بامعنی ”مکالمہ“ کی ضرورت

اچھا کیا مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جاری احتجاج قومی شاہراہوں پر بھی ختم کردیا گیا، جو ایک مستحسن اقدام ہے۔ تاہم وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست اب ختم ہوگئی ہے۔اس بحث سے قطع نظر کہ مولانا فضل الرحمٰن کا ’’آزادی مارچ‘‘ اسلام آباد سے خالی ہاتھ لوٹا ہے یا استعفیٰ نہیں تو استعفے جیسی یقین دہانی لے کر لوٹا ہے، جسے ’’امانت‘‘ قرار دے کر وزیراعظم عمران خان کے مرکز اور صوبہ پنجاب کی مخلوط حکومت کے اہم اور مؤثر اتحادی اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اخفاء میں رکھے ہوئے ہیں۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والوں کے لیے باعثِ اطمینان ہے کہ آزادی مارچ کے شرکاء نے اپنا احتجاج قانون کے دائرے میں رکھا، جس کا کریڈٹ جہاں مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کو جاتا ہے وہیں حزبِ اختلاف کی 9 جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ’’رہبر کمیٹی‘‘ کو بھی… جو کسی مرحلے پر بھی ایسی کسی کارروائی کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہوئی جس کی قانون میں اجازت ہو اور نہ ہی جمہوری روایات میں۔ رہبر کمیٹی نے اب احتجاج صوبوں اور اضلاع کی سطح پر جلسوں کی شکل میں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہےاور پاکستان کی احتجاجی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ حکمرانوں کی رخصتی میں احتجاج کرنے والی حزبِ اختلاف سے زیادہ کردار شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار (اور وفاداری کا ڈھونگ رچانے والے) میڈیا منیجرز اور عاقبت نااندیش مشیروں کا رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی کی کوششوں کے بعد ’’آزادی مارچ‘‘ کے شرکا کا پُرامن طور پر اسلام آباد سے چلے جانا ایسی اپرچیونٹی تھی جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ مگر ہو اس کے برعکس رہا ہے، جب کہ ضرورت یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کے تعاون سے پارلیمنٹ کو فنکشنل کرکے اس مکالمے کا آغاز کیا جائے جس کی طرف چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حلف اٹھانے کے بعدتوجہ دلائی تھی، جس کی تائید آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کی تھی، اور اب ’’آزادی مارچ‘‘ کے دوران اس کا خیرمقدم مولانا فضل الرحمٰن نے بھی کیا۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے ہاں سول اور عسکری قیادت کے درمیان تعلقات میں کشمکش اور تنائو کا ختم ہونا قومی سلامتی کا بھی تقاضا ہے، اور جمہوری نظام کی بقا آئین نے سب کی حدود اور دائرہ کارکا تعین بھی کردیا ہے اور دائرۂ کار کا بھی۔ اس پر آئین کی روح اور منشاء کے مطابق عمل درآمد کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کا آئین کے دائرۂ کار پر عملی اتفاق بھی ہو۔ زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا، اب کوئی وقت ضائع کیے بغیر بامعنی ’’مکالمہ‘‘ کا آغاز ہونا چاہیے۔ اس کا صحیح فورم پارلیمنٹ ہے۔ یہ ’’مکالمہ‘‘پارلیمنٹ کے بند کمرہ اجلاس میں ہوگا تو کھلے بحث و مباحثے کا امکان زیادہ ہے، جس کے بعد ہی یہ امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ آئین کے منافی ’’شراکتِ اقتدار‘‘ کے اس نظریے سے نجات کی راہ نکل آئے، جس سے نجات پائے بغیر جمہوری نظام ڈیلیور کرپائے گا اور نہ ہی اس کشمکش کا خاتمہ ممکن ہے۔ کوئی محب وطن ذی ہوش پاکستانی اس حقیقت کا منکر نہیں ہے کہ ملک کی سرحدوں کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسی طاقتور فوج، جس کی پشت پر پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو، ناگزیر ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیےکہ آپ کی اپنی فوج کمزور ہوگی تو یہ ملک، دشمن کے لیے نرم چارہ بن جائے گا۔
