مغربی تہذیب کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنے عقائد کی توہین کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لیں، لیکن عام مسلمان ابھی اتنا ’’مہذب‘‘ نہیں ہوا کہ قرآن یا اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین برداشت کرسکے۔ عشق رسول نے امت کو ایک رکھا ہوا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے معاملے میں مسٹر اور مولوی سب ایک جیسےہیں
جنو بی نار وے کے شہر کرسچین سینڈ (Kristiansand) میں قرآن جلانے کے واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مغموم و مشتعل کردیا ہے۔ ناروے اور ڈنمارک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تحریک ایک عرصے سے جاری ہے۔ شمالی یورپ کے اس علاقے میں جسے Scandinaviaکہتے ہیں، اسلامو فوبیا کی منظم تحریک کا آغاز ڈنمارک کے ایک ناکام سیاست دان راسمس پالڈن (Rasmus Paldon) نے کیا۔ راسمس مسلمانوں کو وحشی و اجڈ اور اسلام کو پتھروں کے دور کا مذہب سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں مسلم دنیا کی اس وحشت کا منبع نعوذباللہ قرآن اور نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ جہاد کے نام پر قرآن دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مسلم دنیا سے یورپ آنے والے مسلمان جہاد یعنی دہشت گردی کے ذریعے ہماری تہذیب کو پتھروں کے دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ راسمس کو شامی و صومالی پناہ گزینوں کے یورپ آنے پر سخت تشویش ہے اور وہ اسے جرمنی پر نازی حملوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اس ’’کارِ خیر‘‘ میں موصوف کو ایک عراقی نژاد صحافی اور ادیب ولید کوبیسی کی نصرت حاصل تھی۔ ولید جامعہ بغداد سے انجینئرنگ کرنے کے بعد 1981ء میں ناروے آگئے اور یہاں صحافت و فلم سازی شروع کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک راسخ العقیدہ سیکولر مسلمان اور قرآن کے عالم ہیں۔ ولید کے خیال میں حجاب انتہا پسندوں کی شناختی وردی ہے۔ اپنی دقیق و عمیق تحقیق وجستجو کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ حجاب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ آیت اللہ خمینی کی ایجاد ہے۔ یورپ میں آباد مشہور مسلمانوں خاص طور سے طارق رمضان، ممتاز نارویجین صحافی عثمان رانا، نارویجین لبرل پارٹی کے رہنما عابد راجا اور دوسرے مسلمان زعما کے بارے میں انھوں نے تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ تمام لوگ اخوان المسلمون اور ’’مودودی جماعت‘‘ کے تنخواہ دار ایجنٹ ہیں جن کا کام یورپ میں اسلامی انقلاب کے لیے یورپی دہشت گردوں کی بھرتی اور تربیت ہے۔ راسمس کی اسلام فوبیا تحریک کو نظریاتی مواد ولید کوبیسی نے ہی فراہم کیا جو اس سال جولائی میں انتقال کرگئے۔
راسمس پالڈن نے ڈنمارک میں اپنے اسلام دشمن مؤقف کے فروغ کے لیے 2017ء میں Stram Kurs کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی جس کا انگریزی نام Hard Line پارٹی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ہارڈ لائن پارٹی کو 2 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے، چنانچہ ان کی ڈنمارک پارلیمان میں نمائندگی صفر ہے۔ راسمس ایک شعلہ بیان مقرر ہیں اور اشتعال انگیز تقاریر کی بنا پر ان کے خلاف 5 سال کی پابندی لگائی گئی۔ پابندی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے انھوں نے چند ماہ پہلے Vibrogشہر میں ایک جلسے کے دوران نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انتہائی گندی زبان استعمال کی، جس پر مسلمانوں کے ساتھ عام ڈینش شہری بھی مشتعل ہوئے۔ ہاتھا پائی کے دوران راسمس نے پولیس کو ’’مسلمانوں کا کتا‘‘ کہا اور حملے کی کوشش کی۔ اس بات پر راسمس کو تو محض جرمانہ کیا گیا لیکن ہاتھا پائی اور دھکم پیل کے الزام پر ایک شامی نوجوان کو پہلے تو دو ماہ کے لیے جیل بھیجا گیا، اورسزا کاٹنے کے بعد اسے ملک بدر کردیا گیا۔
