السلام علیکم و رحمتہ اللہ
محترم و مغفور ڈاکٹر حسن قاسم مراد صاحب پر آپ کا تحسینی مضمون جسارت کے فرائیڈے اسپیشل میں نظر سے گزرا۔ آپ نے ان کے جن اوصاف کا ذکر کیا ہے، وہ یقیناً قابلِ تعریف تھے۔ آپ نے اُن کے جن برادران کا ذکر کیا ہے اُن سب سے اور مرحوم قاسم مراد صاحب سے مجھے اسلامی جمعیت طلبہ، بعدہٗ جماعت اسلامی کے حوالے سے نیاز حاصل رہا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ پہلے مراد صاحب (مراد صاحب نہیں، قاسم مراد صاحب۔ مراد صاحب تو مرحوم کے والدِ محترم تھے) کا تعلق بھی جماعت اسلامی اور جمعیت سے تھا لیکن میک گل میں اُن کی قلب ماہیت ہوگئی۔ کریٹیکل اپروچ (اس کا ترجمہ غالباً تنقیدی زاویۂ فکر، یا زاویۂ نظر ہوسکتا ہے) نے انہیں ’’مقید فضائوں‘‘ سے نکالا۔ مستشرقین کو پڑھنے کے نتیجے میں وہ غور و فکر کی جتنی منزلوں سے گزرے یہ اُن کی شخصیت کا دلچسپ مطالعہ ہوسکتا ہے۔
مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلق کے حوالے سے میں کامل وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن کا جماعت اسلامی سے اگر کوئی تعلق تھا تو وہ اُس نوعیت کا تھا جسے آپ نے کریٹیکل اپروچ کہا ہے، اور جمعیت طلبہ کے دور میں بھی وہ خود کو نظمِ جمعیت کا پابند نہیں بناسکے تھے، گویا ’’اڑنے سے پیشتر ہی مرا رنگ زرد تھا‘‘۔ آپ نے جس ادارے ’میک گل‘ کا تذکرہ کیا ہے جہاں اُن کی قلبِ ماہیت ہوگئی، اس جملے میں اگر میں ’مکمل‘ کا اضافہ کروں تو مناسب ہوگا۔ میرے علم کی حد تک یہ ادارہ یہودیوں کا قائم کردہ ہے جو عالمِ اسلام کے ذہین شاگردوں کو انتہائی دلکش مراعات کے ساتھ اپنے دام میں پھانستا ہے۔ خود میرے ایک انتہائی ذہین شاگرد نے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی میساچوسٹس کی اسکالرشپ کو رد کرتے ہوئے اُس کے اپنے الفاظ میں میک گل میں محض یہ دیکھنے کے لیے داخلہ لیا تھا کہ وہاں عالمِ اسلام کے خلاف کس انداز سے کام ہورہا ہے۔ میک گل کے مزاج کا اندازہ اس سے وابستہ ایک اور شخصیت سے بھی کیا جاسکتا ہے جس کا نام ڈاکٹر فضل الرحمٰن تھا اور جنہیں ایوب خان نے اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کے لیے پاکستان درآمد کیا تھا۔ رہا قاسم مراد صاحب کا مستشرقین کا مطالعہ، تو اُس نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔
آپ نے اُن کی شخصیت کے بارے میں صحیح لکھا ہے کہ مستشرقین کو پڑھنے کے بعد کے نتیجے میں وہ غور و فکر کی جن منازل سے گزرے یہ اُن کی شخصیت کا دلچسپ مطالعہ ہوسکتا ہے۔ اُن منازل کی ایک جھلک تو اُن کے سبط حسن کی کتاب ’’نویدِ فکر‘‘ آپ کو تحفے میں دینے سے ملتی ہے۔ پھر اپنے شعبے میں تصوف، فلسفہ کلام اور جدید افکار کے مضامین کا اجرا بھی مرحوم کے دینِ اسلام کے معروف اصولوں اور مصادر سے گریز کی دلیل ہے۔ بقول آپ کے اُن کا کہنا یہ تھا کہ یہاں کوئی علمی کام کیا جائے تو کئی طبقوں سے برداشت نہیں ہوگا۔
الحمدللہ اسلام میں غور و فکر پر کوئی قدغن نہیں بشرطیکہ آپ اس کے بنیادی عقائد سے انحراف نہ کریں، یا پھر دائرۂ اسلام سے باہر نکل کر مباحثہ کریں۔ یہ ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کا انداز کس طرح علمی کہلایا جائے گا!
