پروفیسر اطہر صدیقی
روبرٹ والڈینگر (ما ہرِ نفسیات)۔
اگر ہم لوگوں کو کسی اسٹڈی میں، کم عمری سے اور اُس وقت تک جب وہ ضعیف عمری کی حد تک کرسکتے یہ دیکھنے کے لیے کہ دراصل وہ کیا شئے ہے جو ان کو خوش اور تندرست رکھتی ہے؟ 75 برس تک ہم نے 724 مردوں کی زندگی کا مطالعہ کیا۔ اس میں سے اب تقریباً ہمارے شروعاتی گروپ میں سے 60 مرد ابھی تک حیات ہیں۔ ہماری تحقیق میں حصہ لینے والے اب زیادہ تر 90 برس کی عمر میں ہیں۔ جب وہ ہماری تحقیق میں شامل ہوئے تھے تو وہ کم یا نوعمر تھے اور ہم نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کا میڈیکل امتحان بھی کیا گیا تھا۔ ہم ان کے گھروں پر گئے تھے اور ان کے والدین کا بھی انٹرویو کیا تھا۔ اور تب یہ نوعمر جوان مرد بن گئے۔ کچھ فیکٹری میں کام کرنے والے بنے، کچھ وکیل بن گئے اور کچھ راج مزدور، کچھ ڈاکٹر، اور ان میں سے ایک تو امریکہ کا صدر بھی بن گیا۔ اور تب ایک دہائی بعد ہم نے ان کی بیویوں سے پوچھا کہ کیا وہ بھی اس تحقیق میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہیں گی؟ ان میں سے بہت سوں نے کہا: ’’ہاں اب وقت آگیا ہے‘‘۔
تو ہم نے اپنی اس تحقیق سے کیا سمجھا اور کیا پایا؟ سب سے صاف پیغام اس 75 سالہ اسٹڈی سے ہمیں کیا ملا؟ وہ ذیل میں درج ہے:۔
اچھے رشتے یا تعلقات ہمیں خوش اور صحت مند رکھتے ہیں۔ ہم نے تین بڑے اسباق تعلق یا رشتوں کے بارے میں سیکھے۔ پہلا یہ ہے کہ سماجی یا مجلسی تعلقات ہمارے لیے بہت اچھے ثابت ہوئے، اور اس کے برعکس تنہائی ہمیں مار دیتی ہے۔ یہ ثابت ہوا کہ وہ لوگ جو خاندان سے، دوستوں سے اور اپنے علاقے کے لوگوں سے سوشل رشتے رکھتے ہیں، زیادہ خوش رہتے ہیں۔ جسمانی طور پر بھی تندرستی اور لمبی عمر پاتے ہیں، اُن لوگوں کے مقابلے میں جو کم لوگوں سے ملتے ہیں یا جن کے تعلقات کم لوگوں سے ہوتے ہیں۔ اور افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی وقت پانچ امریکنوں میں سے ایک نے بتایا کہ وہ تنہا ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ کہاوت صحیح ہے ’’آپ مجمع میں رہ کر بھی اکیلا محسوس کرسکتے ہیں‘‘… اور آپ شادی شدہ زندگی میں بھی اکیلا ہونا محسوس کرسکتے ہیں۔
دوسرا بڑا سبق جو ہم نے سیکھا وہ یہ ہے کہ آپ کے دوستوں کی تعداد کتنی ہے اور آپ کسی سے جڑے ہوئے، یا نہیں جڑے ہوئے ہیں۔ قریبی رشتے کی خصوصیت دراصل اہم ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تنازعات یا کشمکش کے درمیان رہنا بھی صحت کے لیے برا ہے۔ بہت زیادہ جھگڑوں والی زندگی بغیر کسی محبت اور خلوص کے ہماری صحت کے لیے بہت ہی بری ثابت ہوتی ہے۔ شاید طلاق لینے سے بھی زیادہ۔ اور اس کے برخلاف اچھے، گرم جوش تعلقات محفوظ ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔
اور تیسرا سب سے بڑا سبق جو ہم نے سیکھا وہ یہ ہے کہ اچھے رشتے یا تعلقات ہمارے جسموں کو نہ صرف بچاتے بلکہ صحت بخش ہونے کے ساتھ ہمارے محافظ ثابت ہوتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم 80 برس کی عمر میں کسی محفوظ رشتے میں کسی سے جڑے ہوئے ہیں تو وہ تحفظ کا احساس دلاتا ہے، اور لوگ جو رشتوں سے جڑے ہیں جہاں وہ اصلیت میں دوسرے شخص پر بوقتِ ضرورت بھروسا اور اعتماد کرسکتے ہیں، ان کی یا ایسے لوگوں کی یادداشت زیادہ عرصے تک قائم رہتی ہے۔ تو آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ فرض کیجیے آپ 25 برس کے ہیں یا 40 یا 60 برس کے رشتوں پر بھروسے سے کیا سمجھتے ہیں؟ یہ بہت ہی آسان سی بات ہوسکتی ہے۔ بجائے اسکرین پر وقت گزارنے کے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریئے، یا وہ رشتے جن میں کھٹاس پیدا ہوگئی ہو یا باسی ہوگئے ہوں اس میں ساتھ کچھ کرنے کے لیے کچھ نیا کیجیے، ساتھ ٹہلیے، کسی ڈیٹ پر جایئے، یا اُس رشتے دار سے بات کیجیے جس سے آپ نے برسوں بات نہ کی ہو۔ سمجھیے کہ اچھی زندگی بنائی جاتی ہے اچھے رشتوں یا اچھے تعلقات کے ساتھ۔
……٭٭٭……
رشتوں اور تعلقات پر مندرجہ بالا تحقیق کا ترجمہ کرتے وقت مجھ کو ماضی میں ایک بے حد خوب صورت اور ہدایات سے مرصع نظم جو میں نے کبھی پڑھی تھی اور بہت پسند آئی تھی، وہ کہیں لکھ لی تھی۔ تحقیق کے آخری پیراگراف کا ترجمہ کرتے وقت مجھے وہ نظم یاد آئی اور میرا بے ساختہ جی چاہا کہ میں اس نظم کو اپنے قاری سے بھی شیئر کروں۔ وہی حقائق جو 75 سالہ تحقیق پر مبنی ایک ماہر نفسیات نے اپنے آخری پیراگراف میں بطور ہدایت پیش کیے ہیں، انہی کو اردو زبان کی شیرینی کے ساتھ اس میں ملاحظہ کیجیے۔ خان اکرام الجبار کی یہ نظم واقعی ہر شخص کو اچھے رشتے اور تعلقات استوار رکھنے کی ہدایت کس خوب صورتی سے دیتی ہے:۔
’’تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے
کہ پھر سے جوڑنا دشوار ہوجائے
حیات اک زہر میں ڈوبی ہوئی تلوار ہو جائے
محبت اس طرح چھوڑا نہیں کرتے
خفا ہونے کی رسمیں ہیں، بگڑنے کے طریقے ہیں
رواج و رسمِ دوستی پر سو کتابیں ہیں
رواداری کا ایسے راستہ چھوڑا نہیں کرتے
تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے
کبھی بلبل گلوںکی خاموشی سے روٹھ جاتی ہے
پر اگلے سال سب کچھ بھول کر پھر لوٹ آتی ہے
اگر پودوں سے پانی دور ہوجائے
تو ہمسایہ درختوں کی جڑوں کے ساتھ
پیغامات جاتے ہیں
محبت میں سبھی اک دوسرے کو آزماتے ہیں
مگر ایسا نہیں کرتے کہ ہر امید ہر امکان مٹ جائے
کہاں تک کھینچنی ہے ڈور یہ اندازہ رکھتے ہیں
ہمیشہ چار دیواری میں اک دروازہ رکھتے ہیں
جدائی مستقل ہوجائے تو یہ زندگی زندان ہوجائے
اگر خوشبو ہوائوں سے مراسم منقطع کرلے
تو خود میں ڈوب کر بے بس و بے جان ہوجائے
سنو…جینے سے منہ موڑا نہیں کرتے
سنو… تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے‘‘
(شعر:خان اکرام الجبار)