پشاور: ایرانی قونصل جنرل محمدباقر بیگی سے الو داعی ملاقات

ایران پاکستان کا ایک ایسا قریبی دوست ملک ہے جس نے نہ صرف پاکستان کو بطور ایک آزاد اسلامی ریاست سب سے پہلے تسلیم کیا تھا، بلکہ پاکستان کے پڑوسی ممالک میں یہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کا کبھی کوئی سرحدی تنازع نہیں رہا۔ یہ ایران کی پاکستان اور بالخصوص خیبر پختون خوا میں خصوصی دلچسپی کا اظہار ہے کہ خیبرپختون خوا سے انتہائی دور ہونے اور اس کی خیبر پختون خوا سے کوئی سرحد ملحق نہ ہونے کے باوجود ایران خیبر پختون خوا کے معاملات میں ہمیشہ سے دلچسپی لیتا رہا ہے۔ یہ ایران کی اس صوبے میں دلچسپی کا ہی مظہر ہے کہ افغانستان اور امریکہ کے بعد ایران وہ تیسرا ملک ہے جس نے پشاور میں نہ صرف اپنا قونصل خانہ کھول رکھا ہے بلکہ یہاں تعینات رہنے والے اس کے اکثر قونصل جنرلز خیبر پختون خوا کے معاملات میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ان قونصل جنرلز میں ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر رہا ہے، اور یہ قونصل جنرلز جب بھی یہاں تعیناتی کا اپنا دورانیہ مکمل کرکے واپس اپنے وطن لوٹے ہیں، وہ یہاں سے خوشگوار یادیں لے کر اور بہترین دوست بناکر گئے ہیں۔ ان ہی قونصل جنرلز میں ایک ہردلعزیز شخصیت جناب محمد باقر بیگی کی رہی ہے، جو سابق قونصل جنرل حسن درویش وند کے بعد یہاں تعینات ہوئے تھے۔ پشاور میں ساڑھے تین سال کا عرصہ بطور قونصل جنرل گزارنے والے باقر بیگی کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں جو ایرانی قوم کا خاصہ ہیں۔ انتہائی ہنس مکھ، ملنسار، نرم لہجے میں مدلل گفتگو کے فن سے آشنا باقر بیگی سے جب بھی ہماری ملاقات ہوئی، ہم نے انہیں ہمیشہ خندہ پیشانی سے اپنا استقبال کرتے ہوئے پایا۔ اُن سے ویسے تو ہماری وقتاً فوقتاً کئی مواقع پر ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، اور ان مواقع پر جہاں ہمیں اُن کی زبانی ایران کے حالات سے براہِ راست آگاہی ملتی رہی، وہیں ان کے ساتھ اپنائیت پر مبنی تعلقات کی بناء پر ایران اور خطے کے حالات پر لگی لپٹی رکھے بغیر براہِ راست تبادلۂ خیالات کا موقع بھی ملتا رہا ہے۔ ان ملاقاتوں میں بعض اوقات سفارتی آداب کو ایک طرف رکھتے ہوئے وہ ہمارے بعض تندو تیز سوالات اور تلخ تجزیات کے جوابات بھی بہت خندہ پیشانی اور کشادہ دلی سے دیتے تھے۔
باقر بیگی پشاور میں سفارت کاری کا اپنا دورانیہ مکمل کرکے چونکہ ایران واپس جارہے ہیں، اس لیے انھوں نے پچھلے کئی دنوں سے زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ روز اباسین کالم رائٹرز ایسوسی ایشن کے ایک نمائندہ وفد نے بھی ایسوسی ایشن کے صدر اور معروف کالم نگار ضیاء الحق سرحدی کی قیادت میں اُن سے اُن کے دفتر میں ملاقات کی۔ ایک گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں شرکاء نے جہاں باقر بیگی کی پاکستان دوستی کی تعریف کی، وہیں تمام شرکاء اس با ت پر متفق تھے کہ باقر بیگی نے بطور قونصل جنرل پاک ایران تعلقات کی بہتری اور خاص کر پختون خوا کے نمائندہ طبقات کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں استحکام اور باہمی روابط کو دوام بخشنے میں جو کردار ادا کیا وہ یقیناً ناقابلِ فراموش ہے۔
