20 سال میں 31لاکھ مسلمانوں کا قتل
امریکہ کی خون آشامی اور ہلاکت آفرینی کو دیکھا جائے تو ہٹلر کی خون آشامی اور ہلاکت آفرینی ’’بچوں کا کھیل‘‘ نظر آتی ہے
امام خمینی امریکہ کو ’’شیطان بزرگ‘‘ کہا کرتے تھے۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی کہتے ہیں کہ امریکہ عہدِ حاضر کی سب سے ’’بدمعاش ریاست‘‘ ہے۔ امریکہ کی ایک اور ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ کہا کرتی تھیںکہ امریکہ کی بنیاد ’’نسل کُشی‘‘ پر رکھی ہوئی ہے۔ لیکن امریکہ صرف عسکری دہشت گردی کی علامت نہیں ہے۔ امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی معاشی دہشت گرد بھی ہیں اور انہوں نے درجنوں قوموں کی معیشتوں کو تباہ و برباد کیا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 20 برسوں میں امریکہ کی عسکری دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان بنے ہوئے ہیں۔ اس المناکی کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔
امریکہ کی برائون یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے نائن الیون کے بعد سے اب تک جو جنگیں لڑی ہیں اُن میں 8 لاکھ سے زیادہ افراد (مسلمان) شہید ہوئے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 8 لاکھ افراد جنگ سے براہِ راست ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ ’’جنگ کے اثرات‘‘ سے ہلاک ہونے والوں کو بھی شمار کیا جائے تو امریکہ گزشتہ 20 سال میں 31 لاکھ مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ایجاد کی ہوئی جنگیں افغانستان، پاکستان، عراق، شام اور یمن میں لڑی گئی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بلاشبہ امریکی بھی شامل ہیں، مگر شہید ہونے والوں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے، اور رپورٹ کے مطابق ان جنگوں میں مسلمان امریکیوں سے 200 گنا زیادہ مارے گئے ہیں۔ رپورٹ میں جنگوں پر امریکی اخراجات کا نیا تخمینہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس تخمینے کے مطابق امریکہ نے ان جنگوں پر اب تک ’’6 ہزار ارب ڈالر‘‘ سے زیادہ رقم صرف کی ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ جنگوں کے اخراجات جاری رہیں گے، اس لیے کہ امریکہ کے ہزاروں فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، جن کے علاج کے لیے امریکہ کو ہر سال خطیر رقم بجٹ میں مختص کرنی پڑے گی۔ چنانچہ امریکہ 21 ویں صدی میں ہی نہیں 22 ویں صدی میں بھی اپنی جنگوں کا مالی بوجھ اٹھانے پر مجبور ہوگا۔ (دی نیوز کراچی، صفحہ اوّل اور صفحہ 4۔ 18 نومبر 2019ء)۔
امریکہ کے دعووں کو دیکھا جائے تو وہ ’’امن‘‘ کا علَم بردار ہے۔ اس نے ’’انسانیت‘‘ کا پرچم ہاتھ میں اٹھایا ہوا ہے۔ وہ ’’آزادی‘‘ کی بات کرتا ہے۔ دنیا میں ’’جمہوریت‘‘ کے فروغ پر زور دیتا ہے۔ مگر مذکورہ بالا حقائق بتارہے ہیں کہ امریکہ ایک ’’جنگ پرست‘‘ ملک ہے۔ انسانوں بالخصوص ’’مسلمانوں‘‘ سے اسے ایسی نفرت ہے کہ وہ 20 سال میں 31 لاکھ مسلمانوں کو قتل کرسکتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس نے آج تک 20 سال میں 31 لاکھ مسلمانوں کے قتلِ عام پر نہ کبھی شرمندگی کا اظہار کیا، نہ کبھی مسلمانوں سے معافی مانگی، بلکہ امریکہ اور مسلم ملکوں پر مسلط اُس کے آلہ ٔ کار حکمران تو یہ بات بھی زیر بحث نہیں آنے دیتے کہ امریکہ نے 20 برسوں میں 31 لاکھ مسلمان مار ڈالے ہیں۔ مزید ہولناک بات یہ ہے کہ ابھی تک خون سے امریکہ کی پیاس بجھی نہیں ہے۔ 20 سال میں 31 لاکھ مسلمانوں کا قتل کھلی نسل کُشی ہے، چنانچہ گزشتہ 20 سال میں امریکہ کے حکمران رہنے والے ہر امریکی صدر پر بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں نسل کُشی کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ اکبر الٰہ آبادی نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھاً
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
