غزالی فاروقی/ترجمہ ابراہیم خان
عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبیٔ اکرمؐ نے فرمایا ’’جب تم یہ دیکھو کہ میری امت کسی جابر کو اُس کے منہ پر جابر کہنے سے خوفزدہ ہے تو سمجھ لو کہ اُسے (امت کو) چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘
جس دن آدمؐ کو روئے ارض پر بھیجا گیا تھا تب سے ہر نبی کا ایک ہی کام تھا … باطل، جبر اور شرک کے خلاف ڈٹ جانا اور اُس کا قلع قمع ہونے تک ہمت نہ ہارنا۔ علاوہ ازیں اُنہوں نے تمام انسانوں کو ظلم و جبر اور باطل سے لڑنا سکھایا جس کے نتیجے میں انسانیت کو ناقابلِ تلافی نقصانات سے بچانا ممکن ہوسکا۔ ہر نبی نے انسانوں کو حق اور باطل کا فرق بالکل واضح طور پر سمجھایا اور اس امر کی تلقین کی کہ حق کے معاملے میں کبھی اُصولوں پر سودے بازی نہ کی جائے، نہ ہی اللہ کی رضا کو باطل کے ساتھ گڈمڈ کیا جائے۔ ہر طرح کی مشکلات کی پرواء کیے بغیر انبیاء علیہم السلام ہمیشہ باطل کے خلاف ڈٹے رہے اور اپنی امت کو بھی ایسا ہی کرنے کی ہدایت کی۔ حق کا ساتھ دینا اور باطل کے خلاف ڈٹ جانا ہر مسلم کے نمایاں ترین فرائض میں سے ہے۔
مولانا طارق جمیل کا شمار برصغیر کے معروف ترین مبلغین میں ہوتا ہے۔ جذبات سے لبریز اُن کے دینی بیانات لوگوں پر رقت طاری کردیتے ہیں، اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ میں خود بھی ایک عرصے تک اُن کے بیانات سُنتا رہا مگر پھر میں نے اسلام کے حوالے سے اُن کی بنیادی اپروچ میں کچھ ایساکتمانِ حق محسوس کیا جو کسی بھی مسلم کو مضطرب کرنے کے لیے کافی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ طارق جمیل نے کسی بھی جابر اور استعماری قوت کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی، چاہے وہ امریکا ہو یا برطانیہ، بھارت ہو یا اسرائیل۔ میانمار (برما) میں روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر کم و بیش دو عشروں سے مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور اِتنی ہی مدت سے یہ مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی حد تک میڈیا میں موجود ہے مگر طارق جمیل نے آج تک روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کی بھرپور مذمت کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ طارق جمیل مذہبی حوالے سے پاکستانی معاشرے میں نمایاںمقام کے حامل ہیں۔ اُنہیں سُننے، اُن کی بات ماننے اور مختلف امور میں اُن کی رائے کے سے متاثر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اِن تمام مسلمانوں کی راہ نمائی طارق جمیل کی ذمہ داری ہے۔ ایسے میں اسلام کے حوالے سے کوئی موقف یا رائے قائم کرنے کے معاملے میں بھی اُنہیں غیر معمولی احتیاط کا دامن تھامنا چاہیے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ طارق جمیل کو شہادۃ کا حقیقی مفہوم اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ ہمارے کلمے کا بنیادی مقصد صرف ایک خالق و مالک رب کے وجود اور اختیار کا اقرار کرنا ہی نہیں بلکہ عبادت کے لائق سمجھی جانے والی دیگر تمام ہستیوں کا مکمل اور واضح انکار بھی ہے۔
