فضائل التسمیہ و الحمد

حافظ فاروق عبداللہ کرولوی
کتاب : فضائل التسمیہ و الحمد
مؤلف : زاہد اقبال بھیل
صفحات : 292 قیمت 400 روپے
ناشر : بھیل اسلامک سوسائٹی، ڈیرہ بھیلاں، ننکانہ، پنجاب 0333-4128743
کسی زبان کے تحریری مواد کو دوسری زبان کے جاننے والوں کے لیے ان کی زبان میں ڈھالنے کا نام ترجمہ ہے۔
ترجمہ کرنا ایک بہت بڑا اور مشکل فن ہے۔ ترجمہ کرنے کے لیے دوسری زبانوں کے الفاظ و کلمات سے آگاہی کے علاوہ دوسری زبان کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی لازمی ہے۔ دینِ اسلام میں ترجمہ نگاری کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے۔ دینِ اسلام کی تبلیغ اور پھیلائو کے لیے دورِ نبویؐ میں مکہ مکرمہ میں ہی دیگر ممالک کے صحابہ کرامؓ موجود تھے، جن میں سے بطورِ مثال سیّدنا بلال حبشیؓ، سیّدنا صہیب رومیؓ ، سیّدنا سلیمان فارسیؓ شامل ہیں۔ اور یہ افراد اپنی اقوام کے لیے اسلامی تعلیمات کے ترجمے اور تعلیم و تدریس کا ذریعہ بنے رہے۔ سیّدنا زید بن ثابتؓ نے خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر یہودیوں کی زبان سیکھی تھی، تاکہ یہودیوں سے خط کتابت کی جاسکے۔
اسی طرح صحابہ کرامؓ، تابعین کرام اور دیگر خلفائے اسلام کے دور میں ترجمہ نگاری کی بھرپور روایت ملتی ہے۔ دیگر اسلامی علوم و فنون کے علاوہ قرآن کریم کی تعلیمات و پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے ترجموں کا آغاز ہوا۔ اس وقت دنیا کی کوئی بھی معروف یا غیر معروف زبان نہیں جس میں قرآن پاک کا مکمل یا جزوی ترجمہ نہ ہوچکا ہو، اور شاید ہی ایسی زبان دنیا میں پائی جاتی ہو۔
زیر نظر کتاب میں پنجاب کے ایک زرخیز اور علمی علاقے ننکانہ جو کہ شیخوپورہ اور لاہور سے متصل ہے، سے تعلق رکھنے والے زاہد اقبال بھیل صاحب نے دنیا کی 109 زبانوں میں تسمیہ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) اور سورہ فاتحہ کے تراجم کا انتخاب اور فضائل کو جمع کرکے ’’اپنے نقوشِ ساحراہ اور سطورِ رافعہ سے قرطاس کو متحلہ کیا ہے۔‘‘ اس کتاب میں دنیا کی بیشتر زبانوں میں تسمیہ اور سورہ فاتحہ کے تراجم و فضائل کے علاوہ ان کے منظوم اور سلیس تراجم کا انتخاب کرکے محققین کے لیے ایک نیا راستہ بنا دیا ہے۔ قرآن پاک کے ان تراجم کی یکجائی سے قرآن کریم کے علوم و معارف سے استفادہ کی کئی راہیں کھلیں گی۔ اتنے زیادہ تراجم کا ایک جگہ پر جمع کردینا ایک کارنامہ ہے جو کہ بفضلِ الٰہی مؤلف زاہد اقبال کے ہاتھوں سرانجام پایا ہے، جس پر وہ بے حد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ ان کی اس محنت کو قبول کرکے دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا کرے۔ یہ کتاب چونکہ ان کی ابتدائی کاوش ہے اس لیے اُمید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں اس میں رہ جانے والی اغلاط کے علاوہ مزید تراجم بھی شامل کرکے اس روایت کو مضبوط و مستحکم کیا جائے گا۔ کتاب میں جدید طریقہ انداز میں حوالہ جات کی کمی بھی کھٹکنے کے علاوہ تفصیلی کتابیات کی بھی کمی ہے۔ کتاب ’’فضائل التسمیہ والحمد‘‘ سفید کاغذ، مضبوط جلد بندی کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔

اہلِ حدیث صحافت، پاکستان میں

کتاب : اہلِ حدیث صحافت، پاکستان میں
مؤلفین : بشیر انصاری۔محمد شاہد حنیف
صفحات : 188 قیمت 300 روپے
ناشر : مرکزی جمعیت اہلِ پاکستان،106، راوی روڈ، لاہور: 0322-2202007
صحافت ایک مشن ہے، خاص طور پر اسلامی صحافت کی بات کی جائے تو یہ ایک دینی، تعمیری اور پاکیزہ مشن ہونے کے علاوہ حق گوئی کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ صحافت کا ایک اہم شعبہ رسائل و جرائد کا ہے۔ یہ ایک وسیع شعبہ ہے۔ لیکن زیر نظر کتاب میں اس وسیع شعبے کو دو حدود میں تقسیم کرکے ’’محدود‘‘ رکھا ہے۔ زیر نظر کتاب کی ’ایک حد‘ …پاکستان اور ’دوسری حد‘ اہلِ حدیث ہے۔ اور مزید یہ کہ پاکستان سے مراد صرف موجود پاکستان یعنی سابقہ ’مغربی پاکستان‘ ہے۔
رسائل و جرائد میں نہ صرف دینی، علمی، تحقیقی اور دیگر لوازمہ اشاعت پذیر ہوتا ہے بلکہ یہ رسائل اپنے اپنے دور کے عکاس بھی ہوتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر مختلف النوع تحریریں اور بہت سے لوگوں کے نظریات و خیالات اور آرا کو ایک جگہ پیش کرنے کے لیے رسائل ہی معاون نظر آتے ہیں۔ اکثر اوقات رسائل و جرائد میں ایسی تحقیقات و نگارشات بھی ملتی ہیں جن کا کتابوں میں ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ دینی رسائل کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ ایک مستقل دعوت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پیغام ہونے کے علاوہ قارئین کرام کو قدیم وجدید مسائل کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی روشنی بہم پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں قیامِ پاکستان کے بعد اپنی طے کردہ حدود میں رہتے ہوئے ایسے بہت سے رسائل و جرائد کا تعارف کروایا گیا ہے جو کہ وطنِ عزیز میں 1947ء سے اب تک جاری ہیں یا مرورِ ایام سے بند ہوچکے ہیں۔ مؤلفین نے اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
1- پہلے حصے میں 12نمایاں رسائل کا تعارف کروایا ہے جو کہ مسلسل اشاعت پذیر ہونے کے علاوہ مخصوص قارئین، تنظیم، ادارہ یا تحقیقی ضرورت کے پیش نظر نمائندگی کررہے ہیں۔ 2- دوسرے حصے میں ان رسائل کا تعارف کروایا ہے، یہ بھی باقاعدہ شائع ہورہے ہیں۔ ان کو حروفِ تہجی کی ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ ان کی تعداد 59 ہے۔ 3- تیسرے حصے میں ان رسائل کا تذکرہ ہے جو عارضی یا مستقل طور پر بند ہوچکے ہیں۔ ان کی تعداد 107ہے۔
مؤلفین نے اس کتاب میں نہ صرف تقریباً ان دو سو رسائل کی تاریخ و تعارف کو احسن انداز میں بیان کیا ہے بلکہ اس کے علاوہ ان رسائل کے بانیان، مدیران، نائب مدیران اور دیگر افراد کا ممکن حد تک مختصر مگر جامع تعارف بھی دیا ہے، جس سے اس تحقیقی کتاب کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کتاب سے نہ صرف تحریک اہلِ حدیث کی علمی سرگرمیوں سے آگاہی ملتی ہے، بلکہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ تحریک اہلِ حدیث نے جہاں مسلمانوں میں صحیح اعتقادی و علمی رسوخ پیدا کیا وہاں استخلاص وطن کے لیے جذبۂ ایثار کے ساتھ ساتھ درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور ادب و صحافت کے چراغوں کو بجھنے نہیں دیا۔
کتاب کے مؤلفین میں سے بشیر انصاری صحافت کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جب کہ محمد شاہد حنیف پاک و ہند کے نمایاں محقق ہیں جو کہ اللہ کے فضل و کرم سے صحافت کے علاوہ اشاریہ سازی میں اختصاص کا درجہ رکھتے ہیں۔
تحقیقی لوازمے پر کی گئی محنت اور اہم ترین موضوع پر ہونے کے باوجود اس علمی کتاب کی اشاعت بہت نامناسب انداز میں کی گئی ہے۔ اُمید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کو اعلیٰ انداز میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