پاکستان میں گلوبل ہیلتھ سمٹ کے انعقاد کا اعلان

کراچی میں ہونے والی گلوبل ہیلتھ سمٹ سے متعلق ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کہا ہے کہ پاکستان میں عالمی سطح کے طبی ماہرین موجود ہیں، تاہم گلوبل ہیلتھ سمٹ کی بدولت ملک میں جدید ٹیکنالوجی کی ترسیل اور اس کے ٹیکنیشنز سے استفادہ کرسکیں گے۔ کانفرنس کے پہلے حصے کا انعقاد کراچی کے مقامی ہوٹل میں 24 سے 26 دسمبر تک کیا جائے گا، جبکہ کانفرنس کے دوسرے مرحلے کا انعقاد اسلام آباد میں 28 اور 29دسمبر کو کیا جائے گا، جس میں نوجوان پروفیشنلز کو میڈیکل، سرجیکل، فارما سوٹیکل اور ڈینٹل سے متعلق کیریئر گائیڈنس دی جائے گی۔ کانفرنس میں ہیلتھ کیئر پیشے سے متعلق مختلف شعبوں کے تفصیلی سیشنز کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ اس کے ثمرات سے پاکستان سمیت خطے کے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ میڈکس انٹرنیشنل یونائیٹڈ نیشن کی تسلیم شدہ باڈی ہے، جو پاکستان سمیت تنزانیہ، عراق، گریک، ہیٹی، فاسو اور برکیہ میں انسانیت کی خدمت کے جذبے کے تحت ہیلتھ کیئر کی سہولیات فراہم کررہی ہے۔ آئندہ کنونشن نیویارک میں فاؤنڈیشن کی سلور جوبلی کے حوالے سے ہوگا، جس کا انعقاد پاکستان کے مختلف میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ہم خیال تارکین وطن پاکستانی ڈاکٹروں کی جانب سے کیا جائے گا۔میڈکس انٹرنیشنل کی بنیاد نیویارک میں رکھی گئی تھی، جسے بعد میں گلوبل ہیلتھ کیئر ریلیف آرگنائزیشن کا درجہ دے دیا گیا۔

آپ کا اسمارٹ ٹیلی ویژن بھی آپ کی جاسوسی کرسکتا ہے

ایک حالیہ رپورٹ میں امریکی تفتیشی ادارے ’’ایف بی آئی‘‘ نے صارفین کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی جدید قسم کا اسمارٹ ٹیلی ویژن ہے تو وہ بظاہر انہیں تفریح فراہم کرتے ہوئے ان کی جاسوسی بھی کرسکتا ہے۔ بتاتے چلیں کہ اسمارٹ فون کی طرح اسمارٹ ٹی وی بھی ہر وقت انٹرنیٹ سے رابطے میں ہوتا ہے جسے ہم اپنی آسانی کے لیے ایک ’’تفریحی کمپیوٹر‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسمارٹ ٹی وی کا اپنا آپریٹنگ سسٹم ہوتا ہے، جبکہ وہ اضافی طور پر کیمرے اور مائیکرو فون سے بھی لیس ہوتا ہے۔ ایف بی آئی اور دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے کیے گئے حالیہ تجزیوں سے معلوم ہوا ہے کہ اسمارٹ ٹیلی ویژن میں سیکورٹی کے حوالے سے کئی خامیاں موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی بھی ہیکر آپ کے اسمارٹ فون کا سسٹم ’’اغوا‘‘ کرسکتا ہے۔ اس طرح بہت ممکن ہے کہ ایک طرف آپ اپنے اسمارٹ ٹی وی پر کوئی فلم دیکھ رہے ہوں تو اس دوران وہی اسمارٹ ٹی وی (اپنے کیمرے اور مائیکروفون کی مدد سے) خفیہ طور پر آپ کی ساری ریکارڈنگ کرتے ہوئے کسی دور دراز ہیکر کو بھیج رہا ہو۔ علاوہ ازیں، یہ بھی ممکن ہے کہ اگر آپ اسمارٹ ٹیلی ویژن کی مدد سے آن لائن فلمیں خرید کر دیکھ رہے ہیں تو کوئی ہیکر آپ کے بینک اکاؤنٹ پر بھی حملہ آور ہوسکتا ہے۔ ایف بی آئی کی مذکورہ رپورٹ میں خاص طور پر یہ نکتہ اجاگر کیا گیا ہے کہ اسمارٹ ٹیلی ویژن میں سیکورٹی اور پرائیویسی کے اقدامات پر خصوصی توجہ نہیں دی جاتی، لہٰذا وہ ہیکرز کے لیے آسان ہدف ثابت ہوسکتے ہیں۔
ویسے تو کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اسمارٹ فون، اسمارٹ واچ اور انٹرنیٹ سے ہر وقت منسلک رہنے والے آلات کی ہیکنگ کوئی عجیب و غریب بات محسوس نہیں ہوتی، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب اسمارٹ ٹیلی ویژن کے ذریعے جاسوسی کا خدشہ سامنے آیا ہے۔ امید ہے کہ اسمارٹ ٹی وی بنانے والی کمپنیاں اپنے آئندہ ڈیزائنز میں اس پہلو پر بھی توجہ دینا شروع کردیں گی۔