توحید اسلام کے اہم ترین بنیادی تصورات میں سے ہے۔ اس کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہم سمیت پوری کائنات کو خلق کرنے، ہمیں پالنے اور کائنات کا نظام چلانے والی ہستی ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ۔ اور ہمارے تمام امور اللہ کی رضا ہی کے تابع ہونے چاہئیں۔ پہلے اور بنیادی کلمے کے پہلے جُز میں واضح کردیا گیا ہے کہ صرف اللہ عبادت کے لائق ہے، اور کوئی نہیں۔ طارق جمیل اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیتے ہیں اللہ بہت رحمٰن ہے، رحیم ہے، اپنے بندوں کو معاف کرنے والا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بے مثال حُسن کی حامل حُوروں اور پورے وجود کو پگھلانے والے جہنم کا بھی خوب ذکر کرتے ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اسلام کے صریح دشمنوں کی کھل کر مذمت کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی۔ اگر وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام حق کا دوسرا نام ہے تو پھر اسلام کے صریح دشمنوں کے خلاف لب کُشائی میں بُخل اور بُزدلی سے کیوں کام لیتے ہیں؟ کیا اُنہیں اُن تمام مسلمانوں کا احساس نہیں جو اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں شدید جبر کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں؟ کیا اُن کا ذہن اب تک نوآبادیاتی دور کے سِحر میں مبتلا ہے؟ کیا وہ اب تک ذہنی یا نظریاتی غلامی سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں؟ اِس میں کیا شک ہے کہ ہمارا معاشرہ کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے مگر طارق جمیل میں صرف عام آدمی کی مذمت کرنے کی ہمت پائی جاتی ہے۔ اُن میں اقتدار کے مآخذ پر قابض اُن لوگوں کے خلاف کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں جو یہ خطرناک شو چلا رہے ہیں۔
یہاں ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم یہ کیسے طے کرسکتے ہیں کہ اُنہیں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا احساس نہیں اور یہ کہ وہ اگر وہ اِس حوالے سے کچھ نہیں کہتے تو ہم یہ کیسے فرض کریں کہ وہ اس حوالے سے بالکل غافل اور لاپروا ہیں؟
ٹھیک ہے۔ اگر وہ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے اپنے جذبات چھپا بھی رہے ہیں تو اسلام کے حوالے سے اُن کی اپروچ سے متعلق چند مسائل ضرور باقی رہتے ہیں۔ اول تو یہ کہ وہ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے اپنے جذبات کو چھپا ہی کیوں رہے ہیں۔ یہی تو وقت ہے کہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بھرپور ہمدردی کا اظہار کیا جائے، اُن کی مدد کی جائے۔ منافقین ہر اُس موقع پر ساتھ چھوڑ جاتے تھے جب نبیٔ اکرمؐ کو اُن کی مدد درکار ہوتی تھی۔ غزوۂ احد کے موقع پر منافقین کا سردار عبداللہ ابن اُبی اپنے اُن 300 ساتھیوںکو لے کر عین وقت پر الگ ہوگیا جنہیں مکۂ مکرمہ سے تعلق رکھنے والے اہلِ قریش سے نبرد آزما ہونا تھا۔ اللہ نے اس حوالے سے قرآن میں فرمایا : ۔
ترجمہ :جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا اور اس لیے تھا کہ اللہ دیکھ لے تم میں سے مومن کون ہیں اور منافق کون ہیں۔ وہ منافق کہ جب ان سے کہا گیا آئو اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا کم از کم (اپنے شہر کی) مدافعت ہی کرو، تو کہنے لگے اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ یہ بات جب وہ کہہ رہے تھے اس وقت وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں، اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو خود تو بیٹھے رہے اور ان کے جو بھائی بند لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے۔ ان سے کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اسے ٹال کر دکھا دینا۔