۔’’وہ‘‘ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اس شعر میں ’’وہ‘‘ انگریز تھے۔ اب مسلمانوں کا ’’وہ‘‘ امریکہ ہے۔ انگریزوں نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں ایک کروڑ ہندوستانی مار ڈالے۔ ان میں سے اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ انگریزوں نے جنگِ آزادی میں 50 ہزار علما کو شہید کیا۔ صرف دِلّی میں 5 ہزار علما شہید کیے گئے، مگر انگریز اس کے باوجود ’’مہذب‘‘ بھی رہے، ’’انسان‘‘ بھی۔ لیکن چند سو انگریزوں کو قتل کرنے والے مسلمان ’’باغی‘‘ کہلائے۔ انہیں انگریزوں نے ’’غدار‘‘ بھی قرار دیا، مسلمانوں کو انگریزوں نے ’’فسادی‘‘ بھی کہا۔ انگریزوں کے پٹھو سرسید تو اس سلسلے میں اس حد تک گئے کہ انہوں نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے ’’مجاہدین‘‘ کو ’’حرام زادے‘‘ قرار دے دیا۔ ماضی میں جو کام انگریزوں نے کیا، وہی کام اب امریکی انجام دے رہے ہیں۔ مسلمان دوچار امریکی مار دیتے ہیں تو وہ انتہا پسند اور دہشت گرد قرار پاتے ہیں، بلکہ انہیں ’’اسلامی دہشت گرد‘‘ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، مگر امریکہ نے صرف 20 سال میں 31 لاکھ مسلمان مار ڈالے ہیں اور امریکہ نہ انتہا پسند ہے، نہ دہشت گرد ہے، بلکہ وہ موجودہ دنیا میں ’’امن و آشتی‘‘ کی علامت بنا ہوا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کو دھمکی دی تھی کہ امریکہ اسے صفحۂ ہستی سے مٹادے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہی دھمکی طالبان کو دی۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم افغان جنگ دس دن میں جیت سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں ایک کروڑ لوگوں کو مارنا ہوگا۔ شمالی کوریا ڈھائی کروڑ انسانوں کا ملک ہے، چنانچہ شمالی کوریا کے صفحۂ ہستی سے مٹنے کا مفہوم یہ تھا کہ امریکہ نے ایٹم بم مارکر شمالی کوریا کے ڈھائی کروڑ لوگوں کو ہلاک کردیا ہے۔ افغانستان میں امریکہ نے ایک ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو مارنے کی دھمکی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسی ہی ایک دھمکی ترکی کو بھی دی۔ ٹرمپ نے کہاکہ امریکہ جب چاہے ترکی کی معیشت کو تباہ کرسکتا ہے۔ اگرچہ بعدازاں ٹرمپ نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو امریکہ کے دورے پر بلالیا، مگر مغربی بالخصوص امریکی ذہن اتنا شیطانی ہے کہ اسے بدلنے کے لیے صرف ایک لمحہ اور صرف ایک مفاد درکار ہے۔
بعض لوگ گمان کرسکتے ہیں کہ امریکہ شمالی کوریا میں ڈھائی کروڑ، اور افغانستان میں ایک ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو تھوڑی مار سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے لوگ امریکہ اور مغربی ذہن کی الف ب بھی نہیں جانتے۔ ممتاز مغربی دانش ور مائیکل مان نے اپنی معرکہ آرا تصنیف The Dark Side of Democracy میں ٹھوس شہادتوں کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ سفید فاموں نے “Americas” پر قبضہ کرکے وہاں 8 سے 10 کروڑ ریڈانڈینز اور دیگر مقامی باشندوں کو قتل کیا۔ جو ذہن اور جو تہذیب “Americas” میں 8 سے 10 کروڑ لوگوں کو ہلاک کرسکتی ہے وہ شمالی کوریا میں ڈھائی کروڑ، اور افغانستان میں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو کیوں ہلاک نہیں کرسکتی! کتنی عجیب بات ہے کہ ہٹلر نے 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا اور وہ پوری دنیا میں شیطنت کی علامت بنا ہوا ہے، مگر سفید فاموں نے ’’امریکاز‘‘ میں 8 سے 10 کروڑ لوگوں کو مار ڈالا اور کوئی امریکہ کو ’’شیطان‘‘ نہیںکہتا۔ امریکہ کی خون آشامی اور ہلاکت آفرینی کو دیکھا جائے تو ہٹلر کی خون آشامی اور ہلاکت آفرینی ’’بچوں کا کھیل‘‘ نظر آتی ہے۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’شیطنت‘‘ مغربی بالخصوص امریکی خمیر کا حصہ ہے۔ اہلِ مغرب نے “Americas” میں 8 سے 10کروڑ انسانوں کو مارا۔ آسٹریلیا پر قبضے کے لیے انہوں نے وہاں کے 40 لاکھ مقامی باشندوں یعنی ایب اوریجنلز مار ڈالے۔ کوریا کی جنگ میں امریکہ نے 30 لاکھ کوریائی باشندوں کا خون کردیا۔ ویت نام میں امریکہ نے 10 سے 20 لاکھ ویت نامیوں کو ہلاک کردیا۔ دو عالمی جنگوں میں مغربی اقوام نے 10 کروڑ انسان تہِ تیغ کردیئے۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور Howard Zinn نے اپنی معرکہ آرا کتاب A People’s History of the United States میں لکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں جاپانی امریکیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی والے تھے۔ امریکیوں نے اس سلسلے میں جاپانی فوج کے خفیہ پیغامات کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کرکے پڑھ لیا تھا، مگر اس کے باوجود امریکیوں نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گراکے دو لاکھ سے زیادہ انسانوں کو زندہ جلا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکی پوری دنیا کو اپنے خوف میں مبتلا کرنا چاہتے تھے۔ گلی کے غنڈے یہ کرتے ہیں کہ جہاں طمانچے سے کام چل سکتا ہے وہاں بھی وہ گولی چلا دیتے ہیں، یا کم از کم ہوائی فائرنگ ضرور کرتے ہیں تاکہ علاقے میں ان کا خوف پیدا ہو۔ امریکہ چونکہ ’’عالمی غنڈہ‘‘ اور ’’عالمی بدمعاش‘‘ ہے اس لیے وہ عالمی سطح پر خوف پیدا کرنے کے لیے طمانچے کی جگہ گولی اور گولی کی جگہ ایٹم بم استعمال کرتا ہے۔ کیا عالمی تاریخ میں ایسی سفاک قوت کوئی اور بھی ہوئی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے، اور ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی دانش ور نوم چومسکی امریکہ کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ یا ’’روگ اسٹیٹ‘‘ کیوں کہتے ہیں؟
