ابوسعدی
شیخ فخر الدین ابراہیم نام اور عراقی تخلص کرتے تھے۔ ان کے والد کا نام بعض حوالوں میں بزرجمہر اور بعض میں شہریار لکھا گیا ہے۔ ہمدان کے ایک قصبے کمجان یا کمیحان میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں ہمدان میں تعلیم حاصل کی، پھر روحانیات کی تعلیم کے لیے بغداد چلے آئے اور شیخ شہاب الدین سہروردی سے روحانیت کی منزلیں طے کیں۔ انہوں نے ہی ان کا تخلص عراقی تجویز کیا اور برصغیر میں جانے کا مشورہ دیا۔ ایک روایت کے مطابق عراقی قلندروں کی ایک جماعت کے ساتھ ملتان آئے اور بہاء الدین زکریا ملتانی کے پاس ٹھیرے۔ یہاں سے دہلی آئے، کچھ عرصے بعد پھر ملتان آگئے اور یہاں ان کی شادی بہاء الدین زکریا ملتانی کی بیٹی سے ہوئی۔ پچیس سال تک ملتان ہی میں مقیم رہے۔ اس تمام عرصے میں انہوں نے اپنی روحانی واردات کو فارسی شعر میں قلم بند کیا ہے۔ ملتان سے عازم حجاز ہوئے تو مکہ معظمہ میں ایک طویل قصیدہ لکھا۔ مدینہ منورہ میں پانچ قصیدے حضورؐ کی نذر کیے۔ یہاں سے روم میں قونیہ پہنچے اور شیخ صدر الدین قوینی سے روحانی تربیت حاصل کی۔ یہیں پر انہوں نے اپنی نثری تصنیف ”لمعات“ مکمل کی۔ وہ مصر بھی گئے، بالآخر دمشق میں پہنچے اور یہیں پر 688ھ میں وفات پائی۔ یہاں ان کا مزار محی الدین ابن عربی کے مزار کے عقب میں ہے۔ اقبال کے نزدیک عراقی اُن ابتدائی شعرا میں سے ایک ہیں جنہوں نے ابن عربی کے خیالات کو فارسی شاعری میں پیش کیا۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
صبر
٭صبر میں کوئی مصیبت نہیں اور رونے میں کچھ فائدہ نہیں۔ (حضرت ابوبکرصدیقؓ)۔
٭طمع کرنا مفلسی، بے غرض ہونا امیری اور بدلہ نہ چاہنا صبر ہے۔ (حضرت عمر فاروقؓ)۔
٭ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جلد باز نقصان نہ اٹھائے، اور ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ صبر کرنے والا کامیاب نہ ہو۔ (حضرت علیؓ)۔
٭مخلوق کی اذیت پر صبر کرنا منجملہ علامات ولایت ہے۔(ابوالحسن خرقانیؒ)۔
٭دین کی اصل عقل، عقل کی اصل علم، اور علم کی اصل صبر ہے۔(حضرت فضیلؒ)۔
٭زمانے کی گردش سے دل شکستہ ہوکر نہ بیٹھ، اس لیے کہ صبر اگرچہ کڑوا ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہے۔ (شیخ سعدیؒ)۔
٭اپنی موجودہ حالت پر قناعت کرو اور صبر و شکر کی زندگی اختیار کرو۔ (بطلیموس)۔
٭حقیقی صبر اس کو کہتے ہیں کہ مصیبت آنے کو ایسا سمجھے جیسا کہ اس کے جانے کو سمجھتا ہے۔ (ابوالحسین نوری)۔
٭کوئی فلاسفر ایسا نہیں گزرا جو دانت کے درد کو بھی صبر سے برداشت کرسکے۔(شیکسپیئر)۔
حکایت: بدعقیدہ آدمی
ایک شخص گھر میں بے روزگاری سے تنگ آکر سفر کو نکلا اور قطب صاحب کے مزار پر جاکر منت مانی کہ ’’اس سفر میں جو کچھ حاصل ہوگا اس میں سے آدھا آپ کے مزار پر چڑھائوں گا‘‘۔
اتفاق سے راہ میں چھواروں اور اناروں کی ایک تھیلی پڑی پائی۔ اس شخص نے مزے سے چھوارے اور انار کھائے اور چھواروں کی گٹھلیاں اور اناروں کے چھلکے لاکر قطب صاحب کے مزار پر چڑھا دیے اور کہا ’’یا حضرت میں نے اپنی منت پوری کی، جو مجھ کو ملاتھا اس کا آدھا آپ کی نذر کیا‘‘۔
حاصل: بدعقیدہ آدمی خدا سے بھی نہیں چوکتا۔
(نذیر احمد دہلوی، منتخب الحکایات)