[سورۃ آل عمران۔ آیت:166-168]
دوم یہ کہ جو سوچ طارق جمیل نے اپنائی ہوئی ہے وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ اگر آپ درج ذیل نظر حدیث کی روشنی میں طارق جمیل کے کردار کا جائزہ لیں گے تو اُنہیں ایسے لوگوں میں پائیں گے جو ایمان کے کمزور ترین درجے میں ہیں۔
ابو سعید الخدری سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’تم میں سے جو کوئی بھی کسی بُرائی کو دیکھے تو اُسے ہاتھ سے روکے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو زبان سے اُس کی مذمت کرے۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم دل میں اُسے بُرا خیال کرے، گوکہ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
مولانا طارق جمیل پاکستان میں ’’مذہبی اتھارٹی‘‘ کی حیثیت سے غیر معمولی حیثیت کے حامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ خود ایمان کے حوالے سے نمایاں موقف اختیار کرنے سے قاصر ہیں تو عام آدمی سے اِس کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟
مولانا طارق جمیل نے اسلام کے حوالے سے جو سوچ اپنائی ہوئی ہے وہ تو دنیا بھر میں انسانوں پر مظالم ڈھانے کے رجحان کی تقویت کا باعث بنے گی۔ قول و فعل کا تضاد بالکل نمایاں ہے۔ اگر طارق جمیل دین کی تبلیغ کا فریضہ اِسی طور انجام دیتے رہیں گے تو کوئی بھی ظلم یا ظالم کے خلاف کھڑا نہیں ہوگا۔ مظلوم صفحۂ ہستی سے مٹائے جاتے رہیں گے اور مولانا بیان جاری رکھنے میں لذت محسوس کرتے رہیں گے۔
ہم جس نکتے پر زور دے رہے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل دین کو اُس کی مکمل روح اور تقاضوں کے ساتھ بیان نہیں کر رہے۔ اُن کی مثال اُس اُستاد کی سی ہے جو اپنے شاگردوں سے کہے کہ سِکّے کے دونوں طرف tail ہے۔ شاگرد جب دیکھیں گے کہ ایسا نہیں ہے تو وہ مغالطے میں پڑجائیں گے۔ اُن کے ذہنوں میں یہ بات ابھرے گی سِکّے میں کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ ٹیچر نے تو یہ کہا تھا کہ دونوں طرف tail ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاگرد اُستاد پر بھروسا کرتے ہوئے سِکّے کے دوسرے رخ کو نظر انداز کردیں، تسلیم کرنے ہی سے انکار کردیں۔ اِس ذہنیت کا مسئلہ یہ ہے کہ سِکّے کو چاہے جتنی بار اُچھالا جائے اور چاہے جتنی بار head آئے، شاگرد وہی دیکھیں گے جو اُستاد نے دکھانا چاہا ہے۔ اِسی سوچ کے پیمانے سے طارق جمیل کے پیرو ’’سیاسی اسلام‘‘ کو جانچتے ہیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبیٔ اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر اگر لوگ کسی ظالم کو (ظلم ڈھاتے ہوئے) دیکھیں اور اُس ظلم کو ہاتھ سے روکنے کی کوشش نہیں کریں تو بہت جلد اُن کے لیے اللہ کی طرف سے تادیب کا اہتمام ہوگا۔
