ہم اور ہمارا معاشرہ

ہماری تمام خامیوں کا ایک بڑا سبب ہمارا تعلیمی نظام ہے

ڈاکٹر معین الدین عقیل
ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کی یہ کتاب: ’’ہم اور ہمارا معاشرہ‘‘ بظاہر ایک مستقل تصنیف نہیں، مضامین اور کالموں کا مجموعہ ہے، تاہم اس عنوان سے اس کا موضوع بہت واضح ہے۔ اگرچہ طاہر مسعود صاحب حالیہ دو تین دہائیوں کےدوران شعبۂ صحافت میں تدریس سے منسلک ہیں اور اس زمرے میں ان کی شناخت ایک استاد اور اردو صحافت کے ایک ایسے محقق و مصنف کی ہے جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت اور ساری ہی اردو دنیا میں ایک شہرت و امتیاز کا حامل ہے۔ ان کی شخصیت اور ان کے تصنیفی کام ہمارے لیے قابلِ قدرہیں۔ یہی ان کی شخصیت اور ان کی زندگی کا ایک اہم اور بنیادی حوالہ ہے۔ لیکن اُن سے میری دیرینہ و طویل وابستگی ہے، اور یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں۔میں نے ابتدامیں انھیں ایک کالم نویس کے طور پر دیکھا جو نہایت شگفتہ طرزِ اسلوب میں زندگی اور معاشرے کے قابلِ توجہ موضوعات اور مسائل پر کالم لکھتے رہے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے مشاہیرِ علم و ادب کے انٹرویو اخبار ’’جسارت‘‘ کے لیے لکھنے شروع کیے جو اپنے اسلوب، اپنے تیکھے سوالات اور ان کے پُرمغز و دل چسپ جوابات اور پھر ان شخصیات کے انتخاب کی وجہ سے کہ جن کے انٹرویو کیے گئے، اور جو ادب اور علم کی دنیاکے لیے نہ اجنبی تھے، نہ غیر معروف، ساری اردو دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ بعض انٹرویوز میں بیان کردہ مباحث اور بیانات نے تو پاکستان اور بھارت کی ساری ادبی دنیا کو خاص طور پر نہ صرف متوجہ کیا بلکہ ایسے مباحثوں کا بھی آغاز کیا جن کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کے کیے ہوئے بعض انٹرویو تو ایسی شخصیات کے تھے اور ان میں کہی ہوئی باتیں نظریاتی طور پرایسی تھیں کہ جو اخبار ’’جسارت‘‘ کے اصولوں اور نظریات سے متصادم تھیں، لیکن اس کے مدیر محمد صلاح الدین شہید کی روشن خیالی اور وسعت قلبی نے اخبار کی درپردہ دنیا کے تحفظات کے باوجود ایسے انٹرویوز کی اشاعت کو جاری رکھنا پسند کیا۔
ان انٹرویوز کے ساتھ ساتھ طاہر مسعود صاحب نے اُسی دور میں اپنے ہم عصر مشاہیر علم و ادب کے خاکے بھی لکھنے شروع کیے جو ایک جانب موضوعی شخصیات کی وجہ سے اور دوسری جانب طاہر مسعود صاحب کے بیان کردہ اپنے شخصی تاثرات اورذاتی روابط اور اپنے تجربات و مشاہدات کے علاوہ ان کے اسلوب کی وجہ سے ہر سطح کے قاری کے لیے پُرکشش اور دل چسپ ہوتے اور اپنے میں آئندہ کے لیے ایک ماخذ بننے کی صلاحیت بھی رکھتے، چناں چہ ان کے انٹرویو اور ان کے لکھے ہوئے خاکے متعلقہ افراد کے بارے میں ایک ماخذ کی حیثیت بھی رکھتے ہیں جو اُن سے متعلق مطالعات کے لیے معاون ہیں اور معاون ثابت ہوتے رہیں گے۔
