کاشف رضا
حکومتِ سندھ نے سانپ کے زہر سے تیار کی جانے والی اینٹی اسنیک وینم ویکسین اور اینٹی ریبیز ویکسین کا منصوبہ خاموشی سے ختم کردیا ہے۔ یہ منصوبہ نواب شاہ کے نواحی علاقے سکرنڈ میں 2007ء میں شروع کیا گیا تھا، جس پر ابتدائی طور پر 60 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔ سانپ کے کاٹے کے علاج کی ویکسین تیار کرنے کے منصوبے کے تحت 35 افسران و اہلکار بھی مقرر کیے گئے تھے جو 12 سال تک اس منصوبے کے تحت تنخواہیں وصول کرتے رہے، اور کام کیے بغیر پروجیکٹ ڈائریکٹر اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ریٹائر ہوگئے، جس کے بعد اینٹی اسنیک و اینٹی ریبیز ویکسین منصوبے کو عملاً ختم کردیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ سیرو بائیولوجی لیبارٹری قائم کی گئی، اینٹی اسنیک ویکسین کی تیاری کے لیے 25 قیمتی گھوڑے، بندر اور پاکستان میں پائی جانے والی مختلف نسلوں کے سانپ بھی خریدے گئے۔ ماہرِ حیوانیات کی نگرانی میں گھوڑوں کے جسم پر سانپ سے نکالے جانے والے زہر کے انجکشن لگائے گئے اور گھوڑوں کے جسم سے اینٹی باڈیز بنائی گئیں۔ اس طرح ماہرینِ حیوانیات کی مسلسل سرتوڑ کوششوں اور کلینکل ٹرائل کے بعد پہلی بار سانپ کے کاٹے کے علاج کی اینٹی اسنیک ویکسین تیار کرلی گئی، جسے پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں رجسٹرڈ کرانے کی درخواست بھی دی گئی۔ رجسٹریشن کے بعد اس ویکسین کی پروڈکشن کی جانی تھی، لیکن اس کے بعد سیرو بیالوجی لیبارٹری کو غیر اعلانیہ طور پر غیر فعال کردیا گیا۔ اسی لیبارٹری میں اینٹی ربییزویکسین، ہیپاٹائٹس سی وائرس کی ویکسین، ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ، پولیو ویکسین، تشنج، سگ گزیدگی میں استعمال ہونے والی ویکسین اور کینسر کی اینٹی باڈیز تیار کیے جانے کا منصوبہ تھا۔
ملک بھر میں سانپ کے کاٹے کے سالانہ بیس ہزار واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں بارہ ہزار کے بھگ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ بتایا یہ گیا ہے کہ سکرنڈ میں سیرولوجی لیبارٹری فنڈز کی کمی کے باعث تاحال فعال نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ منصوبہ ختم کیا گیا۔ یعنی 12سال گزر جانے کے بعد سکرنڈ ضلع شہید بے نظیر آباد میں سانپ اور کتے کے کاٹے کی ویکسین تیار کرنے والی لیبارٹری مکمل طور پر بند کردی گئی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ500 روپے والی ویکسین بنانے کے بجائے انڈیا سے 40 ہزار کی وہی ویکسین کیوں منگوائی جاتی ہے؟
ابھی سکرنڈ لیب کی فعالی میں حائل رکاٹ کو دور کرنے کا معاملہ عدالت میں چل رہا تھا کہ سانپ اور کتے کے کاٹے کی ویکسین تیار کرنے والی لیب کی بندش کی خبر پر سندھ ہائی کورٹ نے ایکشن لے لیا اور رپورٹ طلب کرلی، جس پر محکمہ صحت میں کھلبلی مچ گئی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شہید بے نظیر آباد کو تحقیقاتی افسر مقرر کردیا گیا جبکہ چیف سیکریٹری سندھ اور سیکریٹری صحت سے لیب کے بجٹ کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلی گئی ہیں۔
ابھی ان معاملات پر مقامی میڈیا میں طوفان برپا تھا کہ کتے کے کاٹے کے واقعات پے در پے ہونا شروع ہوگئے۔ اس پر میڈیا میں صوبائی وزیر صحت نے ایسا بھونڈا بیان دے دیا کہ ٹاک شوز شروع ہوگئے اور سندھ میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی عدم دستیابی پر سوال اٹھنے لگے۔ اس کے بعد سندھ بھر میں ناکام کتا مار مہم شروع کی گئی۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سابق صدرِ پاکستان اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے آبائی شہر میں کتا مار مہم شروع ہی نہیں کی جا سکی تھی۔ متعدد واقعات رونما ہوتے رہے، میڈیا رپورٹ کرتا رہا۔ دوسری جانب ایک ارب روپے کی لاگت سے زائد رقم سے تعمیر ہونے والے بلاول اسپورٹس کمپلیکس نواب شاہ میں آوارہ کتے راج کرنے لگے۔ یہ امر انتظامیہ کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھا۔ بلاول اسپورٹس کمپليکس نواب شاہ میں واک کرتے ہوئے ڈرے سہمے شہریوں کا کہنا تھا کہ اب تو لوگوں نے اسپورٹس کمپلیکس کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، شہر میں پاگل اور آوارہ کتوں نے شہریوں کا جینا محال کردیا ہے۔ خواتین، بچے، راہ گیر اور موٹر سائیکل سوار، کتوں کے اچانک حملوں سے پریشان ہیں۔ بلدیہ نے 2نومبر کو شہر کی آٹھ یوسیز میں کتا مار مہم شروع کی جو غیر مؤثر رہی۔ اسٹیڈیم میں پاگل اور آوارہ کتوں کی بہتات ہوگئی ہے، تاج کالونی، منوآباد، مریم روڈ، غلام رسول شاہ کالونی، غریب آباد، گولیمار سمیت دیگر علاقوں میں پاگل اور آوارہ کتوں نے شہریوں کا جینا محال کر رکھا ہے ، موٹر سائیکل سوار افراد ، خواتین ، بچے اور بوڑھے کتوں کے اچانک حملوں سے خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے ہیں، جبکہ کئی موٹر سائیکل سوار ان آوارہ کتوں کے اچانک حملے سے گر جاتے ہیں اور خواتین، بزرگ اور بچے کتوں سے بچنے کے لیے دوڑتے ہوئے سٹرکوں پر گر کر زخمی ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب بلدیہ نواب شاہ اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شروع کی گئی کتا مار مہم غیر مؤثر ہوکر رہ گئی ہے، شہر میں سیکڑوں پاگل اور آوارہ کتے گھومتے نظر آتے ہیں۔