نسل پرستی کی کہانیاں،روجر۔ایفرو امریکن یا ’’کلرڈ‘‘ لڑکا

پروفیسر اطہر صدیقی
۔(نوٹ از مترجم: اس کہانی کو اس تناظر میں پڑھنا ضروری ہے کہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں کالے گورے کے درمیان نسل پرستی یا تفریق بہت گہری ہے۔ سفید فام لوگ کلرڈ لوگوں کے ساتھ بیٹھنا، اٹھنا یا ایک ہی ہوٹل میں کھانا، یا ایک ہی بستی میں رہنا تک پسند نہیں کرتے۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ اُس وقت ہوا جب آج سے ساٹھ برس پہلے میں تعلیم کے لیے امریکہ کے جنوبی شہر نیواورلینس گیا تھا۔ اس نسلی تفریق کے مدنظر میں بھی کلرڈ سمجھا گیا اور وہاں مجھے رہنے کو کمرہ یا کوئی ٹھکانا نہیں مل سکا تھا۔ تفصیل حال ہی میں شائع میرے سفرناموں پر مشتمل کتاب ’’لذتِ آبلہ پائی‘‘ میں ’’امریکہ میں تین سال‘‘ ملاحظہ کیجیے۔ (لذت آبلہ پائی۔ 2016ء، ناشر ابن سینا اکیڈمی، علی گڑھ)۔
……٭٭٭……

(اب کہانی ملاحظہ ہو)
میرا بیٹا اسکول میں پہلی کلاس میں داخلے کے ایک ہفتے کے بعد گھر آیا اور مجھے خبر دی کہ روجر، کلاس میں اکلوتا ایفرو امریکن لڑکا اس کا کھیل کے میدان کا ساتھی ہے۔ میں نے گھونٹ بھر کر سنا اور پوچھا ’’یہ تو بہت اچھا ہے۔ کتنے عرصے بعد وہ کسی اور کا کھیل کا ساتھی بنے گا؟‘‘
’’اوہ، وہ میرا ہمیشہ کے لیے ساتھی رہے گا‘‘۔ بل نے جواب دیا۔
ایک اور ہفتے بعد، مجھے خبر ملی کہ بل نے دریافت کیا کہ کیا روجر اس کے ساتھ ایک ہی ڈیسک پر بیٹھ سکتا ہے؟ اگر آپ امریکہ کی ٹھیٹھ جنوبی اسٹیٹس میں پیدا ہوئے اور پرورش نہیں پائی، جیسے میں، تو آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوگا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے ٹیچر سے ملنے کا وقت لیا۔ وہ ملی اور کچھ قنوطی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بولی ’’میرے خیال میں آپ بھی اپنے بیٹے کے لیے ایک نیا ڈیسک پارٹنر چاہتی ہیں۔‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا آپ کچھ انتظار کرسکتی ہیں؟ ایک اور والدہ ابھی ملنے آرہی ہیں‘‘۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا جو میری ہی عمر کی ہوگی۔ میرا دل دھڑک رہا تھا جب میں نے محسوس کیا کہ یہ ضرور روجر کی ماں ہوگی۔ وہ ایک خاموش، باوقار اور پُراعتماد عورت لگتی تھی لیکن اس کے سوالات کرنے میں جو خوف اور اندیشہ تھا وہ اس کی ذاتی خوبیوں سے ماورا تھا۔ میں نے اس کے سوالات کو سنا۔ ’’روجر کیسا چل رہا ہے؟ مجھے امید ہے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل گیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو مجھے ضرور بتادیجیے‘‘۔ وہ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد بولیں ”کیا وہ کسی قسم کی مشکل کا سامنا تو نہیں کررہا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ اس کو ڈیسک بار بار بدلنے کی ضرورت پڑرہی ہے نا؟‘‘
میں اس کے تنائو کو محسوس کررہی تھی، اس لیے کہ وہ جواب جانتی تھی۔ لیکن مجھے پہلی کلاس کی استاد کے مناسب جواب سے فخر محسوس ہوا، اس نے جواب دیا ’’نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں پہلے چند ہفتے سارے بچوں کے ڈیسک بدلتی رہتی ہوں، اُس وقت تک جب تک ہر ایک کو صحیح پارٹنر نہ مل جائے‘‘۔
میں نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ میرا بیٹا روجر کا نیا پارٹنر ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کریں گے۔ میرا یہ کہنا ایک اوپری دل سے یا سطحی سی خواہش کا اظہار تھا، نہ کہ دل سے کہی ہوئی بات۔ لیکن اس سے اُس کو تسلی ہوئی، میں یہ محسوس کرسکتی تھی۔
بل نے روجر کو دو مرتبہ گھر پر مدعو کیا لیکن میں نے بہانہ بنادیا۔ تب مجھے ایسی دلی تکلیف ہوئی جو میں ہمیشہ محسوس کرتی رہوں گی اور کبھی بھلا نہیں سکوں گی۔
میری سالگرہ کے دن بل اسکول سے گھر آیا تو ایک میلے سے کاغذ کا ایک ٹکڑا جو تہ کرکے چھوٹا سا مربع بنادیا گیا تھا، مجھے دیا۔ میں نے اس کو کھول کر دیکھا تو اس میں تین پھول تھے اور رنگین پینسلوں سے لکھا تھا ’’سال گرہ مبارک ہو‘‘۔ اور ایک نکل (امریکن ڈالر میں پانچ سینٹ کے سکے کو ’’نکل‘‘ کہتے ہیں) بھی تھا۔
’’یہ روجر کی طرف سے ہے‘‘ بل نے بتایا۔ ’’اور اس نے کہا کہ آج آپ کی سال گرہ ہے، یہ اس نے مجھے دیا کہ میں آپ کو دے دوں۔ اس نے مزید یہ بھی کہا کہ آپ اس کی دوست ہیں کیوں کہ ’’آپ ہی ایک ایسی ماں ہیں جس نے اسے کوئی اور ڈیسک پارٹنر بدلنے کے لیے نہیں کہا‘‘۔
ہمیں لوگوں کے متعلق ان کی نسل، رنگ، قومیت، مذہب، جنس یا قدو قامت کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
……٭٭٭……
مجھے حال ہی میں کسی نے ایک چھوٹی سی نظم بھیجی تھی، جو کسی افریقی بچے کی لکھی ہوئی ہے۔ اس نظم کو 2005ء کی بہترین نظم قرار دیا گیا تھا۔ یہاں اس کہانی کے پس منظر میں اسے اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ اس نظم کو پڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیے گا کہ سفید فام لوگ تمام غیر سفید فام اور افریقی افراد کو ’’کلرڈ‘‘ (Coloured) کہتے ہیں۔ اب نظم پڑھیے۔

کلرڈ

جب میں پیدا ہوا تو میں سیاہ فام
جب میں بڑا ہوا تو میں سیاہ فام
جب میں دھوپ میں گیا تو میں سیاہ فام
جب میں خوف زدہ ہوا تو میں سیاہ فام
جب میں بیمار ہوا تو میں سیاہ فام
جب میں مرا تب بھی میں سیاہ فام
اور تم سفید فام لوگو
جب تم پیدا ہوئے تو پنک
جب بڑے ہوئے تو سفید فام
جب تم سورج میں گئے تو، لال پڑ گئے
جب تمہیں ٹھنڈ لگی تو تم نیلے پڑ گئے
جب تم خوف زدہ ہوئے تو پیلے پڑگئے
جب تم بیمار پڑے تو تم ہرے پڑ گئے
جب تم مرے تو خاکستری ہوگئے
اور تم مجھے ’’کلرڈ‘‘ کہتے ہو!!