یہ معاملہ اِتنا شدید ہے کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کوئی بھی اِس کے وجود سے کیسے انکار کرسکتا ہے کہ جبکہ یہ روزِ اول سے دینی تعلیمات کا جُز ہے؟ صرف انبیائے کرام علیہم السلام ہی نہیں بلکہ اُن کے اُمتی بھی کبھی کسی بھی جابر کے سامنے کلمۂ حق کہنے اور ڈٹ جانے سے مجتنب نہیں رہے۔ قرآن کی معرفت ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیںکہ کس طور ابراہیم علیہ السلام نمرود کے سامنے اور موسٰی علیہ السلام فرعون کے سامنے ڈٹے رہے۔ دیگر تمام انبیاء کا بھی یہی معاملہ تھا۔ ابو حامد الغزالیؒ، ابو حنیفہؒ، علامہ ابن تیمیہؒ، علامہ اقبال اور دیگر علماء نے قلم اور زبان کی مدد سے جہاد کیا۔ اور علامہ ابن تیمیہؒ نے تو حق کی خاطر تلوار بھی اٹھائی۔
تاریخ کے کسی بھی دور کا جائزہ لیجیے، مسلم ظلم اور ظالم کے خلاف صف آراء ملیں گے۔ محمد بن قاسمؒ کی مثال ہمارے سامنے ہے جو سندھ کے علاقے دیبل کے راجا داہر کے ہاتھوں یرغمال عورتوں اور بچوں کی مدد کو پہنچے۔ انہوں نے راجا داہر کی فوج کو شکست دے کر مغوی بچوں اور عورتوں کو رہائی دلائی۔ مسلمان صرف مسلم جابروں اور ظالموں کے خلاف ہی صف آراء نہیں ہوتے تھے بلکہ دوسروں کے خلاف بھی ڈٹ جایا کرتے تھے۔ 711 میں مسیحی سردار جولین نے اسپین کے بادشاہ راڈرک کے مظالم سے تنگ آکر شمالی افریقا کے گورنر موسٰی بن نُصیر سے مدد چاہی تو اُنہوں نے طارق بن زیاد کی قیادت میں فوجی دستے بھیجے جنہوں نے راڈرک کو شکستِ فاش دی۔
میں مسلمانوں کی تاریخ کے اس عظیم پہلو پر گھنٹوں بول سکتا ہوں کہ کس طور اُنہوں نے ظالم و جابر حکمرانوں کے آگے گردن جھکانے سے انکار کیا۔ اگر مسلمانوں کا وجود نہ ہوتا تو مسیحیوں کے ہاتھوں یہودی صفحۂ ہستی سے مٹادیئے گئے ہوتے۔ چوتھی صدی عیسوی کے دوران رومن سلطنت عروج پر تھی اور مسیحیوں کو جہاں بھی موقع ملتا وہاں یہودیوں کو ایذائیں دیتے۔ ڈیوڈ جے ویسرسٹین نے ’’دی جیوئش کرانیکلز‘‘ کے لیے اپنے مضمون ’’مسلمانوں نے یہودیوں کے لیے کیا کیا؟‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر مسلمان نہ ہوتے تو مسیحیوں نے یہودیوں کو دنیا سے ختم کردیا ہوتا۔
مولانا طارق جمیل جیسے لوگوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِن کے پاس ایک جواز یہ ہے کہ اگر ہم تبلیغ جاری رکھیں تو پوری دنیا اسلام قبول کرلے گی اور ہمیں کسی کے خلاف کھڑے ہونے یا لڑنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
نظریاتی اور تاریخی دونوں اعتبار سے یہ بیان یا جواز پریشان کن ہے۔ میں یہاں دعوۃ یا تبلیغ کی مخالفت نہیں کر رہا۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے مگر کہنا صرف یہ ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ کم از کم ہماری اپنی تاریخ کچھ اور کہتی ہے۔ نوح علیہ السلام نے کم و بیش 950 سال تبلیغ کی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ اُنہیں جن لوگوں کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے بھیجا گیا تھا اُن سب نے (بشمول اُن کے اپنے اہل خانہ) اُن کی نافرمانی اور اللہ کے پیغام کو قبول کرنے سے صریح انکار کیا۔ ہود علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اور لوط علیہ السلام کا بھی یہی قصہ ہے۔ اُن کی اپنی اہلیہ نافرمانوں میں شامل تھی۔ مکی دور کے 13 برس کے دوران نبیٔ اکرمؐ کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قبول اسلام تک مسلمانوں کی مجموعی طاقت (تعداد) 39 تھی! تمام ابنیاء علیہم السلام اور اُن کے جاں نثار ساتھیوں (صحابی یا حواریوں) کو کفار اور مشرکین کی طرف سے شدید مخالفت اور معاندت کا سامنا کرنا پڑا مگر اِن کے قدم نہ ڈگمگائے اور یہ حق کی خاطر ڈٹے رہے۔ جب حق کی خاطر معرکہ آرائی کا وقت آیا تو یہ جی جان سے لڑے اور باطل کے خلاف آواز اٹھانے میں کبھی خوف محسوس کیا نہ تساہل ہی سے کام لیا۔
