علمائے صادق پور کی مسمار قبریں اور بھارت کا نظام انصاف

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
بھارت کی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کا فیصلہ آگیا جس نے ایک طبقے کی خوشی کو دوبالا کیا تو ایک طبقے کو مایوس۔ لیکن ظاہر ہے قومیں ماضی کی اسیر بن کر نہیں رہ سکتیں۔ جبر اور ناانصافی کے ساتھ بھی تاریخ کا سفر جاری رکھنا پڑتا ہے۔
ہندوئوں کے بھگوان رام ہندوئوں کے خدا وشنو کے بھیجے گئے ساتویں اوتار تھے۔ ان کا زمانہ اتنا قدیم ہے کہ اس کا درست تعین ممکن نہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس دعوے کو حتمی تسلیم کرلیا گیا کہ وہ ایودھیا میں ٹھیک اس مقام پر پیدا ہوئے جہاں بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی، اور اسے بھی باور کرلیا گیا کہ اس مقام پر رام کی یاد میں ایک مندر بنایا گیا تھا جسے مغل بادشاہ بابر کے حکم پر گرا کر بابری مسجد کی تعمیر کی گئی۔ مغل بادشاہ بابر کی وفات 1530ء میں ہوئی اور رام کے سب سے بڑے بھگت تلسی داس کی پیدائش 1532ء میں ہوئی۔ انھوں نے والمیک کی ”رامائن“ کو ایک نئی زندگی دی اور رام کے حالات ایک نئے انداز سے ”رام چرت مانس“ کے نام سے لکھے۔ عوام میں والمیک کی ”رامائن“ سے بھی کہیں زیادہ ”رام چرت مانس“ کی چرچا ہوئی۔ تلسی داس محض ایک مذہبی عالم ہی نہیں بلکہ اپنے دور کے بہت بڑے شاعر اور ادیب بھی تھے۔ ان کے قلم نے رام چندر جی کو ایک نئی زندگی دی۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے چند کتابیں لکھیں۔ مگر یہ حیرت کی بات ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر کے انتہائی قریبی عہد سے تعلق رکھنے کے باوجود انھوں نے رام کی جنم بھومی کی مسماری پر ایک حرف نہیں لکھا اور نہ ہی بابری مسجد کی تعمیر پر کوئی سوال اٹھایا۔
بایں ہمہ تاریخ کے ان تمام سوالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں اور بھارتی نظام انصاف کے سامنے ازمنہ قدیم کی نہیں بلکہ تاریخی سفر کے اعتبار سے ماضیِ قریب کی ہونے والی ایک ناانصافی کی مثال پیش کرنا چاہتے ہیں جو برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کی راہ میں انگریزی استعماری حکومت سے پیش آئی، جو ایک ایسی معلوم تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
علمائے صادق پور کی جدوجہد آزادی تاریخ کا ایک ایسا روشن اور نمایاں باب ہے جسے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا زمانہ بھی متعین و معلوم ہے اور ان کے ساتھ کی گئی ظلم و ستم کی داستان بھی مکمل و یقینی شواہد کے ساتھ تاریخ کے اوراق اور سرکاری کاغذات میں محفوظ ہے۔
آج پٹنہ میونسپلٹی کی عمارت جس جگہ قائم ہے کبھی یہاں علمائے صادق پور کا مسکن تھا، یہیں کہیں ان کے آبا و اجداد کی قبریں تھیں۔ نہ صرف ان کے عالیشان مکانات کو گرا دیا گیا بلکہ ان کے اجداد کی قبریں بھی مسمار کرکے سطح زمین کے ساتھ ہموار کردی گئیں اور اس پر پٹنہ میونسپلٹی کی عمارت اور بازار قائم کردیا گیا۔
آزادیِ ہند کے بعد جس طرح بھارت نے اپنے قومی ہیروز کی قدر افزائی کی اِس سے اُس نے اپنے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ مگر یہ حیرت و استعجاب کا باعث ہے کہ گاندھی جی و پنڈت جواہر لال نہرو کے اعترافات کے باوجود نہ علمائے صادق پور کی خدمات کا اُن کے شایانِ شان اعتراف کیا گیا اور نہ ہی ان کی ضبط شدہ جائداد ان کے ورثا کو واپس دی گئی۔
