ایک نو مسلم کی کہانی ،جو دین کو سمجھنے کے لیے پاکستان آیا تھا
(دوسرا اور آخری حصہ)
ناصر محمود/انتخاب:کلیم اکبر صدیقی
اس پس منظر میں جب حوروں کا ذکر آتا ہے تو وہ ایک فطری بات لگتی ہے، مگر جب ساری نیکی حوروں، کھانوں اور سامانِِ عیاشی کے گرد گھومتی ہو تو پھر اللہ کہیں دور پس منظر میں چلا جاتا ہے، بلکہ اللہ کا امیج مسخ ہوجاتا ہے کہ شیطان بھی ضرورت کے ذریعے اپنی طرف مائل کرتا ہے اور ان ناسمجھوں کی عقل کے مطابق نعوذ باللہ اللہ بھی انسان کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے مرد کی جنس کی بھوک کو استعمال کرتا ہے۔ پھر موبائل کمپنیوں کے پروموشن اشتہاروں اور جنت کے ان مناظر میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ ایسا سوچنا سراسر حماقت ہے۔ قرآن حکیم نے جہاں بھی اور وہ بھی گنتی کے چند مواقع پر استعمال کیا ہے وہاں دو مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ آخرت کی زندگی میں انسان کا وجود فزیکلی (طبعی) موجود ہوگا تبھی وہ صوفوں پر بیٹھے گا اور ٹیک لگائے گا، چونکہ روح ٹیک نہیں لگا سکتی، روح فروٹ نہیں کھا سکتی، شہد اور دودھ نہیں پی سکتی اور سیکس نہیں کرسکتی، لہٰذا ایک تو وجود کی دلیل میں ان چیزوں کو پیش کیا ہے، نہ کہ اپنی طرف مائل کرنے کے لیے۔ دوسرا وہاں کسی نہ کسی قربانی کا ذکر ہے، کچھ کھونے کا حوالہ ہے۔ مگر جس بے دردی سے اور بے موقع حوروں کی تفصیلات بیان کرتے میں نے سنا ہے اس سے تو پھر عورت پیش کرکے کام کرانے کا تصور ہی ابھرتا ہے، اور یہی وہ تصور ہے جس سے میں یہودی سے عیسائی، پھر سکھ بنا اور پھر اسلام میں آیا تھا۔ مگر پاکستان نے میرے سارے کانسپٹ (تصور) دھندلا کر رکھ دیے اور مجھے الحاد کی منزل پر لاکھڑا کیا۔ مگر ’’ٹووارڈز انڈر اسٹینڈنگ اسلام‘‘ نے مجھے عین وقت پر اس مخمصے سے نکالا، اور یوں اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا کہ جو ہماری راہ چل نکلتا ہے ہم اسے اپنی راہ سمجھا دیتے ہیں۔ وہ اسٹال والا لڑکا میرے لیے ایک فرشتہ ہی ثابت ہوا جسے خاص اسی کام کے لیے بھیجا گیا تھا، اور ٹھیک جب وہ کام ہوگیا تو اس بے چارے کا اسٹال بھی اٹھوا دیا گیا۔
میں نے جب بعد میں برطانیہ جاکر اپنا مذہب اور نام سرکاری طور پر تبدیل کیا کیونکہ حج پر جانے کے لیے یہودی نام اور مذہب کی وجہ سے مجھے حج کا ویزہ نہیں ملا تھا، تو میں نے اپنا نام اسی لڑکے ناصر محمود کے نام پر رکھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں براستہ ایران، عراق اور اردن یروشلم سے ہوتا ہوا جائوں اور اپنے عزیز و اقارب سے بھی ملتا جائوں۔ میں جب ٹرین پر زاہدان جارہا تھا تو میرے ساتھ ایک ایرانی نوجوان بھی اسی بوگی میں تھا جو کہ ملحد ہوچکا تھا۔ وہ برطانیہ کا پڑھا ہوا ایک ذہین، بہت نفیس اور سادہ سا نوجوان تھا۔ باتوں باتوں میں جب اُسے پتا چلا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں تو کہنے لگا کہ میں نے اسلام چھوڑ دیا ہے اور تم اسلام میں آگئے ہو۔ پھر مزاح کے انداز میں کہنے لگا: گویا اللہ کا سپاہی اور اللہ کا باغی ایک ہی بوگی میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔
میں نے اُس سے الحاد کی وجہ پوچھی تو اُس نے جو تفصیلات بتائیں اُن سے میں سکتے میں آگیا۔ کیا کوئی عقلمند انسان اس صدی میں بھی ایسے عقائد رکھ سکتا ہے! پہلی بات کہ یہ قرآن اصلی قرآن نہیں ہے بلکہ حقیقی قرآن کا صرف فٹ نوٹ ہے، وہ حقیقی قرآن ایک امام کے پاس ہے جو اسے لیے غار میں چھپا بیٹھا ہے۔ دنیا ہدایت کے بغیر مر رہی ہے، اتمام حجت کا رب کا وعدہ کہاں گیا؟
جوان کہنے لگا: بس یہ سب کچھ دیکھ کر اور ہمارے علامہ حضرات کے رویّے دیکھ کر میںنے دین سے جان چھڑا لی ہے۔ دین اس لیے ہوتا ہے کہ انسان سکون اور اطمینان حاصل کرے، مگر جب دین الٹا رات کی نیندیں اڑا دے، کسی سوچ کا جواب نہ دے، صرف سوال پیدا کرتا چلا جائے تو بہتر ہے خوامخواہ روز کی خواری اور آہ و زاری سے ایک دفعہ روکر جان چھڑالی جائے۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں اسلام کے عشق میںکس چیز نے مبتلا کردیا ہے؟ میں نے کتاب اُس کے حوالے کردی۔ وہ سارے راستے اس کتاب کو رہ رہ کر پڑھتا رہا، کبھی کبھار سوال و جواب ہوتے اور بحث بھی ہوتی، مگر الحمدللہ وہ جوان زاہدان پہنچنے تک دوبارہ مسلمان ہوچکا تھا، اور جہاں کہیں بھی ہمیں موقع ملتا ہم نماز اکٹھی پڑھتے۔ میں اسے امامت کے لیے آگے کرتا اور لوگ بھی کھڑے ہوجاتے۔ اب نماز میں پتا نہیں اُس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا کہ جب وہ تلاوت کرتا تو اس کی گھگھی بندھ جاتی جیسے سامنے رب کھڑا ہے۔ اس کے رونے میں میرے سمیت کئی لوگوں کی سسکیاں بھی نکل جاتیں۔ ڈبے والوں نے اسے پکا پیر بنالیا، اس کے ہاتھ چومتے اور کھانے پینے کی چیزیں لالا کر ڈبے میں ڈھیر کرتے جاتے۔ میرا ڈبہ ایک دفعہ پھر منگھوپیر کی درگاہ بن چکا تھا۔
حقیقت میں یہ کتاب انسان کو اللہ سے ملادیتی ہے۔ میں پیدائشی مسلمانوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ اس کتاب کے انگلش ایڈیشن کو ضرور پڑھیں، لکھنے والے نے کمال کردیا ہے، خود کو بالکل ایک غیر جانب دار شخص بناکر دلائل سے اسلام کے تقاضوں کو ثابت کیا گیا ہے۔ کسی بھی غیر مسلم یا نومسلم کے لیے اس کتاب سے بڑھ کر بہترین اور کوئی چیز تحفہ نہیں ہوسکتی۔ یزدانی نے مجھے ڈاکٹر علی شریعتی کے 7 مقالوں پر مبنی کتاب ’’مین اینڈ دی اسلام‘‘ دی۔ اس کتاب نے انسانی تخلیق کے ربانی پروگرام، انسان کی اہمیت اور رب کے ساتھ اس کے تعلق کو اس طرح واضح کیا ہے کہ میں کئی دفعہ آبدیدہ ہوگیا۔ یہ دو کتابیں پڑھنے کی ہیں۔
ایران سے رخصتی کے وقت یزدانی نے مجھے یہ کتاب گفٹ کردی، مگر میں اسے اپنی کتاب گفٹ کرنے کا حوصلہ نہ کرسکا۔ شاید اس کتاب کو ابھی میرے والدین کو مسلمان کرنا تھا۔
ایران میں یزدانی کے توسط سے مجھے تین ملاقاتیں نصیب ہوئیں۔ پہلی طہران میں ایک یہودی ربی کے ساتھ، جس میں ربی کو آگاہ کیے بغیر کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں، یہودی عقائد پر کافی تفصیلی اور لمبی چوڑی گفتگو ہوئی۔ یہودیت کا دفاع آج کے دور میں کیسے کیا جائے اس لیے کہ یہودیت نسلی مذہب ہے، نظریاتی نہیں، یعنی کوئی شخص یہودی نہیں ہوسکتا جب تک کہ یہودی پیدا نہ ہو، اس لیے اس کی تبلیغ کی بھی کوئی ضرورت نہیں، جب کوئی چیز سیل پر ہی نہ لگے تو اس کی کوالٹی کی فکر بھی کسی کو نہیں ہوتی۔ یہودیت کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ سکڑتی جارہی ہے۔ معاشی حالت نے اسے اولاد کو محدود رکھنے پر مجبور کردیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ یہودیت کرپٹ بھی ہوگئی ہے، کرخت بھی ہوگئی ہے اور محدود بھی۔ یہودی کسی مذہب میں بھی چلا جائے اس کے جینز تبدیل نہیں ہوتے۔ وہ جینز جن کو اللہ نے دنیا کی آگ سے بچایا، ان کو آخرت کی آگ میں کیسے جلائے گا؟ یہ یہودی نفسیات ہے جس کا بھانڈا اللہ پاک نے قرآن حکیم میں جگہ جگہ پھوڑا ہے اور اس پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ سورہ المائدہ اور البقرہ اس میں پیش پیش ہیں۔ ایک ہمدردانہ ڈسکشن کے بعد اب میرے سوالات ذرا تیکھے ہونا شروع ہوئے اور میں نے اپنے اشکالات پیش کرنا شروع کیے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہودی عالم ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کی مذہبی قیادت ایک جیسی ہی سوچ کی حامل ہوتی ہے، آپ کے سوال کا ایک ہی جیسا رٹا رٹایا جواب دیا جائے گا، جواب دینے میں کبھی آپ کے کیلیبر اور آئی کیو کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا۔ میں نے قرآن کی طرف سے دیا گیا جواب ماکان ابرہیم یہودیاً ولا نصرانیاً و لکن کان حنیفاً مسلماً ان چیف ربی صاحب کے سامنے رکھا اور یہ کہ آگ ہمیں نہیں چھوئے گی، عذابِ آخرت ہمیں نہیں ہوگا، پر قرآنی جواب قل فلما یعذبکم بذنوبکم پھر وہ دنیا میں تمہیں بار بار عذابِ عظیم میں مبتلا کیوں کرتا رہا؟ لوگوں کا عذابِ آخرت پر مؤخر کردیتا ہے، تمہیں نقد کیوں دیتا رہا؟ کہنے لگے: ہمیں دنیا میں دے دیتا ہے اس لیے آخرت میں نہیں دے گا۔ میں نے کہا: مگر اللہ تو کہہ رہاہے کہ ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم۔
اس پر انہیں شک ہونا شروع ہوا کہ شاید میں مسلمان ہوچکا ہوں، کیونکہ عام یہودی نہ قرآن پڑھتا ہے، نہ ان باتوں کا اُسے علم ہوتا ہے، اور نہ قرآن کی بات کو سچ سمجھتا ہی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ مسلم ہوچکے ہیں؟ میں نے اعتراف کیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ کہنے لگے: یہ خیانت ہے کہ آپ نے یہودی بن کر اپنا تعارف کروایا۔ میں نے کہا: جناب آپ نے خود تسلیم کیا کہ یہودی کے جینز تبدیل نہیں ہوتے چاہے کسی مذہب میں چلا جائے، میں نے اپنا جینیٹکل تعارف کروایا تھا، نظریاتی نہیں۔
اگلی ملاقات قم کے منتظری صاحب سے ہوئی جن سے میں نے اُن شیعہ عقائد پر بات کی جن کے بارے میں مجھے یزدانی نے بتایا تھا۔ منتظری صاحب سے وقت لینا بھی ایک مسئلہ تھا، وہ اُن دنوں حکومت کے زیرعتاب تھے، کبھی ہائوس اریسٹ تو کبھی جیل۔ خمینی صاحب سے اُن کی کھٹ پٹ چل رہی تھی۔ آدھا ایران خمینی صاحب کے پیچھے تھا تو آدھا منتظری صاحب کے ساتھ۔