مولانا طارق جمیل جیسے لوگوں کا نظریہ یا موقف حقیقت کے بالکل منافی ہے۔ جو امن پسندی اِن لوگوں نے اپنا رکھی ہے وہ ایسی ہی ہے جیسے دشمن ہماری گردنیں اتار رہا ہو اور ہم اُسے ایسا کرنے پر سراہیں۔ صلاح الدین ایوبی نے صحیح کہا تھا ’’ہمیں فرنگیوں کا احترام کرنا چاہیے۔ دیکھیے کہ وہ کتنے جوش و خروش سے اپنے مذہب کے لیے لڑتے ہیں اور ہم مقدس جنگ چھیڑنے اور لڑنے کے حوالے سے کتنے بے جوش و جذبہ ہیں‘‘۔
صلاح الدین ایوبی کی بات آج ہم پر صادق آتی ہے۔ ذرا دیکھیے کہ ہم مذہب کا پرچم بلند کرنے کے حوالے سے سو رہے ہیں جبکہ لبرل ازم، سیکیولر ازم، مارکس ازم، حقوقِ نسواں اور دیگر تمام نظریات کے حامی اور علم بردار زندگی کے ہر شعبے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم یا تو مرچکے ہیں یا پھر انتہائی نشے میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمارا دین روشنی ہی روشنی ہے تو ہم اندھے گڑھوں کی طرف کیوں کھسک رہے ہیں؟
پہلا نتیجہ : ۔
مولانا طارق جمیل کو امت کے لیے بولنا ہی پڑے گا۔ اگر وہ کشمیر و فلسطین میں جاری مظالم کے علاوہ اندرونی سطح پر پائی جانے والی خرابیوں، نا انصافیوں کے خلاف نہیں بولیں گے تو راہ نمائی کا منصب کھو بیٹھیں گے کیونکہ خاموشی کو رضامندی ہی تصور کیا جاتا ہے۔ خاموش رہنے کو ایمان کا کمزور ترین درجہ قرار دیا گیا ہے اور منافقین کا یہی شعار رہا ہے کہ جب بھی مسلمانوں کو مدد کی ضرورت پڑی وہ منظر سے دور رہے۔ منافقین ذمہ داریاں قبول کرنے سے بھاگتے تھے۔ وہ باطل کے خلاف اسلام کی لڑائی میں حصہ لینے سے کتراتے تھے۔ اگر طارق جمیل میں ظالموں اور باطل کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں تو کم از کم مظلوموں کے حق میں آواز ہی بلند کردیں۔ مگر اُن سے یہ بھی نہیں ہو پایا۔
آئیے، دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حوالے سے پاکستان کے موقف کا جائزہ لیں۔ ہمارا موقف بھی دیگر خوابیدہ مسلم ریاستوں کے موقف سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ پاکستان وہ ریاست ہے جو اسلام کے نام پر قائم کی گئی تھی۔ توقع یہ تھی کہ بھارت سے الگ ریاست کے قیام کے بعد پاکستانی پورے خطے کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کوئی اہم کردار ادا کریں گے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ کشمیریوں کا خون بہہ رہا ہے۔ وہ سات عشروں سے اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں مگر ہم ابتک ان کے لیے کچھ نہیں کر پائے۔ پاکستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ اِس کے تمام ہی حکمران کسی نہ کسی اعتبار سے کرپٹ نکلے اور اسلام سے بھی اُن کا براہِ راست اور قریبی تعلق نہ تھا۔ یقینا یہ وہ پاکستان نہیں جس کا علامہ اقبال نے خواب دیکھا تھا اور قائد اعظمؒ نے تصور دیا تھا۔ قائد اعظمؒ کی رحلت کے بعد ہمارے ہاں جو بھی اقتدار میں آیا وہ کرپٹ، غیر اسلام پسند اور بزدل تھا اور اُس نے اختیارات کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ ہمارے قائدین، قائدِ اعظمؒ کے فرمودات پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ 11 اپریل 1946ء کو دہلی کے مسلم لیگ کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے، قائد اعظمؒ نے کہا تھا ’’اگر ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے تو پاکستان محض تماشائی نہیں بنا رہے گا بلکہ اُن کی مدد کے لیے میدانِ عمل میں اترے گا۔‘‘
