرمائے اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے فائدہ مند بنادے۔ آمین‘‘
حافظ محمد ادریس تحریر فرماتے ہیں:
’’زیر نظر کتاب سید مودودیؒ کی تقاریر کا تیسرا مجموعہ ہے۔ یہ 1956ء سے لے کر 1961ء تک کی تقاریر پر مشتمل ہے۔ یہ دور پاکستان کے وزیراعظم چودھری محمد علی، اسکندر مرزا اور صدر محمد ایوب کی حکمرانی کا دور ہے۔ اس دور میں پاکستان چند بہت بڑے بڑے حادثات کا شکار ہوا۔ سیاسی ریشہ دوانیوں کے باعث محمد علی بوگرا وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر امریکہ چلے گئے۔ ملک غلام محمد مفلوج ہوکر طویل رخصت پر تھے۔ 23 مارچ 1956ء کو نیا آئین نافذ کردیا گیا۔ اس کے تحت اسکندر مرزا نے پاکستان کے پہلے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اس دور میں ملک محلاتی سازشوں کا شکار رہا، یہاں تک کہ آئی آئی چند ریگر دو ماہ سے بھی کم عرصے کے لیے وزیراعظم رہے۔ 8 اکتوبر 1958ء کو اسکندر مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لا لگادیا جس کے نتیجے میں محمد ایوب خاں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ انہوں نے 1956ء کا آئین منسوخ کردیا۔ پارلیمنٹ اور کابینہ توڑ دی۔ تمام سیاسی جماعتیں خلافِ قانون قرار دے دیں۔ بعدازاں 27 اکتوبر 1958ء کو اسکندر مرزا کی بھی چھٹی کرادی گئی اور سب اختیارات صدر ایوب کے پاس چلے گئے۔ ملک کے دونوں حصوں کے تمام سیاست دانوں پر ایبڈو لگادیا گیا۔
سید مودودیؒ نے ان تمام غیر جمہوری اور غیر اسلامی اقدامات کی مذمت کی اور ہر ہر قدم پر حکمرانوں، سیاست دانوں اور عوام کو سمجھاتے رہے کہ یہ ملک بہت قربانیوں کے بعد اسلامی حکومت کے قیام کے لیے وجود میں آیا تھا، نہ کہ سیاسی و عسکری آنکھ مچولی کے لیے۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ عنداللہ مسؤلیت سے بچنے کے لیے تحریکِ پاکستان کے دوران کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی لوٹ کھسوٹ، ہیرا پھیری، جھوٹ، مکر، فریب، جعلی کلیم اور جعلی الاٹ منٹس کرائی گئیں۔ جائدادوں پر ناجائز قبضے کیے گئے۔ ایک عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ سید مودودیؒ نے حکومت کے کارپردازوں کو تنبیہ کی کہ یہ تمام منفی سرگرمیاں، اُس منزل سے دور لے جائیں گے جس کی خاطر لاکھوں انسانوں کی قربانیاں دی گئیں۔ صدیوں سے آباد مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑے، عزتیں لٹائیں اور آگ کے دریا سے گزر کر یہاں پاکستان کی سرزمین پر آباد ہوئے اس امید پر کہ یہاں اسلامی شریعت نافذ ہوگی‘‘۔
پروفیسر نورور جان تحریر فرماتے ہیں:
’’خطابات سید مودودیؒ‘‘ کی جلد سوم آپ کے ہاتھوں میں ہے، جو سید مرحوم و مغفور کی 39 تقاریر پر مشتمل ہے جو 26 جنوری 1956ء تا 26 جون 1961ء کے عرصے پر محیط ہے۔ راقم الحروف نے 16 مئی 1955ء سے 26 مئی 1979ء تک تقاریر، پریس کانفرنسوں اور بیانات، اپیلوں اور ٹیلی گرامز پر مشتمل تیرہ جلدیں تاریخی ترتیب سے مرتب کردی ہیں۔ 26 مئی 1979ء کو سید مرحوم و مغفور علاج کی خاطر بفیلو امریکہ تشریف لے گئے تھے۔ 22 ستمبر 1979ء کو ’’صدیوں کا انسان‘‘ دارالفنا سے دارالبقا کی جانب روانہ ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
