اسلامو فوبیا سے نجات کیوں کر ممکن ہے؟

یورپ میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، کتابِ ہدایت قرآنِ حکیم اور شعائرِ اسلام کی بے حرمتی اب ایک معمول بنتا جارہا ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جس کا مقصد دنیا کے ڈیڑھ، پونے دو ارب مسلمانوں کے دینی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہوتا ہے۔ مغرب میں اسلام دشمنی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اس مقصد کی خاطر باقاعدہ تنظیمیں بن چکی ہیں، جس کی ایک مثال ناروے ہے جو بظاہر دنیا کا سب سے پُرامن، قانون پسند، ترقی یافتہ اور رواداری کا نمونہ ملک ہے، مگر ان سب خوبیوں کے حامل قرار دیئے جانے والے ملک میں بھی اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے (سیان۔ Sian) کے نام سے تنظیم کو اپنی اسلام دشمن منفی اور انتہا پسندانہ سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ اس چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تنظیم نے 22 نومبر کو کرسچین سینڈ نامی شہر میں مقامی انتظامیہ کی اجازت سے ایک مجمع لگایا، جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہ صرف ہرزہ سرائی کی گئی بلکہ ایک بدبخت انتہا پسند لارس تھارسن نے بھرے مجمع میں قرآن حکیم کی بے حرمتی کی، اور کتابِ ہدایت کو نذرِآتش کرنے کی مذموم کوشش کی تو وہاں موجود ایک غیرت مند مسلمان نوجوان عمر الیاس اس پر کود پڑا اور اسے توہینِ اسلام و قرآن میں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا۔ پولیس جو اب تک کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی، اس نے عمر الیاس کو قابو کرلیا۔
ناروے میں ہونے والا یہ واقعہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، بلکہ ایسے واقعات تسلسل سے یورپ میں رونما ہوتے رہتے ہیں، مگر آج تک مغرب کے حکمرانوں اور سوچ بچار کرنے والے دانش وروں کی طرف سے ان کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی ضرورت محسوس کی گئی ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے پہلے سے موجود قوانین کو مؤثر انداز میں روبہ عمل لایا گیا ہے کہ ایسے واقعات کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکتا، یہ الگ بات ہے کہ مسلمان نوجوان اپنے رب کی بخشی ہوئی توفیق سے اپنے نبی محترم، رحمتِ عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت، قرآنِ پاک کی حرمت اور اسلامی شعائر کی حفاظت کے لیے جان قربان کردینا بھی عین سعادت سمجھتے ہیں، مگر افسوس کہ مسلمان حکمرانوں کی جانب سے ایسے سانحات کے اعادے کو روکنے کے لیے کوئی بھی ٹھوس اقدام تاحال دیکھنے میں نہیں آیا، جس کی وجہ سے اسلام دشمن انتہا پسند عناصر کے حوصلے مزید بڑھ رہے ہیں، اور انہیں اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخیاں کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 27 ستمبر کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں بھی دنیا کو اس جانب متوجہ کیا تھا کہ دنیا میں کس تیزی سے اسلاموفوبیا کو پھیلایا جارہا ہے اور ’’آزادیِ اظہار‘‘ کا نام دے کر کس طرح اسلام کی توہین کی جاتی ہے، یہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑا معاملہ ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ناروے کے تازہ سانحے کے بعد بھی پاکستان کی حکومت نے ناروے کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور انہیں باور کرایا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ ناروے کے حکام اس حرکت کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور مستقبل میں اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ حکومت نے اوسلو میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر کو بھی ہدایات دی ہیں کہ وہ ناروے کے حکام کو پاکستان کے احتجاج اور انتہائی تشویش سے آگاہ کریں۔ مسلح افواج کے ترجمان نے بھی اس ناپاک حرکت کی مذمت کرتے ہوئے اس کی مزاحمت کرنے والے نوجوان کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ اس طرح کی اشتعال انگیزی صرف نفرت اور انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہے اور اسلامو فوبیا عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر وزارتِ خارجہ نے اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او۔ آئی۔ سی) سے رابطہ کرکے اُسے بھی اس معاملے میں متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر مؤثر ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوں گے۔
اسلام کا تو مطلب ہی امن، سلامتی اور عافیت ہے۔ جب کوئی مسلمان اپنے سامنے والے کو السلام علیکم کہتا ہے تو وہ یقیناً اسے اپنی جانب سے سلامتی کا پیغام دے رہا ہوتا ہے۔ مگر مغرب کے حکمرانوں، ذرائع ابلاغ اور اہلِ فکر و دانش کی جانب سے مسلسل اسلام کی ایک ایسی تصویر پیش کی جارہی ہے جس سے سطحی سوچ رکھنے والے وہاں کے عوام میں اسلام کے بارے میں منفی اور انتہا پسندانہ سوچ فروغ پارہی ہے، جس کے مظاہر کرسچین سینڈ، ناروے جیسے واقعات کی صورت میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس واقعے میں جو کردار بہادر و باغیرت نوجوان عمر الیاس نے ادا کیا، وہ بھی یقیناً نہایت ضروری اور سراہے جانے کے قابل ہے کہ ملعون لارس تھارسن جیسے لوگوں کو سبق سکھانے اور راہِ راست پر لانے کے لیے ایسا ردعمل ہی کارگر اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ تاہم اس کے پہلو بہ پہلو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام، پیغمبر اسلامؐ، قرآن اور دیگر شعائرِ اسلام کے متعلق مغرب میں جو غلط فہمیاں دشمنانِ اسلام کی طرف سے ایک منظم منصوبے کے تحت پھیلائی گئی ہیں ان کے ے کے لیے بھی مؤثر اقدامات کیے جائیں، کیونکہ اس بات کے شواہد بھی آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے بارے میں منفی پروپیگنڈے سے متاثرہ لوگ جب ازخود حقائق جاننے کے لیے قرآن حکیم اور سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی بڑی اکثریت پروپیگنڈے کے سحر سے نکل کر اوّل تو حلقہ بگوشِ اسلام ہوجاتی ہے یا کم از کم اس طرح کے طرزِعمل سے تائب ہوجاتی ہے جس کا مظاہرہ ناروے کی تنظیم سیان اور لارس تھارسن کی طرف سے کرسچین سینڈ ناروے میں کیا گیا۔
قرآن پاک اور سیرتِ طیبہ اپنے اندر یہ کشش یقیناً رکھتے ہیں کہ اگر کوئی تعصب سے محفوظ رہ کر ان کا مطالعہ کرے تو اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتب دینیات، خطبات اور تفسیر تفہیم القرآن کے بارے میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جن اہلِ مغرب نے ان کا ترجمہ پڑھا وہ اسلام کو اپنے دل کے قریب اور اپنے تمام مسائل کے حل کے طور پر قبول کرنے پر مجبور ہوگئے، اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اسلام کو سمجھ کر قبول کرنے والے یہ لوگ اُن مسلمانوں سے کہیں بہتر مسلمان ثابت ہوئے جنہیں اسلام ورثے میں ملا ہے۔ اس لیے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندانہ سوچ سے نجات کا اصل نسخہ ضرور آزمایا جانا چاہیے کہ اہلِ یورپ اور دوسری غیر مسلم دنیا کو اسلام اور قرآن پاک کی اصل تعلیمات سے روشناس کرانے کا وسیع پیمانے پر اہتمام کیا جائے۔
(حامد ریاض ڈوگر)