اب جبکہ جہاد کا فریضہ ریاست کے کاندھوں پر ہے اور مظلوم مسلمانوں کے لیے لڑنے کی ذمہ داری عوام سے لی جاچکی ہے، ہماری حکومت ظلم کی چکی میں پسنے والے کشمیریوں کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے قائدین اس بات کے منتظر ہیں کہ کشمیریوں کے مسائل کا حل کفار اور مشرکین کریں۔ امریکا اور برطانیہ جیسے اسلام کے دشمنوں، صلیبی جنگیں لڑنے والوں، مطلق العنان حکمرانی کا پرچم بلند کرنے والوں، استعمار کو رواج دینے والوں، نسل پرست، فاشسٹ، کفار اور مشرکین سے اس بات کی امید رکھنا حماقت کی انتہا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ اور وہ بھلا اپنے اتحادی (بھارت) کے خلاف کوئی فیصلہ کیسے کریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اپنے حکمران اور اربابِ اختیار منافقین میں سے ہیں۔ ایسے میں مسلم کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُنہیں اپنی قیادت کے لیے منتخب کریں جو قوم یا امت کے مفادات کے لیے ہر جابر اور ظالم قوت کے سامنے سینہ سِپر ہوں۔ ہم راہ نمائی اور خیر کی تحریک پانے کے لیے قرآن سے رجوع کیوں نہیں کرتے جبکہ قائدِ اعظمؒ اور دیگر اکابر نے ہمیں اِس طرف متوجہ بھی کیا ہے۔ قائدِ اعظمؒ نے کہا تھا ’’جو علم سے بالکل بے بہرہ ہیں اُن کے سوا سبھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے مکمل ضابطۂ حیات اگر ہے تو صرف قرآن۔ مذہب، معاشیات، سیاسیات، سماجیات، شہری حقوق، عسکری امور، عدالتی امور اور جرائم کی بیخ کنی سمیت تمام ہی امور پر اسلام محیط ہے۔ اسلام محض مذہبی تعلیم اور متعلقہ رسوم تک محدود نہیں۔ اسلام وہ ضابطۂ حیات ہے جو انفرادی اور اجتماعی طور پر مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔‘‘ (عید کا پیغام، ستمبر 1945)
میلکم ایکس نے ایک بار کہا تھا ’’سفید فام رجعت پسند نیگروز کے دوست نہیں ہیں مگر اتنا تو ہے کہ وہ اس بات کو چھپاتے نہیں۔ وہ بھیڑیوں کی طرح ہیں جو اپنے نوکیلے دانت دکھانے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور نیگروز کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ اِن بھیڑیوں کے ساتھ کہاں کھڑے ہیں۔ سفید فام لبرلز لومڑیوں کی طرح ہیں۔ وہ بھی نیگروز کو اپنے نوکیلے دانت دکھاتے ہیں مگر تاثر مسکرانے کا دیتے ہیں۔ سفید فام لبرلز زیادہ خطرناک ہیں۔ نیگروز جب سفید فام رجعت پسند بھیڑیوں سے سے بچ کر بھاگتے ہیں تو سفید فام لبرلز لومڑیوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک طرف بھیڑیے ہیں اور دوسری طرف لومڑیاں۔ دونوں ہی کے دانت نوکیلے ہیں اور نیگروز کو اُن کا نوالہ بننا ہے۔‘‘
ہمارے کیس میں مودی اور اُن کی ٹیم رجعت پسند ہے جو نسل پرستی اور انتہا پسند ہندو قوم پرستی کے ساتھ اسلام اور پاکستان کے خلاف واضح بیانیے کے ساتھ میدان میں ہے۔ وہ مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں اور ہم اُن کے ناپاک عزائم اور منصوبوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ دوسری طرف امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ ہیں جو مسلمانوں کے ہمدرد ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن سے مسلمانوں اور اسلامی دنیا کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ ہم تضاد سے بھرپور صورتِ حال میں پھنسے رہنے پر زور کیوں دیتے ہیں؟ ہم بُرائی ہی کی راہ پر کیوں چلیں، اسلام کی شاہراہ پر گامزن کیوں نہ ہوں؟