مغربی اقوام ساری دنیا کو ’’درسِ امن‘‘ دیتی پھرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ یہاں ہمیں پھر اکبر یاد آگئے۔ انہوں نے فرمایا ہے:۔
یہی کہتے رہے تلوار سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر کے سامنے مغرب کی ’’توپ پرستی‘‘ تھی، مگر اکبر کو علم نہیں تھا کہ مغرب کی توپ پرستی کی ایک پوری تاریخ ہے۔ اس تاریخ میں اتنی خون آشامی ہے کہ انسان اسے دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے اور سوچتا ہے کہ مغربی اقوام نے دنیا میں جنگیں لڑنے کے سوا بھی کچھ کیا ہے؟ اس سلسلے میں مغرب کے ممتاز ماہرنفسیات ایرک فرام کی تصنیف The Anatomy of Human Destructiveness کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس تصنیف میں ایرک فرام نے مغربی اقوام کی باہمی جنگوں کی تاریخ کو اعداد و شمار کی زبان میں پیش کیا ہے۔ ذرا ان اعداد و شمار پر ایک نظر تو ڈالیے:۔
سال جنگوں کی تعداد
1480-1499 9
1500-1599 87
1600-1699 239
1700-1799 781
1800-1899 651
1900-1940 891
(The Anatomy of Human Destructiveness Page-215)
ان جنگوں کی تعداد کو جمع کیا جائے تو مغربی اقوام نے ساڑھے چار سو سال میں 2658 جنگیں لڑیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا تمام مشرقی اقوام نے گزشتہ پانچ ہزار سال میں بھی اتنی جنگیں لڑی ہیں؟ اس کے باوجود بھی اہلِ مغرب ’’امن پسند‘‘ ہیں اور اہلِ مشرق بالخصوص مسلمان ’’جنگ پرست‘‘۔
جہاں تک امریکیوں کا تعلق ہے تو ان کا ’’تشدد‘‘ ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 1968ء سے 2015ء تک Gun Violence سے 15لاکھ 16ہزار اموات ہوئیں۔ صرف 2017ء میں امریکہ میں 39773امریکی Gun Violence سے مارے گئے۔ (دی نیوز کراچی، 4جون 2018ء)
امریکہ کی آبادی عالمی آبادی کا صرف 5 فیصد ہے، مگر امریکہ میں جرائم کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ دنیا بھر کی جیلوں میں جتنے جرائم پیشہ قید ہیں اُن کا 25 فیصد امریکی جیلوں میں موجود ہے۔ (دی نیوز کراچی، ایڈم جونسن، 26 جنوری 2019ء)
ماہرین کے مطابق امریکی بچپن سے تشدد دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک امریکی بچپن سے نوجوانی کے مرحلے میں داخل ہونے تک ٹیلی وژن کی اسکرین پر قتل کی 16 ہزار وارداتیں دیکھ چکا ہوتا ہے، اور اس کی نظر سے تشدد سے بھرپور 2 لاکھ واقعات گزر چکے ہوتے ہیں۔ عام طور پر بچے جو کچھ ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں اسے عام زندگی میں دہرانے یا اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (دی نیوز کراچی، سیزر چیلالالے، 9 اگست 2019ء)
ڈونلڈ ٹرمپ کو بعض لوگ ’’احمق‘‘ خیال کرتے ہیں، مگر ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکہ کا ’’باطن‘‘ ہے، اور صدارتی انتخاب میں ہیلری کلنٹن کے خلاف ان کی کامیابی امریکہ کے ’’ظاہر‘‘ پر امریکہ کے ’’باطن‘‘ کی فتح کے مترادف تھی۔ امریکہ کے اس باطن کو اس بات کی پروا نہیں ہے کہ دنیا اس کے بارے میں کیا کہے گی۔ چنانچہ وہ امریکہ کے باطن کو بے دھڑک زبان پر لے آتا ہے۔ اس تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ دھمکی کہ امریکہ ترکی کی معیشت کو تباہ و برباد کردے گا، محض دھمکی نہیں تھی، مغربی اقوام گزشتہ دو سو سال سے پوری دنیا میں یہی کررہی ہیں۔ مغربی دنیا کے معروف دانش ور ولیم ڈیل رمپل نے اپنی تازہ ترین تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر پر قابض ہوئی تو اُس وقت برصغیر دنیا کی مجموعی پیداوار کا 25 فیصد پیدا کررہا تھا، مگر جب انگریز برصغیر سے لوٹ کر گئے اُس وقت برصغیر دنیا کی مجموعی پیداوار کا صرف ساڑھے چار فیصد پیدا کررہا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ انگریزوں نے مقامی صنعت و حرفت اور مقامی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کردیا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حسن نثار جیسے ’’افلاطون‘‘ برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کو ’’ترقی‘‘ اور ’’روشن خیالی‘‘ کی علامت سمجھتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا، یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ انگریزوں نے 19 ویں اور 20ویں صدی کے اوائل میں جو کچھ برصغیر کی معیشت کے ساتھ کیا، وہی کچھ امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی گزشتہ 60 سال سے کمزور اقوام کی معیشتوں کے خلاف کررہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ صرف ’’عسکری دہشت گرد‘‘ نہیں، وہ ’’معاشی اور اقتصادی دہشت گرد‘‘ بھی ہے۔ مغرب بالخصوص امریکہ کی معاشی دہشت گردی کے سلسلے میں جان پرکنز کی تصنیف Confessions of an Economic Hit Manکو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کو روزنامہ جسارت کے صفوت علی قدوائی نے ’’اقتصادی غارت گر‘‘ کے عنوان سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اتفاق سے جان پرکنز خود امریکہ کا ایک ممتاز Economic Hit Man یا اقتصادی غارت گر تھا۔ سوال یہ ہے کہ Economic Hit Man جس کا مخفف (EHM) ہے آخر کون ہے؟ اس کا ذکر خود جان پرکنز کے الفاظ میں یہ ہے:۔
’’اکنامک ہٹ مین (ای ایچ ایم) خطیر معاوضے پر خدمات انجام دینے والے وہ پیشہ ور افراد ہیں جن کا کام ہی دنیا بھر میں ملکوں کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر سے محروم کرنا ہے۔ یہ لوگ عالمی بینک، امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) اور دیگر غیر ملکی ’’امدادی‘‘ اداروں سے ملنے والی رقوم بڑی بڑی کارپوریشنوں کے خزانے اور اس کرۂ ارض کے قدرتی وسائل پر قابض چند دولت مند خاندانوں کی جیبوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ جعلی مالیاتی رپورٹوں کی تیاری، انتخابی دھاندلیاں، رشوت، استحصال، جنسی ترغیب اور قتل، ان کے اصل ہتھیار ہیں۔ یہ لوگ وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو قدیم شاہی دور میں کھیلا جاتا تھا، مگر ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے اس عہد میں اس نے ایک ہمہ جہت دہشت ناک شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ بات مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے، کیونکہ میں خود بھی ایک اقتصادی دہشت گرد (ای ایچ ایم) تھا‘‘۔ (اقتصادی غارت گر۔ صفحہ 9)
عام افراد مغرب کے مالیاتی اداروں کے ’’قرضوں‘‘ کو شک و شبہ کی نظر سے نہیں دیکھتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بادشاہوں، جرنیلوں اور سول حکمرانوں نے قرضوں کے بارے میں یہ تاثر عام کیا ہوا ہے کہ قرضے جدید معیشت کے لیے ناگزیر ہیں، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ قرضوں کا مقصد کمزور اور غریب عوام کو قرضوں کے بوجھ کے نیچے دبا کر انہیں ان کی آزادی، خودمختاری اور عزتِ نفس سے محروم کرکے مغرب یا امریکہ کا معاشی غلام بنانا ہے۔ جان پرکنز نے جب ’’اقتصادی غارت گر‘‘ کے طور پر کام کرنا شروع کیا اُس کی تربیت کی ذمے دار عورت ’’کلاڈین‘‘ نے اُسے کیا بتایا، جان پرکنز کی زبانی سنیے۔ وہ لکھتا ہے:۔
’’کلاڈین نے بتایا کہ میرے کام کے 2 بنیادی مقاصد ہیں۔ میری پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ ان بھاری بین الاقوامی قرضوں کا جواز فراہم کروں اور وسیع پیمانے پر زیرعمل انجینئرنگ اور کنسٹرکشن پروجیکٹس کی مدد سے قرضے کی یہ رقم مین (Main) اور دیگر امریکی کمپنیوں (مثلاً بیخٹیل، ہیلی برٹن، اسٹون اینڈ ویبسٹراور برائون اینڈ روٹ) میں واپس لانے کا باعث بنوں۔ میری دوسری ذمہ داری یہ تھی کہ قرضے حاصل کرنے والے ملکوں کو (ان کی طرف سے مین اور دیگر امریکی ٹھیکیداروں کو ادائیگی کے بعد) دیوالیہ بنانے کے لیے کام کروں تاکہ وہ ہمیشہ قرضہ دینے والوں کے بوجھ تلے دبے رہیں، اور جب ہمیں فوجی اڈوں، اقوام متحدہ کے ووٹوں یا تیل اور دیگر قدرتی وسائل تک رسائی کے لیے مدد کی ضرورت پڑے تو یہ ملک بآسانی قابو میں آجائیں‘‘۔ (اقتصادی غارت گر، جان پرکنز۔ صفحہ 35،36)
امریکی اگر کسی Economic Hit Man یا اقتصادی غارت گر کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکیں تو پھر وہ ان ممالک کی سیاسی قیادت ہی کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں جو امریکہ کے ناپاک عزائم کی مزاحمت کررہی ہوتی ہیں۔ اس عمل کی دو ٹھوس مثالیں خود جان پرکنز نے پیش کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے:۔
