پروفیسر ہارون رشید۔۔۔ میرا بھائی، میرا دوست

پروفیسر ہارون رشید سے خاندانی تعلق تھا۔ اُن کی دادی اور میری نانی سگی بہنیں تھیں۔ ان دونوں بہنوں کا تعلق افغانستان کے علاقے کنڑ سے تھا اور سادات خاندان سے تھیں۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کا آغاز کنڑ سے ہوا۔ میرے نانا کا تعلق ضلع پشین سے تھا اور غرشین سید تھے۔ کلی غرشین پشین کے مغرب میں واقع ایک چھوٹا سا گائوں ہے۔ میرے والد مرحوم شادیزئی سید تھے، گائوں سرونان ریلوے اسٹیشن کے جنوب میں واقع ہے۔ میرے نانا سید عمر مرحوم اور ہارون رشید کے والد نواب شاہ خان آپس میں کزن تھے۔ ان دونوں کو معلوم تھا کہ کون سا خاندان کہاں مقیم ہے، لیکن ایک عرصے تک آپس میں ملتے نہیں تھے۔ 1958ء میں تعلق پیدا ہوگیا اور ہارون مرحوم کے والد اپنی والدہ کے ہمراہ کوئٹہ تشریف لائے۔ یوں ہارون رشید مرحوم کا ان کے بعد کوئٹہ آنا جانا شروع ہوا۔ یہ ہمارے اسکول کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد کالج کا دور شروع ہوا۔ 1960ء اور 1962ء کا زمانہ تھا، ہم دونوں ہندوستانی فلمیں دیکھنے جاتے تھے۔ انداز فلم دیکھی، 12 آنے ٹکٹ تھا۔ اُس دور کے اکثر طالب علم سینما ہائوس جاتے تھے، اردو اور انگریزی فلمیں دیکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ملازمتوں کا سلسلہ شروع ہوا، اور ساتھ ساتھ علمی سفر جاری رہا۔ ایم اے اردو کرنے کے بعد وہ سکھر کے کالج میں لیکچرار ہوگئے۔ وہ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی منظور احمد تھے، جو وکیل تھے، بعد میں وکالت چھوڑی دی۔ اُن کی شادی نواب جونا گڑھ کے خاندان میں ہوئی۔ اور ہارون رشید کی شادی میری چھوٹی بہن سے ہوئی۔ یوں وہ میرے کزن بھی تھے اور بہنوئی بھی۔ یہ 1965ء یا 1967ء کا دور تھا۔ کالج سے ان کا علمی اور ادبی دور شروع ہوا۔ چونکہ وہ اردو کے استاد تھے، بعد میں پروفیسر ہوگئے اور کالج کے پرنسپل بھی بن گئے۔ یوں وہ ادبی محفلوں میں شریک ہوتے تھے، اور ان کا حلقۂ ادب وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور سینئر ادیبوں اور شاعروں سے بھی تعلق بن گیا۔ مشاعروں میں شرکت ان کی زندگی کا ایک گوشہ بن گیا، اور پھر ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے ان کا تعلق گہرا ہوتا گیا اور بڑھتا گیا۔ یوں اُن کا علمی اور ادبی سفر جاری رہا۔ مظفر ہاشمی مرحوم اُن کے ہمسایہ تھے، اس لیے اُن سے بھی تعلق بن گیا۔ یوں وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے۔ ناظم آباد میں بورڈ آفس کا گراسی گرائونڈ ہے، یہاں وہ صبح کی نماز کے بعد جاگنگ کرتے تھے۔ جاگنگ میرا بھی شوق تھا۔ سردیوں میں چونکہ میرا کراچی آنا لازمی ہوتا تو مظفر ہاشمی مرحوم سے ملاقات روزانہ ہوتی تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے میرا تعلق رہا تھا، اس لیے وہ مجھے جانتے تھے۔ اس گرائونڈ میں بعض ممتاز ادیبوں اور شاعروں سے صبح کے وقت ملاقات ہوجاتی تھی۔ لیکن اُن کی محفلوں میں شریک نہیں ہوا۔ پروفیسر ہارون اور مظفر مرحوم Sunday Party کے اہم رکن تھے اور یوں یہ دونوں اپنے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ پروفیسر ہارون رشید جماعت اسلامی سے متاثر تھے۔ انہیں مولانا کی بعض کتابیں دیں اور ترجمہ قرآن بھی انہوں نے خریدا اور مطالعہ کرتے۔ مولانا مودودیؒ اردو زبان کی معراج پر تھے، اس لیے ہارون کا متاثر ہونا ایک فطری بات تھی۔ ان کا ایک چھوٹا بیٹا سلسلۂ تصوف سے منسلک ہے اور وہ مولانا مودودیؒ کے سخت خلاف ہے۔ اُس سے میری بڑی گرما گرم بحث ہوتی اور ہارون اس بحث میں میرے طرفدار ہوتے۔ یوں نوک جھونک چلتی رہتی۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی کہ سلسلۂ تصوف بھی مولانا مودودی کے خلاف ایک محاذ ہے جو سرگرم ہے۔ ’خلافت و ملوکیت‘ ان کے درمیان حدِّ فاصل ہے، اور میری نگاہ میں ایک وہی کتاب ہے جو خلافت اور ملوکیت میں حدِّ فاصل کھینچ چکی ہے۔ دوبارہ اسلامی حکومت کے دور میں لوٹنے کے لیے یہ عظیم کتاب رہنمائی کرتی رہے گی۔ مولانا مرحوم نے ایک اور اصطلاح استعمال کی اور کہا کہ رسول بھی فوق البشر نہیں ہے۔ اس اہم جملے سے مولانا مرحوم نے اللہ رب العالمین اور رسولوںمیں فرق کو واضح کیا۔ بات پروفیسر کی چل رہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی اُن کی زندگی کا حصہ ہے، اس لیے یہ ذکر بھی چلتا رہے گا۔ داڑھی کے مسئلے پر بھی ان کے صوفی بیٹے سے بڑی گرما گرم بحث ہوتی تھی اور میرے لیے یہ منظر بڑا دلچسپ ہوتا۔ بالآخر پروفیسر ہارون رشید نے بھی داڑھی بڑھائی۔ میرا صوفی بھانجا میری داڑھی کو شمار ہی نہیں کرتا ہے۔
اپنے دوست ہارون رشید سے کہتا تھا کہ وہ لکھنے کی طرف آئیں، اور بالآخر وہ لکھنے کی طرف آگئے اور انہوں نے اپنے لیے ادبی اور تعلیمی میدان منتخب کرلیا۔ لیکن میری خواہش تھی کہ وہ سیاسی میدان میں طبع آزمائی کریں۔ کچھ کچھ آمادہ تھے مگر زندگی نے وفا نہیں کی۔ وہ جماعت اسلامی کو پسند کرتے تھے اور زبردست حامی تھے۔ ایرانی انقلاب کے بھی حامی تھے۔ پروفیسر ہارون مسلکی بحث اور الجھنوں میں گرفتار نہیں تھے اور اس بحث سے انہوں نے دامن ہمیشہ بچایا ہے، وہ کسی تعصب کا شکار نہ تھے۔ ان کا ووٹ ہمیشہ جماعت کو گیا۔ کوئی 2 یا 3 سال قبل اردو کانفرنس کراچی میں تھی تو مظفر ہاشمی اور ہارون کے ہمراہ گیا۔ رات گئے تک ہم تینوں محفل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس دوران رنگِ محفل دیکھ کر حفیظ کے کچھ شعر سنائے تو انہوں نے پورا کلام سنادیا۔ میں نے بھی کچھ شعر پڑھے۔ دونوں کا ادبی ذوق کمال کا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ دونوں میں خوب نوک جھونک ہوتی اور میں لطف اُٹھاتا۔ اب دونوں ہی نہیں ہیں۔ میرے لیے کراچی ان کے بعد اداس اداس لگتا ہے۔
