تاریخ گُم گَشتہ: ڈھونڈنے والے ستاروں کی گزرگاہوں کے

مائیکل ہیملٹن مورگن/ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق
یورپ کی بیداری (Renaissance) سے بہت پہلے، تیرہویں صدی کے اطالوی شاعر دانتے الیگیری، جو کہ لاطینی میں نہیں بلکہ روزمرہ کی اطالوی زبان میں لکھتا تھا، وہ اپنی کلاسیک ’ڈیوائن کامیڈی‘ میں دائروں کی صورت فلک پر بلند ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ آسمانی سانچہ اُسے لاطینی ترجمے سے میسر آیا، یہ ترجمہ عربیAlmagest کا تھا، جو اُسے یونیورسٹی میں پڑھائی گئی تھی، اور اُن عربی ذرائع سے حاصل ہوئی تھی جومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا آسمانی ِ معراج بیان کرتے تھے۔
دسویں صدی کی ابتدا میں دارالحکمۃ کے ریاضی دان محمد بن جابر بن سنان البتانی نے، جسے بعد میں یورپیوں نے Albategnius کا نام دیا، اپنا ’زیج‘ بنایا۔ یہ نظرثانی شدہ فلکیاتی جدوال بارہویں اور تیرہویں صدی میں لاطینی اور ہسپانوی میں ترجمہ کیے گئے۔ اگرچہ چند نامعلوم وجوہات کے سبب مسلم دنیا میں البتانی کی اس کامیابی کی گونج کم رہی۔ تاہم اس کے یورپی ورژن بہت مقبول ہوئے۔ سات سو سال بعد کاپرینکس نے On the Revolutions of the Heavenly Spheres میں البتانی کے ان جدوال کا 23 بار حوالہ دیا۔
گیارہویں صدی میں جب بغداد میں عباسیوں کا زوال ہوا، اور قاہرہ میں فاطمیوں نے عروج حاصل کیا، علم فلکیات پر مسلم تحقیق قاہرہ منتقل ہوئی۔ بہت سوں نے اس تبدیلی کو اچھا نہیں بلکہ برا خیال کیا۔ 1006ء میں، ابھی جب کہ فاطمی حکمران حاکم بی امراللہ کی عمر صرف اکیس برس تھی، ابھی کہ جب اُس کے دارالعلم کو قائم ہوئے سال ہی گزرا تھا، ایک جگمگاتا ستارہ جنوب کی جانب آسمان پر ظاہر ہوا، جو عین جامعہ ازہر کی دیواروں اور مسجد الحاکم کے میناروں کے عقب میں ٹمٹما رہا تھا، دریائے نیل کی سرخی مائل لہروں میں جھلک رہا تھا اور اہرام مصر کے اُفق پر چار چاند لگارہا تھا۔ سنو، کہ کس طرح ماہر فلکیات ابن رضوان یہ منظر بیان کررہا ہے:
’’اُس دن کا سورج پندرہ ڈگری برج ثور میں تھا، اور یہ منظر برج عقرب کی پندرہویں ڈگری پر تھا۔ یہ نظارہ ایک بڑے دائرے کی طرح تھا، وہ زہرہ سے بھی تین گنا بڑا تھا۔ اُس کی روشنی سے پورا آسمان جگمگا رہا تھا۔ اس روشنی کی شدت چاند کی روشنی سے ایک چوتھائی زائد تھی۔ یہ ستارہ جہاں تھا وہیں رہا، یومیہ اپنے بُرجی دائرے میں دھیرے دھیرے حرکت کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج اس سے ساٹھ درجے پرآگیا، پھر اچانک وہ ستارہ یکایک غائب ہوگیا۔ یہ انوکھا واقعہ سوئٹزرلینڈ سے چین تک دیکھا گیا، مگر کوئی بھی اسے سمجھ نہ پایا۔ یہاں تک کہ ہزار سال بعد ماہرینِ فلکیات نے، کہ جب وہ خلا کے سفر کررہے تھے، محسوس کیا کہ ابوالحسن علی بن رضوان نے جوستارہ دیکھا تھا وہ دراصل ’عظیم نوتارہ‘ (supernova) تھا، یعنی ستارے کی تباہی کا دھماکا تھا۔ اگرچہ کئی دیگر لوگوں نے بھی اس نظارے کا مشاہدہ کیا تھا، مگر صرف ابن رضوان نے اس مشاہدے کو اعداد اور علامتوں میں تحریر کیا، ’عظیم نوتارے‘ کے مقام اور دورانیے کا تعین اور شمار کیا، یہ علامات نویسی ایک ہزاریے بعد ماہرینِ فلکیات کے کام آرہی تھی۔ ابن رضوان کی تحقیق کی بنیاد پر امریکہ نے دھماکے کی جگہ پر ستارے کی باقیات کا تعین کیا۔ انھوں نے ان باقیات کا نام Supernova 1006 رکھا۔ یہ زمین سے سات ہزار نوری سال فاصلے پرپائی گئی تھیں، اس کے داخلی پلازمے اب تک (2007)دس لاکھ ملین ڈگری سیلسئیس پر جل رہے ہیں۔ انھوں نے اس کی روشنی کی پیمائش کی، جو سال 1006 میں -7.5 رہی تھی، یعنی یہ معلوم تاریخ کا روشن ترین سپرنووا تھا، یہ مشتری سے دس گنا زیادہ روشن تھا۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ابن رضوان ستاروں کے پیچھے چلنے کے بجائے علم طب کی جانب نکل گیا، وہ ایک اچھا طبیب بن گیا (غالباً انسانوں کو طبیب کی ضرورت زیادہ تھی۔ مترجم) وہ صرف اٹھارہ سال کا تھا جب اُس نے سپر نووا کا مشاہدہ کیا۔ ‘‘
فاطمی قاہرہ نے دنیا سے اور کئی عظیم حکماء کا تعارف کروایا۔ ابن الہیثم، کتاب بصریات کا خالق بھی اسی قاہرہ کے چند نابغۂ روزگار افراد میں شامل تھا۔ یہ گلیلیو اور کاپرینکس کے دور تک عالم طبیعات پر سب سے زیادہ درست نظریات پیش کرنے والا شخص تھا۔ قاہرہ کا ایک اور ستارہ شناس ابوالحسن علی ابن یونس تھا۔ اُس نے حاکم بی امراللہ کی سرپرستی میں ستاروں کے نقشے تیار کیے، جنھیں ’حاکم زیج‘ پکارا گیا۔ آٹھ صدیوں تک، وقت کے صحیح تعین کے لیے اُس کی جامع ترین جدول مسلم دنیا میں رائج رہی۔ اگرچہ یورپی دنیا انیسویں صدی تک اس سے بے خبر ہی رہی۔ ابن یونس کی ’زیج‘ نہ صرف اپنی دُرستی میں بے مثال تھی بلکہ علم فلکیات پر سو سے زائد عمدہ توضیحات کا شاہکار تھی، یہ حواشی اور تبصرے خود اپنی جگہ علمی نوادرات تھے، جو سیاروں کے مابین تعلقات کی ہیئتی تفصیلات، اور چاند سورج گرہنوں کی بابت وضاحتوں سے بھرپور تھے۔
دسویں صدی میں عباسی بغداد میں زوال پذیر ہوئے، آلِ بویہ نے حکومت سنبھالی۔ آلِ بویہ بحرِ قزوین کے قریب فارسی صوبہ دیلم سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے علم فلکیات اور دیگر علوم کی ترویج جاری رکھی۔ ایک بویہ حکمران نے ابو محمود خجندی کی سرپرستی کی، جوجدید تاجکستان کے علاقے میں پیدا ہوا تھا، ایک معزز قبیلے سے اُس کا تعلق تھا۔ خجندی کا اہم ترین کارنامہ اجرام فلکی کے مشاہدے کے لیے ایک بڑی مشین کی ایجاد تھی، جسے فارسی شہر رے کی ایک پہاڑی پرنصب کیا گیاتھا۔ اس عظیم مسلم ایجادکا کام sextant (زاویہ پیما آلہ) سے مشابہ تھا۔ خجندی کا یہ علمی کام، اُس کا ایمان جس کا محرک بھی تھا، کہ جتنی بڑی تجرباتی ساخت ہوگی ، اُتنی درستی سے فلکیاتی پیمائشیں اور نتائج سامنے آئیں گے۔ اُس کی یہ ایجاد ایک بڑے camera obscura کی مانند تھی، جس کی وضاحت ابن الہیثم نے کی تھی۔ خجندی کی اس مشین کے بالائی حصے میں ایک عدسہ لگا ہوا تھا جو سورج کی روشنی جذب کرتا تھا اورپھر اسے دھاری دار دیوار سے گزارتا تھا، اس عمل سے روشنی کی پیمائش ہوتی تھی۔ سردیوں اور گرمیوں میں سورج کی روشنی کے مختلف زاویوں کی پیمائش کرکے، خجندی شعاع کی شدت اور پھیلاؤ شمارکرتا تھا اور گرہن کے زاویے کاپتا لگاتا تھا۔
بغداد سے اموی قرطبہ تک فلکیاتی اور تحقیقی علوم کاایک سیلِ رواں تھا، جو گیارہویں صدی میں مغرب کوسیراب کررہا تھا۔ غیر ملکی ماہرینِ فلکیات اپنی دانش سے مغرب کو فیضیاب کررہے تھے۔ ان میں ایک اہم نام بغداد کے ابنِ تیمیہ کا بھی تھا۔ اندلس سے جس پہلے ماہر فلکیات کا شہرہ ہوا وہ مسلمہ المجریطی تھا، نہ صرف وہ قرطبہ کا اہم حوالہ تھا بلکہ ایک اور قابلِ فخر ہسپانوی شہراُس کی پہچان بننے والا تھا، یہ مستقبل کے کیتھولک بادشاہوں کا دارالحکومت بھی بنا: یہ تھا شہر’ مجریط‘، جسے دنیا آج میڈرڈ کے نام سے جانتی ہے۔
یہ ہسپانیہ کے شمال وسط میں اونچے خشک میدانوں پر پھیلا ہوا تھا، کوہ پائرینیس سے گھرا ہوا تھا۔ شہر مجریط کی بنیاد نویں اموی امیر محمد اول نے رکھی تھی۔ اُس نے دریائے مانزاناریس کے کنارے ایک محل اور ایک مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ یہ دریاگواڈاراما پہاڑی سلسلے سے نشیب میں بہتا تھا۔ ’المجریط‘کا عربی معنی ’پانی والی جگہ‘ ہے۔ یہ شہر ترقی کرتا رہا، یہاں تک کہ 1065 ء میں عیسائیوں نے الفانسو ششم کی قیادت میں اسے دوبارہ فتح کیا۔ عیسائیوں نے یہاں کی مسجد کوکیتھڈرل سانتا ماریا المدینا میں بدل دیا، اور امیر کا محل ایک دن ’رائل پیلس‘ کی دیواروں کے عقب میں غائب کردیا گیا۔ یوں جدید میڈرڈ میں المجریط کی فنی و تہذیبی تاریخ گُم گَشتہ ہوگئی۔ تاہم ازابیلا کی آمد تک، مسلم اور کیتھولک حکومتوں کے تحت لوگ میڈرڈ میں ہم آہنگی سے زندگی گزارتے رہے۔ دسویں صدی کے میڈرڈ میں رومی اور گاتھ نسل کے لوگ عربی ثقافت میں رنگ چکے تھے۔ یہاں عربی بولنے والے یہودی عام تھے، اور ہرنسل و رنگ کے مسلمان یہاں بستے تھے۔ Inquisition (چرچ کی عقائدی تفتیش) تک، یہ سارے گروہ امن وامان کے ماحول میں کام کررہے تھے۔
