کشمیر لہولہان: گلہ نہ کریں اٹھ کھڑے ہوں!۔

نعیم خالد لودھی
کشمیریوں کی زبوں حالی، اور عالمی ضمیر کی بیداری، ہماری توقع کے مطابق نہ ہونے پر بڑی نوحہ خوانی اور گلے شکوے ہوچکے۔ جب بھی انڈیا کے نقطہ نظر سے پاکستان کے مؤقف کی بات آتی ہے تو کچھ نام نہاد ”دوست ممالک“ کا رویہ مایوس کن ثابت ہوتا ہے۔ یہ، اور اس جیسی کئی اور تاویلیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو یا تو عالمی تعلقات و سیاست کے اصول و ضوابط کا علم نہیں، یا ہم عام لوگوں کو طفل تسلیاں دے کر انہیں ایک ایسے لامتناہی مصنوعی کھیل میں الجھانے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمیں اب ضرورت ہے کہ کھڑے ہوں اور کسی سودمند سرگرمی کے لیے کمر کس لیں۔
دنیا پہلے ہی بہت کچھ کرچکی ہے، اور اس کے لیے ہمیں اپنے دفتر خارجہ، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں و کشمیریوں اور مقامی و عالمی میڈیا کا مشکور ہونا چاہیے۔ دنیا کے رویّے میں تین بنیادی تبدیلیاں تو صاف صاف دیکھی جا سکتی ہیں:
1) عالمی سول سوسائٹیوں کو، خصوصاً مغرب اور امریکہ میں، اب کشمیر کے محلِ وقوع، تنازعے کی جڑوں اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں سے کماحقہ آگاہی حاصل ہوچکی ہے۔
2) مقامی جدوجہدِ آزادی، جب کبھی بھی یہ دوبارہ زور پکڑے گی، اس پر اب دہشت گردی کی چھاپ نہیں لگے گی۔
3) انڈیا کا یہ واویلا کہ ”پاکستان اس تحریک کو بڑھاوا دینے کے لیے ناجائز مدد فراہم کرتا ہے‘‘ اب پہلے کی طرح زوردار نہیں رہے گا۔
امریکہ میں کشمیر کے معاملے پر کانگریس میں سماعتیں ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی، انگلستان اور یورپی یونین وغیرہ سے بھی حمایتی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ترکی اور ملائشیا کی اس مقصد کے لیے حمایت انڈین حکومت کو برہم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ یہاں تک کہ ان دونوں ممالک کو اس حمایت کی اقتصادی قیمت بھی چکانا پڑرہی ہے۔ ایران نے، پاکستان کے بارے میں کچھ تحفظات رکھنے کے باوجود، انڈیا کے مظالم کے حوالے سے بہت تگڑا مذمتی بیان دیا ہے۔ چین دل و جان سے پاکستانی مؤقف کی حمایت میں کھڑا ہے اور خطے کی سیاست میں روس کا غیر جانب دار رہنا بھی کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ اب ہم اس کے علاوہ مزید کس شے کی توقع رکھتے ہیں؟ ہمارا دنیا سے مزید کیا تقاضا ہے؟ خصوصاً جب ہم خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں اور اپنے کشمیری بھائیوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہم انڈین مقبوضہ کشمیر کے اپنے بہن بھائیوں کی مدد کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ اور درحقیقت یہ اُن کی نہیں ہماری اپنی ہی مدد ہوگی۔ اگر ہم اپنے پانیوں اور خوراک کی سیکورٹی کے بارے میں انڈیا کے طویل مدتی عزائم کو بھانپ سکیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ کشمیری پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں۔ قائد نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا تو یہ صرف ایک نعرہ نہیں تھا، ان کا حقیقی معنوں میں اس سے یہی مطلب تھا، لیکن ہم میں سے بہت سوں کو ابھی تک اس کی اہمیت کا صحیح طور پر اندازہ نہیں ہوسکا۔ ہماری اشرافیہ کا ایک حصہ تو کشمیر کاز سے مکت ہوچکا ہے۔ کچھ کو یہ غلط فہمی ہے کہ اگر ہم کشمیر کا مسئلہ انڈیا کی امنگوں کے مطابق حل کرلیں اور ایک بہت بڑے ہمسائے سے دوستانہ تعلقات استوار کرلیں تو ہمارا مستقبل روشن ہوجائے گا۔ یہ بہت بڑا فریب ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ نیوکلیئر طاقت رکھنے والے ہمسایوں کے مابین کھلی جنگ تقریباً ناممکن ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ہم جائز سفارتی، سیاسی، قانونی، نفسیاتی اور عسکری ذرائع بھی استعمال نہیں کرسکتے۔ نیوکلیئر توازن ہماری قوت ہے اور اسے خود ہی اپنی کمزوری میں ڈھال لینا کوئی دانش مندی نہیں۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ عالمی سطح پر نسبتاً بہتر ماحول ملنے کے بعد، جب ہمیں عملی اقدامات کرنے کے لیے مزید جگہ حاصل ہوگئی ہے تو اپنے طور پر پاکستان کیا کچھ کرسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں سیاسی میدان میں اترنا ہوگا۔ مثلاً شملہ معاہدے کی منسوخی جیسے اقدام۔ درحقیقت انڈیا اس معاہدے کی ایک بار نہیں کئی بار خلاف ورزی کرچکا ہے لائن آف کنٹرول کو سیز فائر لائن میں بدلنے سے، جب کبھی کشمیر میں جدوجہد آزادی ابھرے گی تو حریت پسندوں پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ دوسرا، انڈین مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی کسی تیسرے ملک میں ایک جلا وطن حکومت کا قیام، ترجیحاً یورپی یونین میں۔ اس کے خلاف یہ دلیل لائی جاتی ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کا آئین پہلے ہی یہ ضرورت پوری کرتا ہے۔ میری رائے میں یہ فرسودہ اور بے اثر ہوچکا ہے اور اس حوالے سے تازہ دم کوششوں کی ضرورت ہے۔ تیسرا اور میرے خیال میں سب سے اہم یہ کہ ہمیں اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زیر نگرانی جن جن اضلاع میں ممکن ہوسکے ایک جزوی ریفرنڈم کا انعقاد کرے۔ اس کے نتیجے میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بطور ایک صوبہ یا خطہ پاکستان کا کامل حصہ بن سکیں گے، لیکن اس خصوصی اسٹیٹس کے ساتھ کہ یہ صورت حال تب تک رہے گی جب تک انڈین مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کا انعقاد ممکن نہیں ہوجاتا۔ اس تجویز کے متعلق قانونی اور عملی پہلوئوں سے بہت سی مخالفانہ آوازیں بلند ہوں گی، لیکن ہمیں اس تجویز کے اوصاف کا مکمل جزئیات کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر اور دنیا کے دوسرے ممالک میں موجود انڈین مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی رجسٹریشن کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے تاکہ آبادی کا توازن بدلنے کے انڈین منصوبے میں دراڑ ڈالی جا سکے۔
ہمیں انڈیا کی قابض افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے جنگی جرائم کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور ان میں سے ناقابلِ تردید شواہد کو عالمی سطح پر متعلقہ فورمز پر اٹھانا چاہیے۔ عالمی ریڈ کراس کو حرکت میں لانا چاہیے کہ وہ طویل عرصے سے انڈین قابض افواج کے نافذ کردہ کرفیو اور محاصرے کے شکار کشمیریوں کو خوراک اور دوائیں مہیا کرے۔ ان تمام اقدامات کے لیے درکار عالمی حمایت ہمیں حاصل ہوجائے گی۔