’’میں نے 1982ء میں ’’ایک باضمیر اکنامک ہٹ مین‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب کا آغاز ان ہی جملوں سے کیا تھا۔ یہ کتاب دو ملکوں کے صدر (1) ایکواڈور کے صدر جیمی رولڈوس، اور (2) پناما کے صدر عمر توری جوس کے نام معنون کی گئی تھی۔ دونوں ہی میرے موکل ہوا کرتے تھے جن کا میں بڑا احترام کرتا تھا اور دونوں سے قلبی تعلق محسوس کرتا تھا۔ یہ دونوں خوفناک فضائی حادثے میں ہلاک ہوئے تھے، مگر ان کی موت کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ انہیں قتل کیا گیا تھا، کیونکہ یہ دونوں صدور کارپوریٹ برادری، حکومت اور بینکنگ سربراہوں کے اس گٹھ جوڑ کے سخت مخالف تھے جس کا مقصد عالمی سلطنت قائم کرنا ہے۔ ہم اقتصادی غارت گر (ای ایچ ایم) جب رولڈوس اور عمرتوری جوس کو ورغلا کر اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رہے تو دوسری طرح کے ہٹ مین، سی آئی اے کے پروردہ گیدڑ حرکت میں آئے، جو ہمیشہ سائے کی طرح ہمارے ساتھ لگے رہتے تھے‘‘۔ (اقتصادی غارت گر، جان پرکنز۔ صفحہ 9)
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے اقتصادی غارت گر یا Economic Hit Man ہمیشہ انسانوں کو جسمانی طور پر قتل نہیں کرتے۔ وہ ان کے ’’روحانی قتل‘‘ اور ’’اخلاقی قتل‘‘ کے ذریعے بھی اپنا کام نکالتے ہیں۔ جان پرکنز جس ادارے کے لیے کام کررہا تھا اسے سعودی عرب میں ایک بڑا منصوبہ ہتھیانا تھا، چنانچہ جان پرکنز نے ایک اہم سعودی شہزادے کے ساتھ کیا کیا، اسی کی زبانی سنیے:۔
’’شہزادہ “W” کی ایک ہی کمزوری تھی، خوب صورت عورتیں۔ شہزادے نے اس بارے میں اپنی پسند، ناپسند سے مجھے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا، اور میں نے ان کی خدمت اور دل بستگی کا پورا خیال رکھا۔ بوسٹن میں ہماری ملاقاتیں خفیہ ہوا کرتی تھیں، لہٰذا مجھے ان کی خواہشات کی تکمیل میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ شہزادے کی فرمائشیں بڑھتی گئیں۔ پیٹروڈالر کی ریل پیل تھی اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کی کمی نہیں تھی، اس لیے میں اُن کے احکامات کی تعمیل کرتا رہا، اور یوں میں نے اُن کا اعتماد حاصل کرلیا۔ تاہم خوبصورت عورتوں کے جال میں پھنسانے اور اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ شہزاد سما (Sama) کی حکمت عملی کے بھی قائل ہوچکے ہیں اور اپنے ملک کے لیے اس کی سفارش کردیں گے۔ انہیں قائل کرنے اور اپنی بات منوانے کے لیے مجھے سخت محنت کرنا پڑی۔ میں انہیں اعداد و شمار، جائزہ رپورٹس کے تجزیوں اور اکنامیٹرکس کے نمونوں اور مثالوں کی مدد سے قائل کرنے کے لیے گھنٹوں سر کھپاتا رہا۔ میری یہ کوششیں رنگ لائیں اور آخرکار وہ پسیج گئے۔
میرے دیگر ساتھیوں (ای ایچ ایم) اور کلیدی سعودی شخصیات کے درمیان جو کچھ بھی ہوا اُس کی تفصیلات کا تو مجھے علم نہیں۔ بس میں اتنا جانتا ہوں کہ شاہی خاندان نے ہمارا پورا پیکیج منظور کرلیا۔ ’’مین‘‘ کو امریکی ٹریژری محکمہ کے زیرانتظام انتہائی منافع بخش کنٹریکٹ مل گیا‘‘۔ (اقتصادی غارت گری، جان پرکنز۔ صفحہ 115، 116)
امریکہ کے اقتصادی غارت گر کمزور اور غریب اقوام کا اقتصادی استحصال کس طرح کرتے ہیں اس کی ایک بہت بڑی اور ٹھوس مثال بھی جان پرکنز نے اپنی تصنیف میں پیش کی ہے:
’’ایکواڈور دنیا کے اُن ملکوں کی ایک مخصوص اور نمایاں مثال ہے جنہیں ای ایچ ایم نے اقتصادی اور سیاسی شکنجے میں جکڑنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ایکواڈور کے جنگلات سے نکلنے والے ہر 100 ڈالر مالیت کے خام تیل پر تیل کمپنیوں کو 75 ڈالر ملتے ہیں۔ بقیہ 25 ڈالر میں تین چوتھائی رقم غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنا لازمی ہے۔ پھر باقی ماندہ رقم کا بیشتر حصہ فوجی اور دیگر سرکاری اخراجات کی نذر ہوجاتا ہے، اور یوں صحت، تعلیم اور غریبوں کے امدادی پروگراموں کے لیے تقریباً 2.50 ڈالر کی حقیر رقم باقی بچتی ہے۔ اس طرح آمیزن سے نکلنے والے 100 ڈالر مالیت کے تیل میں سے 3 ڈالر سے بھی کم رقم اُن لوگوں تک پہنچتی ہے جو اس کے سب سے زیادہ مستحق اور ضرورت مند ہیں، جن کی زندگیاں ڈیموں کی تعمیر، ڈرلنگ اور پائپ لائنوں کی تنصیب سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں، اور جو غذائی قلت اور پینے کے لیے صاف پانی کے فقدان کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ یہ تمام لوگ… ایکواڈور کے لاکھوں اور اس کرۂ ارض کے اربوں بے بس اور لاچار افراد… ممکنہ دہشت گرد ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ لوگ کمیونزم کے حامی ہیں یا افراتفری اور انتشار پر یقین رکھتے ہیں، یا برائی ان کا شعار ہے۔ بلکہ محض اس لیے کہ یہ لوگ سخت مایوسی اور محرومی کا شکار ہیں۔ میں نے دنیا کے بہت سے مقامات پر مایوسی اور بے بسی کی یہی کیفیت دیکھی ہے اور حیران ہوں کہ آخر یہ لوگ اس صورت حال کے خلاف کب اٹھیںگے‘‘۔ (اقتصادی غارت گر، جان پرکنز۔ صفحہ 17)
ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے امریکی اور مغربی ادارے پاکستان کی معیشت کے ساتھ کتنا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہمارے قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں، ہماری معیشت بہتر ہوکر نہیں دے رہی۔ وہ بہتر بھی ہوتی ہے تو ایک مختصر عرصے کے لیے۔ پھر اس کی حالت خراب ہوجاتی ہے اور ہم آئی ایم ایف سے ایک نیا اقتصادی پیکیج لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہم انہی کالموں میں عرض کرتے رہے ہیں کہ امریکہ کا مقصد ہماری معیشت کی بہتری نہیں، بلکہ امریکہ کا مفاد یہ ہے کہ ہماری معیشت کبھی مستحکم اور توانا نہ ہو۔ ہماری معیشت مستحکم اور توانا ہوگئی تو ہم امریکی شکنجے سے آزاد ہوجائیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے تمام سول اور فوجی حکمران امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
امریکہ کی معاشی دہشت گردی کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ امریکہ سی پیک کے خلاف کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب تک صرف یہ کہا جارہا تھا کہ امریکہ سی پیک سے خوش نہیں، مگر اب اُس نے کھل کر سی پیک کی مخالفت کردی ہے۔ امریکہ نے سی پیک کے حوالے سے کیا کہا ہے، امریکہ کی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کی زبانی سنیے:۔
’’سی پیک کو چین اور پاکستان گیم چینجر قرار دے رہے ہیں لیکن اس سے صرف چینی مفادات کا تحفظ ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’سی پیک پاکستان پر بوجھ بنے گا، چینی قرضوں کی شرائط سخت ہیں، سی پیک امدادی منصوبہ نہیں، پاکستان کے لیے قرضوں کی ادائیگیاں مشکل ہوں گی۔ امریکہ کے پاس اس سے بہتر اقتصادی ماڈل موجود ہے، امریکہ کی نجی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور حکومتی امداد سے پاکستان کو معاشی فائدہ پہنچ سکتا ہے، بظاہر چینی قرضے طویل المدتی ہیں تاہم اس کے باوجود عمران خان کا اصلاحاتی ایجنڈا متاثر ہوا۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ان منصوبوں سے متعلق چین سے سخت سوالات پوچھنے چاہئیں۔ انہوں نے سی پیک کی شفافیت پر بھی سوال اٹھایا اور اس پر کرپشن کا الزام عائد کیا۔ ان کے بقول ’’سی پیک کے اثرات پاکستان کی معیشت پر اُس وقت پڑیں گے جب چار یا چھ سال بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا ہوں گی‘‘۔ امریکی نمائندۂ خصوصی کے مطابق سی پیک کے تحت ملنے والے قرضوں کی شرائط بھی نرم نہیں ہیں، جب کہ چینی کمپنیاں اپنے مزدور اور خام مال پاکستان بھجوا رہی ہیں۔ ان کے بقول ’’سی پیک کے تحت چینی کمپنیاں اور مزدور پاکستان آرہے ہیں، حالانکہ پاکستان میں بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘‘۔ ایلس ویلز نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بظاہر یہ قرضے طویل المدتی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کے اصلاحاتی ایجنڈے پر تلوار کی طرح لٹکتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے امریکہ کے پاس بہتر ماڈل موجود ہے، ان کے بقول ’’امریکہ کی نجی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور حکومتی امداد سے پاکستان کو معاشی فائدہ پہنچ سکتا ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ کراچی، 23 نومبر 2019ء)
اصولی اعتبار سے پاکستان ایک آزاد ملک ہے، وہ کس ملک کے ساتھ اقتصادی روابط قائم کرنا چاہتا ہے یہ پاکستان کے آزاد ارادے پر منحصر ہے۔ چنانچہ امریکہ کو سی پیک پر اعتراض کرنے کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں ہے۔ سی پیک پاکستان کے مفاد میں نہیں تو اس منصوبے پر نظرثانی کا حق اور اختیار بھی پاکستان کے پاس ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے معاشی تعلقات کی تاریخ 60 سالہ پرانی ہے، اس تاریخ میں ہر طرف صرف امریکہ کے مفادات جلوہ گر ہیں جبکہ پاکستان کا مفاد کہیں بھی نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ امریکہ صرف سیاسی اور عسکری معنوں ہی میں نہیں، معاشی اور اقتصادی معنوں میں بھی پاکستان کے لیے استعماری طاقت ثابت ہوا ہے۔ ممکن ہے پانچ دس سال کے بعد چین بھی استعماری طاقت بن کر سامنے آجائے، مگر چین کی تاریخ استعماریت کی تاریخ نہیں ہے۔ چنانچہ پاکستان کو ہر اعتبار سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ امریکہ کا اقتصادی ہاتھ جھٹک کر چین کے معاشی ہاتھ کو تھامے۔ پاکستانی قوم جانتی ہے کہ امریکہ کے مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک جب بھی پاکستان کو قرض دیتے ہیں، سیاسی اور معاشی شرائط عائد کردیتے ہیں، یہاں تک کہ پاکستان اب اپنا بجٹ بھی خود نہیں بناتا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک بتاتے ہیں کہ ہمارے بجٹ کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں، حکومت کو کتنے محصولات عائد کرنے چاہئیں اور ملک میں بجلی اور گیس کے نرخ کتنے ہونے چاہئیں۔ یہ سب کچھ اقتصادی اعتبار سے ہی تباہ کن نہیں ہے، بلکہ یہ توہین آمیز بھی ہے۔ اس کے برعکس چین نے سی پیک شروع کیا ہے تو کم از کم اُس نے کوئی سیاسی یا معاشی شرط عائد نہیں کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایلس ویلز نے جو کچھ کہا ہے وہ امریکہ کی معاشی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ معاشی دہشت گردی اتنی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے کہ پاکستان میں چین کے سفیر نے ایک بیان میں ایلس ویلز کے ارشادات کے پرخچے اڑا دیئے ہیں۔ پاکستان میں چین کے سفیر نے اس حوالے سے کیا کہا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ چینی کے سفیر یائوجنگ نے کہا:۔
’’سی پیک سے 75ہزار پاکستانیوں کو روزگار ملا، چین پاکستان سے مغربی ممالک اور آئی ایم ایف کی طرح قرض ادائیگی کا مطالبہ نہیں کرے گا، پاکستان مشکل میں ہوا تو مقررہ وقت میں قرض ادائیگی کا تقاضا نہیں کریں گے، امریکہ مخلص ہے توآگے آئے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرے، پاکستان بشمول سی پیک میں امریکی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کریں گے، سی پیک میں کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا، امریکہ بدعنوانی کا ثبوت دے، بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک مشترکہ فائدے کا منصوبہ ہے، 170 ممالک اس کا حصہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سی پیک سے دونوں دوست ممالک کو یکساں فائدہ ہوگا اور اس میں دونوں کی جیت ہے، چین نے پاکستان کی، ضرورت پڑنے پر ہر موقع پر مدد کی ہے، سی پیک کے بارے میں کرپشن کی بات کرنا آسان ہے جب آپ کے پاس درست معلومات نہ ہوں، ثبوت فراہم کریں، 2030ء تک مزید 23 لاکھ پاکستانیوں کو سی پیک کے پراجیکٹس سے روزگار ملے گا، پاکستان کی سالانہ معاشی ترقی میں 2 سے 2.5فیصد گروتھ آئے گی۔
چینی سفیر نے امریکی نائب وزیر خارجہ کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی اور کہا کہ آئیں خود آکر سی پیک سے متعلق حقائق جانیں۔ انہوں نے قرضوں کی واپسی کے حوالے سے امریکی اعتراض پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان مشکل میں ہوا تو چین اس سے مقررہ وقت میں قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ ان کا اشارہ آئی ایم ایف کی طرف تھا جس کا قرض کی واپسی کا ایک سخت نظام ہے۔
ایلس ویلز کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے لیے اعلان کردہ امداد کیوں سیاسی بنیادوں پر معطل کی؟ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو سی پیک کے برعکس امریکی ماڈل کی پیشکش کے جواب میں چینی سفیر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہے گا۔ چینی سفیر یائو جنگ نے کہا کہ سی پیک پاکستان اور چین کی اولین ترجیح ہے، حقیقت پر مبنی معلومات سے منفی پروپیگنڈے کا ازالہ کرنا ہے، سی پیک کا اگلا مرحلہ صنعتی تعاون کو فروغ دے گا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی زونز کے قیام، تعلیم اور زراعت سمیت دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ سی پیک پر امریکی الزام پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ ثبوت کے ساتھ بات کرے اور الزامات لگاتے ہوئے احتیاط سے کام لے۔