المجریطی، جب وہ چھوٹا لڑکا تھا، دور مشرقی آسمان پر کاستیلا کی خشک اور صاف فضا میں ستاروں اور سیاروں کو بڑے غور سے دیکھا کرتا تھا، یہ اُس کے دوردراز مغربی مقام سے خاصی مختلف جگہ تھی۔ یہاں زیتون ، لیموں، اور کینو کے بے ہنگم جھنڈ تھے۔ المجریطی زمین اور آسمان دونوں سلسلۂ مناظر میں بھرپور دلچسپی رکھتا تھا۔ کھلے میدانوں، مہکتے باغات، اور صاف ستھری شاہراہوں پر زندگی کا سفر ہموار اور خوشگوار محسوس ہوتا تھا۔ وہ اکثر اس زمین کی جیومیٹری پرغور کرتا تھا، وہ دیکھ رہا تھا کہ مجریط کے میدان مربعوں، دائروں اور مستطیل میں تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جاتے تھے۔ اُس کی نظریں بے ترتیب زمینی ٹکڑوں سے سفر کرتی ہوئی متوازی الاضلاع اور معین چوکور شکلوں تک پہنچتی تھیں، وہاں سے پنج زاویہ شکل تک اور پھر دریا کے کٹاؤ سے بننے والے حصوں تک جاتی تھیں۔ وہ ان سب صورتوں کی ریاضیاتی نوعیتوں کے بارے میں غورکررہا تھا۔
بعد میں اموی خلفاء کی سرپرستی میں المجریطی نے الخوارزمی کا مطالعہ اور تجزیہ کیا، Almagestکا عربی متن اور اُس پر شرح پڑھی۔ اُس نے ڈیڑھ صدی بعد الخوارزمی کے فلکیاتی جداول کی مزید تصحیح کی۔ اسلام کے اس دور دراز مغربی مقام پر، اُس نے قدیم فارسی کیلنڈر کو اسلامی تاریخوں کے مطابق ڈھالنے کی سعی کی۔ پہلی بار قبل از اسلام کی فارسی تاریخ اور واقعات کا درست تعین کرنے کی کوشش کی گئی۔
مگر شاید ان ذاتی کارناموں سے زیادہ اہم وہ بین الثقافتی فکری ابلاغ تھا، جومجریطی کو انسانی تاریخ میں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ اس کا آغاز معمولی انداز میں ہوا، مجریطی نے اپنے کام کا لاطینی میں خود ترجمہ کیا۔ اس ترجمے سے گویا یورپ میں مشرقی اساتذہ اور حکماء کے علمی نوادرات کی ترسیل باقاعدہ شروع ہوئی۔ بطلیموس سے الخوارزمی اور البتانی تک، لاطینی تراجم کا مستقل سلسلہ بندھ گیا۔ 1006ء میں المجریطی کی موت کے سو سال بعد، کیتھولک پادری اور مفکرین باقاعدگی سے مسلم اسپین کا سفر کررہے تھے۔ المجریطی کے علمی کام ہی ان میں سے اکثرکے لیے تحقیقی کام کا نقطہ آغاز بنے۔ مسلم علم فلکیات، ریاضی، اور فلسفہ کی ایک کائنات اُن پر وا ہورہی تھی۔
نہ صرف سلویسٹردوئم، پہلے فرانسیسی پوپ نے مسلم اسپین سے تحصیلِ علم کیا بلکہ المجریطی سے بہت کچھ سیکھا۔ Abelard of Bath، Gerard
of Cremona، Robert of Chester، Plato of Tivoli، اور دیگربہت سے نامور یورپی دانشور مسلم اندلس کی علمی دنیا میں المجریطی کے دروازے سے داخل ہوئے۔ علوم کی منتقلی کے لیے تاریخ ساز کردارکے علاوہ، المجریطی کے نظریات نے براہِ راست زمینی صورت حال پراثرڈالا ۔ اُس نے آلہ استارہ یاب (Astrolabe) کوارضی خطوں کی پیمائش کے لیے استعمال کیا، وہی زمینی ٹکڑے جن کی جیومیٹری کے بارے میں اُس کا بچپن متجسس تھا۔