“O’ You Who Believe! You shall not ever take My enemy, and your enemy, as allies. You offer genuine love to
them. Yet they have disbelieved in the revelation of the truth that has come to you in the Quran — expelling the
Messenger and yourselves from your homes only because you believe in the One God alone, your Lord. If truly
you have come forth striving in My path and seeking My good pleasure, then do not ever take them as allies
divulging the believers’ secrets to them out of genuine love — and I am most knowing of all that you conceal
and all that you reveal. For whoever among you does this has truly strayed from the straight path. If they should
gain ascendancy over you, they would become treacherous enemies to you and stretch out their hands and their
tongues in harm against you. For they wish that you would disbelieve in your faith” [Quran 60:1-2]
ترجمہ:یہ دھوکے باز چونکہ سر سے پاؤں تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں ڈوبے ہوئے ہیں اس لیے ہم ان پر بھروسا نہیں کرسکتے۔ ان سے کسی بھی سطح پر مدد کی امید وابستہ کرنے کے بجائے ہمیں متحدہوکر اِن کے خلاف صف آراء ہونا چاہیے اور اِن کی طاقت یا اثر و رسوخ کی پروا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ صرف اللہ کا یہ حق ہے کہ اُس سے خوفزدہ ہوا جائے۔
“It is only the Evil One that suggests to you the fear of his votaries: Be ye not afraid of them, but fear Me, if ye have Faith.” (Surah Al-Imran, 175)
ترجمہ:کچھ لوگ اپنے ایمان کی کمزوری کے باعث یہ کہتے ہیں کہ اِن بڑی اور استعماری طاقتوں سے لڑنے کی سکت ہم میں نہیں ہے اس لیے یہ آسانی سے باطل کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ اب ہم تاریخی ریکارڈ کی روشنی میں اس امر کا جائزہ لیں گے کہ حق کے معاملے میں کسی بڑی طاقت کے سامنے خوفزدہ ہو جانا درست ہے یا منطقی اعتبار سے بالکل حماقت۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی اور وہ ایک ہزار مشرکین کے لشکر سے لڑ کر فتح یاب ہوئے۔ غزوۂ خندق میں 10 ہزار کفار کے مقابل صرف 3 ہزار مسلمان تھے۔ غزوۂ یرموک میں مسلم فوج 15 ہزار تا 24 ہزار نفوس پر مشتمل تھی جبکہ بازنطینی سلطنت کی فوج کے سپاہیوں کی تعداد ایک سے دو لاکھ کے درمیان تھی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ نہائو کے معرکے میں 30 ہزار مسلمان ایک لاکھ 20 ہزار ساسانیوں کے مقابل فتح یاب ہوئے۔ اسپین میں طارق بن زیاد کی قیادت میں اسلامی فوج 14 ہزار سے 17300 نفوس پر مشتمل تھی۔ اِس چھوٹی سی فوج نے ایک لاکھ سے بھی زائد نفوس پر مشتمل راڈرک کی ہسپانوی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ زمانۂ حاضر میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ افغانستان میں امریکا نے طاقت کا بے محابا استعمال کیا مگر طالبان نے پھر بھی اُسے ناکوں چنے چبوادیئے۔ اب امریکی قیادت کسی نہ کسی طور افغانستان سے فرار چاہتی ہے۔ یہ تمام تاریخی حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ جب بھی کوئی اللہ کی رضا کی خاطر اور اسلام کے پرچم کی سربلندی کے لیے میدان میں آتا ہے تب فتح اُس کا مقدر بنتی ہے۔