آئین کی بالادستی اور قانون کی عمل داری کے مطالبے کا یہ مطلب ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ وہ فوج کے خلاف ہوسکتے ہیں، ان کا اختلاف فوج کے صرف سیاسی کردار سے تھا اورہے۔ فوجی قیادت اب خود یہ اعتراف کررہی ہے کہ فوج کا سیاسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ آئین کا تقاضا بھی یہی ہے اور بانی پاکستان نے بھی سیاست میں فوج کے کسی بھی طرح کے کردار کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا تھا۔ اس کا ذکر اپنے ایک مضمون میں بریگیڈیئر (ر) قاضی شمس الدین (مرحوم) نے کیا تھا۔ واضح رہے بریگیڈیئر (ر) قاضی شمس الدین نے (جب وہ کرنل تھے) قائداعظم کے اسٹاف کالج کوئٹہ کے دورے کے موقع پر اس حوالے سے سوال کیا تھا، جس کے جواب میں قائداعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ فوج کی ذمہ داری سرحدوں کی حفاظت اور منتخب سول حکومت کی پالیسیوں اور احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔ اب اسی مؤقف کا اعادہ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے فوج کے سالار کی طرف سے کیا ہے۔
پاکستان کو سرحدوں پر جس طرح کے خطرات کا سامنا ہے، اس سے عہدہ برا ہونے کے لیے تمام ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی ناگزیر ہے، اور ہر ایک کو آئین کے طے کردہ دائرۂ کار کے بیرومیٹر میںکام کرنے کی مکمل آزادی اور اختیار ہونا بھی ضروری ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان پائے جانے والے تحفظات یا غلط فہمیاں دور ہوں گی تو یہ بحث خودبخود ختم ہوجائے گی کہ منتخب حکومت اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں یا نہیں۔ ویسے بھی یہ بات ہی غلط اور بے معنی ہے کہ کوئی یہ کہے کہ فوج منتخب حکومت کے ساتھ ہے یا نہیں ہے؟ اس کے ساتھ ہی اس بحث کا خاتمہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت رہے یا صدارتی، یا ماورائے آئین کوئی دوسرا سیٹ اَپ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان پارلیمانی نظامِ حکومت کو آئینِ پاکستان کے بنیادی خدوخال کا حصہ قرار دے چکی ہے جسے نہ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی ترمیم پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت تو کیا سو فیصد ارکان کی حمایت سے بھی کرنے کی مجاز ہے۔ وطنِ عزیز میں چار بار فوجی آمریت کے ادوار میں صدارتی نظامِ حکومت کا تجربہ بھی ہوچکا ہے اور ٹیکنوکریٹ کا بھی، اس کے تباہ کن نتائج یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ کسی نئے تجربے کی ضرورت ہے اور نہ ہی آئین میں اس کی گنجائش ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وطنِ عزیز پاور فل مارشل لا کے صدارتی نظام میں دولخت ہوا تھا۔ یہ ملک برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے طویل اور صبر آزما سیاسی جدوجہد اور سیاسی عمل کے ذریعے قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے حاصل کیا تھا۔ اس کی بقا، سلامتی اور ترقی کی طرف سفر کا راز بھی اسی میں مضمر ہے۔ سیاسی عمل اور سیاسی جماعتوں کو آئینِ پاکستان کی چھتری تلے آزادانہ کام کرنے دینے سے ہی وہ منزل حاصل ہوگی جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا، اور جو بانی ٔ پاکستان قائداعظم کا وژن تھا۔ اس مطالبے پر سب کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی ہوگی کہ پارلیمنٹ کے ذریعے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کسی فارمولے پر اتفاق کریں، آئندہ جب بھی انتخابات ہوں وہ قبل از انتخابات، دھاندلی، انتخابات کے دن دھاندلی اور انتخابات کے بعد دھاندلی اورنتائج میں گڑبڑ کے الزامات سے پاک نظر آئیں،بحران سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