طلبہ یکجہتی مارچ

پاکستان میں بائیں بازو اور لبرل نظریات کی حامل تنظیموں کا نیا تحرک

جمعہ 29 نومبر کو ملک کے مختلف شہروں میں ترقی پسند طلبہ اور دیگر ترقی پسند تنظیموں نے طلبہ یک جہتی مارچ کیا۔ مارچ کے منتظمین اور بعض اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق ملک کے 50 شہروں میں یہ مارچ ہوئے، جن میں طلبہ یونینوں کی بحالی کا مطالبہ سرفہرست تھا۔ ملک کی ترقی پسند تنظیمیں بعض علاقائی تنظیموں، قوم پرست گروپوں اور لبرل دانشوروں کے ساتھ تین سال سے 29 نومبر کو یہ شو کرتی ہیں۔ 2017ء اور 2018ء کے شوز ایسے تھے کہ میڈیا نے نہ اُن پر کوئی توجہ دی اور نہ ہی ان کی کوریج کو ضروری سمجھا۔ یہ شوز بھی بمشکل چند شہروں میں چند درجن افراد کے انقلابی نعروں کے درمیان رہے۔ شاید اسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اِس بار بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں، مزدور گروپوں اور لبرل دانشور حلقوں نے زیادہ مستعدی سے کام کیا۔ منظم انداز میں اس کی تیاری کی۔ تمام متعلقہ حلقوں اور تنظیموں کو آن بورڈ لیا۔ کئی ماہ پہلے سے زمین ہموار کرنا شروع کی اور اچھے ہوم ورک کے ساتھ میدان میں اُترے۔ بائیں بازو اور لبرل نظریات کے حامل لوگوں نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس اور فیض میلہ کو بطور تجرباتی پلیٹ فارم کے استعمال کیا، کچھ جذبات کو ان دونوں تقریبات میں اُبھارا، لیفٹ کے لوگوں کو اُبھارا اور آخرکار ایک ایسا شو کرنے میں کامیاب ہوگئے جسے مخالفین بھی ناکام شو نہیں کہہ سکتے۔ اعلان کے مطابق یہ طلبہ یک جہتی مارچ ملک کے 50 شہروں میں ہوا، اور ہر شہر میں شرکا کی قابلِ ذکر تعداد موجود تھی۔ شاید سب سے بڑا شو منصوبے اور فیصلے کے مطابق کیا گیا جس میں پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کی سربراہ غنویٰ بھٹو شریک ہوئیں۔ جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر خود تو لاہور نہ پہنچ سکے تاہم اُن کے بھتیجے عالمگیر وزیر نے جو پاکستان کونسل نامی تنظیم کے سابق صدر اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں، علی وزیر کی نمائندگی کی۔ مقررین میں فرخ سہیل گوئندی، انقلابی شاعر حبیب جالب کی بیٹی طاہرہ جالب، فاروق طارق اور امتیاز عالم شامل تھے۔ اس شو میں لاہور میں مقیم بائیں بازو کے نظریات کے حامل لوگ بھی موجود تھے، جب کہ پُرجوش نوجوانوں کی بھی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اِس بار اس شو کے لیے ہوم ورک خاصا اچھا تھا، نیز گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ہونے والے واقعات نے مزاحمت کی اس تحریک کے لیے زمین بھی ہموار کردی تھی۔ چنانچہ کئی ہفتے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی جس میں بتایا گیا کہ کمیونزم تحریک ایک بار پھر دنیا بھر میں کامیابی کی منزلیں طے کررہی ہے۔ جدید معاشروں میں بھی کمیونزم کو محروم طبقات کی آواز اور استحصالی نظام سے نجات کے علاوہ آج کے مسائل کا حل قرار دیا جارہا ہے۔ خود پاکستان میں بھی اس کے حق میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں جو کسی بھی وقت ایک منظم تحریک بن سکتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر طلبہ یک جہتی مارچ 29 نومبر 2019ء کی پبلسٹی کمپیئن بھی منظم انداز میں چلائی گئی، یہی نہیں بلکہ اس بار بائیں بازو اور لبرل نظریات کے حامل دانشوروں کو بھی آن بورڈ لیا گیا۔ چنانچہ پہلے بعض دانشوروں نے اپنے کالموں میں بائیں بازو کے نظریات کی پذیرائی پر کالم لکھے اور پھر یہ بات اداریوں تک آگئی۔ فرخ سہیل گوئندی جو روزنامہ ’نئی بات‘ کے مستقل کالم نگار ہیں اور ایک موقع پر اس اخبار کی ادارت کے بھی امیدوار تھے، پہلے اُن کے کالم میں یہ معاملہ اٹھا، اور پھر ڈان جیسے مؤقر انگریزی اخبار نے 28 نومبر کو طلبہ یک جہتی مارچ پر باقاعدہ اداریہ لکھ دیا، اور ایک ٹی وی چینل نے اس شو کے منتظمین کا باقاعدہ انٹرویو بھی نشر کردیا۔ جیسے ہی 29 نومبر کے شو کی کامیابی کا تاثر ابھرا اور قومی اخبارات میں اس کی غیر معمولی کوریج سامنے آئی تو عرصے سے غیر جانب داری کا لبادہ اوڑھے ہوئے دانشور سامنے آگئے۔ ڈان کے اداریے اور ایک مارننگ شو میں اس شو کو منظم کرنے والی تنظیم پروگریسو اسٹوڈنٹس کولیکٹو کے دو عہدیداروں حیدر بٹ اور عروج اورنگ زیب کے انٹرویو نشر ہونے کے بعد پورا میڈیا اس جانب متوجہ ہوگیا۔ چنانچہ لیفٹ جسے ہمیشہ اپنی کوریج کے بارے میں شکایت رہتی تھی وہ اِس بار خاصا مطمئن تھا۔ اگلے روز سے اس شو کا پلان بی شروع ہوگیا۔ پہلے جناب سہیل وڑائچ نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو شرم دلائی کہ تم کھڑے کہاں ہو، اپنی ماں اور نانا جیسے شکرے اور عقاب بننے کے بجائے تم بھیڑوں کے ریوڑ میں ایک بھیڑ بن چکے ہو۔ تم بھی نون لیگ اور قاف لیگ کی طرح طوطے اور بلبل بن چکے ہو۔ مگر مصلحت اور مصالحت سے ملنے والا اقتدار کٹھ پتلی جیسا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی ازخود کردی کہ شکرے بھٹو اور عقابی بے نظیر کو اقتدار دینا مجبوری بن گیا تھا (گویا اقتدار تو اُسی اسٹیبلشمنٹ نے دیا، مگر دیا باامرِ مجبوری)۔ اور پھر زیرک کالم نگار نے نوجوان بلاول کو حسب عادت مشورہ دیا کہ تاریخ میں زندہ رہنا ہے یا عوام کے دلوں پر حکومت کرنی ہے تو پھر تمہیں عوام کے لیے باہر نکلنا چاہیے تھا۔ اور پھر اتنی لمبی تان کھینچنے اور تمہید باندھنے کے بعد سہیل وڑائچ اصل مقصد پر آگئے کہ لاہور شہر میں تحریک کے سرخ پھریرے لہرا رہے ہیں، لال لال کے نعرے لگ رہے ہیں، سرخ انقلاب کے پہلے شہید بھگت سنگھ کی سرفروشی پھر سے داد وصول کررہی ہے۔ مگر تم (بلاول) کہاں ہو! یہ سارے کام تو تمہارے کرنے کے تھے، صرف تمہارے حامی بیان سے کام نہیں چلے گا، تمہیں تو ان تحریکوں کی قیادت کرنا تھی، تمہیں تو اپنے نانا اور والدہ کی طرح غریبوں کے گھروں میں چراغ جلانا تھے، مگر تم اقتدار کے قمقموں کی روشنی پانے کی سعی کرنے میں لگے ہو۔ جناب سہیل وڑائچ کا کالم طنزسے بھرا ہوا ہے، لیکن اس میں اُن کی قلبی خواہش بھی شامل ہے۔ وہ ماضی میں بے نظیر، آصف زرداری، نوازشریف، چودھری شجاعت، میر ظفر اللہ جمالی، حتیٰ کہ شہبازشریف اور پرویزالٰہی کو بھی نجی محفلوں اور کالموں میں مشورے دیتے رہے ہیں، لیکن اس بار بلاول کو مشورے میں وہ کسی مصلحت یا مصالحت کا شکار نہیں۔ انہوں نے اپنے دل کی آواز اور دبی ہوئی خواہش کھل کر لکھ دی ہے۔ جناب سہیل وڑائچ نے بلاول کو اُکساتے ہوئے اپنے کالم فیض عام میں یہاں تک لکھ دیا کہ ہر شکرے کو اقتدار ہاتھ باندھ کر دیا جاتا ہے (کاش وہ اپنی قومی تاریخ سے اس کی کوئی مثال بھی دے سکتے کہ اُن کے بقول سیاست کے شکرے اور عقاب کو کس نے ہاتھ باندھ کر اقتدار دیا تھا) اور طوطے ہاتھ باندھ کر اور منتیں کرکے اقتدار لیتے ہیں۔ اور آخر میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ تم صیاد کے ہمنوا بن کر سوتیلے (غالباً آصف زرداری) سے اختلاف کیوں کررہے ہوِ، اور پھر تنبیہ کی ہے کہ دھیان سے چلنا، وگرنہ سب کو پتا لگ جائے گا کہ تم کہاں کھڑے ہو۔ اس کالم میں انہوں نے بلاول کی اسٹیبلشمنٹ سے کسی ممکنہ مصالحت کا ذکر کرکے انہیں عقاب اور شکرا بن کر سرخ پھریرے والوں کی قیادت کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ معلوم نہیں وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن سرخ پھریروں اور لال لال کے نعروں کے ساتھ اُن کی اپنی دلی وابستگی ضرور واضح اور نمایاں ہوگئی ہے۔
اس موضوع پر کالموں کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جن میں سرخ سویرے کی نوید دی جارہی ہے۔ روزنامہ ڈان اس معاملے میں خاصا آگے نظر آتا ہے، جبکہ فرائیڈے ٹائمز بھی سرگرم ہے۔ روزنامہ ’انتخاب‘ کراچی میں جناب انور ساجدی نے اپنے کالم ’’افکارِ پریشاں‘‘ میں لکھا: ’’لال پریتم اور انقلابی نعرے، اس کے پیچھے جو بھی ہو، کافی عرصے کے بعد مایوس نوجوانوں کو ایک نئی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا ہے‘‘۔ تاہم انہوں نے شاید ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس خدشے کا اظہار بھی کردیا ہے کہ آگے جاکر پتا چلے گا کہ ایک دفعہ کا یک جہتی مارچ تحریک کا روپ دھار سکتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ تحریکیں ہمیشہ ایک منظم پلیٹ فارم کے تحت ہی چل سکتی ہیں، اُس کے اغراض و مقاصد بھی واضح ہونے چاہئیں، اور یہ بھی کہ کون لوگ اس کے نظریات اور لائحہ عمل کو استوار کررہے ہیں۔ انور ساجدی نے مزید لکھا ہے کہ اس وقت تمام شعبوں میں رجعتی عناصر کا غلبہ ہے جن کا زور توڑنے کے لیے تیسری قوت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مشترکہ دشمن نہ ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طاقت بھی باقی نہیں رہی۔ لیفٹ کے کمزور ہونے کے ساتھ آمروں کا ساتھ دے کر بائیں بازو کی قوتوں کو للکارنے والی جماعت اسلامی بھی ادھ موئی ہوکر رہ گئی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ کہہ کر جماعت اسلامی کو حوصلہ دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ کوئی لال تحریک اُٹھتی ہے تو جماعت اسلامی کو خوش ہونا چاہیے کیونکہ اس کے مقابلے کے لیے یہ سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ انور ساجدی کے بقول لال ٹوپی والے زید حامد نے حالیہ لال تحریک کے پیچھے سی آئی اے کا ہاتھ تلاش کرلیا ہے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بائیں بازو کی منتشر قوتوں نے اِس بار 29 نومبر کے شو کے بعد اپنا کام بند نہیں کردیا، بلکہ اگلے روز ہی لاہور کے ایک پوش علاقے کے ایک بڑے اور قیمتی پلازہ میں ’’پشتونوں میں امتیازی سلوک‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کیا جس میں سو کے قریب افراد شریک ہوئے۔ تاہم امتیاز عالم جیسی لیفٹ کی قیادت نہ آئی۔ علی وزیر نے بھی پیغام بھیجا کہ اُسے ایجنسیاں آنے نہیں دے رہیں۔ 