جمعیت علمائے اسلام (ف) کے احتجاج کا خاتمہ، سیاسی مذاکرات پر اخفا کی چادر

جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اس کی شریک جماعتوں مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی اور جمعیت اہلحدیث کے احتجاج کی دھول بیٹھ گئی ہے۔ ویسے بھی یہ پاور شو خالصتاً جمعیت علمائے اسلام کا تھا، البتہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی پوری طرح کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی تھی۔ باقی تمام جماعتوں کی شرکت نمائندگی اور تقاریر کی حد تک تھی۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے قبل یہ جماعتیں کسی نہ کسی عنوان سے ایک دوسرے کی ناقد رہی ہیں۔ سرِدست بلوچستان ہی انتقامی سیاست کا اہم مورچہ بنا رہا جہاں2013ء کے عام انتخابات کے بعد نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی حکومت بنی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ مری میں شراکتِ اقتدار و حکومت سازی کا معاہدہ ہوا، جس کے تحت پہلے ڈھائی سال کے لیے نیشنل پارٹی کو حکومت ملی۔ یعنی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے۔ جبکہ اگلے ڈھائی سال کے لیے نواز لیگ یعنی نواب ثناء اللہ زہری کو وزارت اعلیٰ دینے کا طے ہوا۔ چناں چہ پہلے ڈھائی سال کے اندر نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت میں نواز لیگ نے بھی گویا ڈاکٹر عبدالمالک کے گریبان میں ہاتھ ڈال رکھا تھا۔ ان کے ساتھ وہ لیگی اراکین بھی تھے جنہوں نے بعد ازاں نواب زہری کے خلاف بھی بغاوت کرنے میں دیر نہ لگائی۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے جیسے تیسے اپنا عرصہ پورا کرلیا اور بعد ازاں نواب زہری نے وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھالیا، لیکن نیشنل پارٹی سب کچھ فراموش کرتے ہوئے پوری طرح ساتھ رہی اور اچھی اتحادی ثابت ہوئی۔ اس اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف مولانا عبدالواسع تھے۔ ان کے ڈپٹی عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک اچکزئی تھے۔ چناں چہ وفاق میں نواز حکومت کی طنابیں کَسی جارہی تھیں، اور یہاں بلوچستان میں بھی رازداری کی سیاست ہوتی رہی۔ وفاقی حکومت کے خلاف تحریک انصاف اور پاکستان عوامی پارٹی کا دھرنا، پھر تحریک لبیک کا سڑکوںپر بیٹھنا… اس طرح مختلف ذرائع، حربوں اور منصوبوں سے نوازشریف حکومت گھیرے میں رکھی گئی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنی سیاسی چالوں کی دھمکیاں دیتے رہے۔ پھر بااثر حلقوں، پیپلز پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بلوچستان کے اندر خفیہ کھیل شروع کردیا۔ آصف علی زرداری کے نمائندے باقاعدگی سے بلوچستان آتے اور اراکینِ اسمبلی سے ملاقاتیں کرتے۔ آصف علی زرداری نے دولت کا ہتھیار بھی استعمال کیا۔ یوں نواز لیگ کے اندر سے اراکینِ اسمبلی کی بغاوت کھل کر سامنے آگئی۔ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، مجلس وحدت المسلمین،قاف لیگ اور سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی اس سیاست میں پوری طرح شریک تھیں۔ 9 جنوری 2018ء کو وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ نواب زہری بہت ہی کمزور لیڈر ثابت ہوئے اور اسمبلی اجلاس کے مقررہ وقت سے پہلے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ پھر قاف لیگ سے تعلق رکھنے والے عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بن گئے۔ واضح ہو کہ قاف لیگ کے صوبائی صدر شیخ جعفر خان مندوخیل تھے، جنہوں نے اس پورے تماشے سے خود کو الگ کیے رکھا۔ نواز لیگ کے اراکین کی ایک بڑی تعداد نے، جن میں قبائلی مناصب کے حامل لوگ بھی شامل ہیں، ضمیر کا سودا کرلیا۔ سردار اختر مینگل نے کوئٹہ آکر اس تخریبی مہم میں پوری طرح حصہ لیا۔ ان سب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ صوبے کے اندر اس سازش کا اصل سرچشمہ کہاں ہے۔ عبدالقدوس بزنجو جیسے غیر موزوں اور سطحی آدمی چھے ماہ صوبے کے وزیراعلیٰ بنے رہے۔ وزیراعلیٰ ہائوس بے توقیر ہوا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی وغیرہ نے فائدے حاصل کیے۔ پھر سینیٹ انتخابات میں اراکینِ اسمبلی کے ووٹوں کی منڈیاں لگ گئیں، جس کے نتیجے میں ملنے والی کامیابی کے بعد صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے۔ قومی اسمبلی میں بھی بلوچستان کے کئی اراکین جام کمال، خالد مگسی اور دوستین ڈومکی وغیرہ نے نوازشریف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اور پھر اسمبلیوں کی مدت ختم ہوئی۔ بلوچستان کے اندر نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر میں پھر ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ ہوا۔ علاو الدین مری جیسا ایک گمنام شخص پیسوں کے عوض نگران وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اسی سیاسی بازیگری میں اگلی صفوں کی کھلاڑی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی مارچ، دھرنے اور احتجاج میں مشروط طور پر شامل ہوتیں کہ پہلے جے یو آئی بلوچستان کے اندر ان زیادتیوں پر معافی مانگے اور اُس دانستہ عمل کا اقرار کرے۔ یقیناً جے یو آئی نے منتخب حکومت کے خلاف درپردہ قوتوں کا ساتھ دیا۔ دراصل ان کا یہ مطالبہ خلافِ اخلاق و منطق نہ ہوتا، کیوں کہ جن مبینہ برائیوں کی جے یو آئی اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں آج نشاندہی کررہی ہیں، یا جن کے خلاف دھرنا دیا گیا، ان کی پہلی اینٹ بلوچستان میں رکھی گئی تھی، اور جمعیت علمائے اسلام کا اس میں کلیدی کردار تھا۔ گویا یہی موقع تھا کہ محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کو ان کے غیر سیاسی، غیرجمہوری اور غیراخلاقی عمل کا احساس دلاتے۔ بہرحال پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے ان زیادتیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اعلیٰ ظرفی دکھائی۔ اور پھر اس دھرنے کے متعلق بہت ساری باتیں اب بھی اخفا میں ہیں۔ مثلاً یہ کہ پس پردہ مولانا فضل الرحمٰن کو کس کے پیغامات آتے رہے؟ مولانا کہتے ہیں کہ انہیں احتجاج ختم کرنے کے بدلے بلوچستان حکومت، سینیٹ چیئرمین اور بلوچستان کے گورنر کا عہدہ دینے کی پیشکش ہوئی۔ اور یہ کہ ’’آپ کے لیے ڈی آئی خان کی نشست خالی کردیتے ہیں، آپ منتخب ہوکر واپس ایوان میں آجائیں‘‘(22نومبر2019ء)۔ کیا یہ پیغامات وزیراعظم عمران خان نے بھیجے؟ اگر نہیں، تو پھر عمران خان سے بڑھ کر طاقت و اختیار کا حامل کون ہے، جس نے مولانا کو اتنی بڑی پیشکشیں کیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دھرنے کے شرکاء کے سامنے پیشکش کرنے والوں کا چہرہ بے نقاب کیا جاتا، خواہ کوئی بھی ہو۔گویا جے یو آئی یا حزبِ اختلاف کے احتجاج اور پسِ پردہ مذاکرات، بات چیت اور گفتگو پر اخفا کی چادر پڑی ہے۔ احتجاج اسلام آباد اور ملک کی شاہراہوں پر ہوا تھا۔ لہٰذا ہونا یہ چاہیے تھا کہ پل پل کی پیش رفت سے عوام اور سیاسی کارکنوں کو آگاہ کیا جاتا۔