سندھ اسمبلی میں 25 نومبر کو اتفاقِ رائے سے منظور کردہ قرارداد کے بعد تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں کی بحالی کے لیے تحریک نے ازسرنو جنم لیا ہے اور اس ضمن میں ایک زوردار بحث ملک بھر میں شروع ہوچکی ہے۔ سندھ اسمبلی میں یہ قرارداد لاڑکانہ سے پیپلز پارٹی کی رکن محترمہ ندا کھوڑو صاحبہ نے پیش کی، جس کی تمام جماعتوں کی طرف سے تائید کی گئی اور کوئی ایک آواز بھی اس قرارداد کے خلاف سننے میں نہیں آئی، جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور پوری قوم طلبہ کو اُن کا جمہوری حق لوٹانے پر متفق ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور حکمران تحریک انصاف کے قائدین کی جانب سے بھی طلبہ یونینز کی بحالی کے اقدام کی بھرپور تائید کی گئی۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا محمد فاروق حیدر خان نے آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات کرانے کا اعلان کردیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی طلبہ یونینز پر عائد پابندی ختم کرنے کی منظوری دیتے ہوئے جلد ان کی بحالی کے لیے کابینہ اور سندھ اسمبلی سے قانون منظور کروانے کا اعلان کیا ہے، جب کہ صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے صوبے کے تمام رئیس الجامعات سے اس ضمن میں تجاویز طلب کرلی ہیں، اور سب سے اہم یہ کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی طلبہ یونینز کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی بحالی کا عندیہ دے دیا ہے اور کہا ہے کہ طلبہ یونینز مستقبل کے لیڈر پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان کی جامعات میں طلبہ یونینز پُرتشدد ہوگئی ہیں جس سے علم و دانش کا ماحول تباہ ہوگیا ہے، ہم طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے دنیا کی صفِ اوّل کی جامعات میں رائج بہترین نظام سے استفادہ کرکے اپنے لیے قابلِ عمل ضابطۂ اخلاق مرتب کریں گے اور مستقبل کی قیادت پروان چڑھانے کے اس عمل کی جانب پیش قدمی کریں گے۔
تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی اہمیت سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کرسکتا۔ ان کے انتخابات کے نتیجے میں نوجوانوں میں سیاسی شعور بیدار ہوتا ہے، اختلافِ رائے کو برداشت کرنے، اپنے لیے بہتر نمائندوں کے انتخاب، حقِ رائے دہی کی اہمیت اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے، ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے، اچھائی برائی میں تمیز کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ ماضی میں طلبہ یونینز نے ملک و قوم کو بہترین دماغ دیئے ہیں، اور آج بھی ہماری سیاست کے میدان اور اسمبلیوں کے ایوان میں طلبہ تنظیموں اور یونینز سے تربیت یافتہ قیادت ہی مؤثر کردار ادا کرتی نظر آتی ہے، مگر بدقسمتی سے جنرل محمد ضیاء الحق نے 9 فروری 1984ء کو بعض عاقبت نااندیش مشیروں کے مشورے پر طلبہ یونینز پر پابندی عائد کردی۔ اُس وقت ملک کے اکثر تعلیمی اداروں کی منتخب قیادت اسلامی جمعیت طلبہ کے وابستگان پر مشتمل تھی، چنانچہ دیگر طلبہ تنظیموں نے اس پابندی کو خوش دلی سے قبول کرلیا، تاہم جمعیت نے ہر میدان میں اس کے خلاف زبردست تحریک منظم کی، اور اس کے کارکنان کی بڑی تعداد کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ جمعیت نے اس پابندی کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں چیلنج بھی کیا، جس پر جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ نے اس پابندی کو غیر قانونی، غیر آئینی اور کالعدم قرار دے دیا۔ مگر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد بننے والی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی جمہوری سیاسی حکومتوں اور جنرل پرویزمشرف کی فوجی آمریت میں بھی مختلف حیلوں بہانوں سے طلبہ کو اُن کے یونین سازی کے جمہوری حق سے محروم رکھا گیا۔ جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کے بعد پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے حلف برداری کے فوری بعد طلبہ یونینز اور مزدوروں کی اجتماعی سودا کاری ایجنٹ کے لیے انتخابات اور ریفرنڈم کروانے کا زوردار اعلان کیا، مگر اس دفعہ بھی بات اعلان تک ہی محدود رہی اور اس پر عملی پیش رفت کی نوبت کبھی نہ آسکی۔ اگست 2017ء میں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ میں بھی ایک قرارداد منظور کی گئی کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے اور وزارتِ قانون کی رائے کی روشنی میں طلبہ یونینز کے انتخابات فوری منعقد کرائے جائیں، تاہم یہ قرارداد بھی بے اثر ہی رہی، اور اب تک ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کو شجرِ ممنوعہ ہی سمجھا جارہا ہے۔
سندھ اسمبلی کی جانب سے منظور کی گئی تازہ قرارداد کے بعد پورے ملک میں ازسرِنو ایک ہلچل محسوس کی گئی ہے۔ جمعۃ المبارک 29 نومبر کو ملک کے تمام اہم شہروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے مظاہرے کیے گئے، تاہم ان مظاہروں میں جس طرزِعمل کا مظاہرہ کیا گیا اس پر ملک کے دینی حلقوں میں شدید اضطراب محسوس کیا گیا ہے اور بجا طور پر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ دنیا میں وہ کون سا مظلوم طبقہ ہے جو ڈھول کی تھاپ پر رقص کرکے اپنی مظلومیت اور حقوق سے محرومی کا اظہار کرتا ہے؟ خاص طور پر شاہراہوں پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شرعی حدود کو پامال کرتے ہوئے بھنگڑے ڈالنا معاشرے میں منفی تاثر کا سبب بنا ہے۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکتِ خداداد میں اس طرح کی بے حیائی بہرحال ناقابلِ برداشت ہے۔ اس ضمن میں لاہور میں ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے جس کے ملزمان میں ایف سی کالج یونیورسٹی کے پروفیسر عمار علی جان، سماجی کارکن فاروق طارق، ایم این اے علی وزیر کے بھتیجے عالمگیر وزیر، 2017ء میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں توہینِ رسالت کے الزام میں طلبہ کے تشدد سے قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کے والد اقبال لالہ، محمد شبیر، کامل خان اور تین سو سے زائد دیگر افراد شامل ہیں جن پر ریاستی اداروں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیز تقریریں کرنے اور نعرے لگانے کا الزام ہے۔ جن نمایاں لوگوں کے نام مقدمے میں شامل ہیں ان سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں کا تعلیم اور طلبہ سے قطعی کوئی تعلق نہیں، اور مخصوص نظریات کے حامل ان افراد کو ملک بھر سے مخصوص مقاصد کی خاطر ہی لاہور میں جمع کیا گیا تھا۔ شاید مقصد طلبہ حقوق کی بحالی کی تحریک کو ابتدا ہی میں سبوتاژ کردینا ہے۔ اس نازک مرحلے پر طلبہ کی حقیقی نمائندہ اسلامی جمعیت طلبہ نے بروقت صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے 8 دسمبر کو لاہور میں تمام طلبہ تنظیموں کا اجلاس طلب کرلیا ہے، جس میں طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے مشترکہ ضابطۂ اخلاق اور لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان بیرونی دنیا سے رہنمائی لینے کے بجائے خود اپنی نوجوان نسل کو اعتماد دیں گے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے طے کردہ ضابطۂ اخلاق کو حتمی شکل دے کر اس کی روشنی میں طلبہ کے یونین سازی کے آئینی حق کی بلاتاخیر بحالی کو یقینی بنائیں گے۔
(حامد ریاض ڈوگر)