ہمیں عادت پڑ چکی ہے کہ ہم مفت یا بہت کم پر راضی ہوکر اپنے تاریخی آقا امریکہ کی بے دریغ مدد کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے (صحیح یا غلط) سابق سوویت یونین توڑنے میں اس کی مدد کی، حتیٰ کہ آج بھی ہم افغان طالبان کے ساتھ درپیش مسائل حل کرنے کے لیے ان کی معاونت کررہے ہیں۔ اور جواب میں ہمیں کیا مل رہا ہے؟ بجائے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا مطیع ہوکر ان کے اشاروں پر ناچنے کے ہم ان سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ وہ اپنے تزویراتی اتحادی انڈیا پر دبائو ڈال کر کرفیو اٹھوائیں، بلیک آئوٹ کا خاتمہ کروائیں اور عالمی تحقیقاتی ٹیموں کو وادی کی حقیقی صورت حال کی پرکھ کا موقع دلوائیں۔ لیکن ہمارے کارپردازان تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت زیادہ متاثر اور زیر ہوچکے ہیں، اتنے کہ وہ ایسے مطالبات کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ معاشی کمزوریوں کے پھندے میں پھنس کر اس قوت کی جانب سے کچھ ایسے فیصلے جان بوجھ کر کیے جا رہے ہیں کہ ہم غلامی سے صرف ایک قدم کی دوری پر پہنچ چکے ہیں۔
ہمیں پوری طرح علم ہے کہ کلبھوشن اور اس کا نیٹ ورک، دونوں ہمارے ساتھ کیا کررہے تھے۔ مودی، انڈین وزیر دفاع اور ان کے قومی سلامتی امور کے مشیر کی دھمکیوں سے ہم مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ اور جواب میں ہمارا بیانیہ کیا ہے؟ وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملوں کی باتیں کررہے ہیں اور ان دونوں علاقوں کو انہوں نے پہلے ہی اپنے سرکاری نقشوں میں اٹوٹ انگ بناکر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ ہم نے ان کی کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا حالانکہ یہ بات تاریخی طور پر بھی ثابت شدہ ہے کہ وہ اپنے کہے پر عمل کرنے سے نہیں چوکتے۔
ہمارے بیانات کمزور اور دفاعی نوعیت کے ہیں۔ بجائے یہ کہنے کے کہ ہم انڈین مقبوضہ کشمیر کو دس لاکھ قابض افواج کا قبرستان بنادیں گے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم انتظار میں ہیں کہ انڈیا حملہ کرنے میں پہل کرے۔ ایک روز ایسا بھی ہوچکے گا، جب انہیں لگے گا کہ وقت ان کے حق میں ہے تو (جدوجہد آزادی کو دبانے یا کچلنے کے لیے، ایس وی 400 اور رافیل طیاروں کی شمولیت جیسے اقدامات دیکھ لیں)۔ پاکستان کو زیر کیے بنا انڈیا کے لیے کشمیر کو ہڑپ کرنا ممکن نہیں۔ خدا کی قسم وہ ہماری شہ رگ پر بوٹ رکھ کر پہلے ہی ہم پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ حملہ کسے کہتے ہیں؟ حملے کی ہماری تعریف کیا ہے؟
”اچھے بچے“ بننے کی ہماری کوششوں میں یوں لگتا ہے جیسے ہم اپنے اہم قومی مفادات کو پس پشت ڈال چکے ہیں، جو ہمارے آئین کا اٹوٹ حصہ بھی ہیں۔ اس طرح کا رویہ بائیس کروڑ آبادی والی نیوکلیئر ریاست کے شایانِ شان نہیں ہے۔ کم از کم ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم اتنا تو کریں جتنا انڈیا نے ہمارے ساتھ کیا ہے، اور اب بھی ہائبرڈ جنگی ماحول میں کررہا ہے۔ ہماری یہ تمام بے عملی ہمارے اپنے مشتبہ رویوں پر دلالت کرتی ہے۔ معاشی کمزوری کے پیچھے چھپنا ناقابلِ معافی ہے۔ اپنے بہن بھائیوں کو انڈین بھگوان کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے پر خدا ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ یہ سیاست، اخلاقیات اور مذہب کے تمام اصولوں کی نفی ہے۔
کیا ہم خدا کا انتظار کررہے ہیں؟
کیا ہم دنیا کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ مدد کرے؟
کیا ہم کشمیریوں کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ تھک کر بے حال ہو جائیں؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے: خدا ان کی کبھی مدد نہیں کرتا جو اپنی مدد آپ نہیں کرتے۔
قومیں اتنی ہی بہادر ہوتی ہیں جتنے ان کے راہ نما بہادر ہوں۔
(روزنامہ دنیا)