ڈوبتا کشمیر اور “خاموش جنگ” کی خودفریبی

بھارتی ذہنیت کی کہانی۔ ایک جرنیل کے بعد سفارت کار کی زبانی

مسلم کشمیر ہندو بھارت کے جبڑوں میں ہے اور وہ اسے نگلنے میں مصروف ہے۔ پہلا وار کشمیر کی مسلمان شناخت کو ظاہر کرنے والی علامتوں پر کیا جارہا ہے۔ اگلا مرحلہ آبادی کے تناسب کی تبدیلی کا ہوگا۔ بھارت کی فوج اس سارے مرحلہ وار عمل کی چوکیداری کے لیے تعینات ہے۔ بھارت ایک وسیع تر مقصد کے لیے فوج کی چوکیداری کا معاشی نقصان برداشت کررہا ہے، اور ہم اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ خاموش جنگ لڑرہے ہیں۔ ہم نے بھارت کو ’’کچھ ہوجانے‘‘ کے خوف میں مبتلا رکھ کر اُس کے معاشی نقصان کا راستہ کھول دیا ہے اور اسے ایک خاموش جنگ سمجھ رہے ہیں۔ بھارت کشمیر میں ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے، جہاں اسے اپنے پانچ اگست کے فیصلے کی روشنی میں نئے راستوں اور نئی منزلوں کے سنگِ میل تراشنا ہیں۔ ہم جس بات کو ’’خاموش جنگ‘‘ سمجھ رہے ہیں وہ بھارت کی طرف سے اپنے فیصلے اور اقدامات کی چوکیداری کی قیمت ہے جسے وہ بخوشی قبول اور برداشت کررہا ہے۔ ماضی کے برعکس کشمیر آج کسی ملک کے جبر کا شکار نہیں بلکہ ایک ذہنیت کے جبڑوں میں پھنس گیا ہے، اور یہ ذہنیت مختلف اوقات میں مختلف انداز سے پیمانے سے چھلک رہی ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل بھارت کے ایک ٹی وی ٹاک شو میں فوج کے سابق جنرل ایس پی سہنا نے کشمیر میں فوج کی طرف سے خواتین کی عصمت دری کی حمایت کی تھی۔ ایس پی سنہا چیخ چیخ کر درندگی کی حمایت کرتے رہے، جب کہ پروگرام کی میزبان اور دیگر شرکاء بھی جنرل کے اس رویّے پر احتجاج کیے بنا نہ رہ سکے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھارتی جنرل کی اس وڈیو کو ٹویٹر پر اس تبصرے کے ساتھ اپ لوڈ کیا ہے کہ بھارتی جنرل کا مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے حوالے سے بیان شرمناک ہے۔جس طرح بھارتی فوج کو چھوٹ دی گئی ہے اس سے خواتین سے ہونے والے سلوک کا اندازہ ہوتا ہے۔
ایس پی سہنا بی جے پی کا سرگرم رکن بتایا جاتا ہے۔ بھارتی فوج کے جنرل اور بی جے پی کے رکن کے طور پر یہ بیان ایک شخص کے ذاتی خیالات نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ کے عکاس ہیں۔ اس وقت بھارتی فوج میں اسی ذہنیت کا غلبہ ہے اور اب یہی ذہنیت حکومتی سسٹم پر بھی غالب آگئی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی 1990ء کی دہائی کے اوائل میں ہی اپنائی تھی۔ اس سلسلے میں کنن پوش پورہ کا واقعہ رونما ہوا تھاجس میں بھارت کے وحشی فوجیوں نے ایک گائوں میں بارہ سال کی بچی سے اسّی سالہ خاتون تک کی عصمت دری کی تھی۔ یہ واقعہ بھارت کی جمہوریت اور سیکولرازم کے ماتھے پر کلنک کا ایسا ٹیکہ تھا جسے تین عشروں بعد دھویا نہ جا سکا۔ یہ واقعہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کا موضوع بنا تھا۔ اس کے بعد بھی بھارتی فوج نے خواتین پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب بھارتی فوج کا ایک ریٹائرڈ جنرل اس درندگی کا کھلے عام دفاع کررہا ہے تو اس میں اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی حکومت اور فوج مسلمانوں کی بدترین دشمنی کا شکار ہیں۔
برطانیہ کے معروف سیاسی راہنما جارج گیلوے دو روز قبل اسلام آباد میں ایک عالمی کشمیر سیمینار میں کہہ رہے تھے کہ بھارت میں نسلی جنون اور بالادستی میں مذہبی عنصر بھی شامل ہوگیا ہے اور یہ بات بھارت کو تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے، ہٹلر خالص نازی نسل پرستی میں مبتلا تھا۔ اس کی قوم پرستی اور نسل پرستی میں مذہب کا عنصر شامل نہیں تھا۔ اس کے برعکس مودی کی نسل پرستی فی الحقیقت ہندوازم، ہندو پرستی، بالادستی اور غلبے کا نام ہے۔ وہ ہندوئوں کے سوا کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو زندہ رہنے کا حق دینے کا روادار نہیں۔ مودی کشمیر کی اسلامی شناخت کو بدل کر اسے ہزاروں سال پرانی ہندو شناخت کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے۔ اس جنونی سوچ میں مسلمانوں کا قتلِ عام بھی کیا جا سکتا ہے اور خواتین سمیت سوسائٹی کے مختلف طبقات پر مظالم کا سلسلہ بھی دراز ہوسکتا ہے۔ اسی لیے کشمیر کی اسلامی شناخت کے حامل تمام ناموں کو ہندو دیوتائوں اور انتہا پسندوں کے ناموں سے بدلنے کی ایک مہم بہت آہستہ روی سے شروع کردی گئی ہے۔