29 نومبر کا شو پروگریسو اسٹوڈنٹس کولیکٹو کے پلیٹ فارم سے کیا گیا جس میں وہ لیفٹ کی طلبہ تنظیموں، مزدور تحریکوں، لیفٹ کے نظریات کے حامل دانشوروں، علاقائی اور لسانی جماعتوں اور گروپوں کو کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد لاہور میں اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ لبرل این جی اوز اور لیفٹ کے لوگوں کی سول سوسائٹی بھی آگئی، اور آئی اے رحمٰن اور حسین نقی جیسے دانشور صحافی بھی یہاں موجود تھے۔ پروگریسو اسٹوڈنٹس کولیکٹو کے سربراہ عمار علی جان ہیں، جو خود طالب علم نہیں بلکہ ایک نجی یونیورسٹی میں استاد ہیں، اور حال ہی میں برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے لوٹے ہیں، ایک بار خفیہ ادارے اُن کے دفتر واقع گارڈن ٹائون کو بند بھی کروا چکے ہیں، لیکن وہ تاحال سرگرم ہیں، اور اپنے سینئرز سے کسی حد تک مایوس۔ دوسری جانب لگتا یہ ہے کہ 29 نومبر سے قبل ہی لیفٹ کی قوتوں نے پنجاب یونیورسٹی کو اپنا ہدف بنالیا ہے، جہاں پنجابی کونسل، پشتون اتحاد اور بلوچ طلبہ کو آگے کیا گیا ہے۔ جبکہ لبرل نظریات کے حامل، این جی اوز کے پروردہ طلبہ اور اساتذہ اُن کی پشت پر ہیں۔ یہ طلبہ فیض میلہ اور عاصمہ جہانگیر انٹرنیشنل کانفرنس میں بھی سرگرم تھے، ان میں سے بعض اس سلسلے میں انکوائریاں بھی بھگت رہے ہیں۔ چند روز قبل پنجابی کونسل نے یونیورسٹی میں بسوں کی کمی کے معاملے پر احتجاج کیا۔ ان احتجاجی طلبہ کا اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ٹکرائو بھی ہوا، جس میں سات طلبہ زخمی ہوگئے۔ فاٹا سے پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے بھتیجے عالمگیر وزیر جنہیں 29 نومبر کی شام کو گرفتار کیا گیا تھا، اُن کی گرفتاری کے خلاف لیفٹ کے طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دیا جو کئی گھنٹے جاری رہا۔ ان طلبہ کا موقف ہے کہ عالمگیر وزیر کو جو اپنی ڈگری لینے آئے تھے اور اپنے کسی عزیز کے پاس یونیورسٹی ہاسٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے انہیں وہاں سے گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ پولیس کے مطابق انہیں گلبرگ کے ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا۔ یہ صورت حال سوچنے سمجھنے والوں کے لیے فکرمندی کا باعث ہے کہ کہیں سرخ انقلاب کے شوقین پنجاب یونیورسٹی جیسی تاریخی دانش گاہ کو ٹکرائو اور تصادم کا مرکزی پوائنٹ نہ بنادیں۔ اس لیے سب کو اس معاملے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے جامعہ کا امن تباہ ہوجائے۔
معروف کالم نگار اور تجزیہ نگار جناب سجاد میر کے مطابق اب اس ملک یا جامعہ میں سرخ انقلاب کا تو کوئی امکان نہیں ہے اور لبرل نظریات کے حامل لوگ کلچر کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں ہیں، اور اس معاملے میں احساسِ محرومی کے شکار لسانی گروپ اور قوم پرست گروپ اُن کے ساتھ ہیں۔ یہ سارے گروپ مل کر شاید سرخ انقلاب تو نہ لاسکیں لیکن معاشرے میں لبرل ازم کے لیے شاید کوئی گنجائش نکالنے میں کامیاب رہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے لبرل طبقات جدید دنیا کے لبرل نظریات کے حامل نہیں جو مذہب کو فرد کا حق مانتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے لبرل طبقات اندر سے مذہب دشمن اور اخلاقی و سماجی اقدار کے مخالف ہیں، ان کا یہ رویہ انہیں ایک مسلم معاشرے میں مقبول تو نہیں بنا سکتا لیکن شاید وہ پہلے سے موجود Controversy کو مزید گہرا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اللہ خیر کرے۔