المجریطی اور شریکِ کار ابوالقاسم احمد بن عبداللہ بن عمرالقرطبی نے استارہ یاب کے ذریعے پہلی بار یورپی ارضیاتی جائزوں کے طریقے بہتربنائے۔ نہ صرف استارہ یاب کی مدد سے زیتون اورکینو کے باغات میں خطِ تنسیخ کھینچا جارہا تھا، بلکہ شامی نہری نظام کی طرز پر یورپی نہری نظام تشکیل دیے جارہے تھے، جواندلس کے خشک میدانوں کو سیراب کررہی تھیں۔ مجریطی، ایک موجد روح اور دوررس نگاہ کا حامل تھا، وہ اس جزیرہ نما کے مستقبل کو محسوس کررہا تھا۔ اُس کے اثرات اُس دن تک قائم رہے جب کتب خانے جلادیے گئے، اور 1492ء میں جب مسلمانوں اور یہودیوں کا جبری انخلاء ہوا۔
میڈرڈ کے اس بطلِ جلیل کی وفات کے بیس سال بعد، ایک نیا لڑکا ستاروں پر نئے سوالوں کے ساتھ پیدا ہوا۔ اس لڑکے کا نام ابواسحاق ابراہیم بن یحییٰ ابن الزرقالی تھا، جسے یورپیوں نے لاطینی میںArzachel کا نام دیا۔ ابن زرقالی نے دریائے تاگوس کے کنارے آباد اندلسی شہر ٹولیڈو میں نشوونما پائی۔ یہ شہر مسلمانوں سے بہت پرانا تھا، اس کی بنیاد یہودی نوآبادکاروں کے ایک گروہ نے چھٹی صدی قبل مسیح میں رکھی تھی۔ ان آبادکاروں کا تعلق دور لبنان کے فونیقی سلسلے سے تھا۔ ابتدا میں انھوں نے اس شہر کو Toledochکا نام دیا، جس کا مطلب ’’مادر قوم‘‘ تھا۔ رومیوں کے عہد سے ہی یہ شہر اپنی خوبصورتی اور اسلحہ سازی کے لیے معروف تھا۔ یہ کنگ راڈرک کے دور 709 میں دارالحکومت تھا۔ مسلم دور میں ٹولیڈو خوب پھلا پھولا۔ انھوں نے اُسے طلیطلہ پکارا۔ طلیطلہ اندلس کی روحانی وتہذیبی سرگرمیوں کا قلب سمجھا گیا۔ مستقبل میں اسے الفانسو، میگوئیل ڈی سروانتس، اورال گریشوکی سرگرمیوں کا مرکز بننا تھا۔
یہ تھی وہ دنیا جہاں الزرقالی 1029ء میں پیدا ہوا۔ اُس کا تعلق کاریگروں کے خاندان سے تھا۔ یہ لوگ حکماء کی ہدایات پر تحقیقی آلات بنایا کرتے تھے۔ الزرقالی کسی دارالحکمۃ نہیں گیا تھا۔ اُس نے والد اور دیگر رشتے داروں کی شاگردی میں دھات سازی کا کام سیکھا تھا۔ اُس کے عرفی نام کا معنی ’’دھات کا کندہ کار‘‘ تھا۔
تقدیر نے جب فیصلہ کیا، الزرقالی کے ایک سرپرست نے اُسے فلکیاتی آلہ بنانے کا کام سونپا۔ اُس نے اس قدر عمدہ آلہ بناکر دیاکہ ماہرینِ فلکیات کی توجہ حاصل کرلی، انھوں نے زرقالی سے اُس کی تعلیم کے بارے میں استفسارکیا، تو وہ ہنسا اور بتایا کہ وہ کوئی ’عالم‘ نہیں بلکہ محض ایک ’کاریگر‘ ہے۔ اُس نے بتایا کہ کبھی کوئی کتاب تک کھول کر نہیں دیکھی۔ ماہرین کا خیال تھا کہ زرقالی ذہین ہے اور اُس کی تکینکی مہارتیں کمال ہیں۔ انھوں نے اُسے ترغیب دی کہ باقاعدہ تعلیم حاصل کرے۔ یوں زرقالی نے اکتیس سال کی عمرمیں پڑھائی شروع کی۔ جب دوسال بعد وہ لوٹا تو یہ لوگ اُس کی قابلیت سے بہت متاثرہوئے۔ یہاں تک کہ وہ اُن کے تحقیقی مرکزکا رکن بن گیا، اور بعد میں معلم کی سطح تک پہنچا۔ الزرقالی نے نیا اور مزید معیاری استارہ یاب ڈیزائن کیا۔ اس سے زیادہ اہم بات وہ طویل اورجامع مضمون ہے جو اُس نے استارہ یاب کے عمومی استعمال اور طریقوں پر لکھا۔ الزرقالی کی وفات کے دوسو سال بعد بھی، کاستیلین عیسائی بادشاہ الفانسو دہم خود اُس کے مضامین ترجمہ کررہا تھا۔