باقر بیگی سے ہماری یہ ملاقات ویسے تو اُن کو الوداع کہنے کے لیے تھی، لیکن موقع غنیمت جان کر ہم نے اُن سے تہران میں ہونے والے حالیہ ہنگاموں، ایرانی خواتین کو کھیل کود کے حوالے سے دی جانے والی بعض آزادیوں، ترکی کی کرد علیحدگی پسندوںکے خلاف کارروائی پر ایران کے ردعمل، خلیج میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی، اور امریکہ طالبان مذاکرات، نیز افغان بحران پر ایران کا سرکاری مؤقف براہِ راست جاننے کے لیے بعض سوالات بھی کیے۔ ہمارے پوچھے گئے ان سوالات کے جواب میں باقر بیگی کا کہنا تھا کہ تہران کے واقعات کو مغربی ذرائع ابلاغ اور خطے کے بعض ممالک نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ہنگاموں میں ملوث افراد کی اکثریت کے بیرونی عناصر سے رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایران میں حالیہ اضافے کے باوجود پیٹرول کی قیمت خطے کے تمام ممالک سے دس گنا کم ہے جس کا ثبوت ایرانی پیٹرول کا پاکستان کے دوردراز علاقوں کے علاوہ افغانستان، آذربائیجان، ترکمانستان اور عراق میں بڑے پیمانے پر اسمگل ہوکر فروخت ہونا ہے۔ اس لیے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج محض بہانہ ہے، اصل بات بعض بیرونی قوتوں کا ایران کے استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے اس ایشو کو بطور کارڈ استعمال کرنا ہے۔
خواتین کو کھیل کود میں شرکت کے حوالے سے ملنے والی آزادیوں کے بارے میں باقر بیگی کا کہنا تھا کہ ایران میں خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت ہے، البتہ اس ضمن میں اسلام کی وضع کردہ حدود وقیود کی پابندی خواتین کا اپنا فیصلہ ہے، اس میں ریاستی ادارے کم ہی مداخلت کرتے ہیں، ایران چونکہ اسلامی کے ساتھ ساتھ ایک جمہوری ملک بھی ہے اس لیے اہم حکومتی فیصلوں میں جمہور کی آراء کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، خواتین سے متعلق حالیہ فیصلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں بظاہر کوئی عیب نہیں ہے۔
شام میں کرد جنگجوئوں کے خلاف ترکی کی مداخلت کی مخالفت کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ایران شام سمیت خطے کے کسی بھی ملک میں بیرونی مداخلت کا مخالف ہے۔ ہم خطے کے تمام تصفیہ طلب مسائل بات چیت اور گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، البتہ جہاں تک خطے میں کردستان کی ریاست کے قیام کا معاملہ ہے، ایران نے کبھی بھی اس کی حمایت نہیں کی، اور نہ ہی ایسی کوئی ریاست امر یکی ایجنڈے کا حصہ نظر آتی ہے۔ ویسے بھی ایران اور ترکی کے کردوں میں کوئی مطابقت اور قربت نہیں ہے، بلکہ ان دونوں کرد خطوں میں واضح فرق پایا جاتا ہے، اس لیے ایران کردستان کی کسی تحریک کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔
خطے کی صورتِ حال کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ شام میں بیرونی طاقتوں کی ننگی جارحیت کے باوجود بشارالاسد حکو مت پہلے سے زیادہ محفوظ اور طاقتور ہے۔ اسی طرح یمن میں عرب اتحادی افواج کی سعودی عرب کی قیادت میں مسلح مداخلت کے باوجود اُن کے دعووں کے برعکس نہ تو اب تک ان کا یمن پر قبضہ ہوسکا ہے اور نہ ہی وہاں کی انقلابی حکومت کو منظر سے ہٹایا جاسکا ہے، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی پوزیشن مستحکم ہوتی جارہی ہے۔
افغانستان کے مستقبل اور امریکہ طالبان مذاکرات سے متعلق پوچھے گئے ہمارے ایک سوال کے جواب میں باقر بیگی کا کہنا تھا کہ افغانستان کا مسئلہ صرف افغانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے خطے کے تمام پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اس لیے اس مسئلے کا نہ تو کوئی بیرونی حل ہے اور نہ ہی ایسا کوئی مصنوعی حل دیرپا اور پائیدار ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہماری رائے ہے کہ ایران، پاکستان اور افغانستان کو مل کر نہ صرف افغان بحران کا کوئی متفقہ حل نکالنا چاہیے، بلکہ یہ تینوں برادر پڑوسی ممالک مل کر ایک دوسرے کے خلاف پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے کے ساتھ ساتھ مشترکہ روابط کے ذریعے بہتر معاشی، سماجی اور سیاسی اہداف بھی حاصل کرسکتے ہیں، جو یقیناً ان تینوں مسلمان دوست ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہوں گے۔