لیکن اپنے کالموں، انٹرویوز اور خاکوں سے بڑھ کر، جن میں سے ہر ایک کی اگرچہ ایک مستقل اہمیت بھی ہے، ایک بہت بڑا اور منفرد و یادگار کام وہ تحقیقی و تصنیفی مطالعات ہیں جو طاہر مسعود صاحب نے انجام دیے ہیں اور جن کی وجہ سے بھی طاہر مسعود صاحب علمی و ادبی دنیا میں ایک بلند مقام و منزلت تک پہنچے ہیں، اور اس طرح سے یہ کام کیے ہیں جو ان کے موضوعات ِ دل چسپی میں اس معیار اور اس گہرائی و وسعت سے اور جدید تحقیقی و سائنٹیفک اصولوں کے تابع رہ کر جدید اردو دنیا میں کسی نے نہیں کیے۔ یعنی ہم بلاتکلف مولانا امداد صابری صاحب، عتیق صدیقی صاحب، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید صاحب، نادر علی خان اور حالیہ عرصے کے چند اور مصنفین کے کاموں کو ضرور سراہ سکتے ہیں، لیکن تحقیقی مزاج اور نوعیت کے لحاظ سے ان کاوشوں اور ان انکشافات کو، بمثل: ’’فہرست اخبارات ہند‘‘(ازمنشی محبوب عالم) اور ’’اخبار نویسوں کے حالات‘‘(ازمحمد دین فوق) اردو صحافت کی تاریخ کے ضمن میں طاہر مسعود صاحب کے ایسے کام ہیں جن کے بغیر اردو صحافت کے ماضی کی تاریخ کا تحقیقی حوالے سے کوئی کام معیاری نہیں ہوسکتا۔ پھر ان سب سے بڑھ کر اردو صحافت کے دور اول کی تاریخ: ’’انیسویں صدی میں اردو صحافت کی تاریخ‘‘ ان کا مبسوط مطالعہ ہے جو اپنی معلومات، اپنے مباحث اور اپنے مشمولات کے اعتبار سے اردو میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ اس پر مستزاد طاہر مسعود صاحب بہت جلد اس میدان میں علمی لحاظ سے ایک اور بہت بڑا دھماکا بھی کرنے والے ہیں جو اردو صحافت کی انیسویں صدی ہی کی تاریخ میں بہت وقیع انکشافات پر مشتمل ہوگا، جو دراصل اردو صحافت کی سب سے پہلی تاریخ ’’اخترشہنشاہی‘‘ کی تدوین وترتیب ہے جو 1888ء میں چھپی تھی اور یکسر نایاب تھی، اب اسے طاہر مسعود صاحب نے اپنے حواشی اور مقدمے کے ساتھ مرتب کیاہے جو ان کا اس میدان میں ایک اہم کارنامہ شمار ہوگا۔
بطور پس منظر، طاہر مسعود صاحب کی ان کاوشوں سے قطع نظر، طاہر مسعود صاحب کی تحریروں کا تازہ مجموعہ:’’ہم اور ہمارا معاشرہ‘‘ اس وقت پیش ِ نظر ہے۔ اس کا بنیادی موضوع ’معاشرہ‘ ہے اور معاشرہ وہ جو فاضل مصنف کے پیش نظر ہے، اور جس صورت میں ہے یقیناً وہ ہر اُس شخص کے تجربے اور مشاہدے میں ہے جو اس میں رہتا ہے اور اس میں ہر طرح سے ڈوبا ہوا ہے۔ اگرچہ اس میں شامل تحریروں کا بنیادی موضوع اور محور معاشرہ ہے لیکن یہ کلی حیثیت میں سامنے نہیں، یہ متنوع پہلوؤں سے مصنف کو اپنی جانب، یا اپنے میں، متوجہ کرتا رہا ہے، اس لیے ان تحریروں میں معاشرت و تہذیب سے متعلق موضوعات بھی ہیں، اخلاق وروایات، انسان اور اس کے محسوسات، رویّے اور تعصبات بھی موجود ہیں، اور پھر مذہب وسیاست بھی اس کے مباحث میں شامل ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر تعلیم میرے خیال میں ان تحریروں کا سب سے بڑا، اہم اور فکر انگیز موضوع ہے۔ موضوعات کے لحاظ سے اگر دیکھیے تو دیگر تمام موضوعات سے زیادہ عنوانات اور مباحث اس کتاب میں تعلیم ہی سے متعلق ہیں۔ اس کی دو وجوہات مجھے نظر آتی ہیں:
