عدالت عظمیٰ میں دو سماعتوں کی روداد
جنرل قمر جاوید باجوہ کو سابق وزیراعظم نوازشریف نے 29 نومبر 2016ء کو پاکستان کا 16 واں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا اور ان کی مدت ملازمت 29 نومبر 2019ء کو ختم ہونا تھی، حکومت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دینے کا فیصلہ کیا، لیکن آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ عدالتی کٹہرے میں جا کھڑا ہوا ہے۔ یہ کیس حکومت، فوج اور عدلیہ کے لیے ایک بڑا امتحان بن گیا ہے۔ جس روز عدالتِ عظمیٰ میں اس کیس کی سماعت ہوئی اسی روز سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کیس کی بھی سماعت تھی۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ اعلیٰ ترین آئینی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا ہے۔ عدالت کے روبرو یہ معاملہ ایک آئینی درخواست میں اٹھایا گیا جسے عدالت نے ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا۔ درخواست گزار نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔ عدالت نے چند سوالات وفاقی حکومت سے دریافت کیے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون اور رولز کیا ہیں؟ حکومت نے جواب دیا کہ یہ اختیار وزیراعظم کے پاس ہے جسے وہ کابینہ کی منظوری سے استعمال کرتا ہے، لیکن عدالت نے وفاق سے سوال پوچھا تھا کہ تعیناتی میں مدت ملازمت کہاں سے آتی ہے؟ آئین کے آرٹیکل 243 کا دائرہ کار تعیناتی سے متعلق ہے، مدت ملازمت میں توسیع سے نہیں، حکومت عدالت کو مدت ملازمت میں توسیع کے قانون سے مطمئن کرے۔ یوں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل243 اور آرمی رولز اینڈ ریگولیشنز کی شق255‘255/B کے دائرئہ کار سے متعلق آگاہی چاہی تھی، کیونکہ رول 255 دوبارہ تعیناتی سے متعلق ہے۔ آرمی ایکٹ میں سپہ سالار کی مدت تعیناتی کے متعلق کچھ نہیں، عدالت کا سوال یہ تھا کہ اگر آرمی ایکٹ میں مدت تعیناتی نہیں تو رولز میں کیسے ہوسکتی ہے؟ آرمی ایکٹ میں صرف یہ لکھا ہے کہ آرمی چیف فوج کی کمانڈ کریں گے۔ عدالت کے سوالات کے جواب کے لیے اٹارنی جنرل انور منصور خان وفاق کی نمائندگی کے لیے پیش ہوئے، چوں کہ عدالت نے آرمی چیف اور وزارت دفاع کو بھی نوٹس جاری کیے تھے اس لیے سینیٹر فروغ نسیم آرمی چیف کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے، لیکن بار کونسل نے ان کا وکالت کا لائسنس ہی معطل کررکھا ہے، اس طرح انہیں عدالت میں ایک نئی مشکل کا سامنا تھا، تاہم انہیں ریلیف دیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آرمی چیف نے انہیں اپنی طرف سے عدالت میں پیش ہونے کے لیے کہا؟ اگر کہا ہے تو پھر وہ خود بھی توسیع کے خواہش مند ہیں۔ بہرحال اب فیصلہ تو عدالت کے ہاتھ میں ہے۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بار کونسل نے سینیٹر فروغ نسیم کی ممبر شپ معطل کررکھی ہے۔ رولز اور روایت یہی ہے کہ اگر کوئی ایسا وکیل جس کا لائسنس معطل ہو، عدالت میں پیش نہیں ہوسکتا۔ اس کیس میں وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل کے دلائل تھے کہ حکومت کو فوج کی کمانڈ اور سروس کے حوالے سے رولز بنانے کا اختیار ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کی تشریح خود عدالتِ عظمیٰ بھی چاہتی تھی اور درخواست کی سماعت بھی اسی لیے ہوئی۔ اس درخواست میں اٹھائے گئے سوال پر عدالت میں وفاق پاکستان میں ملازمتوں سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243کی تشریح کے لیے درخواست بھی قابل سماعت قرار پائی، جب کہ عدالت نے درخواست واپس لینے کی استدعا بھی مسترد کردی۔ عدالت نے بڑی وضاحت سے کہا کہ یہ معاملہ اب ہمارے پاس آیا ہے، لہٰذا اسے طے کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ سپریم کورٹ میں ایسی کسی بھی درخواست کے آنے سے قبل ماضی میں یہی سمجھا جارہا تھا کہ آرمی چیف کی ملازمت سول سروس کے معاملات سے الگ ہوتی ہے، لیکن اب عدلیہ اپنے فیصلے کے ذریعے مکمل تشریح کرے گی۔ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی ماضی میں مثالیں رہی ہیں، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف تو خود ہی اپنی توسیع لیتے رہے، لیکن ماضی قریب میں پیپلز پارٹی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین سال کی مدت کے لیے نئی تقرری کے ساتھ ملازمت دی تھی، اُس وقت توسیع کا سوال عدالت میں نہیں اٹھایا گیا، اب اس درخواست کی سماعت سے ماضی دفن ہوچکا ہے۔ گزشتہ ہفتے چیف جسٹس کھوسہ نے وزیراعظم عمران خان کی ایک تقریر کے جواب میں کہا تھا کہ ’’ہمیں ماضی کے طعنے نہ دیے جائیں، 2009ء کے بعد کی عدلیہ بہت مختلف ہے، عدلیہ نے دو وزرائے اعظم کو نااہل کیا، ایک سابق آرمی چیف کا فیصلہ آنے والا ہے‘‘۔ بہرحال ہائی کورٹ میں یہ فیصلہ تو حکومت کی درخواست پر روک دیا گیا ہے، اب عدالتِ عظمیٰ نے جو سوال اٹھائے ہیں وہ غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران ایک نہایت غیر معمولی واقعہ یہ بھی ہوا کہ حکومت نے عدالت کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے کابینہ کے اجلاس بلائے اور رولز میں بھی ترمیم کرڈالی، جب کہ عدالتِ عظمیٰ الیکشن ایکٹ 17 کے ایک، اور دیگر کیسز میں دیے گئے فیصلوں میں یہ حکم جاری کرچکی ہے کہ اگر کوئی مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہو تو اس بارے میں کوئی آرڈیننس جاری اور قانون میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ وفاقی کابینہ نے پاکستان ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ایسے وقت میں ترمیم کی جب کہ یہ آئینی معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا۔ حکومت نے اس ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 255 میں لفظ ’ایکسٹینشن ان ٹینیور‘ کا اضافہ کردیا ہے۔ اس ترمیم کا پس منظر یہ ہے کہ عدالت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرکے آرمی چیف، وزارتِ دفاع اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیے اور جواب طلب کرلیا تھا، جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی متفقہ طور پر منظوری دی اور کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا پہلا نوٹیفکیشن واپس لے لیا جو 19 اگست 2019ء کو وزیراعظم کے دستخط سے جاری کیا گیا تھا۔ دوسرے روز سماعت ہوئی تو سینیٹر فروغ نسیم سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی جانب سے پیش ہونے کے لیے سپریم کورٹ پہنچے اور اٹارنی جنرل انور منصور خان نے وفاقی حکومت کا مؤقف عدالت میں پیش کیا۔ چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ عدالت نے ازخود نوٹس نہیں لیا، کیس کی سماعت ریاض حنیف راہی کی درخواست پر ہی ہورہی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات یہ تھے اور یہ فیصلہ بھی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا تھا:
1… عہدے پر پہلی مدت کی تکمیل پر چیف آف آرمی اسٹاف کی ملازمت میں توسیع یا عہدے کی پہلی مدت کی تکمیل کے بعد اسی عہدے پر دوبارہ تقرر کے حوالے سے اٹارنی جنرل پاکستان قانون میں کسی شق کا حوالہ پیش نہیں کر پائے۔
2… اٹارنی جنرل پاکستان نے واضح انداز سے عدالت کو بتایا کہ پاک فوج کے حوالے سے تمام قوانین میں ایسی کوئی واضح شق نہیں جس کے تحت دوبارہ ملازمت پر رکھا جائے یا چیف آف آرمی اسٹاف کی ملازمت میں توسیع کی جائے۔
3 …آرمی چیف کے دوبارہ تقرر / توسیع کے حوالے سے جو مقصد بیان کیا گیاہے وہ ’علاقائی سیکورٹی صورت حال ہے، اگر اسی وجہ کو درست مان لیا جائے تو مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والا ہر شخص یہی وجہ بتاتے ہوئے دوبارہ تقرر یا ملازمت میں توسیع کا مطالبہ کرے گا۔