اگلے دن والد صاحب کا پیغام ملا کہ فوراً واپس پلٹو ایمرجنسی ہے۔ جھٹ پٹ ٹکٹ لیا اور طہران سے دبئی اور پھر لندن کو واپسی ہوئی۔ سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ماحول میں اداسی کا احساس ہوا، پتا چلا والدہ صاحبہ کو جگر کا کینسر تشخیص ہوا ہے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر۔ والدہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی، میں جس طرح چھوڑ کر گیا تھا وزن اس سے آدھا ہوچکا تھا۔ رہ رہ کے خیال آتا شاید میرا اس طرح گھر سے چلے جانا اس داغِ جگر کا سبب نہ بنا ہو۔ میرا دل چاہتا تھا کہ والدہ مسلمان ہوجائیں اور اسلام ہمارے خاندان کو ٹیک اوور کرلے۔ مگر والدہ کی تمنا ایک روایتی ماں والی تھی، یعنی مرنے سے پہلے بیٹے کا سہرا دیکھنے کی۔ لڑکی ہمارے خاندان سے ہی تھی اور مذہب کے معاملے میں کسی حد تک میری ہم خیال بھی تھی، کیونکہ ہم دونوں کلاس فیلو بھی تھے۔ مجھے امید تھی کہ وہ بھی مسلمان ہوجائے گی۔ رہ گئیں والدہ، تو ان کے اسلام کی راہ میں میرے والد صاحب کا پہاڑ کھڑا تھا۔ وہ ایک روایتی گھریلو خاتون تھیں جنہوں نے اپنی ذات کو شوہر میں گم کردیا تھا۔ میں نے جب ان سے اسلام کی بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں مرتے مرتے تیرے باپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتی۔
آخرکار میں نے اللہ کا نام لے کر اس پہاڑ کو خود سر کرنے اور والد صاحب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ والدین ہماری نفسیات کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اللہ کے بعد ہماری ذات سے سب سے زیادہ واقف ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ اِدھر ہمیںکوئی خیال آیا نہیںکہ اُن کی چھٹی حس نے اُن کو بتادیا۔ آپ کے دکھ درد اور بے چینی کو محسوس کرنے کے لیے انہیں آپ کے بتانے یا الفاظ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ہماری ذات کی مین برانچ ہوتے ہیں۔ ہماری ساری ٹرانزیکشن انہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ جونہی میں والد صاحب کے پاس جاکر بیٹھا، انہوں نے ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور جان لیا کہ میں ان سے کوئی اہم بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک منجھے ہوئے سفارت کار تھے اور انسانی کیمسٹری سے آگاہ۔ فرمانے لگے: کیا کچھ سیکھا ہے؟ میں نے کہا: وہ سب کچھ جس کے لیے آپ نے مجھے پاکستان تجویز کیا تھا۔ البتہ میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ امی جان مرنے سے پہلے مسلمان ہوجائیں، مگر وہ آپ کی رضامندی لیے بغیر یہ کام نہیں کرپائیں گی، وہ مرتے مرتے آپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتیں، اگر آپ اجازت نہیں دیں گے تو اپنے ساتھ دوسری جان کا بوجھ بھی آپ کو اٹھانا پڑے گا۔ میں نے زندگی بھر آپ سے کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا، مگر اب میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اسلام کو اسٹڈی کریں اور دو چار دن میں کوئی فیصلہ کرلیں۔ اس سلسلے میں جو بھی وضاحت طلب باتیں ہوں وہ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں، مگر مجھے امید ہے کہ یہ دو کتابیں پڑھ لینے کے بعد آپ کو اسلام کے بارے میں تو کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔
(بشکریہ:سیارہ ڈائجسٹ،اگست2019ء)