ایک یہ کہ مصنف کی پیشہ ورانہ اور عملی زندگی کا دارو مدار بڑی حد تک تعلیم اور تدریس پر رہا ہے، اور تعلیم اور نظامِ تعلیم ان کے راست تجربات و مشاہدات کا صبح سے شام تک کا مسئلہ رہے ہیں، اور کچھ عجب نہیں کہ ان کے خوابوں کا بھی شاید یہی ایک موضوع ہو۔ ان کی دوستی، روابط و تعلقات اور معاشی و معاشرتی مشاغل کا بڑی حد تک انحصار چوں کہ تعلیم اور نظام تعلیم سے رہا ہے اس لیے اس کے مسائل و معاملات اور عواقب و حاصلات ضرور تعلیم اور اس کے نظام سے متعلق ہیں، اس لیے وہ خوب خوب اس کے مسائل و محاسن اور معائب سے واقف رہتے ہیں اور جب جب یہ سب انھیں کسی طور مضطرب کرتے ہیں تو یہ قلم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
تعلیم سے متعلق موضوعات کو اختیار کرنے کا دوسرا محرک میرے خیال میں یہ ہے کہ مصنف موجودہ یا اپنے عہد کے نظام تعلیم سے مطمئن نہیں، اور متعدد صورتوں میں اسے قابلِ اصلاح اور معاشرے کے موجودہ مسائل اور عیوب کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ اور یہ درست بھی ہے۔ بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ آج ملک و قوم اور سیاست و معاشرت کے سارے مسائل کی ذمے دار ہماری تعلیم یا ہمارا تعلیمی نظام ہے جو اس حد تک فرسودہ اور بے ثمر ہے کہ ہم تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے تعلیمی نظاموں سے بھی پست اور بدتر نظام کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جس میں نہ کوئی اصلاح اور بہتری کی ضرورت محسوس کرتا ہے، نہ اس کی ذمے داری کے تعین کا کسی کو احساس ہے۔ اگر ہمارا تعلیمی نظام ہماری روایات اور ہماری قوم کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جاتا اور اس میں بہتری پیدا کی جاتی تو سارے ملک کا نظام تعلیم، نصابِ تعلیم اور ذریعۂ تعلیم ایک ہوتا جو قومی تقاضوں کے مطابق ہوتا۔ لیکن پچھلے دو سیاسی ادوار، جنھیں ہم ایوب خان اور ضیاالحق کے مارشل لاؤں کے ادوار کے طور پر پہچانتے ہیں، کم از کم ایم ایم شریف تعلیمی کمیشن اور کچھ عرصے بعد نورخاں تعلیمی کمیشن کی سفارشات کے طور پر دیکھتے ہیں، جن میں ہمارے ملک کے لیے ایک نصاب اور ایک ذریعۂ تعلیم کو ضروری قرار دیتا ہوا دیکھ چکے ہیں، لیکن افسوس کہ 1972ء میں تعلیم کے قومی ملکیت میں لیے جانے اور کوٹہ سسٹم کے نافذ کیے جانے کے بعد ہم واقعتاً کہیں کے نہ رہے۔ سب سے پہلے خود ہمارا تعلیمی نظام برباد ہوا جو اب تک برباد ہے، بلکہ مزید برباد ہوگیا ہے۔ قومی زبان کو خاطر خواہ اہمیت نہ دے کر ہم بے زبان ہوگئے اور کسی ایک زبان پر بھی ہمیں قدرت حاصل نہ ہوسکی۔ کوٹہ سسٹم نے درس گاہوں اور تعلیمی اداروں کو نااہلوں اور بددیانت اور بدعنوان افراد سے اس طرح بھر دیا کہ اہل اور قابل افراد نظرانداز ہوگئے، اور جو باقی رہے اپنے جائز حقوق سے محروم کردیے گئے، چناں چہ یہ عمل ہمارے تعلیمی و تحقیقی اداروں کی تباہی کا ایک سب سے بڑا سبب بن گیا۔ تو اس طرح ہمارے معاشرے کو کیا ملتا؟ سب سے زیادہ نقصان کوٹہ سسٹم نے تعلیم کو دیا ہے، اور نااہل اور بددیانت اساتذہ اعلیٰ و ارفع علمی و تعلیمی اور تحقیقاتی اداروں میں پہنچ گئے بلکہ اعلیٰ مناصب پربھی چھاگئے۔ اس طرح آج ہمارے معاشرے میں ساری خرابیوں کا بڑا سبب وہ اساتذہ ہیں جو نااہل بھی ہیں اور اپنے فرائض سے بے نیاز بھی ہیں۔ ان کی زندگیوں کا سارا محور یافت میں اضافہ اور اعلیٰ مناصب کا حصول رہتا ہے۔ نہ ان میں اپنی کمزوریوں کو دور کرنے اور اپنی لیاقت میں اضافے کا جذبہ ہوتا ہے اورنہ متعینہ فرائض کی ادائیگی ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ اپنے لیے ان مفادات کے حصول کے لیے چاہے کیسے ہی ناروا اور غیر قانونی و غیراخلاقی اقدامات ہوں وہ انھیں اختیار کرنے سے نہیں چوکتے۔ پھر دیکھا جائے تو یہی اساتذہ صحافی بھی بناتے ہیں اور وکیل اور منصف بھی بناتے ہیں۔ تو پھر ملک میں لیاقت، دیانت اور انصاف کیسے روبہ عمل آسکے گا؟ چناں چہ ہمارے معاشرے میں طاہر مسعود صاحب جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ انھیں مضطرب و بے کیف نہ رکھے اور ایسے کالم اور مضامین نہ لکھوائے تو کیا کرے؟
طاہر مسعود صاحب نے تعلیم اور تعلیمی نظام کے تحت بھی اپنے زاویوں سے اپنے معاشرے کوجس طرح دیکھا ہے، یہ خوش آئند ہے۔ لیکن کاش ہمارے اربابِ اختیار بھی اپنے ملک و قوم اور اپنے اس معاشرے کو تعلیم کے حوالے سے دیکھیں اور اس کی بہتری اور اصلاح و تعمیر کے لیے ایسا کچھ کرلیں کہ اپنے فرائض اس مناسبت سے ادا کیے جاسکیں۔ بہرحال طاہر مسعود صاحب نے اپنی ان تحریروں میں تعلیم اور تعلیمی نظام پر جو کچھ خیالات پیش کیے ہیں وہ ایک نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ ہمارے سامنے آئے ہیں۔ لیکن اب ہم اور آپ سب مل کر دعا کریں کہ ارباب ِاقتدار ملک و معاشرے کے سب سے اہم عامل تعلیم کو اپنی ہر طرح کی خامیوں کو دور کرنے، اپنی اصلاح کرنے اور ترقی و بہتری لانے کے لیے ضروری شعور خود میں پیدا کریں جو موجودہ اربابِ اختیار میں دور دور تک کسی میں نظر نہیں آتا! یعنی شدید المیہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی وزیر تعلیم نے اپنے سوا سال کے عہدِ اقتدار میں ایک دو مواقع کے سوا شاید ہی کسی موقع پر تعلیم کے مسائل کو سمجھنے اور جانچنے و پرکھنے کا کوئی اہتمام کیا ہو، اور تعلیم کے فروغ اور نصاب کی بہتری کے لیے کوئی منصوبہ بنایا یا بنانے کی کوشش کی ہو، اور اردو زبان کے بطور ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کی بابت کچھ سوچا ہو۔ اس صورت میں موجودہ عہدِ حکومت میں تعلیم کی بہتری و اصلاح کی کیسے کوئی امید لگا سکتا ہے!اس مایوس کن صورت حال میں ہم اور ہمارا معاشرہ کیا فلاح پاسکیں گے؟ چناں چہ طاہر مسعود صاحب کے لیے شاید طمانیت ِقلب کی کوئی صورت ابھی نظر نہیں آتی! انھیں ابھی کڑھنا ہوگا اور ایسی مزید کتابیں یا کم از کم مضامین لکھنے ہوں گے۔