4… آرمی ریگولیشنز (رولز) کا ریگولیشن نمبر 255، جس کا حوالہ اٹارنی جنرل نے دیا، بادی النظر میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذکورہ شق کا نفاذ اُس وقت ہوگا جب کوئی افسر پہلے ہی ملازمت سے ریٹائر ہوچکا ہو، اور یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ریگولیشن میں ریٹائرمنٹ کی معطلی یا ریٹائرمنٹ کو محدود کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ریٹائرمنٹ سے قبل ریٹائرمنٹ معطل کرنا یا ریٹائرمنٹ کو محدود کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بھی چیز کی ترتیب الٹ دی جائے (چھکڑے کو گھوڑے کے آگے باندھنا)
5… حکومت کی جانب سے آرمی چیف کے تقرر کا جو طریقہ اختیار کیا گیا اس میں نقص ہے۔ وزیراعظم نے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کو اسی عہدے پر دوسری مدت کے لیے مقرر کرنے کا آرڈر 19 اگست 2019ء کو منظور کیا تھا، لیکن آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت اس عہدے پر تقرر کا اختیار صدر مملکت کا ہے۔ بظاہر اس غلطی کا ادراک اسی دن ہوگیا اور وزیراعظم آفس سے ایک سمری 19 اگست 2019ء کو صدر مملکت کو ارسال کی گئی تاکہ موجودہ آرمی چیف کو اسی عہدے پر دوبارہ تقرر / توسیع دی جا سکے، اور اسی دن یعنی 19 اگست 2019ء کو صدر مملکت نے سمری منظور کی۔ حتیٰ کہ اس عمل میں بھی خامی ہے اور یہ احساس ہوا کہ وزیراعظم یا صدر مملکت مذکورہ بالا اقدامات کابینہ کی منظوری کے بغیر نہیں کرسکتے، جس پر اگلے ہی دن کابینہ کی منظوری کے لیے ایک سمری پیش کی گئی اور 21 اگست 2019ء کو کابینہ نے مذکورہ تجویز سرکولیشن کے ذریعے منظور کی۔
6…کابینہ کے 25 ارکان سے مشاورت کی گئی اور صرف 11 نے تجویز سے اتفاق کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابینہ کی اکثریت نے مذکورہ تجویز کی منظوری نہیں دی۔
7… کابینہ کی اس مبینہ یا نام نہاد منظوری کے بعد یہ معاملہ وزیراعظم یا صدر مملکت کو دوبارہ ازسرنو ایڈوائس کے لیے یا بالترتیب وزیراعظم اور صدر مملکت کے نئے آرڈر کے لیے نہیں بھیجا گیا۔
سپریم کورٹ نے یہ تمام نکات اٹارنی جنرل کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویزات کا جائزہ لے کر اٹھائے، کوئی ایک نکتہ بھی خود تخلیق نہیں کیا، لہٰذا یہ رائے دینا کہ عدلیہ نے تجاوز کیا، غلط ہوگا۔ عدلیہ نے ہرگز تجاوز نہیں کیا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ حکومت کی مدد کی تاکہ قانونی ابہام دور ہوجائے۔ البتہ اس صورت حال کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے تحریک انصاف کی حکومت کو قانون اور آئین سے لابلد قرار دے کر نااہلی کے اس جہاز کو خشکی پر لاکھڑا کردیا۔ جس روز حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا اسی روز سے ابہام موجود تھا اور سوال پوچھا جارہا تھا کہ آیا یہ کام ہوجائے گا؟
دوسرے روزسماعت کے آغاز سے پہلے بیرسٹر فروغ نسیم نے کمرئہ عدالت میں وکالت نامہ جمع کروایا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ عدلیہ نے جو قانونی نکات اٹھائے حکومت نے انہیں تسلیم کیا، اسی لیے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کابینہ نے کیا منظوری دی ہے، عدالت میں پیش کی جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل بھی میں نے بتایا کہ توسیع کے نوٹیفکیشن پر متعدد وزراء کے جواب کا انتظار تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ اگر جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔ اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ایسا صرف اُس صورت میں سمجھا جاتا ہے جب مقررہ مدت میں جواب دینا ہو، آپ نے مدت مقرر نہیں کی تھی لہٰذا آپ کے سوال کا جواب آج بھی ہاں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خامیاں تسلیم نہیں کیں تو تصحیح کیوں کی گئی؟ اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ توسیع سے متعلق قانون کے نہ ہونے کا تاثرغلط ہے، یہ تاثر بھی غلط ہے کہ صرف11ارکان نے ہاں میں جواب دیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ باقیوں نے ہاں میں جواب دیا تھا تو کتنے وقت میں جواب دیاتھا یہ بتادیں؟ کل جو آپ نے دستاویز دیں ان میں 11ارکان نے’’یس‘‘لکھا ہوا تھا، نئی دستاویز آپ کے پاس آئی ہیں تو دکھائیں۔ اس مرحلے پر اٹارنی جنرل نے کچھ تذبذب کا مظاہرہ کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ پھر عدالت کل والی صورت حال پر ہی فیصلہ دے دیتی ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل چونک اٹھے اور استدعا کی عدالت ان کا مؤقف سن لے۔ اٹارنی جنرل انور منصور نے رول 19کی ذیلی شق ایک کا حوالہ دیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ رول رائے لینے کے لیے متعین وقت کے لیے ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دستاویز میں غیرحاضر کابینہ ارکان کے سامنے’’انتظار‘‘لکھا ہے، رول کے مطابق ان کے ’’انتظار‘‘کا مطلب ہاں میں ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ ’’انتظار‘‘ کتنے دن ہوسکتا ہے مجھے بتادیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا چیف آف آرمی اسٹاف حاضر سرونٹ آرمی افسر ہونا چاہیے، کیا کوئی ریٹائرڈ افسر بھی آرمی چیف بن سکتا ہے؟ اسی مرحلے پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ نئی ریگولیشن کس قانون کے تحت بنی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی رولز کے سیکشن 176 کے تحت255 میں ترمیم ہوئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پھر سوال اٹھا دیا کہ رولز کی پوری کتاب دیکھنا ہوگی، ایک حصہ دیکھنے سے کام نہیں چلے گا، آرمی ریگولیشن 255ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ بحال کرکے سزا دینے سے متعلق ہے۔ یہیں پر چیف جسٹس نے استفسار کیا: ایک لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر کتنی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا: لیفٹیننٹ جنرل 57سال کی عمر میں ریٹائر ہوتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا: کسی لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ سے 4دن پہلے ترقی ہو تو توسیع ہوسکتی ہے۔ عدالت میں سماعت کے وقت یہ لمحہ ایک نیا رخ اختیار کرگیا جب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا: یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے، مگر 3سال کس قانون میں لکھا ہے؟ یہ بہت اہم ایشو ہے جس پر پہلے کبھی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ ماضی میں جرنیلوں نے خود کو تین چاربار توسیع دی، کسی نے ان جرنیلوں کی توسیع کو چیلنج نہیں کیا، اب یہ معاملہ سامنے آیا ہے تو تفصیل سے دیکھ لیتے ہیں، مستقبل کے لیے کوئی اصول، قانون طے ہوجائیں۔
اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر قانون خاموش ہے۔ چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا: آپ نے تو دو مرتبہ تعیناتی کردی ہے۔ مطلب تھا کہ کابینہ میں یہ معاملہ دو بار زیر بحث آیا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ ہم نے دو مرتبہ تعیناتی کی ہے، آرٹیکل 243 اور آرمی ریگولیشن 255دو الگ الگ باتیں ہیں۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا: سوال ہے تعیناتی میں مدت ملازمت کہاں سے آتی ہے؟ آرٹیکل 243 تعیناتی سے متعلق ہے اور استفسار کیا: کیا248 کے تحت لیفٹیننٹ جنرل کو آرمی چیف بنایا جاسکتا ہے؟ ایک شخص کی مدت ملازمت ختم ہو تو کیا اسٹیٹس ہو، یہ مسئلہ آرٹیکل253 میں حل ہوتا ہے۔ اس کی شق3کے تحت جنرل کی ریٹائرمنٹ عمر یا مدت پوری ہونے پر ہوتی ہے، وزیراعظم کا اختیار ہے کہ ریٹائرمنٹ کو معطل کرسکتا ہے، مگر یہ معطلی ریٹائرمنٹ کے بعد ہوسکتی ہے، مگر یہ دلیل تسلیم نہیں کی گئی۔ سب سے اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن 19 اگست کا ہے، وزیراعظم نے 21 اگست کو منظوری دی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری چاہیے تھی۔ اس نوٹیفکیشن پر پہلا قانونی نکتہ عدلیہ نے اٹارنی جنرل کے سامنے رکھ کر ان کی رائے جاننا چاہی کہ کیا کابینہ کی منظوری سے پہلے ہی توسیع کی منظوری دی گئی؟ اور کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟ عدلیہ نے دوسرا قانونی نکتہ اٹارنی جنرل کے سامنے رکھا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیار کس کے پاس ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیار وفاقی کابینہ کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکورٹی کو تو صرف آرمی چیف نے نہیں بلکہ ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی توسیع کا اختیار رکھتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کی معطلی تو کچھ دیر کے لیے ہوگی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کابینہ سے نام نہاد منظوری لی گئی، کابینہ کے پچیس ارکان میں سے صرف 11 نے منظوری دی، اکثریت نے تو منظوری دی ہی نہیں، آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم کیسے فکس کرسکتے ہیں؟ یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ تین سال تک ہنگامی حالات رہیں گے؟ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے مؤقف اپنایا کہ نوٹیفکیشن معطل کرنے سے متعلق عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں۔ آرمی رولز کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے حکم نامے میں قانون لکھا۔ عدالت نے کہا: صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی غلطیاں دور کردی گئی ہیں، اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جاچکی ہے، عدالت نے آپ کی دستاویزات کو دیکھ کر حکم دیا تھا، رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن پر متعدد وزرا کے جواب کا انتظار تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ریگولیشن کے 262 اے میں پاک فوج کے جوانوں کی ریٹائرمنٹ سے متعلق بتایا گیا ہے، آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے، کیا اس میں تعیناتی کی مدت کا بھی بتایا گیا ہے؟ کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف بنایا جاسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی، اپنے دلائل مکمل کرکے عدالتی سوالات کے جواب دوں گا۔ آرمی ریگولیشن، آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے۔ تعیناتی کی مدت نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں آرمی چیف 10، 10 سال تک توسیع لیتے رہے، آج یہ سوال سامنے آیا ہے، اس معاملے کو دیکھیں گے، تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے۔ آرمی ریگولیشن رول 255 ریٹائرڈ افسرکو دوبارہ بحال کرکے سزا دینے سے متعلق ہے، ہمیں اس تناظر میں دیکھنا ہے کہ 3 سال بعد کیا ہونا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تعیناتی کی تعریف میں دوبارہ تعیناتی بھی آتی ہے، آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے، اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو دو ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معاملہ توسیع اور نئی تعیناتی کا ہے، اس کو کیسے قانونی طور پر ثابت کریں گے، اٹارنی جنرل کی رولز سے متعلق دستاویزات سے مطمئن نہیں ہوں، دورانِ جنگ ممکن ہے افسران کو ریٹائرمنٹ سے روکا جاتا ہو، آئینی عہدے پر تعیناتی میں توسیع آئین کے تحت نہیں، عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 57 لکھی ہے، چار سال تعیناتی یا 57 سال عمر دونوں میں سے جو پہلے آجائے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اصلی نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش کر دیتا ہوں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین کرنے والی مجاز اتھارٹی سے متعلق قانون خاموش ہے۔
