’’اختلاف‘‘ کی معلوم تاریخ تخلیقِ کائنات کے عمل کے ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہے۔ شیطان کا اختلاف اُسے راندۂ درگاہ کرگیا۔ آدم کی کوتاہی یا لغزش کے نتیجے میں انسانوں کے باوا آدم کو جنت سے زمین پر بھیج دیا گیا۔ یہ ہر دو معاملات خالق کی کھلی حکم عدولی تھے۔ ہابیل اور قابیل کے درمیان اختلاف ہی انسانی تاریخ کا پہلا قتل بنا۔ گویا اختلاف انسان کی سرشت میں اوّل دن سے شامل ہے۔ پتھر کے دور اور قبائلی معاشروں تک طاقتوروں سے اختلاف کی عام لوگوں کو اجازت نہیں تھی، اور ایسی جسارت کرنے والوں کو اس کے مضمرات بھگتنا پڑتے تھے۔ لیکن انسانی تہذیب کی ترقی کے ساتھ جب انسانی نفسیات اور رویوں کا عمیق مطالعہ ہوا تو احساس ہوا کہ اگر اختلاف کی حدود و قیود مقرر نہ ہوئیں اور اختلاف کرنے والوں کو قابلِ گردن زدنی سمجھا جاتا رہا تو انسانی معاشرہ قیامت تک اختلاف کرنے والوں کے خون سے رنگین رہے گا، اور یہ خونریزی معاشروں کو درندوں کا معاشرہ بنادے گی۔ چنانچہ جدید انسانی معاشروں میں اختلاف کو تکریم دینے کا چلن شروع ہوا۔ کسی نے اختلاف کو معاشروں کے لیے نعمت (blessing) قرار دیا، تو کسی نے جمہوریت کا حسن گردانا۔ کسی نے اختلاف برداشت کرنے والے معاشروں کو مہذب معاشرے ٹھیرایا، تو کسی نے اختلاف کو فیصلہ سازی میں ممدو معاون جانا۔ چنانچہ آج گھروں سے اقوام عالم کے اعلیٰ فورمز تک میں اختلاف کا رنگ نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ میں اقلیتی گروہ (اپوزیشن) کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں تک سے اختلاف کو بُرا نہیں سمجھا جاتا۔
تاہم آج کے جدید معاشروں میں اختلافِ رائے کے احترام اور برداشت کے کلچر کی ہر ہر سطح پر حوصلہ افزائی کے باوجود یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ اختلاف کی بھی کچھ حدود ہونی چاہئیں۔ اختلاف کرنے کے کچھ آداب ضروری ہیں۔ اگر مخالف گروہ سے آپ اپنی بات سننے اور اس کو احترام دینے کی خواہش کریں تو آپ کو بھی اختلاف مہذب انداز میں کچھ حدود و قیود کو قبول کرتے ہوئے اور کچھ آداب کا خیال کرتے ہوئے کرنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا وسیع موضوع ہے جس پر دنیا بھر میں بہت کام ہورہا ہے۔ مسلم ممالک اور پاکستان میں بھی کچھ کام ہوا ہے اور کچھ ہورہا ہے۔ اس میدان میں تازہ کاوش پروفیسر ڈاکٹر اختر حسین عزمی کی تصنیف ’’آدابِ اختلاف‘‘ ہے جو حال ہی میں منظرعام پر آئی ہے۔
پروفیسر اختر حسین عزمی گورنمنٹ کالج ٹائون شپ لاہور میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ ہیں، اور ایک مقبول دینی عالم اور دانشور کی شہرت رکھتے ہیں۔ لاہور اور گرد ونواح میں ایک عرصے سے درسِ قرآن کے سلسلے کو لے کر چل رہے ہیں، جبکہ علمی مجالس اور اہلِ دانش کے حلقوں میں دینی علوم پر جدید دور کے تقاضوں اور مغرب کے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نپی تُلی رائے دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پروفیسر اختر حسین عزمی کی اس کتاب کی تقریبِ رونمائی لاہور کی ای لائبریری میں ہوئی، اور خلافِ معمول نہ صرف پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بلکہ ہال کے باہر بھی کچھ لوگ کرسیوں کے خالی ہونے کا انتظار کررہے تھے، ورنہ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ کتابوں کی تقاریب میں شہر کا چھوٹے سے چھوٹا ہال بھی بھرنا مشکل ہوتا ہے، حالانکہ شرکا میں سے آدھے مقررین کے طور پر مدعو ہوتے ہیں۔ یہ تقاریب مقررہ وقت سے دو دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوتی ہیں، تاہم ’’آدابِ اختلاف‘‘ کی تقریب محض چند منٹ کی تاخیر سے شروع ہوئی اور نمازِ عصر کے بعد تک جاری رہی۔ اس تمام عرصے میں سامعین اور شرکا دلجمعی کے ساتھ مقررین کو سنتے رہے۔ تقریب کی صدارت ممتاز صحافی مجیب الرحمٰن شامی کررہے تھے، جبکہ مقررین میں ڈاکٹر سعد اسلم صدیقی، اوریا مقبول جان، ضیاء نقشبندی، جناب عطاء الرحمن اور دیگر شامل تھے۔ صاحبِ تصنیف نے بتایا کہ جب میں نے اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تب سے ورلڈ رائٹرز کلب کے صدر اور میرے محترم دوست مرزا یٰسین بیگ میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ وہ ہر روز کتاب جلد مکمل کرنے پر اصرار کرتے۔ کتاب مکمل ہوگئی تو اسے شائع کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس دوران کتاب پر مختلف اکابرین کی آراء کو شاملِ کتاب کرنے کے لیے اُن کے مشورے اور تعاون حاصل رہا۔ آخرکار اسلامک پبلی کیشنز نے کتاب شائع کردی۔ تب سے یہ اس کی تقریب رونمائی کے لیے لگے ہوئے ہیں۔ پروفیسر عزمی نے ان مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا کہ کتاب مکمل کرنے کے بعد میں مولانا خان محمد قادری کی خدمت میں حاضر ہوا اور کتاب کی تقریظ لکھنے کی درخواست کی۔ مولانا نے پوچھا: آپ نے درسِ نظامی کیا ہوا ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: کبھی کسی دینی مدرسے میں پڑھے؟ میں نے پھر نفی میں جواب دیا، تو فرمایا: ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ ایسے نازک موضوعات پر وہ لوگ لکھ رہے ہیں جن کا عملاً ان موضوعات سے کوئی تعلق نہیں (مصنف کے بقول انہوں نے بین السطور یہ فرمایا کہ جب تمہارا علم اس میدان کا نہیں تو یہ پنگا کیوں لیا؟) جواب میں مَیں نے انتہائی ادب سے عرض کیا کہ جب متعلقہ عالم لوگ ان موضوعات پر کام نہیں کررہے تو ہم جیسے عامیوں کو ہی یہ فریضہ ادا کرنا پڑرہا ہے۔ شاید یہ جواب مولانا کو پسند آگیا اور انہوں نے کمالِ شفقت سے تقریظ لکھ دی۔
تقریب کے صدر جناب مجیب الرحمٰن شامی نے اپنے خطاب میں کہا کہ امت میں اختلاف پہلے دن سے موجود ہے۔ مختلف ائمہ کے درمیان دینی امور کی توجیح و توضیح پر اختلاف رہا ہے۔ فقہاء اور فقہوں میں بھی اختلاف موجود رہا ہے۔ گویا اختلاف موجود ہے اور رہے گا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ کیا ہے؟ اختلاف کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور قرینہ کیا ہونا چاہیے؟ مصنف نے اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور بلاشبہ اُن کی یہ کاوش قابلِ تحسین ہے اور امت کی اس میدان میں رہنمائی کا کام کرے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ مصنف اس سے قبل اسلامی ناول لکھنے کی شہرت رکھتے تھے۔ دروسِ قرآن اور اسلامیات کے ایک مستند استاد کے طور پر بھی اُن کا تعارف موجود تھا۔ لیکن اس نازک موضوع پر قلم اُٹھاکر انہوں نے حقیقتاً بڑی خدمت انجام دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی اس مساعی کو قبول فرمائے۔ دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں علماء اور دینی طبقات اختلافات کی بات کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان اختلافات کو اس شدت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اُن کے نتیجے میں سامعین اور قارئین میں شدت پسندی پروان چڑھتی ہے، لیکن اختلافات کو قبول کرنے اور اختلاف کرنے کے جائز اور قابلِ قبول طریقوں پر گفتگو نہیں کرتے۔ پروفیسر ڈاکٹر اختر حسین عزمی نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے اور کتاب میں اختلاف کے آداب کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ گویا آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے لیکن یہ اختلاف تہذیب و شائستگی کی حدود میں اور خالصتاً علمی اور تحقیقی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ ایسا اختلاف امت کے لیے نعمت ہوگا۔ اس سے امتِ مسلمہ میں برداشت اور رواداری بڑھے گی اور اس پر لگا ہوا شدت پسندی کا الزام بھی دم توڑ جائے گا۔ اس عمل سے علم و تحقیق کی نئی راہیں کھلیں گی، اختلاف کرکے بھی امت کی رہنمائی کی جاسکے گی۔
تقریب میں ہر مسلک کے علماء اور پرستاروں کی نمائندگی موجود تھی۔ یہ شاندارتقریب امید افزا خیالات اور خوشبودار بریانی پر اختتام پذیر ہوئی۔