بھارتی جنرل کے بیان کی گونج ابھی فضا میں موجود ہی تھی کہ امریکہ میں بھارت کے قونصلر سندیپ چکرورتی کے منہ سے کشمیر کے حوالے سے سچ اُگل پڑا۔ یہ ایک بیان ہی نہیں ایک ذہنیت کی پوری کہانی ہے۔ ایک طویل المیعاد منصوبے کی دیگ کا محض ایک دانہ ہے۔ یہ خواہش کے ایک ایسے شجر کے برگ و بار ہیں جس کی جڑیں پانچ ہزار سال قدیم اور ’’کشپ رشی‘‘ کے ہندو کشمیر کے تصور میں دفن ہیں۔ بھارتی قونصلر نے امریکہ میں مقیم کشمیری پنڈتوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بہت کھل کر ان عزائم کو یوں بیان کیا ہے:
’’اگر اسرائیل فلسطین میں یہودیوں کی نئی بستیاں آباد کرسکتا ہے تو بھارت کشمیر میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا! ہم کشمیری پنڈتوں کو اسرائیلی طرز پر وادی میں بسانے کا ایک منصوبہ رکھتے ہیں، مگر حکومت کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے کچھ وقت دینا ہوگا، جب کشمیر میں سیکورٹی کی صورتِ حال بہتر ہوگی تو پناہ گزینوں کی واپسی شروع ہوجائے گی اور پنڈت اپنی زندگی میں واپس آنے کے قابل ہوں گے۔ ہم اس کا ماڈل دنیا میں رکھتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں بسنے والے کشمیری پنڈتوں کو اگر اپنا کلچر چھن جانے کا خوف ہے تو بھی انہیں یہودیوں کی مثال سامنے رکھنا ہوگی جو دوہزار سال تک اپنے وطن سے باہر رہے مگر اپنے کلچر کو بچائے رکھا، یہاں تک کہ وہ وقت آن پہنچا جب انہیں اپنی سرزمین واپس مل گئی۔ اس لیے اپنی سرزمین سے باہر رہتے ہوئے اپنا کلچر بچانے کا طریقہ یہودیوں سے ہی سیکھنا چاہیے۔ ہمیں کشمیری کلچر کو زندہ رکھنا ہے جو ہندو کلچر ہے، انڈین کلچر ہے۔‘‘
دنیا کے اہم ملک میں بھارت کے ایک اہم سفارت کار کے یہ خیالات شیوسینا کے کسی نعرہ باز دیوانے کی بڑ اور نعرۂ مستانہ نہیں کہلا سکتے۔ یہ ریاست کے اندر پلنے والے ہندو ذہن کا ایکسرے ہے۔
کشمیر میں بھارتی عزائم اور ارادوں کو طویل المیعاد قرار دینے والوں کی کمی نہیں رہی، مگر ایک خوش فہم حلقہ ہمیشہ اس سوچ میں خوش رہا کہ بھارت کشمیر کی کشمیریت اور کشمیریوں کی سیاسی اور تہذیبی شناخت کا محافظ ہے اور بن کر رہے گا۔ یہی خوش فہم عناصر یہ سمجھتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان کی نسبت سیکولر ہندو جمہوریہ بھارت کے ساتھ رہنے سے کشمیر کا مخصوص اور منفرد کلچر زیادہ محفوظ ومامون رہ سکتا ہے۔ لیکن یہ محض خام خیالی ثابت ہوئی اور بھارت نے کشمیر پر قبضے کے بعد ہی اس کی الگ شناخت اور شناخت کی علامتوں کو مٹا ڈالنے کی حکمت عملی اپنالی تھی۔ بھارت کشمیر کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ اور مہا بھارت کا حصہ سمجھتا تھا۔ اس حتمی منزل تک پہنچنے کے لیے حکمت و مصلحت کے تحت کبھی سبک رفتاری سے اور کبھی خراماں خراماں سفر جاری رکھا گیا۔ اب بھارت نے ان تمام قوانین اور مواعید کو دریائے جہلم میں بہاکر کشمیر کی ’’ہندووائزیشن ‘‘کی راہ کی آخری رکاوٹوں کو بھی غرقاب کردیا ہے۔ دفعہ 370 اورآرٹیکل35-Aکا خاتمہ ان رکاوٹوں کا ’’کریا کرم‘‘ ثابت ہوا۔ اب بھارت اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر کو سلطان زین العابدین اور سلطان شہاب الدین کے مسلم سلاطین کے دور سے کاٹ کر کشپ رشی اور ہندومت کے کشمیر سے جوڑنے کے لیے عملی اقدامات کا وقت آگیا ہے۔ اس کے لیے آبادی کا تناسب تبدیل کرنا سب سے آسان طریقہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو ہمارے لیے ’’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘‘کے مصداق ہے۔ اس لمحے کے آنے سے قبل پاکستان، آزاد کشمیر، بیرونی دنیا میں بسنے والے کشمیری و پاکستانی عوام کو اپنی مؤثر اور ٹھوس جوابی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ بصورتِ دیگر وقت ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک اور ’’سقوط ِغرناطہ‘‘کی منظرنگاری کرنے پر مجبور ہوگا، جس میں نصاب اور تاریخ میں فقط یہ پڑھایا جائے گا کہ کشمیر نام کی ایک مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی، شناخت، ثقافت اور تہذیب کو اپنوں کی بے عملی نے کس طرح وقت کے پیٹ کا ایندھن بنادیا تھا۔