یہ اہم آئینی مقدمہ دو دن کی سماعت کے بعد اگلے روز کے لیے ملتوی ہوگیا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آچکا ہوگا۔ اس مقدمے کے فیصلے کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق وزیراعظم ہائوس میں ایک اہم اور ہنگامی اجلاس شروع ہوگیا ہے جس میں شرکت کے لیے آرمی چیف بھی پہنچ چکے ہیں۔ اس اجلاس کی صورت حال اور عدالتی حتمی فیصلےپر تفصیلی تجزیہ آئندہ شمارے میں دیا جائے گا۔
درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور آئینی مقدمات
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے وکیل ریاض حنیف راہی جیورسٹ فائونڈیشن کے ممبر اور اوسط درجے کے وکیل ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ایسی درخواستیں دائر کی جاتی رہی ہیں اور اس وقت بھی سپریم کورٹ میں بے شمار ایسی درخواستیں زیر التوا پڑی ہوئی ہیں۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ایسی درخواستیں بلاسبب ہوتی ہیں۔ یہ ہرگز بلاسبب نہیں ہوتیں، بعض اوقات متاثرہ فریق خود عدالت میں آجاتا ہے، اور بعض اوقات کسی مجبوری کے تحت پیچھے بیٹھ کر آئین کے آرٹیکل184 کی شق 3 کے تحت ایسی درخواستیں دائر کرائی جاتی ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے جیورسٹ فاؤنڈیشن کے رکن ریاض حنیف راہی کہتے ہیں کہ ان کی کسی کے ساتھ کوئی ذاتی غرض نہیں ہے، البتہ اس کیس میں آئینی اور قانونی نکات ہیں۔ درخواست گزار اس سے قبل جسٹس فائز عیسیٰ کی تقرری کے خلاف بھی درخواست دے چکا ہے۔ اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم جوڈیشل کونسل اور عدالتِ عظمیٰ دونوں جگہ ٹرائل کا سامنا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کو درخواست گزار ریاض حینف راہی نے چیلنج کیا اور بعدازاں درخواست واپس لینے کی درخواست دے دی، لیکن چیف جسٹس نے اس درخواست کو مسترد کردیا اور کہا کہ یہ درخواست آئین کے آرٹیکل184(3) کے تحت عوامی مفاد کے زمرے میں آتی ہے۔ گزشتہ برس اسی درخواست گزار نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توہینِ عدالت کی دو درخواستیں دائر کیں۔ دسمبر2013ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو چیلنج کرنے والی ان کی پٹیشن مسترد کی جو 10 جولائی2017ء کو سابق صدر پرویزمشرف پر انتہائی غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے دائر کی گئی تھی۔ مختلف اوقات میں عدالتوں نے ان پر کم از کم تین بار جرمانے عائد کیے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے 2014ء میں ریاض راہی پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے جسٹس اطہر من اللہ نے جوڈیشل پالیسی اور انتخابی نظام کو چیلنج کرنے کی غیر سنجیدہ درخواستیں دائر کرنے پر 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔ لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ کے جسٹس شیخ حاکم علی نے 2005ء میں توہینِ عدالت پر ریاض راہی کو ایک ماہ قید کی سزا سنائی اور 30 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔ انہوں نے مارچ 2010ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس غلام ربانی اور جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کی بحالی کو چیلنج کیا لیکن بعدازاں ان کو عدالت ِعظمیٰ کی عمارت میں داخلے سے عارضی طور پر روک دیا گیا۔ جسٹس ارشاد حسن خان کے دور میں سپریم کورٹ میں داخلے پر پابندی کا حکم شاہد اورک زئی پر بھی لگایا گیا تھا۔ اسی طرح کا ایک حکم مولوی اقبال حیدر کے لیے جاری ہوا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے غیر سنجیدہ درخواست دائر کرنے پر شاہد اورکزئی پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جب انہوں نے اُس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کی پوزیشن کو چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے مولوی اقبال حیدر کے سپریم کورٹ میں داخلے پر عائد 5 سالہ پابندی میں توسیع کی۔ اُن پر غیر ضروری درخواستوں کے ذریعے عدالت کا وقت ضائع کرنے کا الزام تھا۔
