’’چپ رہنے میں جاں کا ضیاع ،کہنے میں رسوائی ہے‘‘
آگے بڑھنا ہے تو آئین کو سپریم ماننا، اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنا ہوگا
ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ غیر معمولی ہیں، جس سے عہدہ برا ہونے کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا ازبس ضروری ہے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ کو آئین کی منشا اور روح کے مطابق فعال کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کو ذاتی، جماعتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستانی قوم کے مفاد کی خاطر الزام تراشی اور دشنام طرازی کی سیاست کو خیرباد کہہ کر آگے چلنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ یہ اس لیے بھی ناگزیر ہوگیا ہے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے ایک مقررہ مدت میں قانون سازی کرنے کا حلف نامہ عدالت میں حکومت نے جمع کرا دیا ہے۔
پاکستان اور پاکستانی قوم آج جن مشکلات و مصائب کا شکار ہیں اس کی ذمہ داری کسی ایک طبقے یا کسی ایک ادارے پر ڈالنا مناسب ہے اور نہ ہی درست۔ وطنِ عزیز کو اس حالت تک پہنچانے میں بنیادی کردار مفاد پرست عناصر کا ہے۔ آئین اور قانون کی پاس داری کے بجائے وقتی ضرورتوں اور مصلحتوں کی خاطر طاقت وروں اور من مانی کرنے والوں کی اطاعت کی روش رہی ہے۔ آگے بڑھنا ہے تو آئین کو سپریم ماننا، اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ ایک مکتبِ فکر ساری خرابیوں اور عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو ٹھیرانے پر مُصر ہے۔
اس نوزائیدہ مملکت نے جس بے سرو سامانی میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا ،آج کی نسل اُس کا تصوربھی نہیں کرسکتی۔1947ء سے لے کر 1958ء تک پاکستان کے ابتدائی دس سال میں شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان سے لے کر فیروزخان نون تک جتنے بھی وزرائے اعظم رہے، قوم کے لیے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان میں سے کسی ایک پر بھی نہ تو کرپشن کا الزام تھا اور نہ ہی قومی وسائل کی بندر بانٹ، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور نااہلی کا۔ اور وہ سب اپنی تمام تر بشری کمزوریوں اور شخصی خامیوں کے باوجود (جس سے کوئی انسان مبرا نہیں ہے) اپنے اندازِ حکمرانی میں قاعدے قانون کی پابندی کرنے والے تھے، اور نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجود انہوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی وجہ سے کروڑوں مہاجرین کی آباد کاری کسی بیرونی امداد کے بغیر جس طرح کی اُس کی کوئی دوسری مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے ابتدائی دس سال میں ایک قومی بجٹ بھی خسارے کا بجٹ نہیں تھا، انہوں نے مفادِ عامہ کے ایسے منصوبے تشکیل دیے جن کے ثمرات سے پوری قوم مستفید ہوئی۔ وہ اپنی اعلیٰ کارکردگی میں بھی، دیانت و امانت میں بھی اور ذاتی اورگروہی مفادات کے مقابلے میں قومی مفاد کو مقدم رکھنے میں بھی ان سارے حکمرانوں کے مقابلے میں کہیں بہتر تھے جو آئین شکنی کرکے، بندوق کے زور پر یہ نعرہ لگا کر اقتدار پر مسلط ہوئے تھے کہ وہ ملک کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرکے پاکستان کے عوام کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیم یافتہ قوم بنانے کے لیے آئے ہیں۔
آئین شکنوں کا حواری طبقہ یہ راگ الاپتا ہے کہ قائداعظمؒ کے ساتھیوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس میں قوم کی قیادت کرنے کی صلاحیت اور قابلیت ہو۔ حالانکہ قائداعظم کی قیادت میں سفر کا آغاز کرنے والی ٹیم نے نامساعد حالات میں بھی قائداعظمؒ کے وژن کے پیش نظر خود انحصاری کے تحت اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے کی پالیسی اپنائی تھی، اس ٹیم کی یہ کامیابی کیا کم تھی کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ڈومیسٹک (داخلی) قرضے بھی بہت کم، اور بیرونی قرضے نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس کے باوجود ہر بجٹ میں عام آدمی کی مشکلات و مصائب کم کرنے کو ترجیح دی گئی جس کے ثمرات کسی مخصوص طبقے کو نہیں بلکہ قوم کے تمام طبقات کو بلا امتیاز پہنچتے تھے۔
پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے میں… جو1950ء کے عشرے میں تیار کیا گیا تھا… تعلیم، صحت، ذرائع آمد و رفت، بجلی اور پانی کے منصوبوں کی تکمیل کو خصوصی اہمیت دی گئی تھی۔ پاکستان کے ہر بڑے شہر جن میں کراچی، ڈھاکا، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہر شامل تھے، یہ اصول طے کردیا گیا تھا کہ ہر پنج سالہ منصوبے میں 30 سال کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تعلیم، صحت، ذرائع آمدورفت کی سہولتوں کی فراہمی اور پانی اور بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے اہداف مقرر کیے جائیں گے۔ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم شہید ملّت خان لیاقت علی خان نے، جن کا کردار پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں قائداعظمؒ کے بعد سب سے زیادہ ہے، نہ صرف پاکستان کے لیے اپنی جان قربان کردی بلکہ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ مالی ایثار کرنے والوں میں بھی ان کا کردار مثالی ہے۔ قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو انہوں نے دہلی میں اپنی بیگم کے لیے جو شاندار گھر تعمیر کرایا تھا وہ پاکستان کا سفارت خانہ قائم کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کے حوالے کردیا تھا۔ وہ جب تک ملک کے وزیراعظم رہے، اپنی ذاتی گاڑی استعمال کی۔ کراچی کے ایک گھر کے ڈرائنگ روم میں 310 روپے کا وہ چیک فریم میں ’’سووینیر‘‘ کے طور پر لگا ہوا ہے جو انہوں نے اکتوبر 1951ء میں اپنی شہادت سے قبل میریٹ روڈ پر واقع اسٹور کے نام دیا تھا جہاں سے ہر ماہ ان کے گھر کا سامان آتا تھا۔ شہید ملّت خان لیاقت علی خان غیر منقسم ہندوستان میں دو اضلاع پر مشتمل وسیع و عریض زرعی زمینوں کی ملکیت رکھنے والے جاگیردار تھے، اس کے باوجود انہوں نے اپنی زندگی میں ہندوستان میں چھوڑی ہوئی اپنی زرعی یا شہری جائداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا تھا۔ جب ان کی شہادت ہوئی تو ان کے بچوں کے پاس پاکستان میں سر چھپانے کے لیے ایک گھر بھی موجود نہیں تھا۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی فیملی کی رہائش کے لیے سرکاری گھر اور کفالت کے لیے وظیفہ مقرر کیا۔ ان کی بیگم سابق خاتونِ اوّل بیگم رعنا لیاقت علی خان مرحومہ نے حکومتِ پاکستان کو درخواست دی کہ میں سرکاری وظیفے پر اپنے بچوں کی کفالت نہیں کرنا چاہتی، میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہوں، چاہتی ہوں کہ مجھے کوئی ایسی سرکاری ملازمت دے دی جائے جس سے میں اپنے بچوں کی کفالت کرسکوں۔ اس کا علم ہالینڈ کی ملکہ کو ہوا (جن سے ان کی دوستی اُس وقت ہوئی تھی جب وہ پاکستان کی خاتونِ اوّل تھیں) تو انہوں نے حکومتِ پاکستان کو خط لکھا کہ انہیں ہالینڈ میں پاکستان کا سفیر بنادیا جائے تو یہ ہالینڈ کے لیے اعزاز ہوگا۔ جس کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان بچوں کی تعلیم مکمل ہونے تک ہالینڈ میں پاکستان کی سفیر رہیں، اور جیسے ہی ان کے بچوں کی تعلیم مکمل ہوئی وہ سفارتی ذمہ داریوں سے فارغ ہوگئیں اور باقی زندگی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردی۔ خواتین کی تعلیم کے لیے ان کی زیر سرپرستی ادارہ ’’اپوا‘‘ کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔
شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان سے لے کر فیروزخان نون تک کوئی ایک بھی ایسا وزیراعظم نہیں ملے گا جس نے ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح نہ دی ہو۔ اس کالم میں اس کی تفصیل تو کیا اختصار کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ انہوں نے ہر مرحلے پر ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دی۔ مثلاً وزیراعظم چودھری محمد علی مرحوم نے، جن کو پاکستان کے پہلے دستور یعنی 1956ء کے دستور کا خالق ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اپنے لیے یہ استثنیٰ حاصل کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ سرکاری خرچ پر لندن میں اپنا طبی معائنہ کرا سکتے ہیں۔ چودھری محمد علی نے اپنی پوری زندگی ایک بااصول سیاست دان کے طور پر گزاری۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے جنرل ایوب خان کے خودساختہ 1962ء کے دستور کے خلاف ببانگِ دہل آواز بلند کی تھی۔ وہ جنرل ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح مرحومہ کی صدارتی انتخابی مہم کے انچارج بھی تھے۔
پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین ہوں یا محمد علی بوگرہ مرحوم، یا حسین شہید سہروردی مرحوم، یا آئی آئی چندریگرمرحوم یا فیروز خان نون… کسی پر آج تک کسی نے بدعنوانی یا اختیارات سے تجاوز کا الزام نہیں لگایا۔
وزیراعظم فیروز خان نون مرحوم جنہیں گوادر کو پاکستان کے لیے حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے، جب ان کے اسٹاف نے انہیں گوادرکو پاکستان میں شامل کرنے کی دستاویز کی تقریب کی بڑے پیمانے پر تشہیر کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے سے ان کو آنے والے انتخاب میں بڑا فائدہ ہوگا، تو ان کا دوٹوک جواب تھا کہ میں قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ہرگز ترجیح نہیں دوں گا۔ انہی وزیراعظم فیروز خان نون کے دورِ حکومت میں امریکہ بہادر نے بھارت کے ایما پر پاکستان کے بارے میں لب کشائی کی تو انہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے امریکیوں سے کہا کہ اگر پاکستان کے مفاد کو پسِ پشت ڈال کر ہندوستان کو خوش کرنے کے لیے اسے ہم پر ترجیح دی تو ہم اُن ممالک سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کریں گے جو ہم سے صرف امریکہ کی وجہ سے ناراض ہیں۔ الطاف گوہر مرحوم نے جو اُس وقت فیروز خان نون کے اسٹاف میں ڈپٹی سیکریٹری تھے، لکھا ہے کہ ابھی وزیراعظم فیروز خان نون کی تقریر کی گونج بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ امریکہ نے اپنے سفیر کو ہدایت کی کہ وہ جتنی جلد ہو، وزیراعظم سے ملاقات کا وقت حاصل کریں اور اپنی حکومت کی طرف سے ان کے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔ کیا بعد میں آنے والے اس طرح کی کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں؟