’’سید مودودیؒ اور جماعت اسلامی سے متعلق اِس عاجز و بے بس آدمی نے جو کچھ تحقیقی کام کیا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد سے ہمیشہ نوازا، اور یہ اس کا فضل و کرم ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ راقم الحروف اس رحم و کرم پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہ بھی میری سعادت ہے کہ مجھے سید مودودیؒ کی چار تقاریر خود سننے کا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا، اور سید سے خط کتابت کا شرف بھی حاصل رہا۔ اکتوبر 1966ء سے ستمبر 1979ء تک تقریباً تیرہ سال کا عرصہ ایسا ہے جس میں سید سے ملاقاتیں، خط کتابت اور عصری محافل میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا‘‘۔
’’یہ ترتیب اس لیے ضروری تھی کہ یہ آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا کام ہے۔ آنے والی نسلیں سید کی تقاریر کو پڑھیں گی تو سید کے زمانے کو تصور کی آنکھوں سے دیکھنا چاہیں گی۔ اگر سید کی تقریر کے پس منظر اور سامعین کے جذبات و احساسات کو سامنے نہ رکھا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ’’سید کے خطاب‘‘ کے مفہوم کی گہرائی کا اندازہ کیا جاسکے! وہ ایک جیتا جاگتا دور تھا اور وقت کے فرعونوں اور شدادوں نے سید کی خطابت کے خوف سے کہاں کہاں دفعہ 144 نافذ نہ کی، کہاں کہاں اجتماع گاہوں میں پانی نہ چھوڑا گیا، اور اس پانی میں بجلی کے کرنٹ نہیں دیے گئے! یہ ایک متحرک نظریاتی جنگ کا دور تھا۔ پاکستان کے اندر اور باہر تمام الحادی فتنے سامنے آئے اور سید مرحوم نے محکم دلائل سے تحریر و تقریر کے ذریعے ہر فتنے کا سر کچل کے رکھ دیا۔
مختصراً یہ کہ اُس دور کی ضروریات اور مشکلات کو سامنے رکھ کر ہی سید کے خطاب میں دلائل و براہین کی سمجھ آسکتی ہے‘‘۔
’’راقم الحروف کو اپنی کم علمی کا مکمل احساس ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ جب پچپن سال تک ’’صدیوں کے انسان‘‘ کے خطابات و ملفوظات کو نہ تو کوئی ادارہ تاریخی و فنی ترتیب سے مرتب کروائے اور نہ ہی دانشورانِ تحریک میں سے کوئی اس سمندر میں چھلانگ لگانے پر آمادہ ہو تو پھر آخر یہ کام کون کرے گا؟ کیا اُس وقت کا انتظار کیا جائے جب سید مودودیؒ کو دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان دنیا سے رخصت ہوجائیں! کم از کم میرے نزدیک تساہل اور غفلت سے کام لیا گیا جس کا کوئی جواز فراہم کرنا مشکل ہے۔
راقم الحروف نے سید مودودیؒ کی تقاریر، پریس کانفرنسوں اور بیانات، اپیلوں اور ٹیلی گرامز کی تحقیق و تدوین کا کام جون 2007ء میں شروع کیا تھا اور جون 2011ء میں مکمل ہوا۔ چار سال کی مدت میں 13 جلدیں کمپیوٹرائزڈ مرتب ہوگئی ہیں جو 6500 صفحات پر مشتمل ہیں‘‘۔
کتاب مجلّد ہے۔ سادہ سرورق سے آراستہ ہے۔
محترم پروفیسر نورورجان نے خطاباتِ سید مودودیؒ مرتب کرکے بے شمار لوگوں کے لیے مسرت و ابتہاج کا سامان مہیا کیا ہے، انہی میں علامہ ماہر کرنالی بھی ہیں جنہوں نے یہ کام برجستہ صنعتِ توشیخ میںکہہ کر اپنے جذباتِ تحمید وتحسین کا اظہار کیا ہے۔ شروع میں لکھے حروف کو جمع کریں تو نورور جان نام بنتا ہے۔