حکومت گرداب میں
ابھی تک ابہام موجود ہے کہ جے یو آئی کو دھرنا ختم کرنے کے لیے کیا ضمانت دی گئی ہے؟ مولانا فضل الرحمٰن اور چودھری پرویزالٰہی دونوں نے اپنے لب سی رکھے ہیں، لیکن اقتدار کی غلام گردشیں اطلاع دے رہی ہیں کہ ایک نہیں تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں سے مائنس ون کا کھیل شروع ہوچکا ہے، تحریک انصاف بھی نشانے پر ہے اور پوری طرح اس کی زد میں آچکی ہے۔ اس کے ارکان کی ایک قابلِ ذکر تعداد اشارۂ ابرو کی منتظر ہے اور گھونسلہ چھوڑنے کو تیار بیٹھی ہے۔ جے یو آئی سے کہا گیا کہ جس مقصد کے لیے دھرنا دیا ہے وہ کام دھرنے کے بغیر خاموشی کے ساتھ پہلے سے ہی ہورہا تھا، دھرنا اس کام میں تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔ جے یو آئی اس’’ اطلاع‘‘ کو ضمانت سمجھ رہی ہے، لیکن یہ ضمانت اب کچھ عرصے کے لیے مؤخر کردی گئی ہے۔ جے یو آئی کی لیڈرشپ تبدیلی کا زینہ بننے والا سیاسی راز سنبھال نہیں پائی۔ جو گفتگو ہوئی اس کا عرق جے یو آئی میڈیا میں لے آئی ہے، لہٰذا تبدیلی لانے کے لیے اب کچھ نئی حکمت عملی اپنائی جاچکی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے بعد پیپلزپارٹی کو بھی ریلیف دینا ہے، اس کے بعد کہیں جاکر بے روزگاری، مہنگائی، ناتجربہ کاری، غلط تقرریوں اور ناسمجھی کے کندھے پر بندوق رکھ کر تبدیلی کو تبدیل کرنے کی توپ چلادی جائے گی، اور اس کے لیے فضا بھی سازگار بنائی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ ہمارا پورا سیاسی نظام خواہشات کا اسیر ہے۔ حکومت، اپوزیشن اور بیوروکریسی کی اپنی اپنی خواہشات ہیں، کہیں یہ تینوں باہم متفق ہیں اور کہیں باہم دست و گریباں ہیں۔ ملک میں معاشی استحکام، عدل کا بہترین نظام اور غیر جانب دار احتساب پر یہ تینوں متفق بھی ہیں، لیکن چاہتے ہیں کہ اپنی نہیں، کسی دوسرے کی گردن اترے۔ ساری خرابی مفادات کے تحفظ کی تلوار نیام سے باہر رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ناتجربہ کاری، ناسمجھی اپنی جگہ، مگر غلط تقرریاں بڑی اور بنیادی وجہ ہے، کہ وزیراعظم عمران خان اپنی اَنا کی وجہ سے دو نہیں ایک پاکستان کی طرف اپنا سفر شروع ہی نہیں کرسکے، اور ابھی بھی مطلوب اصلاح کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مسلسل ایک بات کہی جارہی ہے کہ حکومت اور اداروں کا ایک صفحے پر ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ خارجہ محاذ پر اچھی خاصی پیش رفت ہوئی تاہم ملکی سطح پر خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت اور سب ایک صفحے پر ہیں تو پھر حکومتی پہیہ چل کیوں نہیں رہا؟ حکومت جام کیوں نظر آرہی ہے؟ اس کی یہ وجہ بتائی گئی ہےکہ حکومت مشورہ نہیں کرتی۔ شاید یہ بات ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو ہٹائے جانے کے تناظر میں کہی گئی ہے۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ ایک ریٹائرڈ آفیسر کی بطور سفیر تقرری پر مشورہ نہیں ہوا۔ پاک ایران انٹیلی جنس معاہدے پر دستخط اور عرب کے شاہی اجلاس میں قابلِ اعتراض افراد کی شرکت بھی شکوے کا باعث بنی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کو علاج کے لیے باہر بھجوانے میں رکاوٹ ڈالنا، پنجاب میں گورننس نظر نہ آنا، اور وزارتِ اطلاعات کا سیاسی استعمال تنازع کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ سمجھانے کے باوجود نہ سمجھنا بڑا مسئلہ ہے۔ اس حکومت کی ایک بہت بڑی خرابی یہ سامنے آئی ہے کہ ریٹائرڈ لوگوں کے ذریعے ملنے والی معلومات پر بھروسا کرکے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہورہی ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر درخواست، ازخود نوٹس میں تبدیل کرکے عدلیہ نے حکم نامہ معطل کردیا ہے۔ ان سطور کی تحریر تک عدالت عظمیٰ میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔
اس فیصلے کے بعد اب دو فیصلے ہوں گے، پہلا یہ کہ صدرِ پاکستان توسیع کا حکم جاری کریں گے، دوسرا فیصلہ یہ ہوسکتا ہے کہ توسیع لی جائے یا نہ لی جائے۔ تحریک انصاف یہ سمجھ رہی ہے کہ اس کا کام صرف اپوزیشن کو لتاڑنا ہے حکومت کرنا نہیں۔ اسی رویّے اور اپوزیشن سے دوری کے باعث الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ متاثر ہوا ہے، اگلے ماہ چیف الیکشن کمیشنر بھی مدت مکمل کرکے ریٹائر ہونے والے ہیں، مگر وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے مابین ضروری مشاورت ہی نہیں ہوسکی۔ الیکشن کمیشن کی دو نشستیں پہلے ہی خالی ہیں، تاہم چیف الیکشن کمیشنر اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرکے جانا چاہتے ہیں اور یہ غیرمعمولی فیصلہ ہوگا۔ وزیراعظم اس اہم ترین کیس کو سیاسی لڑائی بنانا چاہتے ہیں، تاہم انہیں کامیابی نہیں ہوگی۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی ایک اہم ترین ملاقات میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ وہ اپنے خیر خواہوں کی جاسوسی کرنے کے بجائے صرف گورننس پر توجہ دیں تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم سے کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا اور پنجاب میں بہترین گورننس چاہیے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان فی الحال وہی کچھ کررہے ہیں جو انہیں پسند ہے۔ وہ اپنی ٹیم تبدیل کرنے کو تیار نہیں، البتہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ تخلیق کاروں کا خیال تھا کہ لیڈرشپ اہل ہو تو ٹیم جیسی بھی ہو، بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے سیاسی تعصب اور عمل سے ثابت کردیا کہ یہ نظریہ غلط ہے۔ حکومت اتنی جلدی غیر مقبول ہوجائے گی تخلیق کاروں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ بیرونِ ملک سے بھی پیسہ آئے گا اور اندرونِ ملک بھی کاروبار چمک اٹھے گا۔ یہ اندازہ اس قدر غلط ثابت ہوا کہ ملک میں کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے اور تاجروں کے تحفظات دور کرنے کے لیے خود بڑی عسکری شخصیت کو مداخلت کرنا پڑی تھی اور ضمانت دی گئی کہ کاروبار کو فروغ دیں نیب کی فکر نہ کریں۔ تاجروں کے بعد بیوروکریسی کے ایک وفد نے بھی ملاقات کی تھی۔ ان دونوں ملاقاتوں نے ملک میں تبدیلی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ سوال یہ تھا کہ تبدیلی کے لیے بلی کے گلے میں گھنٹی کیسے باندھی جائے۔ اس کے باوجود حکومت کو ایک موقع دینے کی تجویز بھی موجود ہے، اسی لیے ابھی تک فیصلہ یہی ہے کہ غیر آئینی جذباتی قدم اٹھانے کے بجائے مفید مشوروں اور مسلسل فالو اپ کے ذریعے کام چلایا جائے۔ یوں اب حکومت کی مسلسل نگرانی کی جائے گی۔ حکومت کو معیشت اور سفارتی حساسیت سے متعلق اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے کہ گورننس پر توجہ دی جائے، اگر وزیراعظم نے اصلاحِ احوال نہ کی تو پھر تبدیلی آکر رہے گی۔ حکومت کو حتمی تنبیہ کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ملک کے کاروباری طبقے کے بعد بیوروکریسی نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے تھے۔ مقتدر حلقوں کی مداخلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاجر اور بیوروکریسی کام کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن فیصلہ تو بہرحال وزیراعظم کو کرنا ہے، اور یہ حکومت اعتماد کرنے کے بجائے پہلے فال نکالتی ہے اور پھر تقرری کرتی ہے، اور فال مثبت نکل آئے تو مشورہ مانتی ہے۔