امام ابوحامد الغزالی نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھا ہے کہ دینیات میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب صرف الفاظ اور دکھاوے پر زیادہ توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔ امام غزالی کے الفاظ کے آئینے میں دیکھا جائے تو ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہمارے حالات صرف اس وقت بدلیں گے جب ہم دورِ اول کے مسلمانوں کی طرح خالص اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو تبدیل کریں گے۔ فی زمانہ اسلام مسلمانوں کے لبوں پر تو ہے، دلوں میں نہیں۔ یہ اُن کے ذہنوں میں تو ہے، اعمال کا حصہ نہیں بن پاتا۔ اس مسئلے کو حل کیسے کیا جائے؟ سب سے پہلے تو ہمیں نسل پرستی، قوم پرستی، قبائلی تعصب، جنگجوئی اور نو آبادیاتی سوچ جیسی قباحتوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ ان تمام عِلتوں ہی کے باعث ہم ایک امت کی حیثیت سے متحد نہیں ہو پاتے اور اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے گندی اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اُن لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں جو یا تو بہت طاقتور ہوتے ہیں یا پھر ہمارے ہی نسلی، لسانی، قومیتی اور قبائلی منظر سے تعلق کے حامل ہوتے ہیں۔
جابر ابن عبداللہ الانصاری سے مروی ہے ’’ہم ایک مہم پر تھے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار کے ایک فرد کو لات ماری۔ انصاری نے پکارا اے انصار! میری مدد کرو۔ اِدھر مہاجر نے بھی آواز دی کہ اے مہاجرین! میری مدد کو آؤ۔ نبیٔ اکرمؐ نے یہ سُنا تو فرمایا یہ سب نہ کرو (یعنی قبائلی عصبیت ترک کرو)، یہ اچھا نہیں۔ (عمر ابن الخطاب، ہِز لائف اینڈ ٹائمز، مصنفہ ڈاکٹر علی محمد الصلابی) ۔
دوسرا نتیجہ : ۔
مسلم ہونے کے ناطے ہمیں صرف اللہ سے ڈرنا چاہیے اور غلط کام کرنے والوں سے نبرد آزما ہونا چاہیے خواہ وہ ہمارے احباب یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ اور چاہے ایسا کرنا ہمارے اپنے (مفاد کے) خلاف ہی کیوں نہ جاتا ہو۔ اس مضمون کا مقصد مولانا طارق جمیل کی شرم ناک خاموشی کی مذمت کرنا نہیں تھا کیونکہ وہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے علماء میں سے ایک ہیں۔ حد سے تجاوز کرنے والے طارق جمیل تنہا نہیں ہیں۔ اُن کا تعلق ایسے اسکالرز کے گروپ سے ہے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر مسلمانوں کا شعور مسخ کر رہے ہیں۔ اِن میں سے کسی بھی معاملے میں وہ مقامی اور بین الاقوامی معاملات میں ہماری راہ نمائی کے منصب پر فائز ہونے کے قابل نہیں۔ ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو اسلام کو اُس کی کلیت کے ساتھ قبول کریں اور اپنائیں۔ اس حوالے سے تیز رفتار اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے سلسلے کو مزید طول پکڑنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