ڈونلڈ ٹرمپ کا غیر اعلانیہ دورہ افغانستان

طالبان سے غیر سرکاری گفتگو کے آغاز کا انکشاف

امریکہ کے قومی تہوار ’’یوم تشکر‘‘(Thanksgiving)کے موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا۔ اس دورے کو خفیہ رکھنے کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ ان کے آفس نے بتایا تھا کہ امریکی صدر یہ تہوار اہلِ خانہ اور قریبی احباب کے ساتھ فلوریڈا میں اپنے پُرتعیش گالف کورس پر منائیں گے۔ بدھ کی شام واشنگٹن سے ان کی فلوریڈا روانگی کی بڑے پیمانے پر تشہیر کا اہتمام کیا گیا۔ اسی شام وہائٹ ہائوس نے مخصوص صحافیوں کو خصوصی دعوت پر واشنگٹن طلب کیا۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ صحافیوں کے ساتھ یوم تشکر ڈنر تناول کرنا چاہتے ہیں۔ فلوریڈا میں صدر کا طیارہ کھڑا رہا اور رات گہری ہوجانے پر امریکی صدر ایک اور طیارے میں واپس واشنگٹن آئے، جہاں ایک خصوصی طیارہ پرواز کے لیے تیار تھا۔ صدر ٹرمپ اپنے طیارے سے اترتے ہی اس فوجی جہاز پر سوار ہوگئے۔ دوسری طرف ڈنر کے لیے جمع ہونے والے صحافیوں کے موبائل فون صدر کے عملے نے اپنے قبضے میں لے لیے۔ اخباری نمائندوں کو بتایا گیا کہ ایک اہم غیر ملکی دورے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا ہے، جس کے بعد ان صحافیوں کو بھی جہاز پر پہنچادیا گیا۔ جہاز کی بتیاں بند تھیں اور مسافروں کو کھڑکی کے پردے اوپر کرنے کی اجازت نہ تھی۔ 21 گھنٹے کی طویل پرواز کے بعد یہ جہاز 28 نومبر کو نصف شب سے ذرا پہلے افغانستان میں بگرام کے امریکی اڈے پر اترا اور صدر ٹرمپ سمیت تمام مسافر تیزی سے ائرپورٹ کے ہینگر میں داخل ہوگئے، جہاں 1500 امریکی فوجی موجود تھے۔ بگرام کا سارا انتظام امریکی فوجیوں نے سنبھالا ہوا تھا۔ ہینگر کو مسلح امریکی سپاہیوں نے گھیر رکھا تھا اور اس میں داخل ہونے والے دروازے کے دونوں طرف ریت کی بوریوں کی دیوار کھڑی کی گئی تھی۔
صدر کے آنے سے پہلے خصوصی عشایئے کے انتظامات مکمل کرلیے گئے تھے اور جناب ٹرمپ کے وہاں آتے ہی لذتِ کام و دہن کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈنر کی رسم کو تیزی سے نبٹانے کے بعد صدر خطاب کے لیے اسٹیج پر تشریف لائے جو مسلح سپاہیوں کے حصار میں تھا۔ ان غیر معمولی حفاظتی پیش بندیوں کے ساتھ صدر کے روسٹرم کے آگے ریت سے بھری بوریوں کی ایک دیوار کھڑی کی گئی تھی۔ اسی دوران افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی بھی وہاں پہنچ گئے۔ کابل کے عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی سونے کے لیے اپنی خواب گاہ جاچکے تھے، عین وقت پر امریکی کمانڈر نے فون کرکے انھیں بتایا کہ ایک اہم ’شخصیت‘ بگرام اڈے پر اُن سے ملاقات کی خواہش مند ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی بگرام پہنچنے سے پہلے یہ نہیں معلوم تھا کہ امریکی صدر وہاں موجود ہیں۔
جوانوں سے خطاب کے بعد صدر ٹرمپ نے کچھ دیر وہیں اشرف غنی سے گفتگو کی اور واپسی کے لیے جہاز پر سوار ہوگئے۔ صدر ٹرمپ 20 گھنٹے کا سفر کرکے افغانستان آئے اور صرف ڈھائی گھنٹہ وہاں گزارنے، یا یوں کہیے کہ دہلیز کو چھونے کے بعد واپس چلے گئے۔
امریکی صدر کے سفر کی اس تفصیلی روداد کا ہمارے مضمون سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، لیکن اس کا مقصد قارئین کو بتانا تھا کہ امریکہ بہادر نے 18 سال کے دوران دنیا کے سب سے بڑے غیر جوہری بم سمیت ہر تباہ کن اسلحہ کا افغانستان پر تجربہ کرلیا لیکن قوتِ قاہرہ کے اس بے دریغ استعمال کے باوجود آج تک وہ بگرام کو بھی اتنا محفوظ نہ بناسکے کہ امریکی فوج کا کمانڈر انچیف یومِ تشکر کے موقع پر اطمینان سے وہاں روایتی فیل مرغ (Turkey) کی دعوت اڑا سکے۔
