دسمبر کا مہینہ سقوط ڈھاکا کی یاد دلاتا ہے جو ہمیشہ ملک پر بہت بھاری ثابت ہوتا ہے، مگر اِس بار تو دسمبر سے چار روز قبل ہی بھاری پتھر حکومت کے سر پر آ لگا۔ اٹارنی جنرل منصور خان، ریٹائرڈ کیپٹن، جنہوں نے 1971ء میں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی کمانڈ میں کام کیا ہوا ہے، جنگی قیدی بھی رہے ہیں، اُن کے لیے اِس بار دسمبر کا بھاری لمحہ چار روز قبل ہی آگیا۔ منصور خان معروف وکیل ہیں، جنرل پرویزمشرف کے دور میں سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل، پیپلز پارٹی کے دور میں اٹارنی جنرل اور سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کے وکیل رہے ہیں۔ فروغ نسیم بعد میں وکیل بنے۔ اس مقدمے میں دونوں پیش ہوئے۔ درخواست 24 نومبر کو خاموشی سے سپریم کورٹ میں دائر ہوئی اور25 نومبر کو درخواست منظور ہوئی اور 26 نومبر کو پہلی سماعت کے ساتھ عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا جو 3 دن تک جاری رہی۔ اس مقدمے نے 3 دن تک ملک میں ہیجان برپا کیے رکھا، مگر ان تین دنوں کی کارروائی کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟ اس سفر کا اختتام اسی نکتے پر ہوا جہاں سے یہ شروع ہوا۔ اس کارروائی میں حکومت کے بار بار تبدیل ہوتے ہوئے مؤقف سے لگا کہ وزیرِاعظم کا یوٹرن اب اٹارنی جنرل آفس تک پہنچ گیا ہے۔ ان تین دنوں میں حکومت کی رٹ عدلیہ کے رحم و کرم پر تھی۔ ان تین دنوں کی سماعت کے رنگ بھی ہر روز تبدیل ہوئے، پہلے روز تو جارحانہ رنگ تھا، کہ نوٹیفکیشن ہی معطل کردیا گیا، دوسرے روز سماعت کا رنگ عاشقانہ نظر آیا کہ مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو رہنمائی فراہم کی گئی، اور تیسرے روز تو رنگ دوستانہ تھا کہ قانون سازی کے لیے چھے ماہ کی مدت دے دی گئی۔ تین دنوں میں ہر لمحے، ہر پل معزز ججوں کے ریمارکس، حکومت کا مؤقف، اٹارنی جنرل کے دلائل سب کچھ عدلیہ کی تشریح کے منتظر تھے۔ حکومت ’آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے‘ کی کیفیت میں رہی۔ اب مقدمہ بھی نمٹ چکا ہے۔ درخواست کا دائر ہونا اتفاق تھا یا حادثہ، بہرحال اس کی ٹائمنگ بہت اہم تھی۔ اگر اس مقدمے کا فیصلہ ایک دن کے لیے محفوظ ہوجاتا تو کیا ہوتا؟، یہ اتنا اہم مقدمہ تھا کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت سے مہلت مانگی اور نہ مقدمہ التوا میں لے جانے کی درخواست کی۔ جب وہ عدالت پہنچے تو وزارتِ دفاع کی تیار کی ہوئی توسیع کی سمری، نوٹیفکیشن اور متعلقہ ضروری دستاویزات اپنے ہمراہ لائے اور عدالت میں پیش کردیے۔ سپریم کورٹ نے سب سوالات انہی دستاویزات کا جائزہ لینے اور مطالعہ کرنے کے بعد اٹھائے۔ پہلی سماعت پر چیف جسٹس نے نوٹیفکیشن معطل کردیا۔ یہ حکم کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ اگرچہ فیصلہ سنایا جاچکا ہے اور حکومت کو چھے ماہ کا وقت مل چکا ہے، مگر فیصلے کے آفٹر شاکس ابھی بھی محسوس کیے جارہے ہیں۔ عدالتی حکم میں دو بنیادی نکات ہیں کہ عدالت نے وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار تسلیم نہیں کیا اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔حقائق یہ ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ہرگز ہنگامی نوعیت کا نہیں تھا،وزیراعظم عمران خان خود تسلیم کرچکے ہیں کہ توسیع کا فیصلہ اقتدار کے پہلے روز ہی کرلیا تھا، لہٰذا ان کے پاس سوچنے اور عمل کرنے کے لیے نو ماہ کی طویل مہلت تھی۔ وزیراعظم آفس، ایوانِ صدر، کابینہ اور وزارتِ قانون کیوں سوئے رہے؟ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29نومبر 2019ء کو ریٹائر ہورہے تھے لیکن 19اگست کو وزیراعظم ہائوس سے وزیراعظم کے لیٹر پیڈ پر ان کے دستخط کے ساتھ بیان جاری ہوا کہ علاقائی سیکورٹی صورت حال کے پیش نظر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر مزید تین سال کی توسیع دی جائے گی۔ پہلا ابہام یہاں سے پیدا ہوا کہ آرمی چیف کی تقرری وزیراعظم کے لیٹر پیڈ پر ہوتی ہے اور نہ اس پر وزیراعظم کے دستخط ہوتے ہیں۔ طریق کار کے مطابق کابینہ اور وزیراعظم ہائوس کی منظوری کے بعد معاملہ ایوانِ صدر جاتا ہے اور صدر کے دستخط کے بعد ایوانِ صدر سے نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے۔ غلط طریق کار اور وزیراعظم کے لیٹر پیڈ پر بیان جاری کرنے سے اس معاملے کو متنازع بناکر اس پر بحث کا موقع فراہم کیا گیا۔ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا مؤقف ہے کہ لیگل ٹیم نے پارٹی کی جگ ہنسائی کرائی، اسے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان تو پارلیمانی پارٹی کے اس اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے، وہ اسی بات پر قائم ہیں کہ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیاز کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وزارتِ خارجہ میں افریقی ممالک کے سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے اور اپنے ٹویٹر پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ ’’اداروں کو آپس میں لڑانے کے خواہش مندوں کو آج بے حد مایوسی ہوئی، مافیا اس ملک کو غیرمستحکم کرکے اپنے لوٹ کے مال کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی عزت کرتے ہیں جو پاکستان میں پیدا ہونے والے بہترین منصف ہیں“۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کا گلہ دور کردیا ہے کہ طاقت ور کے لیے قانون حرکت میں آئے۔ اسی لیے توسیع کے کیس میں آئین و قانون میں موجود ابہام کی نشاندہی کرکے ملک میں آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کا حکومت کو راستہ دکھایا گیا۔ گلہ دور کرنے کا موقع بھی وزیراعظم نے اپنے بیان سے خود دیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس حوالے سے بجاطور پر باور کرایا کہ آئین اور قانون میں کوئی ابہام ہے تو اسے دور کرنا حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔ عدالت کی جانب سے واضح طور پر نشاندہی کی گئی کہ آئین کی دفعہ 243 اور اس کی متعلقہ شقوں میں آرمی چیف کے منصب کی مدت اور توسیع کا کوئی تذکرہ نہیں، آرمی ایکٹ میں بھی ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے جس سے آرمی چیف کو ان کے منصب پر توسیع کی قانونی رہنمائی ہو، حکومت اگر یہ گنجائش نکالنا چاہتی ہے تو اسے پارلیمنٹ کے ذریعے آئین و قانون کی متعلقہ شقوں میں ترمیم کرنا ہوگی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس چھے ماہ کے عرصے تک بطور آرمی چیف کام جاری رکھنے کی اس بنیاد پر اجازت دی گئی کہ آئینی ادارہ اپنے سربراہ کے بغیر خلاء میں کام نہیں کرسکتا۔ عدالت نے آرمی چیف کے منصب میں توسیع سے متعلق نوٹیفکیشن میں قانونی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آئینی اور قانونی خامیاں دور کرنے کے لیے حکومت کو پریشان کن صورت حال سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیا، جبکہ حکومتی قانونی ٹیم اس معاملے میں عدالت کی معاونت میں مکمل ناکام نظر آئی۔ وزیراعظم بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ کام مافیا کا ہے۔ اس کی وضاحت ہونی چاہیے کہ مافیا کون اور کہاں ہے جس کی ناکامی کا وزیراعظم بار بار ذکر کررہے ہیں، جب کہ حکومت، حتیٰ کہ ایوان صدر ابہام پیدا کرتا رہا۔ معاملہ عدالت کے روبرو پیش ہوا تو حکومت کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکی۔ یہ معاملہ یوں معما بنا کہ 12ستمبر کو خود صدر عارف علوی نے اپنے ایک انٹرویو میں نشان دہی کی کہ آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ ابھی تک ان کے دفتر میں آیا ہے اور نہ اس پر انہوں نے دستخط کیے ہیں۔ یہاں تک بھی سب کچھ درست تھا، مگر جب نومبر کے آخری ہفتے میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ندیم رضا کی تقرری کا اعلان وزیراعظم ہائوس سے جاری ہوا، یہ بھی ایوانِ صدر سے جاری ہونا چاہیے تھا، اس میں بھی کہا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بطور آرمی چیف تین سال کے لیے توسیع کا نوٹیفکیشن 19اگست کو جاری ہوا تھا۔ 19اگست کو جاری ہوا تھا تو ان تین ماہ کے دوران حکومت نے کسی موقع پر یہ وضاحت کیوں نہیں کی کہ باقاعدہ نوٹیفکیشن فلاں تاریخ کو جاری ہوا ہے! تضادات سے بھرپور دستاویزات کے عدالت میں پیش ہونے سے حکومت کی نالائقی سامنے آگئی۔ سپریم کورٹ میں سبکی کے بعد ایک ہی روز میں کابینہ کے دو ہنگامی اجلاس ہوئے تو اگلے روز پھر عدالت نے بلنڈرز کی نشان دہی کردی کہ کابینہ اور وزیراعظم نے ایک لفظ کی منظوری دی، صدر نے دوسرے کی، اور سمری میں کوئی اور لفظ لکھا گیا تھا۔ تین چار روز جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے اداروں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا گیا۔ اگر یہ سب کچھ جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت کیا گیا تو یقیناً اس کے بڑے دوررس اور خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔ اب حکومت کے پاس دو راستے ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی، یا آئین میں ترمیم کرے۔ حکومت چاہے تو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے یہ ترمیم کرسکتی ہے۔ تاہم حکومت چاہے گی کہ تنہا بوجھ اٹھانے کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے یہ کام کیا جائے، یوں اپوزیشن جماعتیں اب بارگیننگ کریں گی۔ یہی تو بلاول نے کہا کہ ترمیم سے قبل نیا وزیراعظم آئے گا۔ حکومت کو مشورہ یہی دیا جارہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بجائے آئین میں ترمیم کے مشکل راستے کا انتخاب کرنے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ حکومت بآسانی آرمی ایکٹ یا ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم کرسکتی ہے جس کے لیے حکومت کو پارلیمان میں سادہ اکثریت کی ضرورت ہوگی۔ حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بھی اس معاملے کو طے کرسکتی ہے۔ اگر حکومت فروغ نسیم کے مشورے پر عمل کرے گی تو اسے اپوزیشن جماعتوں کے پاس جانا پڑے گا، کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سینئرآئینی وقانونی ماہرین کو بلاکر اُن کے ساتھ مشاورت کرے۔ لیکن حکومت حتمی فیصلہ کرنے سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھے گی اور اس کی روشنی میں پیش رفت کرے گی۔ امکان یہی ہے کہ جس طرح سپریم کورٹ میں اس کیس میں بحث ہوئی ہے اور عدالت نے جوریمارکس دیے ہیں معاملہ اب ایگزیکٹو پاور شو کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں طے ہوگا ۔اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی ایشونہیں ہے، حکومت کواختیاردیاگیاہے، عدالتی فیصلے کے بعدسادہ اکثریت سے فیصلہ ہوگا، پارلیمنٹ میں بل پیش کیاجائے گاجسے پاس کرناہوگا، عدالتی فیصلہ واضح ہے، سادہ اکثریت سے فیصلہ ہوگا، حکومت کو6ماہ کا وقت دیاگیا،اس کے بعدقانون کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے، اگرچہ عنوان بتا رہے ہیں کہ حکمران ٹولے کے چل چلائو کا عمل شروع ہو چکا ہے، لیکن ان کی جگہ لینے والوں کا تعین ہونا باقی ہے۔ اس تمام بحث کے باوجود یہ سوال موجود ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں کیوں آیا؟ مختصر عرض ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس اور وزیر اعظم کے بے تکے بیانات اس کا بنیادی سبب ہیں۔
اور اب آصف زرداری
نوازشریف کو جس طرح بیرونِ ملک بھیجا گیا ہے بالکل اسی طرح آصف علی زرداری سے بھی یہی کہا جارہا ہے کہ مستقل طور پر بیرونِ ملک چلے جائیں۔ نوازشریف کے لیے اُن کے بھائی شہبازشریف استعمال ہوئے، اور اب آصف علی زرداری کے لیے اُن کے صاحب زادے بلاول بھٹو استعمال ہورہے ہیں۔ شہبازشریف کی طرح بلاول بھی اب نیا بیانیہ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور ملک میں مصلحت کی سیاست کے مدھر سُروں میں جس طرح شہبازشریف گم ہوئے ہیں، بلاول بھی اسی طرح گم ہوجانے کو تیار ہیں۔ انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ ملکی سیاست میں عقابوں کی نہیں، ہاں میں ہاں ملانے والی فاختائوں کی قیمت زیادہ لگ رہی ہے، اور سب متضاد صفحوں کے بجائے ایک صفحے پر جارہے ہیں، لہٰذا جو بھی ایک صفحے پر آیا اُسے مناسب وقت پر اقتدار مل جائے گا، تاریخ میں زندہ رہنے والوں کے لیے اب اس ملک کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے، اور سیاسی اسٹاک مارکیٹ میں اب جمہوری، نظریاتی سعی کے حصص کی قیمت مسلسل گررہی ہے۔