ان خیالات کا اظہار چینی سفیر نے اسلام آباد میں سی پیک میڈیا فورم کے پانچویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سی پیک میڈیا فورم کا اہتمام چین کے سفارت خانے اور پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ نے مشترکہ طور پر کیا۔ اس موقع پر یائوجنگ نے کہا کہ امریکہ کی جنوبی اور وسط ایشیا سے متعلق نائب وزیرخارجہ مس ایلس ویلز نے کہا کہ چین نے پاکستان کو مدد نہیں قرضہ دیا ہے، ان کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ چین اور پاکستان کے تعلقات سے بے خبر ہیں، چین اور پاکستان ہرطرح کے حالات میں اسٹرے ٹیجک شراکت دار ہیں جو ہر مشکل وقت میں اکٹھے کھڑے رہے۔
چینی سفیر نے کہا کہ امریکی نائب وزیر خارجہ کا واشنگٹن میں دیا گیا بیان میرے لیے حیران کن تھا، چینی سفیر نے کہا کہ نیب کے اعلیٰ حکام سے میری خود ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ انہیں سی پیک منصوبوں میں کسی طرح کی کرپشن کا ثبوت نہیں ملا، انہوں نے کہا کہ سی پیک پر تنقید بلاجواز ہے، امریکہ الزام تراشی کے بجائے اگر مخلص ہے تو آگے آئے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرے، ہم پاکستان بشمول سی پیک میں امریکی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کریں گے، سی پیک میں امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع ہیں۔
چینی سفیر نے کہا کہ ہم کبھی بھی پاکستان سے قرضہ واپس کرنے کا نہیں کہیں گے جس طر ح امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے ذریعے 13کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی جبکہ امریکہ اس کے مقابلے میں بی یوآئی ایل ڈی پلان لے کر آیا ہے جو صرف 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا پلان ہے چینی سفیر نے کہا کہ جب پاکستان 2015ء میں بجلی کے شدید بحران سے دوچار تھا تو امریکہ اُس وقت کیوں آگے نہیں آیا؟ یہ صرف چین ہے جو اپنے بھائی کے ساتھ کھڑا رہا اور لوڈشیڈنگ سے نکالا اور پاکستان کے عوام کو ریلیف ملا۔
چین کے سفیر یائوجنگ نے کہا کہ امریکہ کی اپنے دوست ممالک کو امداد مشروط ہوتی ہے لیکن چین اس طرح کی شراکت داری میں کسی طرح کا کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ یائو جنگ نے کہا کہ چین کے قرضے سے متعلق الزام بے بنیاد ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں چینی ترقیاتی قرضوں کا حجم بہت ہی معمولی ہے، اور پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا بڑا حصہ آئی ایم ایف اور دیگر مغر بی اداروں اور ممالک سے ہے۔
ریلوے کے ایم ایل ون منصوبے سے متعلق امریکی نائب وزیر خارجہ کے بیان پر انہوں نے کہا کہ ابھی ایم ایل ون منصوبہ فائنل نہیں ہوا، اس پر بات چیت جاری ہے پھر اس کی لاگت پر کس طرح سے سوال اٹھایا جاسکتا ہے؟ اس کی لاگت کتنی ہوگی اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا، ابھی اس منصوبے کے تکنیکی پہلوئوں پر غور ہورہا ہے جس کے بعد مالی ضروریات پر غور کیا جائے گا۔
چینی سفیر نے امریکی نائب وزیر خارجہ کے بجلی کی زیادہ قیمتوں کے بیان پر کہاکہ پاکستان نے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے 2014ء میں اپ فرنٹ ٹیرف پالیسی کا فیصلہ کیا تھا، اُس وقت امریکہ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے کیوں نہیں آیا، یہ پالیسی تمام مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اوپن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا نیپرا کا ادارہ 131پاور پلانٹس کے ٹیرف کا تعین کرتا ہے، اور سی پیک کے تحت تعمیر ہونے والے دو پاور پلانٹس اس حوالے سے آخری نمبروں پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ چین نے پاکستان کے عوام کو سستی اور صاف بجلی فراہم کی ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی، 23 نومبر 2019ء)
جیسا کہ ظاہر ہے اس بیان کی اصل طاقت چین کے مؤقف کی ’’قوت‘‘ نہیں، بلکہ امریکی مؤقف کی ’’کمزوری‘‘ ہے۔ امریکی مؤقف صرف ’’کانا‘‘ ہی نہیں، ’’لنگڑا‘‘ اور ’’لولا‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ کم از کم دلائل کی سطح پر چینی مؤقف نے امریکی مؤقف کا بھرکس نکال دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے باوجود ہمارا حکمران طبقہ امریکہ اور چین کے حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے؟ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ چین کہہ رہا ہے کہ سی پیک بھی جاری رہے اور امریکہ پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری بھی کرے۔ مگر امریکہ کہہ رہا ہے کہ ہماری سرمایہ کاری اسی وقت آئے گی جب پاکستان سی پیک کو لپیٹ دے گا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ چین پاکستان کا ’’معاشی دوست‘‘ ہے اور امریکہ پاکستان کے لیے ’’معاشی دہشت گرد‘‘۔