یہی وجہ تھی کہ امریکی فوج کے اعلیٰ افسران تو ڈسپلن کی وجہ سے اپنے چہروں پر بالجبر سنجیدگی طاری کیے رہے، لیکن ڈاکٹر اشرف غنی کی لاف زنی اور شیخی پر صدر ٹرمپ کے ساتھ آئے امریکی صحافی اپنی مسکراہٹ پر قابو نہ رکھ سکے۔ ڈاکٹر صاحب نے منہ سے جھاگ اڑاتے اپنے خطاب میں طالبان، القاعدہ اور داعش کا نام و نشان مٹا دینے کا دعویٰ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی صورت حال پوری طرح قابو میں ہے اور اب سارے ملک پر کابل انتظامیہ کی گرفت ناقابلِ تسخیر ہے۔ اس شعلہ بیانی کے ساتھ انھوں نے صدر ٹرمپ کی خوشامد کا موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اور امریکی صدر کو تعریفی انداز میں دیکھتے ہوئے بولے ’’صدر صاحب! داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے سے بڑا کارنامہ ہے‘‘۔ اسامہ بن لادن صدر اوباما کے دور میں مارے گئے تھے۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں امریکی فوجیوں کی شجاعت اور حب الوطنی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ طویل سفر کرکے یہاں آئے ہیں، لیکن ان کے خیال میں یومِ تشکر کے لیے افغانستان سے بہتر کوئی جگہ نہیں، کہ دنیا کے سب سے بہادر، دلیر، باحوصلہ اور پُرعزم جنگجو یہاں موجود ہیں۔ بظاہر تو ان تعریفی کلمات کے مخاطب ان کے فوجی جوان تھے، لیکن عسکری تجزیہ نگاروں کے خیال میں طالبان کی جنگی صلاحیتوں کا بلا واسطہ اعتراف ستمبر کے توہین آمیز ٹویٹ کا کفارہ ادا کرنے کی ایک کوشش تھی۔ تقریباً تین ماہ پہلے جب امریکہ اور طالبان کے درمیاں امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہوچکا تھا، 5 ستمبر کو کابل میں خودکش دھماکے کو بنیاد بناکر صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات معطل کردیے۔ نیٹو فوج کے قافلے پر حملے میں ایک امریکی اور رومانیہ کے ایک سپاہی سمیت 10 افراد مارے گئے جن کی اکثریت کا تعلق کابل انتظامیہ کے خصوصی دستے سے تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ’’کابل حملے میں ہمارے ایک عظیم جنگجو سمیت 10 افراد مارے گئے جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی ہے۔ اگر طالبان جنگ بندی نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب ہے اُن میں امن مذاکرات کی صلاحیت ہی نہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو سودے بازی کے لیے لوگوں کو قتل کررہے ہیں!‘‘ انھوں نے دھمکی آمیز انداز میں دریافت کیا کہ طالبان اور کتنی دہائیوں تک لڑسکتے ہیں؟
بگرام میں امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے انکشاف کیا کہ طالبان سے غیر اعلانیہ اور غیر سرکاری گفتگو کا آغاز ہوچکا ہے۔ امریکہ معاہدے سے پہلے جنگ بندی کی شرط پر اصرار کررہا ہے۔ انھیں توقع ہے کہ بات چیت کا نیا دور نتیجہ خیز ہوگا اوراس بار (طالبان سے) شاید معاملات طے پاجائیں۔ صدر ٹرمپ کی تقریر میں افغان صدارتی انتخابات کا کوئی ذکر نہ تھا اور نہ ہی انھوں نے افغان حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا کوئی وعدہ کیا۔ امن مذاکرات کے بارے میں امریکی صدر کی اس اطلاع کی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق تو کی لیکن احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ امن کے بارے میں توقعات اور خدشات دونوں ہی قبل از وقت ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ باضابطہ مذاکرات کے آغاز پر طالبان بات چیت وہیں سے شروع کرنے پر اصرار کریں گے جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا ہے۔ یعنی مزید گفتگو کے بجائے طے شدہ معاہدے کی نوک پلک درست کرکے اس پر دستخط کردیے جائیں۔ طالبان کے اس بیان پر امریکی حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
