ٹڈی دل کا خاتمہ وفاق کی ذمہ داری ہے

سندھ کے وزیر زراعت اسماعیل راہو سے بات چیت

محمد شیخ
سندھ کے وزیر زراعت محمد اسماعیل راہو نے کہا ہے کہ ٹڈی دل کا خاتمہ وفاق کی ذمہ داری ہے لیکن وفاقی حکومت ِسندھ کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کررہی ہے۔ دربار ہال نواب شاہ میں ٹڈی دل سے متاثرہ سندھ کے اضلاع کے افسران کے اجلاس اور بریفنگ کے بعد نمائندہ فرائیڈے اسپیشل سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل سے ضلع شہید بے نظیر آباد، عمر کوٹ، سانگھڑ، میرپور، گھوٹکی سمیت مختلف اضلاع کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل کے خاتمے کی ذمہ داری وفاق کی ہے اور وفاقی محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کے پاس بیس جہاز ہیں جن میں سترہ خراب اور ایک جہاز سندھ میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے بھجوایا گیا ہے۔ جب کہ دو جہاز پنجاب میں کھڑے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں اس لیے جہاز کھڑے ہیں کہ اگر ٹڈیاں سندھ سے پنجاب کی سمت پرواز کریں تو انہیں روکا جا سکے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ میں فصلوں کو نقصان ہورہا ہے اور مفروضے کی بنیاد پر دو جہاز پنجاب میں کھڑے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وفاق سندھ کے این ایف سی ایوارڈ کے حصے کے پیسے بھی نہیں دے رہا ہے، جب کہ ارسا نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرکے چشمہ جہلم لنک کینال پر 25 میگاواٹ کا این او سی جاری کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی کے اراکین نے متفقہ طور پر اس این او سی کے خلاف قرارداد منظور کی لیکن اس کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ مجھے جیل کی پروا نہیں ہے اور نیازی حکومت کو جھکنا پڑے گا، اور نیازی حکومت جھک چکی ہے، جبکہ انہوں نے کہا کہ نوازشریف صحت یابی کے بعد ضرور وطن واپس آئیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر زراعت اسماعیل راہو نے کہا کہ شوگر ملوں کو 15 نومبر سے کرشنگ سیزن کے آغاز کی ہدایت کی تھی، کچھ شوگر ملیں چلی ہیں جب کہ دیگر بھی جلد چلانا شروع ہوجائیں گی۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ سندھ میں نقلی کھاد، بیج اور زرعی ادویہ کے باعث کپاس کی فضل تباہ ہوئی ہے، جبکہ چاول اور سورج مکھی کا بھی نقلی بیج فروخت ہورہا ہے، اس کی روک تھام کے لیے ضلعی سطح پر کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ گزشتہ ماہ وزیرموصوف کے افسرِاطلاعات نے جاری ہینڈ آئوٹ میں زرعی ادویہ کی کمپنیوںکو بند کرنے اور ان کی مصنوعات کی فروخت پر پابندی کا اعلان کیا تھا، لیکن ان پر پابندی نہیں لگائی گئی، زرعی ادویہ اب بھی مارکیٹ میں دھڑلے سے فروخت ہورہی ہیں، تو صوبائی وزیر اسماعیل راہو نے اس بارے میں حتمی بات کہنے سے گریز کیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ کہا کہ سندھ میں زرعی شعبے میں مافیاز کام کررہے ہیں، ان کے خلاف بھرپور ایکشن لیں گے۔ صوبائی وزیراسماعیل راہو نے کہا کہ ٹماٹر کی حالیہ فصل بارشوں کے باعث خراب ہوگئی ہے۔
دوسری جانب پلانٹ پروٹیکشن کی ٹیم ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے نواب شاہ پہنچ چکی ہے اور ٹیم کے ارکان کے علاوہ سندھ کے مختلف اضلاع کے محکمہ زراعت کے افسران نے دربار ہال اجلاس میں صوبائی وزیرزراعت کو ٹڈل دل کے خاتمے، اورفصلوں کو ہونے والے نقصان کے بارے میں بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹڈیوں کے بچوں سے گندم، سرسوں سمیت دیگر کاشت کی گئی فصلوں کو خطرات لاحق ہیں۔ بعدازاں پلانٹ پروٹیکشن ٹیم کے کیپٹن ریٹائرڈ محمد زمان چیمہ نے فرائیڈے اسپیشل سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ محکمے کے پاس صرف پانچ جہاز تھے جن میں دو جہاز برسوںپہلے خراب ہو گئے تھے اور کینیڈا سے خریدے گئے جدید ٹیکنالوجی کے حامل بیور جہاز کے ذریعے ٹڈل دل پر اسپرے کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی وزیر کی، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے پاس بیس جہاز اور ان میں سترہ خراب ہونے کی بات درست نہیں۔ کیپٹن ریٹائرڈ محمد زمان چیمہ نے کہا کہ بیور جہاز ساڑھے پانچ گھنٹے فضا میں رہ سکتا ہے اور اب تک سندھ میں آٹھ ہزار ایکڑ رقبے پر ٹڈی دل پر اسپرے کیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صالح پٹ کی جانب ٹڈی دل کا رخ ہوگیا ہے اس لیے نواب شاہ کے بجائے صالح پٹ کے علاقے میں اسپرے کررہے ہیں، جبکہ جہاز کے علاوہ گاڑیوں کے ذریعے بھی اسپرے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوسی سہیلو، آمر جی، ادبھاری ساوڑی اور تین چک کے علاقے میںفضائی، زمینی اسپرے کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ سندھ میں آخری ٹڈی کے خاتمے تک اسپرے جاری رکھا جائے۔
تاہم جہاں تک صوبائی وزیر اسماعیل راہو کے تحفظات کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ جوں جوں ٹھنڈ بڑھتی جارہی ہے ماہرین کے مطابق ٹڈی دل کا واپس ایران اور یمن سے ہوتے ہوئے اپنے گھر افریقہ کے اپنے ٹھکانے کی سمت کوچ کرنا ٹھیر گیا ہے۔ اور آنے والے دنوں میں ٹڈی دل کا ایشو مُردہ ہوچکا ہو گا۔ لیکن سندھ کے کاشت کار جو کہ نقلی بیج، کھاد اور زرعی ادویہ بیچنے والے مافیاز کے ہاتھوں اپنی فصل برباد کرا چکے ہیں، پہلے ہی زخم خوردہ تھے کہ اب شوگر ملز مالکان کی جانب سے ملیں نہ چلائے جانے پر پریشان ہیں۔ اور یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ گندم کے حالیہ بحران کے تناظر میں خدشہ ہے کہ شوگر ملیں نہ چلنے سے گنے کی لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصل کی وجہ سے گندم کی بوائی بھی نہیں ہوسکی۔ اس طرح آئندہ سیزن میں گندم کا بحران سر اٹھائے نظر آرہا ہے۔ صوبائی وزیر اسماعیل راہو کو اس جانب مزید توجہ دینی چاہیے، تاہم وہ اس معاملے میں شاید کچھ نہ کرسکیں، کیونکہ شوگر ملوں کے مالکان کون ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ صوبائی وزیراسماعیل راہو شوگر ملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط تھے۔ جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ شوگر ملوں کی اکثریت نے کرشنگ سیزن کا آغاز نہیں کیا ہے۔ اس بارے میں کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے کھیتوں میں کھڑے گنے سوکھنے سے وزن کم اور مٹھاس بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے کاشت کار کی آمدن میں کمی اور شوگر ملوں کے منافع میں اضافہ متوقع ہے۔