انگریزی عہد میں بنگال گورنمنٹ کے زیر انتظام عدلیہ نے علمائے صادق پور کے مقدمات کی سماعت کی اور جدوجہد آزادی کی پاداش میں 1282ھ / 1865ء میں یہ منتقمانہ فیصلہ سنایاکہ ان کی تمام جائداد ضبط کرلی جائے اور انھیں سزائے موت دی جائے۔ موت کی سزا بعد میں کالا پانی کی اسارت میں منتقل کردی گئی۔ ضبطیِ جائداد کی منتقمانہ کارروائی کے لیے عین عید کا دن منتخب کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولانا یحییٰ علی صادق پوری اور مولانا عبدالرحیم صادق پوری کی تمام جائداد ضبط کرلی گئی۔ صرف ان کے عالیشان مکانات ہی منہدم نہیں کیے گئے بلکہ خاندانی قبرستان کو بھی مسمار کر دیا گیا۔
مشہور مؤرخ کالی کنکر دتہ (1905ء-1982ء) اپنی مشہور کتاب “The History of Freedom Movement in Bihar” (بہار میں تحریکِ آزادی کی تاریخ) میں “Confiscation of the Properties and Destruction of Graves” (جائداد ضبط کرنا اور قبروں کی تباہی) کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:-
“Shortly after the transportation of the Patna Wahabis, the Government started proceedings for confiscation of their properties. The Zamindari estate of Maulavi Ahmadullah alone had an annual income of about 20000/-. Even the villages granted by Ahmadullah in perpetual lease to his wife in lieu of her dowry, prior to arrest, were not spared.
The transportation of the Maulavis and confiscation of their properties ruined the Sadikpore family of the Wahabis. But it did not put an end to the movement.” (Vol 1, P: 91-92, Published by: The Government of Bihar, Patna 1957)
”مختصراً! پٹنہ میں وہابیوں کی سرگرمیوں کے فوراً بعد، حکومت نے ان کی جائدادیں ضبط کرنے کے لیے کارروائی شروع کردی۔ صرف مولوی احمد اللہ کی زمینداری اسٹیٹ کی سالانہ آمدنی تقریباً 20000/- تھی۔ حتیٰ کہ وہ گائوں جو گرفتاری سے قبل احمد اللہ نے اپنی بیوی کو حق مہر (یا تحفتاً) مستقل طور پر دیئے تھے، انھیں بھی نہیں بخشا گیا۔ مولویوں کی سرگرمیوں اور ان کی جائدادیں ضبط کرنے سے وہابیوں کے صادق پوری خاندان برباد ہوگئے۔ لیکن اس کے باوجود تحریک ختم نہیں ہوئی۔“
پرناب چندر رائے چودھری (Pranab Chandra Roy Choudhury) اپنی کتاب “Inside Bihar” میں لکھتے ہیں:-
“The transportation of Ahmadullah and the other Wahabis was followed by ruthless proceedings against their properties. Their properties were confiscated and even the villages granted by Ahmadullah to her wife in perpetual lease in lieu of her dowry prior to his arrest was not spared. Not only the houses were demolished and turned into level ground and Bazar and Municipal buildings were erected but it is said that the family cemetry was also ploughed up.” (P: 161, Printed by: Bookland Private Limited Calcutta 1962)