ناروے کے اسلام مخالفین کے لیے راسمس پالڈن ایک مربی ہیں اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے ان کی حکمت عملی کو مسلم دشمن حلقوں میں پذیرائی حاصل ہے۔ ناروے میں اسلام دشمنی کا منظم آغاز 2000ء میں ہوا جب اوسلو (Oslo)کی جامع مسجد کی طرف سے لائوڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت کے لیے درخواست دی گئی۔ اس کے ردعمل میں ایکشن کمیٹی برائے انسدادِ اذان تشکیل دی گئی۔ اس ایکشن کمیٹی کا شروع میں تو مؤقف تھاکہ لائوڈ اسپیکر پر اذان نہ صرف صوتی کثافت کا سبب بنے گی بلکہ اس سے سیکولر ناروے کا ملائم چہرہ بھی داغ دار ہوگا۔ لیکن جلد ہی اذان کے خلاف بننے والی ایکشن کمیٹی ایک منظم تحریک میں تبدیل ہوگئی اور چند ماہ بعد اس کا نام Forum Against Islamisation (FOM) رکھ دیا گیا۔ جلد ہی اس کے ارکان کی تعداد 13000 ہوگئی اور سارے یورپ کے مسلم دشمن اس پرچم تلے منظم ہوگئے۔ ناروے سے باہر اسے Stop Islamisation in Europe کہا جانے لگا۔ نارویجین حکومت کی جانب سے محدود تعداد میں شامیوں کو پناہ دینے کی پیشکش نے مسلم مخالف تحریک کے لیے مہمیز کا کام دیا اور ولید کوبیسی کے 75 سالہ نظریاتی شاگرد ارنے تھومر (Arne Thomer) نے 2008ء میں STOPP ISLAMISERINGEN AV NORGE یا سیان کے نام سے ایک انتہا پسند جتھہ بنالیا۔ ارنے تھومر ایک صحافی ہیں اور خود کو ملحد کہتے ہیں۔ تاہم ان کے الحاد کا ہدف صرف اسلام، قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ انھیں دوسرے مذاہب سے کوئی پریشانی نہیں۔ راسمس کی طرح ان کا مقصد بھی توہین کے ذریعے مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنا ہے تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ مسلمان شدت پسند ہیں جو آزاد خیال مغربی معاشرے کے لیے کسی طور مناسب نہیں۔
قرآن کی توہین کوئی نئی چیز نہیں، اور ایک عرصے سے مغرب و امریکہ میں یہ کوششیں جاری ہیں۔ قرآن پاک کی سرِعام بے حرمتی کا آغاز 2010ء میں امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گینزول میں ہوا جب ایک چھوٹے سے چرچ کے متعصب پادری ٹیری جونز نے سانحہ نیویارک کے متاثرین کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے 11 ستمبر 2010ء کو قرآن جلانے کا دن قرار دیا۔ فیس بک پر اس نے تمام ’’اہلِ ایمان‘‘ کو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ اپنے چرچ آنے کی دعوت دی جس کے پارکنگ لاٹ میں قرآن جلانے کی تقریب منعقد ہونی تھی۔ اس اعلان کی ساری دنیا میں مذمت کی گئی اور خودگینزول شہر کی انتظامیہ نے ٹیری جونز پر نفرت پھیلانے اور امنِ عامہ میں خلل ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے وفاقی محکمہ انصاف سے کارروائی کی درخواست کی۔ محکمہ شہری دفاع نے پادری صاحب کو متنبہ کیا کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے پر پابندی ہے اور اگر قرآن کو آگ لگائی گئی تو تقریب کے تمام شرکا پر آتش زنی کے مقدمات قائم کیے جائیں گے۔
صدر اوباما کو خوف تھا کہ توہینِ قرآن سے دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا، چنانچہ وزیر دفاع ڈاکٹر رابرٹ گیٹس نے پادری سے ملاقات کے دوران انھیں قرآن سوزی سے باز رہنے کی تلقین کی۔ دوسری طرف امریکہ کی مسلمان تنظیموں نے انتہائی تدبر کا مظاہرہ کیا اور اس پر مشتعل ہونے کے بجائے اس دن کو حضرت عیسیٰؑ سے اظہارِ محبت کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی صرف مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب نہیں بنے گی بلکہ اس کتاب میں حضرت عیسیٰ، ان کی پاک دامن والدہ، حضرت زکریا، ان کی عفت مآب اہلیہ اور حضرت یحییٰ سمیت تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر اور ان کے مقدس واقعات درج ہیں۔ ان متبرک شخصیات اور ان سے وابستہ واقعات مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے بنیادی عقائد کی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا قرآن کی توہین دراصل تمام الہامی مذاہب کی توہین ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کی مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے ’’جلائومت! پڑھو‘‘ کے عنوان سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور قرآن کریم کے ہزاروں نسخے طلبہ اور اساتذہ میں تقسیم کیے گئے۔ امریکی مسلمانوں کے شائستہ صبر، برداشت اور بردباری نے امریکی رائے عامہ کو بے حد متاثر کیا اور شدید عوامی دبائو کے تحت ٹیری جونز نے قرآن کریم کو جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔
لیکن چند ماہ بعد ٹیری جونز پر یہ خبط پھر سوار ہوا اور اس بار انھوں نے قرآن پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ اتوار 20 مارچ 2011ء کو پادری نے اپنے چرچ میں عدالت لگائی، قرآن کے نسخے کو ملزم کے کٹہرے میں رکھا اور خود منصف کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ آٹھ منٹ کی عدالتی کارروائی کے بعد انھوں نے قرآن کو انسانیت دشمن، خواتین کے حقوق کا مخالف اور دہشت گردی کی کتاب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی اور ایک جلاد پادری نے قرآن کے نسخے پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔
اگرچہ کہ ٹیری جونز کی اس حرکت کی امریکہ میں بھی سخت مذمت کی گئی، مسیحی قیادت نے اسے انسانیت دشمن قدم گردانا، اور مسیحی پادریوں نے ٹیری جونز کو ’’اینٹی کرائسٹ‘‘ قرار دیا، لیکن سوا ارب مسلمانوں کی دل آزاری پر پادری کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ ہوئی۔
پچھلے ہفتے ارنے تھومر نے اعلان کیا کہ ہم کرسچین سینڈ شہر کے چوک میں دہشت گردی کے منشور یعنی قرآن کو جلائیں گے۔ 85 ہزار آبادی والے کرسچین سینڈ میں 3 ہزار کے قریب مسلمان آباد ہیں جن کی اکثریت صومالیہ، شام، فلسطین و عراق کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ یہاں پاکستانی، عرب، بنگلہ دیشی اور افریقی مسلمان بھی آباد ہیں۔
تھومر کے اعلان کے ساتھ ہی مسلم قائدین نے مقامی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور پولیس نے یقین دلایا کہ وہ قرآن کریم کی بے حرمتی نہیں ہونے دے گی۔ اس واقعے کی زبردست تشہیر کی گئی، چنانچہ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اپنے جذبات کے اظہار کے لیے وہاں موجود تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کرکے دونوں گروپوں کو علیحدہ کردیا۔ اس دوران پولیس افسران نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ وہ آزادیِ اظہارِ رائے کے تحت سیان کے لیڈروں کو تقریر سے تو نہیں روک سکتے لیکن فائر اینڈ آرمز قانون کے تحت پبلک مقامات پر آگ جلانا منع ہے، اس لیے وہ قرآن کو جلنے نہیں دیں گے۔
جلسے کے آغاز پر ارنے اور اس کے ساتھی اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے، اس دوران نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو زبان استعمال ہوئی اسے سوچ کر ہی ابکائی آتی ہے۔ تاہم مسلمانوں نے وعدے کے مطابق تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا اور نعروں اور درود کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ اس دوران آتشزدگی کے لیے قرآن کریم کا ایک نسخہ باربی کیو گرل پر رکھا تھا جسے پولیس نے مبینہ طور پر اپنے قبضے میں لے لیا، جس پر سیان کے دوسرے رہنما لارس تھورسن نے اپنی جیب سے قرآن کریم کے دوسرے نسخے کو نکال کر آگ لگادی۔ پولیس نے لارس کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پولیس کی بے حسی دیکھ کر ایک شامی نوجوان قرآن کو بچانے کے لیے دوڑا تو وہی پولیس جو قرآن جلتا دیکھ کر خاموش تھی، برق رفتاری سے جھپٹی اور حملہ آور نوجوان کو گرفتار کرکے قرآن جلانے والے کو بچا لیا۔ اس شامی پناہ گزین کا نام عمر دھابہ ہے جو بطور باورچی (شیف) کام کرتا ہے۔ کچھ مسلمان نوجوانوں نے عمر کو پولیس کی مارپیٹ سے بچانے کی کوشش کی، اور ان سب پر پولیس کو تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمات قائم کردیئے گئے۔
شہر کی سنجیدہ مسلم قیادت کا خیال ہے کہ عمر کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش غیر ضروری تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ تشدد مناسب بات نہیں کہ شرپسند یہی چاہتے تھے۔ اس واقعے کی ویڈیو سارے یورپ میں پھیلاکر شامی، عراقی اور صومالی مہاجرین کی ملک بدری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ انتہاپسندوں کی جانب سے واقعے کی تصویروں پر جو عنوانات ٹانکے گئے ہیں اس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ ’’خونخوار کتوں کواپنا پیٹ کاٹ کر کھلائو تاکہ یہ خود تمہیں ہی پھاڑ کھائیں‘‘۔
