فیس بک کی جانب سے بہت جلد صارفین کو ڈیٹا کے حوالے سے زیادہ کنٹرول دیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں ایک کارآمد ٹول متعارف کرایا جارہا ہے۔
اس ٹول کی بدولت صارفین اپنے ڈیٹا یا میڈیا فائلز کو دیگر سروسز میں منتقل کرسکیں گے۔اس فیچر کی بدولت صارفین اپنی فیس بک پر موجود تصاویر اور ویڈیوز کسی اور آن لائن سروس جیسے گوگل فوٹوز پر منتقل کرسکیں گے۔درحقیقت کمپنی نے فی الحال گوگل فوٹوز سے ہی آغاز کیا ہے اور یہ گوگل، مائیکرو سافٹ، ٹوئٹر اور فیس بک کے درمیان طے پانے والے ڈیٹا ٹرانسفر پروجیکٹ کا حصہ ہے، جس کا مقصد ان سروسز کے درمیان اطلاعات کی منتقلی کو آسان تر بنانا ہے۔یہ نیا اوپن سورس پروجیکٹ ڈیٹا ٹرانسفر پروجیکٹ، صارفین کو ان تمام پلیٹ فارمز کے درمیان ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کا آسان اور باسہولت آپشن فراہم کرے گا۔اگر سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا تو صارفین کا ڈیٹا ایک سے دوسری سروس میں بغیر ڈاؤن لوڈ یا اپ لوڈ کیے منتقل ہوسکے گا۔فیس بک کی جانب یہ ٹول فی الحال آئرلینڈ میں متعارف کرایا گیا ہے اور 2020 کی دوسری سہ ماہی تک یہ دنیا بھر میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔یہ ٹول فیس بک سیٹنگز میں یور فیس بک انفارمیشن میں موجود ہوگا اور یہ تمام ڈیٹا انکرپٹڈ ہوگا۔فیس بک کے مطابق آپ کو ڈیٹا منتقل کرنے سے پہلے اپنے پاس ورڈ کا اندراج کرنا ہوگا۔گزشتہ سال انسٹاگرام نے بھی اس طرح کا ٹول متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔
ایک سال تک نہ خراب ہونے والا سیب امریکہ میں دستیاب
سیب کی ایک نئی قسم جسے تیار کرنے میں دو دہائی کا عرصہ لگا ہے، کو ممکنہ طور پر ایک سال تک فریج میں بغیر خراب ہوئے رکھا جا سکتا ہے اور اتوار سے امریکہ میں اس کی فروخت شروع ہو رہی ہے۔سیب کی اس نئی قسم کو ’کاسمک کرسپ‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ ہنی کرسپ اور انٹرپرائز سیب کی پیوند کاری سے وجود میں آیا ہے۔ اسے پہلی بار سنہ 1997 میں واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں اگایا گیا تھا۔اس ’ٹھوس، خستہ اور رس دار سیب‘ کے لانچ میں ایک کروڑ امریکی ڈالر خرچ آیا ہے۔واشنگٹن ریاست کے کسانوں کو آنے والی دہائی میں اس کی کاشت کی اجازت دی جائے گی۔واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں اس سیب کی افزائش اور نشوونما کی شریک سربراہ کیٹ ایوانز نے بتایا ’یہ زیادہ خستہ سیب ہے، یہ نسبتا سخت ہے، اس میں ترش و شریں کا اچھا توازن ہے اور یہ بہت ہی رسیلا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ اس کے گودے کا رنگ تبدییل ہونے میں کافی وقت لگتا ہےاور اگر اسے ریفریجریٹر میں رکھا جائے تو دس بارہ ماہ تک کھانے میں اس کی اچھی کوالٹی برقرار رہتی ہے۔‘کاسمک کرسپ کے ایک کروڑ 20 لاکھ درخت لگائے گئے ہیں اور سخت قواعد و ضوابط کی وجہ سے کسانوں کو اسے ملک کے دوسرے حصوں میں اگانے کی اجازت نہیں دی گئی۔سیب کی اس قسم کو ابتدا میں ’ڈبلیو اے 38‘ کا نام دیا گیا تھا لیکن کاسمک کرسپ کا نام اسے اس لیے دیا گیا کہ اس کے گہرے سرخ رنگ پر سفید دانے نظر آتے ہیں جو رات میں تاروں بھرے آسمان کی طرح لگتے ہیں۔واشنگٹن امریکہ میں سیب کی فراہمی کا سب سے بڑا مرکز ہے لیکن اس کے دو اقسام کے سیب گولڈین ڈیلیشیئس اور ریڈ ڈیلیشیئس کو پنک لیڈی اور رائل گالا سے سخت مقابلے کا سامنا رہا ہے۔امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے پھلوں میں سیب کے بعد کیلے کا نمبر آتا ہے۔