اب زرقالی نے خود کو مکمل طور پر’ٹائم مشین‘ بنانے پر لگا دیا۔ 1062ء کے سال، جب تعلیم مکمل ہوئی اورماہرین فلکیات کے گروہ میں شامل ہوا، اُس نے ایک حیرت انگیز ’پانی کی گھڑی‘ بنائی۔ یہ گھڑی نہ صرف دن رات کے گھنٹے بتاتی تھی بلکہ قُمری سال کے اہم اسلامی ایام کی نشاندہی بھی کرتی تھی۔ ایک مؤرخ نے اسے یوں بیان کیا: یہ گھڑی دو طشت پر مشتمل تھی، یہ پانی سے بھری یا خالی ہوتی تھیں، ان کا بھرنا اور خالی ہونا چاند کے بڑھنے گھٹنے کے ساتھ ساتھ تھا۔ جب نئے چاند کی رویت ہوتی تھی، پانی طشت میں بہنا شروع کردیتا تھا اور نالیوں کے ذریعے نچلی طشت میں پہنچتا تھا، وقتِ فجر اس کا چوتھائی حصہ پانی سے بھرجاتا تھا جبکہ دن ڈھلے یہ مقدار نصف ہوجاتی تھی۔ اسی طرح یہ پانی مسلسل سات روز بہتا تھا، اور کم زیادہ ہوتا رہتا تھا۔ جب چاند پورا ہوتا تھا توطشت بھی پانی سے بھرجاتے تھے۔ تاہم پندرہویں کے بعد جب چاند گھٹنے لگتا تھا تب پانی بھی کم ہوتا جاتا تھا، یہاں تک کہ مہینے کے آخر تک طشت میں ایک قطرہ پانی باقی نہ بچتا تھا۔ اس گھڑی میں پانی بھرنے اور دیکھ بھال کا کام باقاعدگی سے کیا جاتا تھا۔
اس پراسرار گھڑی نے بارہویں صدی تک کام کیا، اُس کے بعد ٹولیڈو کے عیسائی بادشاہ الفانسو کی اجازت پر ایک نااہل مسلم محقق نے گھڑی کے پرزے الگ کیے تاکہ اُس کی کارگزاری سمجھ سکے، مگر وہ نہ سمجھ سکا اور نہ ہی پھر سے جوڑ سکا۔ الزرقالی نے علمِ شماریات میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ٹولیڈن جدول تیار کیا، یہ فلکیاتی ڈیٹا کا بالکل درست شمار تھا۔ وہ دنیا کے پہلے almanac لکھنے والوں میں تھا، یہ اصطلاح انگریزی لفظ “climate” کی عربی بنیاد بنی تھی، اسے جدوال کی کتاب کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پڑھنے والے کو مسلم، فارسی، رومی، اور قبطی مہینوں کی معلومات مہیا کرتی تھی۔ یہ جدوال گرہنوں کے اشارے بھی دیتے تھے، اور مطالعہ کرنے والے کو اس قابل بناتے تھے کہ خود مخصوص دنوں میں سیاروں کے مقامات کا تعین کرسکے۔
یہاں تک کہ جب الزرقالی عظمت کی بلندی پر پہنچا، حالات نے اُسے محبوب شہر سے نکال باہر کیا۔ عیسائیوں کی دوبارہ فتح نے خون خرابہ اور عدم استحکام پیدا کردیا تھا۔ 1085ء میں یہ شہر الفانسو ششم کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ یوں یہ علم دوست دور المناک صورت حال سے دوچار ہوگیا۔ (جاری ہے)۔