برے خواب ہمیں حقیقی مسائل سے لڑنے کے لیے تیار کرتے ہیں، تحقیق

یونیورسٹی آف جنیوا، سوئٹزرلینڈ کے ماہرینِ اعصابیات نے سو سے زائد رضاکاروں پر تحقیق کرنے کے بعد کہا ہے کہ وہ لوگ جنہیں برے خواب دکھائی دیتے ہیں، وہ آنے والے دنوں میں حقیقی دنیا میں درپیش مسائل کا سامنا کرنے کےلیے بہتر طور پر تیار ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے دوران پہلے مرحلے میں حساس ای ای جی (دماغ کی سرگرمی ناپنے والے آلے) کی مدد سے 18 رضاکاروں کے دماغوں میں نیند کے دوران ہونے والی سرگرمیوں کا مطالعہ کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ’’انسولا‘‘ اور ’’سنگولیٹ کورٹیکس‘‘ نامی دو دماغی حصے بھی خوف کے احساس پر ردِعمل دے رہے تھے اور ان میں سرگرمیاں بڑھ رہی تھیں۔
احساسات، جذبات اور خوف پر قابو پانے کے معاملے میں دماغی حصے ’’ایمگڈالا‘‘ کا کردار پہلے ہی سے معلوم شدہ ہے، لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ جب اس ذیل میں دو مزید حصوں کی سرگرمی بھی سامنے آئی تھی۔
جاگنے کے دوران اعصابی دباؤ/ تناؤ بڑھنے پر ’انسولا‘ میں سرگرمی بڑھ جاتی ہے جبکہ یہ جذبات کا تجزیہ کرنے میں بھی سرگرم رہتا ہے۔ دوسری طرف ’سنگولیٹ کورٹیکس‘ بھی جاگنے کے دوران ہمیں جسمانی طور پر خطرات کا سامنا کرنے کےلیے تیار کرتا ہے۔ برے خوابوں کے دوران یہ دونوں حصے سرگرم تھے، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ خواب دیکھنے والے کو صرف منفی جذبات و احساسات کا مشاہدہ ہی نہیں ہورہا بلکہ وہ حقیقی زندگی میں بھی اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے ’’ریہرسل‘‘ کررہا ہے۔ اگلے مرحلے میں ایسا ہی ایک اور مطالعہ مزید 89 رضاکاروں پر کیا گیا، جس میں ایم آر آئی مشین استعمال کرتے ہوئے ان کی دماغی سرگرمیاں جانچی گئیں۔ رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ پورے ہفتے تک اپنے خوابوں کی باقاعدہ ڈائری لکھیں۔ اس کے بعد انہیں جاگتی حالت میں ایم آر آئی مشین میں لٹایا گیا اور کچھ ڈراؤنی تصویریں دکھا کر دماغ میں پیدا ہونے والا ردِعمل نوٹ کیا گیا۔ وہ لوگ جنہیں اس ہفتے کے دوران برے برے خواب زیادہ آئے تھے، ڈراؤنی تصویریں دیکھنے پر ان کے ایمگڈالا، انسولا اور سنگولیٹ کورٹیکس میں پیدا ہونے والی سرگرمی بہت کم تھی، جو یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ ذہنی و اعصابی طور پر خوف کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔اس کے برعکس وہ رضاکار جنہوں نے پورے ہفتے کے دوران برے خواب نہیں دیکھے تھے (یا سرے سے کوئی خواب ہی نہیں دیکھا تھا) ان کے مذکورہ تینوں دماغی حصوں میں ڈراؤنی تصویریں دیکھ کر بہت زیادہ سرگرمی پیدا ہوئی۔ یعنی وہ ان تصویروں کو دیکھ کر نہ صرف خوفزدہ ہوئے بلکہ ان کے اعصاب بھی اسی وقت خود کو خوف کے احساس سے بچانے کے لیے تیار کرنے لگے۔ خوابوں اور حقیقی زندگی میں تعلق آج نفسیات اور اعصابیات (نیورولوجی) میں ایک طے شدہ حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ البتہ، اس میدان میں ہماری پیش رفت خاصی سست ہے کیونکہ دماغ، انسانی جسم کا سب سے پیچیدہ عضو ہے جسے ہم آج تک مکمل طور پر نہیں سمجھ پائے ہیں۔ اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’ہیومن برین میپنگ‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