پروفیسر ہارون رشید اب کی بار 3 یا 4 بار کوئٹہ تشریف لائے۔ وہ اپنے ایک عزیز کے مقدمے کے سلسلے میں آتے تھے۔ انہوں نے اپنی بیماری سے ایک دن پہلے مجھے فون کیا کہ میں کوئٹہ آنا چاہتا ہوں۔ اُن سے کہا کہ کوئٹہ بہت سرد ہوگیا ہے، آپ نہ آئیں، تو انہوں نے میری بیگم کو فون کیا کہ امان نہ آنے کا کہہ رہا ہے، تو اس نے بھی کہا کہ سردی ہے آپ نہ آئیں۔ بیوی نے کہا یہ ہارون ضدی آدمی ہے، ضرور آئے گا۔ دوسرے دن اس کا انتظار تھا لیکن وہ نہیں آیا۔ بیوی سے کہا کہ معلوم نہیں کیا بات ہے، ہارون نہیں آیا۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ ہارون پر بیماری کا حملہ ہوا ہے، وہ بے ہوش ہیں اور اسپتال میں ہیں۔ دماغ کی رگ میں کلاٹ آگیا ہے اس لیے ہوش میں نہیں ہیں۔ دو دن کے بعد ہوش میں آگئے اور کچھ کچھ باتیں بھی کرسکتے تھے۔ ان کی بیٹی کو فون کیا اور کہا کہ ان کے کان پر فون لگائیں۔ ان سے بات ہوئی، زبان لڑکھڑا رہی تھی، کچھ مذاق بھی کیا۔ میں مطمئن ہوگیا کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔ لیکن دو دن بعد پتا چلا کہ وہ دوبارہ ضیا الدین اسپتال میں داخل ہوگئے ہیں اور بے ہوش ہیں۔ ہارون کی وفات سے ایک دن پہلے کوئٹہ سے کوچ کے ذریعے کراچی پہنچا اور اپنی بہن کے گھر گیا۔ بہن سمیت تمام اہلِ خانہ خاموش تھے۔ مغرب کی نماز کے بعد بچوں کے ہمراہ اسپتال پہنچا۔ اجازت ملنے کے بعد ہارون کے پاس پہنچا تو وہ خاموش تھے اور آکسیجن پر تھے۔ سانس چل رہی تھی۔ اُن کی بیٹی نے باپ کے سینے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور دعائیں پڑھ رہی تھی۔ ان کی بہو بھی کھڑی تھی، وہ بھی دعائیں اور قرآنی آیات تلاوت کررہی تھی۔ نرس نے انجکشن لگایا۔ میں نے بھی سینے اور کلائی پر ہاتھ رکھا اور دعا کی۔ چہرہ پُرسکون تھا، ایسا لگا کہ وہ سنتے سنتے نیند کی دنیا میں چلا گیا ہے اور لوٹنا مشکل لگ رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے بتلادیا کہ نبض ڈوب رہی ہے۔ اس کی زندگی کی شام طلوع ہونے چلی تھی۔ اس سے رخصت ہوا، اپنے عزیز فہیم کے آفس آیا، کچھ دیر بیٹھا۔ ہم پھر گھر آگئے۔ چند منٹ گزرے ہوں گے کہ اطلاع آگئی کہ ہارون فوت ہوگئے اور صبح پاپوش نگر کے قبرستان میں ابدی نیند سوگئے۔ ان کا حلقہ ادب وسیع تھا، وہ سب حاضر تھے۔ ان کی عمریں 70 سال یا اس سے اوپر ہوں گی۔ وہ سب مست بوڑھے لگ رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر حیران ہورہا تھا کہ ہارون کے دوست اتنے بوڑھے لوگ ہیں۔ جب انور شعور نے تعزیتی ریفرنس میں کہا کہ ہارون میرے بچپن اور لڑکپن کا دوست تھا تو حیرت سے انور شعور کو دیکھ رہا تھا اور دوسری طرف ہارون نگاہوں میں تھا۔ ہارون ان سب بوڑھوں میں چھوٹا لگتا تھا۔ زندگی کی 73 بہاریں دیکھ چکا تھا، موت نے اچک لیا۔ شاید نظر لگی ہو۔ ہارون کی بیٹی فرحانہ (اکلوتی) کچھ کچھ ادبی ذوق رکھتی ہے لیکن گھریلو زندگی نے اس طرف آنے نہیں دیا۔ ادب اور علم کے حوالے سے پروفیسر ہارون رشید مرحوم کا کوئی وارث نہیں ہے، شاید بڑے لوگوں کا یہی المیہ ہے۔
دعا ہے کہ ہارون کو مہربان رب اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ آمین