ڈاکٹر اشرف غنی اب بھی طالبان اور کابل انتظامیہ میں براہِ راست مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ بگرام میں صدر ٹرمپ کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے افغان صدر کے ترجمان صادق صدیقی نے طالبان کو امریکی صدر کی ’پیشکش‘ سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا۔ صدیقی صاحب کا کہنا تھا کہ اگر طالبان امن کے لیے پُرعزم ہیں تو انھیں ہتھیار رکھ کر مذاکرات کی میز پر آجانا چاہیے۔ انھوں نے ایک بار پھر طالبان اور کابل انتظامیہ میں براہِ راست ملاقات پر اصرار کیا۔ افغانستان میں ہندوستان کے سفیر ونے کمار نے بھی Afghan Owned and Afghan Controlled مذاکرات کا راگ الاپا۔ شری کمار جی کا کہنا ہے کہ افغانستان کی نمائندہ حکومت سے بالابالا کوئی معاہدہ مؤثر نہیں ہوگا۔ ونے کمار نے دعویٰ کیا کہ دہلی نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور قیام امن کے مرحلے سے ہندوستان کو افغانستان کے معاملے سے علیحدہ نہیں رکھا جاسکتا۔
اسی ہفتے کابل میں افغان سیاسی رہنمائوں، قبائلی عمائدین اور علما کا ایک نمائندہ اجلاس بھی ہوا جس میں افغان صدارت کے امیدواروں سمیت کئی درجن رہنما شریک ہوئے۔ افغان امن کونسل (Peace and Rescue Council) کا یہ اجلاس صدارتی انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا، لیکن قیام امن کے حوالے سے نہ صرف سیر حاصل گفتگو ہوئی بلکہ اس ضمن میں متفقہ طور پر ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ اس قومی اجتماع میں سابق صدر حامد کرزئی،گلبدین حکمت یار اور دوسرے رہنمائوں کے علاوہ افغان گیلانیوں کے سربراہ سید اسحاق گیلانی، سابق طالبان رہنمائوں عبدالحکیم مجاہد اور سید اکبر آغا نے بھی شرکت کی۔ اس اعتبار سے بیٹھک کو نمائندہ سیاسی جرگے کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اجتماع میں صدارتی انتخابات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایک قومی حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ دھاندلی و بدعنوانی سے آراستہ انتخابات کے نتیجے میں چُنے جانے والے صدر کی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں ہوگی جس کی وجہ سے ایک سنگین سیاسی بحران کا خطرہ ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گلبدین حکمت یار نے کہا کہ غیر نمائندہ صدر کے انتخاب سے قیام امن کی کوششوں پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ کونسل کے سربراہ گل رحمان قاضی نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کو موجودہ صورت حال کا ذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن کی کوششوں کو ایک فرد (اشرف غنی) نے یرغمال بنالیا ہے جس کی وجہ سے بند گلی کی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ منظور ہونے والی قرارداد میں طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے غیر ملکی فوج کی فوری اور غیر مشروط واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔
اسی کے ساتھ ڈھائی برس پہلے ننگرہار میں بڑے غیر جوہری بم کے خوفناک اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے 13 اپریل 2017ء کی شام انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم یعنی GBU-43 افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع آچن پر گرایا تھا۔ اس دیوہیکل بم کا ٹیکنیکل نام Massive Ordnance Air Blast Bomb یا موب ہے، لیکن ہلاکت خیزی کی بنا پر اسے ’بموں کی ماں‘ کہا جاتا ہے۔ ہلاکت، وحشت اور درندگی کی اس علامت کے لیے ’ماں‘ کا لفظ اس کے بنانے اور استعمال کرنے والوں کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔ اسے ڈائن یا چڑیل کہنا زیادہ مناسب ہے۔ 10 ٹن وزنی اس بم کے پھٹنے پر دھماکے کی شدت 11 ٹن TNT کے مساوی ہے۔ ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کی تاثیر 15 ٹن TNT کے برابر تھی۔ غیر معمولی حجم اور وزن کی بنا پر اسے روایتی بمبار طیاروں میں نصب کرنا ممکن نہیں، لہٰذا اسے C-130 مال بردار طیارے سے پھینکا گیا تھا۔ یہ بم مبینہ طور پر سطح زمین سے 50 فٹ اوپر پھٹا بلکہ قیامت بن کر ٹوٹ پڑا، جس سے انسانوں اور جانوروں کے کان کے پردے پھٹ گئے۔ پینٹاگون (امریکی وزارتِ دفاع )کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس خوفناک بم کا ہدف آچی کاگائوں مہمند درہ تھا جہاں مبینہ طور پر داعش نے زیرزمین سرنگوں کا ایک مربوط سلسلہ تعمیر کررکھا تھا۔ اس زیرزمین قلعے کو خراسان کمپلیکس کا نام دیاگیا ہے جہاں خودکش جیکٹ اور بم بنانے کی فیکٹریاں تھیں۔ یہاں سینکڑوں ٹن دھماکہ خیز مواد ذخیرہ کرنے کے لیے گودام بھی بنائے گئے تھے۔
اب تک یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ اس بم نے داعش کو کتنا نقصان پہنچایا ہے، لیکن ننگرہار ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ہیلتھ کے مطابق ’بموں کی ماں‘ نے مہمند درہ کی مٹی اور مائوں کو بانجھ بنادیا ہے۔ یہاں اب گھاس بھی نہیں اگتی اور نہ خواتین کی امید بندھتی ہے، اور اگر کوئی بدنصیب کونپل پھوٹ بھی اٹھے تو اس کی ذہنی اور جسمانی معذوری کا امکان بہت زیادہ ہے۔ نوجوان بچیاں کھجلی اور جلد کی بیماری میں مبتلا ہیں اور ان مہ رخوں کی رنگت سیاہی مائل ہوچکی ہے۔ صدر اشرف غنی کی مشیر صحت اور وزیر مملکت برائے انسانی حقوق ڈاکٹر سیما ثمر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مہمند درہ کے علاقے میں قیاس و تخمینے سے کہیں زیادہ تباہی آئی ہے جس سے انسان، مویشی اور زراعت تینوں ہی بری طرح متاثر ہیں۔ ابھی چند ہی دن پہلے صدر ٹرمپ نے انسدادِ بے رحمیٔ حیوانات کے ایک سرکاری فرمان پر دستخط کیے جس پر آج تک مبارک سلامت کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ مہمند درہ میں رہنے والوں کو کتے، بلی ہی سمجھ لیتے تو وہاں ’بموں کی ماں‘ کا استعمال نہ ہوتا۔
یہ تو صرف ایک گائوں کا قصہ ہے۔ سارے افغانستان کے طول و عرض میں گزشتہ 19 سال سے تباہ کن بم برس رہے ہیں اور اس بدنصیب سرزمین کا ایک مربع انچ رقبہ بھی ایسا نہیں جس پر آتش و آہن کی بارش نہ کی گئی ہو۔ ان وحشیانہ حملوں کے دوررس نتائج کیا ہوں گے، شاید دنیا کو اس کا اندازہ بھی نہ ہوسکے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی کو اس کی پروا بھی نہیں۔ اس بے مقصد جنگ کا جتنی جلد اختتام ہوسکے انسانیت کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ستمبر میں نیٹو فوجیوں کی ہلاکت محض ایک بہانہ تھا جس کی بنیاد پر امن مذاکرات معطل کیے گئے۔ اصل مقصد صدارتی انتخابات تک معاملہ مؤخر کرنا تھا۔ صدر ٹرمپ کا خیال تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں نئی افغان قیادت عوام کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے ابھرے گی اور طالبان سے مذاکرات کے لیے ان کے اصرار کو اخلاقی سند حاصل ہوجائے گی۔ لیکن عالم یہ ہے کہ دوماہ گزرجانے کے بعد بھی ووٹوں کی گنتی مکمل نہ ہوسکی، اور نتائج کے اعلان سے پہلے ہی انتخاب کو منسوخ و کالعدم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ واشنگٹن کے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ترکش کے آخری تیر کے ناکارہ ہوجانے کے بعد طالبان سے جلد از جلد معاملہ طے کرکے افغانستان سے فوج نکال لینے کے سوا چچا سام کے پاس اب اور کوئی راستہ بھی نہیں۔ تاہم بقول ذبیح اللہ مجاہد ’’امن کے بارے میں توقعات اور خدشات دونوں ہی قبل از وقت ہیں۔‘‘

اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ تفصیل کے لیے www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