حیرت اس بات پر ہے کہ مرحوم نے میک گل میں اپنے مقالے کا عنوان “Ethico Religious Ideas of Umer 2” پسند کیا، یا اُن کو دیا گیا۔ لیکن اس میں حیرت کی کیا بات ہے! یہ تو دامِ ہم رنگ ِ زمین تھا، ورنہ اگر وہ واقعی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی شخصیت سے متاثر ہوتے تو اُن کی قبیل کی عالمِ اسلام کی دیگر شخصیات پر کام کرواتے۔ تصوف اور فلسفہ و علمِ کلام جیسے اسلام سے گریزاں موضوعات شعبے میں رائج نہ کرتے۔ یہ انہی کی فکر کا شاخسانہ ہے کہ آپ نے مرحوم کی قلبِ ماہیت (بقول آپ کے) کو مقید فضائوں (یعنی جماعت کی فکر) سے نکالا۔ الحمدللہ جماعت کی فکر وہی ہے جو اسلام کی فکر ہے، اور اس سے سوا اس میںنہ کسی فرقے کی تنگ نظری ہے، نہ کسی اور طرز کی جکڑبندی۔ عالمِ اسلام میں برپا جتنی اسلامی فکر کی تحریکیں ہیں وہ سب اس کی ہم نوا ہیں، اور اس کی فکر پر علمی انداز سے مقید ہونے کا الزام محلِ نظر ہے۔ ہاں اگر شریعتِ اسلامی کی حدود کو جو قرآن و حدیث کے مطابق ہیں، کوئی مقید فضا سے تعبیر کرے تو اسے Sweeping yemarks کے بجائے علمی دلائل سے اس الزام کو ثابت کرنا چاہیے۔ امید ہے یہ سطور بارِ خاطر نہیں ہوں گی۔ اگر فرائیڈے اسپیشل (جسارت) ہی میں اپنے اس الزام کو دلائل سے ثابت کریں تو جماعت اسلامی آپ کی اس رہنمائی کے لیے ممنون ہوگی۔ اگر آپ کے لیے یہ تجویز قابلِ عمل (بوجوہ) نہ ہو تو کم از کم ان ریمارکس پر غور کرکے اور ان کے مبنی برحقیقت ہونے پر خود ہی کو مطمئن کرلیجیے گا۔ یہ بھی آپ کا جماعت اسلامی پر احسان ہوگا۔
……پروفیسر عنایت علی خاں……
حساس موضوع پر سیرحاصل تحریر
آج کل بیشتر اخبارات و رسائل کیا ہیں؟ کاغذ پر تحریر محض الفاظ کا مجموعہ اور کیا؟ بے جان سطریں نہیں، حقیقت کا بیان اور حقیقتاً مفہوم پڑھنے کو ملتا ہے، مبالغہ نہیں ایک سچائی کا اعتراف ہے، اس روایت کا سرا شاہنواز فاروقی سے ملتا ہے۔
دور کیوں جاتے ہیں، گزشتہ مہینے کی بات ہے غالباً 3نومبر کی اشاعت میں مضمون اگرچہ ادارتی صفحے پر تھا لیکن جناب کیا کہنے، شاہنواز فاروقی نے خودکشی کے عنوان سے تحریر میں موضوع کی اصل حقیقت بیان کردی۔ خودکشی کے اسباب و علاج کرنے کے دعوے دار ماہرین نفسیات کی کمرشل مہارت، تدبیر و تقدیر، خدائی قوانین، خیالات کی اونچ نیچ معاشرتی حقائق بھی خوب واضح کئے مدتوں بعد ایسے حساس موضوع پر سیر حاصل تحریر پڑھنے کو ملی۔
خودکشی کا رجحان خطرناک ہے تو اس کے اسباب اور بھی ہولناک۔ اچھے بھلے فطری انداز میں قدرت کے قوانین سے رہنمائی حاصل کرکے سفر کرنے والے معاشرے کو اپنے ہاتھوں سے ستیاناس کرکے آج انسان عطار کے لونڈے سے دوا مانگتا پھرتا ہے اوپر سے رہی سہی کسر یہ ماہرین نفسیات نے پوری کردی، بتاتے ہیں کہ آدمی خودکشی اس وقت کرتا ہے جب وہ ڈپریشن، ٹینشن، اینگزائٹی کا شکار ہوجاتا ہے۔ سادہ بات کا گھما پھرا کر جواب دینے والوں سے کوئی پوچھے کہ یہ ٹینشن، ڈپریشن، اینگزائٹی کیسے آکاس بیل بن کر انسان سے لپٹ جاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہی بیماریوں کو نئے نام اور نئے انداز سے وجہ بناکر بتائیں گے، سوال کرنے والے کا منہ بند کرنا، یا مرعوب کرنا مقصود ہو تو انسانی دماغ میں کچھ مخصوص کیمیکلز کے تناسب بگڑنے کی خبردیں گے، پوچھا جائے کہ انسان بھی صدیوں سے ہے اور اس کے جسم میں موجود یہ کیمیکلز بھی، تب خودکشیاں اتنی عام کیوں نہیں تھیں؟ ایک کے عبد ایک جواب نما وضاحت تو سننے کو ملے گی لیکن کتنے ماہر نفسیات یہ بتاتے ہیں کہ ہر وقت مال کمانے، دوسروں کو دیکھ کر، دوسروں کو دھکیل کر آگے بڑھنے میں صبح و شام بولائے بولائے پھرتے رہنا ایک روحانی و نفسیاتی بیماری ہے، یہ پہلے روح، پھر خیالات، اس کے بعد جذبات اور آخر میں جسم کو بھی مریض بناکر چھوڑتی ہے۔
……محمد اسعد الدین……