”احمد اللہ اور دیگر وہابیوں کی سرگرمیوں کے بعد ان کی املاک کے خلاف بے رحمانہ کارروائی کی گئی۔ ان کی املاک ضبط کرلی گئیں۔ حتیٰ کہ وہ گائوں جو گرفتاری سے قبل احمد اللہ نے اپنی بیوی کو حق مہر (یا تحفتاً) مستقل طور پر دیئے تھے، انھیں بھی نہیں بخشا گیا۔ نہ صرف مکانات کو منہدم کرکے سطح زمین کے ساتھ ہموار کردیا گیا، ان پر بازار اور میونسپل عمارتیں بھی تعمیر کی گئیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ خاندانی قبرستان کو بھی مسمار کردیا گیا تھا۔“
مولانا عبدالرحیم صادق پوری جب کالا پانی کی کم و بیش 19 سالہ اسارت کے بعد رہا ہوکر اپنے وطن واپس آئے تو تغیر حالات نے ان کے قلب و نظر پر جو اثر ڈالا اس کی کیفیت خود ان ہی کے قلم سے ملاحظہ ہو، لکھتے ہیں:-
”محلہ ننموہیہ میں پہنچا، جہاں کہ میرے اہل و عیال مقیم تھے، اس کی صبح ہو کے صادق پور گیا تو وہاں دیکھا کہ ہم لوگوں کے مکانات منہدم کرکے کف دست میدان بنا دیا گیا ہے اور اس پر بازار اور میونسپلٹی کے مکانات بنا دیے گئے ہیں۔ میں نے چاہا کہ اپنے خاندانی مقبرے کو کہ جہاں چودہ پشت سے ہمارے آبا و اجداد دفن ہوتے چلے آئے تھے جاکر دیکھوں اور خصوصاً اپنے والدین ماجدین عفراﷲ لہما کے مزار کی زیارت کروں اور اس پر دعائے مغفرت اور فاتحہ پڑھوں۔ مگر ہر چند کوشش کی، پتا نہ ملا۔ بعد تجسس و تفحص بسیار و غور و فکر کے قرینہ سے معلوم ہوا کہ حضرت والدین ماجدین کی قبریں کھود کر اس پر عمارتِ میونسپلٹی بنادی گئی ہے۔
اے حضرات ناظرین! اس وقت اس حرکت کا جو ہمارے اموات کے ساتھ کی گئی جو صدمہ دل سے گزرا وہ بیرون از حیطہ تحریر و تقریر ہے۔ اس وقت تک اس کی یاد سے بدن کے رونگٹے تک کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے جرم میں ہمارے اموات و آبا و اجداد کی قبریں کیوں کھودی گئیں اور وہ مقبرہ کیوں معرض ضبطی میں آیا، ہماری عادل گورنمنٹ نے کیوں یہ کام کیا؟ بہرکیف میں نے اسی جگہ کھڑے ہو کر کہ جہاں ان کی قبر میرے خیال میں آئی، دعائے مغفرت کرلی اور آج تک بھی ایسا ہی کرلیا کرتا ہوں۔“
(الدر المنثور فی تراجم اھل الصادق پور، ص: 144-145، مطبوعہ ہادی المطابع کلکتہ1901ء)
صادق پوری خانوادے کی ضبط شدہ جائداد کی مجموعی رقم ایک لاکھ اکیس ہزار نو سو اڑتالیس روپے چار آنے ایک پائی تھی۔ اس زمانے کے اعتبار سے یہ بہت بڑی رقم تھی۔ (ملاحظہ ہو: مجاہدین صادق پور (ہند) پٹنہ بہار نمبر سووینیر 1998ء، ص: 24-25)
آج بھارت کا نظام انصاف اس حقیقت کو بھلے فراموش کردے لیکن علمائے صادق پور کی قربانیاں تاریخ کا روشن باب ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ آج بھارت کی آزادی کا پرچم جن آزاد فضائوں میں لہرا رہا ہے اس کی آزادی میں علمائے صادق پور کی جدوجہد بھی شامل ہے۔ اس حقیقت سے نظریں تو چرائی جا سکتی ہیں مگر کبھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ
شامل ہے مرا خون ِجگر تیری حنا میں
جس طرح آج بابری مسجد کو مسمار کرکے رام کی جنم بھومی کی یاد میں مندر بنائے جانے کا عدالتی فیصلہ سامنے آیا ہے، کیا پٹنہ میونسپلٹی اور اس کے ملحقہ بازار کی جگہ بھی علمائے صادق پور کے موجودہ وارثین کو دی جائے گی؟ کیا بھارت کا نظام انصاف مسلمانوں کے لیے بھی بیدار ہوگا؟ یا پھر بابری مسجد کا فیصلہ اصلاً ہند توا نظریے کی تجدید ہے۔