کرسچین سینڈ کی مسلم قیادت کی جانب سے برداشت کے بھاشن اپنی جگہ، لیکن مسلم امت کی اٹھان کچھ اس نہج پر ہوئی ہے کہ ہمارے جوانوں سے قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ کسی مسلم دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کی تعداد شاید دنیا میں ایک فیصد سے بھی کم ہو لیکن آپؐ کے نام پر ہر مسلمان اپنی جان قربان کرنے کو ہروقت تیار ہے۔ مغربی تہذیب کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنے عقائد کی توہین کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لیں، اور مغربی ممالک میں آباد ”معتدل مسلمان “بھی یہی چاہتے ہیں۔ لیکن عام مسلمان ابھی اتنا ’’مہذب‘‘ نہیں ہوا کہ قرآن یا اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین برداشت کرسکے۔ یہ ’’جذباتیت‘‘ ہی امت کی سب سے بڑی قوت ہے اور فرقہ بندیوں و افتراق کے باوجود عشق رسول نے امت کو ایک رکھا ہوا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے معاملے میں مسٹر اور مولوی سب ایک جیسےہیں۔
اسلام دشمنوں کو اس ’’کمزوری‘‘ کا اچھی طرح اندازہ ہے، چنانچہ توہینِ قرآن کو ابوغریب، گوانتا نامو بے، بگرام اور دوسری جگہوں پر بہت ہی مؤثر انداز میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی جب روایتی تشدد سے بات نہ بنے تو لب کشائی کے لیے توہینِ قرآن کا حربہ استعمال کیا گیا۔ ’’ملزم‘‘ سے کہا جاتا تھا کہ اگر اس نے صحیح بات نہ بتائی تو قرآن کے نسخے اس کے پیروں پر ڈال دیئے جائیں گے، یا اس کے سامنے قرآن کو سور کی چربی میں لپیٹ دیا جائے گا۔ قرآن کو فلش میں ڈالنے کی دھمکی بھی دی گئی جسے سن کر وہی قیدی جو واٹر بورڈنگ، ناخن کھینچنے، کرنٹ لگانے اور تشدد کی دوسری اذیتیں خندہ پیشانی کے ساتھ سہہ رہا تھا فوراً ہی اپنے تمام کردہ و ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایسے ہی ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کرسچین سینڈ کے واقعے میں مسلم نوجوانوں نے کمال تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن ان سے قرآن کی توہین برداشت کرلینے کی توقع غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ اس واقعے کی تمام تر ذمہ داری شہری پولیس پر ہے جس نے وعدے و یقین دہانی کے باوجود قرآن کی بے حرمتی سے پہلے ملزم کو گرفتار نہیں کیا۔ میڈیا پر اٹھنے والے طوفان کے نتیجے میں بہت سے سابقین سمیت ناروے کی مسلم قیادت شدید دبائو میں ہے اور ان کا خیال ہے کہ عمر دھابہ کی ’’جذباتیت‘‘ نے مسلمانوں کا مقدمہ کمزور کردیا ہے۔
کرسچین سینڈ کے مسلم رہنمائوں کی فکر و تحفظات بہت حقیقت پسندانہ ہیں جسے بزدلی کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ زمینی حقائق ان کے حق میں نہیں۔ حملے کے مرتکب نوجوانوں کے سر پر اب جلاوطنی کی تلوار لہرا رہی ہے جس سے ان کے خاندانوں کا معاشی مستقبل سخت خطرے میں ہے۔ اس وقت معاملے کو درست کرنے کی ذمہ داری مسلم حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ تمام مسلم دارالحکومتوں میں نارویجین سفرا کو طلب کرکے ویڈیو کی مدد سے پولیس کی مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران بہت ہی مدلل انداز میں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ مسیحی دنیا کے مقابلے میں مسلمانوں کی مذہبی اقدار مختلف ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں جن کی ہلکی سی توہین بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ ناروے کی حکومت کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ عیسائی بائیبل کو محض ایک مقدس کتاب سمجھتے ہیں، جبکہ مسلمان کے لیے قرآن اللہ کا کلام بلکہ وہ رسّی ہے کہ جس کا دوسرا سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
مغرب اگر پُرامن بقائے باہمی اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے تو اسے مسلمانوں کے عقائد ہی نہیں بلکہ مسلم اقدار و روایات کے احترام کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ تحفظِ اظہارِ رائے کا یورپی فلسفہ انسدادِ توہینِ مذہب کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یورپ و امریکہ میں کسی بھی جگہ جرمن یہودیوں کے مبینہ قتلِ عام یا ہولوکاسٹ کے بارے میں منفی بات کرنا خلافِ قانون ہے۔ جامعات میں ہولوکاسٹ کی صحت پر تحقیق بھی قابلِ سزا جرم ہے۔ خود ناروے ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطان معظم ہیرالڈ چہارم پر تنقید کی اجازت نہیں۔ اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیائے کرام، الہامی کتب اور شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟
………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ تفصیل کے لیے www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