بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

مولانا ظفر علی خاں
جس طرح شب تاریک کی ظلمت مہر عالم افروز کی آمد کا مژدہ اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے، اسی طرح طغیان و عصیاں کی فراوانی اور فواحش و معاصی کی کثرت دریائے رحمت الٰہی کے جوش میں آنے اور کسی ایسے نفس قدس کے دنیا میں جلوہ گر ہونے کی بشارت دیتی ہے جو ایک اشارۂ چشم و ابرو سے عظیم الشان سلطنتوں کے تختے الٹ دیتا ہے۔ جس کی زبان حقیقت ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ کفر و طاغوت کی رگ گردن کے لئے تیرو نشتر کا حکم رکھتا ہے اور جو چشم زدن میں کارگاہ حیات کا نقشہ بدل دیتا ہے۔
ان ہادیان سر منزل معرفت کی بعثت کا سلسلہ ابتدائے آفرینش کے ساتھ جاری ہوا۔ خاک دان گیتی کا ہر گوشہ اور ہر چپہ ان شموس ہدایت کے نور سے مستنیر ہوا، تا آں کہ 571ء میں جب ابنائے آدم تذلل و تسفل کی انتہائی گہرائیوں میں گر چکے تھے۔ جب خدا کے بندوں کی گردنیں اصنام و اوثان کے سامنے سجدہ ریزی کرنے کے لئے وقف ہوگئی تھیں۔جب حریت نفس اور آزادی ضمیر کا خاتمہ ہوچکا تھا، جب اللہ کے بندے فسق و فجور میں مبتلا ہوکر خدا کے احکام سے غافل ہوگئے تھے۔ جب انسانیت کبریٰ پر بہیمیت و نفسانیت پورے طور پر غالب آگئی تھی اور جب اس خطہ غبرا پر جہالت و ضلالت کی تاریخ پورے طور سے مسلط ہوچکی تھی، دنیا کا وہ سب سے بڑا ہادی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور سب سے برگزیدہ انسان صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مبعوث ہوا جس کی جبین تاب ناک سے نور حقیقت کی شعاعیں نکل رہی تھیں، جس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر قیصر و کسریٰ کے تخت لرز گئے، جس کے فیضان کی اشعۂ لامعہ نے ظلمت آباد اراضی کو بقعہ نور بنادیا۔ جس کے سر منزل شہود پر قدم رکھتے ہی استعباد و استعمار کی زنجیریں کٹ گئیں، تمیز رنگ و نسل مٹ گئی، انسانیت کا کھویا ہوا وقار قائم ہوا، مخلوق خداوندوں کا خاتمہ ہوگیا۔ اور جس نے چار سوئے گیتی میں یہ اعلان کردیا کہ شاہی و خسروی و حبر افتخار و امتیاز نہیں، بلکہ خدا کے نزدیک اسی کارتبہ سب سے بلند ہے جو تقوے میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔ عام اس سے کہ وہ افریقہ کے کسی تپتے ہوئے صحرا کا حبشی ہو، یا یورپ کے کسی برفانی خطے کا سفید فام انسان، یہود اسے دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے کہ ابراہیم و موسیٰ علیہما السلام کی دعائیں ممثل ہوکر اس کی شکل میں جلوہ گر ہوئی ہیں۔ نصاریٰ نے کہاکہ حضرت عیسیٰ کی بشارت مجسم ہوکر سالکان مسالک شرک و ضلالت کو سرمنزل ہدایت و سعادت کی طرف رہ نمائی کرنے کے لئے جلوہ گر ہوگئی ہے۔ اہل دنیا جو صراط مستقیم کو چھوڑ کر پریشان ہورہے تھے، اس کی طرف دوڑے بندوں کو وہ عہد یاد آگیا جو انہوں نے معبود حقیقی سے باندھا تھا، اور دنیا کے درو بام اس نور ممثل کی روشنی سے جگمگا اٹھے۔
آج کا دن اسی فضل مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے کا دن ہے، جس کی شان رحمتہ اللعالمینی نے سپید و سیاہ اور اصفر و احمر کو اپنی آغوش میں پناہ دی۔ جس کی رافت و عطوفت کا ابر گہر بار تمام دنیا پر برسا اور جس کے نور ہدایت سے دنیا کا ہر چھوٹا اور بڑا رہتی دنیا تک فیض یاب ہوتا رہے گا۔

الذی ردت الیہ الشمس وانشق القمر
کان امیا و لکن عندہ ام الکتاب
والذی فی کفہ الکفار لما ابصروا
کلم الحصباء قالوا انہا شیئا عجاب

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فاران کی چوٹی پر کھڑے ہوکر ایک پیغام دیا۔ جن روحوں نے اس پیغام پر لبیک کہا، انہیں خلافت الٰہیہ عطا ہوئی۔ قیاصرہ و اکاسرہ کے تاج ان کے قدموں پر نثار ہوئے اور جب تک آفتاب عالم تاب مشرق سے طلوع ہوکر مغرب میں غروب ہوتا رہے گا، دنیا اس یتیم مکہ کے اس اعجاز کو نہ بھولے گی کہ اس نے شتربانوں کو جہاں بانی کے گر سکھائے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ربع مسکون پر چھا گئے اور مشرق و مغرب میں ان کے جھنڈے لہرانے لگے۔ خود امی ہونے کے باوجود اپنے متبعین کو علم و معرفت کے وہ رموز بتائے کہ وہ محفل علوم کے صدور کہلائے اور تمام دنیا نے ان کے سامنے زانوئیادب تہہ کیا۔ تمیز آقا و بندہ اس طرح مٹائی اور مساوات کا ایسا بلند معیار قائم کیا جس کا مافوق متصور ہی نہیں۔ غلامی کی جڑیں اس طرح کاٹیں کہ جب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بہ گوش حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل پیرا رہے، شجر غلامی دنیا میں سرسبز نہ ہوسکا۔
(ترتیب و انتخاب:سید عزیز الرحمن،تعمیر افکار، کراچی، مارچ2010ء)

جان و تن

عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی
روح کس جوہر سے؟ خاک تیرہ کس جوہر سے ہے؟
میری شکل؟ مستی و شور و سرور و درد و داغ
تیری مشکل؟ مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے!
ارتباط حرف و معنی! اختلاف جان و تن؟
جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے!

پیچاک: لفظی معنی پیچ و خم، مراد الجھن عقدہ۔ ارتباط: ربط۔ تعلق۔ میل جول۔ اختلاط: خلط ملط۔ ملنا۔ میل جول۔ اخگر: انکارہ۔
-1 انسان کی عقل زمانہ دراز سے اس عقدے میں الجھی ہوئی ہے کہ روح کی اصل کیا ہے اور سیاہ مٹی یعنی انسانی جسم یا مادہ پہلے پہل کس طرح ظہور میں آیا؟
-2 میں اس نکتے پر غور و فکر کررہا ہوں کہ انسان کے دل و دماغ پر مستی، شور، سرور، درد اور داغ کی جو مختلف روحانی کیفیتیں طاری ہوتی ہیں۔ ان کی اصلیت کیا ہے؟ اور اے مخاطب! تو کہ سراپا مادہ پرستی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ اس مشکل مسئلے کو حل کرنے میں اپنی تمام ذہنی قوتیں صرف کررہا ہے کہ شراب سے پیالہ بنارہا ہے یا شراب پیالے سے بنی ہے۔ یعنی مادہ روح سے بنا ہے یا روح مادے سے بنی ہے؟
-3 حرف و معنی میں کیا تعلق اور جوڑ میل ہے؟ جان و تن کس طرح باہم گھل مل گئے ہیں؟ دونوں سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح جس طرح انگار اپنی راکھ کا لباس پہن لیتا ہے۔