محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
تاریخی شہر شکارپور سے تعلق رکھنے والے حسیب الرحمٰن المعروف حسیب نایاب منگی کا شمار بھی شاعر مشرق علامہ اقبال کے پسندیدہ ایسے ہی نوجوانوں میں ہوتا ہے، ہمہ وقت محنت اور جستجو جن کا شعار ہے۔ حسیب نایاب ایک بڑی علمی اور ادبی شخصیت نقش نایاب منگی کے ایک ایسے ہونہار اور باصلاحیت صاحب زادے ہیں جو نسبتاً کم عمری ہی میں اپنے مرحوم والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے معیاری علمی اور ادبی کام کی وجہ سے خاصی نیک نامی، شہرت اور مقبولیت حاصل کرکے دیگر ایسے نوجوانوں کے لیے ایک قابلِ رشک اور عمدہ مثال بن گئے ہیں جو بجائے اپنی سہل پسندی کو ترک کرکے آگے بڑھنے کے، بلاسبب ہی ناسازگار حالات کا رونا رونے میں لگے رہتے ہیں۔
شکارپور شہر کا ہاتھی در وہ علاقہ ہے جہاں سامی اور شہید اللہ بخش سومرو جیسی بڑی شخصیات نے جنم لیا تھا۔ حسیب نایاب منگی نے بھی 2 جنوری 1989ء کو معروف محقق اور ادیب نقش نایاب منگی کے ہاں جس گھر میں جنم لیا وہ بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔ حسیب نے اپنی ابتدائی تعلیم شاہ حسین گورنمنٹ پرائمری اسکول شکارپور سے حاصل کی۔ گورنمنٹ قاضی حبیب اللہ ہائی اسکول سے میٹرک، گورنمنٹ شاہ عبداللطیف آرٹس کامرس کالج شکارپور سے بی اے کرنے کے بعد امتیازی حیثیت سے ایم اے سندھی کی سند شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے حاصل کی اور اسی جامعہ سے انہوں نے بی ایڈ اور ایم ایڈ کی اسناد بھی حاصل کیں۔ اب گزشتہ دس برس سے جیکب آباد کے ایک معروف تعلیمی ادارے ’’گل ماڈل سائنس کالج‘‘ میں بطور لیکچرر سندھی کے، فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اس کے انتظامی امور بھی نمٹاتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں۔ حسیب کا ادبی سفر 1999ء میں اُس وقت شروع ہوا جب موصوف نے بچوں کی کہانیاں، نظمیں اور مضامین شکارپور، حیدرآباد اور کراچی سے شائع ہونے والے بچوں کے رسائل میں بہ غرضِ اشاعت ارسال کیے اور وہ ان میں چھپنے لگے۔ گویا ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ کے مصداق محض دس برس کی عمر میں ہی ان کی تحاریر شائع ہونے لگی تھیں۔ 2003ء سے انہوں نے باقاعدہ مضامین لکھنے شروع کیے۔ اسی برس انہوں نے اپنے والد کی لائبریری کو سنبھالنا بھی شروع کیا۔ حسیب کو چھوٹی عمر ہی سے کتابیں، رسالے اور اخبارات خریدنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ والد مرحوم سے ان کی ورثے میں ملنے والی کتابیں، رسائل اور عکسی نقول پر مبنی سارا مواد بھی انہوں نے بڑی چاہت سے سنبھال کر رکھا ہوا ہے، اور خود بھی مطالعے کے لیے اکثر نئی شائع ہونے والی کتب خریدتے رہتے ہیں۔ حسیب کی ایک منفرد پہچان اور حوالہ ان کا شہر شکارپور بھی ہے، جس پر وہ تاحال نہ صرف پچاس سے زائد مضامین مختلف اخبارات اور جرائد میں لکھ چکے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے شہر کی ایک سو سے زیادہ معروف علمی اور ادبی شخصیات پر بھی مضامین لکھے ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’شکارپور، تاریخ کے آئینے میں‘‘ حال ہی میں منصۂ شہود پر آئی ہے۔ یہ کتاب دراصل ان کی مرتب کردہ ہے۔ اشاعت کی منتظر دیگر طبع زاد کتب میں ’’شکارپور جو تاریخی مطالعو‘‘ اور ’’شکارپور جا امرکردار‘‘ شامل ہیں۔ ’’شکارپور تی ہک نئین نظر‘‘ ان کے شائع ہونے والے چالیس کالموں کا مجموعہ ہے جو وہ ہر ہفتے سندھی زبان کے ایک مشہور سنڈے میگزین میں لکھاکرتے تھے۔ یہ کتاب بھی وسائل کی کمی آڑے آنے کے باعث تاحال شائع نہیں ہوسکی ہے۔ ان کی ایک کتاب ’’شکارپور ایک تشریحی ببلوگرافی‘‘ بڑی محنت اور محبت سے مرتب کردہ ہے۔ اس نوع کا کام تو ادارے بھی بہ مشکل کرپاتے ہیں، جسے نوجوان حسیب نے تن تنہا سرانجام دیا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے شکارپور سے متعلق ایک ایسی کتاب بھی ترتیب دے رکھی ہے جو اس شہر کی تاریخ کے حوالے سے ایک پورے دور کا مؤثر احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے شکارپور کی ایک نامور علمی اور ادبی شخصیت حبیب اللہ بھٹو مرحوم کے شکارپور سے متعلق لکھے گئے سارے مضامین بھی بڑی محنت سے جمع کرکے کمپوز کرا رکھے ہیں، اس امید پر کہ وسائل میسر آئے تو اشاعت بھی ہوہی جائے گی۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے والد مرحوم نقش نایاب منگی کی شخصیت پر بھی دو کتابیں مرتب کرکے رکھ چھوڑی ہیں، جو اشاعت کی منتظر ہیں۔ ان کی تحریر کردہ پچیس سندھی کہانیوں کا ایک غیر مطبوعہ مجموعہ بھی موجود ہے۔ یہ سب کہانیاں انہوں نے ہندوستان کے سنڈے میگزین ’’دی ہندواسی‘‘ ممبئی میں لکھی تھیں۔ حسیب نے کئی نثری نظمیں بھی لکھی ہیں۔ انہوں نے متعدد تاریخی مضامین اور کہانیوں کا دوسری زبانوں (اردو، انگریزی) سے بزبان سندھی ترجمہ بھی کیا ہے۔ شکارپور تو لگتا ہے کہ ان کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔اپنی اس جنم بھومی سے محبت کے پیش نظر انہوں نے اس کے بارے میں بے حد منفرد نوعیت کے تحقیقی مضامین قلمبند کیے ہیں جن میں ’’شکارپور ء شاہ جی رسالی جو مطالعو‘‘، ’’شکارپور جی امام بارگاہن جی تاریخ‘‘، ’’شکارپور جی انڈر گرائونڈ ڈرینج سسٹم‘‘، ’’شکارپور میں ٹھندڑ کپڑے مان گلن جی تاریخ‘‘، ’’شکارپور میں سامی ساں وابستہ ماگن جو تعارف‘‘، ’’شکارپورجی تاریخ جو ابتدائی ورق، جتوئی پرگنو‘‘، ’’شکارپور جی عورتن جو سندھی ادب میں حصو‘‘، ’’شکارپور میں واپاری تعلیم جی مرکزی اوجھن جی تاریخ‘‘وغیرہ لائق مطالعہ اور قابل ذکر ہیں۔
انہوں نے شکارپور کی تاریخ سے متعلق دو کتب (غیر مطبوعہ) اردو میں بھی لکھ رکھی ہیں۔ حسیب فخریہ بتاتے ہیں کہ میں نے جب آنکھ کھولی تو اپنے والد کو لکھتے اور پڑھتے ہوئے دیکھا۔ والد مرحوم ہمیشہ مجھے اپنے قریب بٹھا کر کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ میں نے بھی ان کی صحبت میں پڑھنا اور لکھنا سیکھا۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنے والد مرحوم کے طفیل ہی سے ہوں۔ (حسیب کے والد مرحوم، نامور محقق اور ادیب، شاعر نقش نایابؔ منگی کا تفصیلی تعارف بھی قبل ازیں ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے ایک شمارے میںشائع ہوچکا ہے)۔
حسیب کی لائبریری شکارپور کی اچھی لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ ان کے والد مرحوم کی جمع کردہ کتب و رسائل حسیب کو ورثے میں تو ملے ہی ہیں، لیکن انہوں نے خود بھی بہ کثرت کتب اور رسائل خرید کر اپنی لائبریری کو مزید وسعت دی ہے۔ شکارپور کی تاریخ سے متعلق ہر نوع کی معلومات اور حوالہ جاتی کتب ان کی لائبریری میں موجود ہیں، اور موصوف مطلوبہ مواد تشنگانِ ادب کو اپنے مرحوم والد ہی کی طرح بڑی فراخ دلی سے مہیا کیا کرتے ہیں۔ حسیب دوستوں کے دوست ہیں، طبعاً ہمدرد طبع، خوش مزاج اور بے لوث فرد واقع ہوئے ہیں۔ اپنا بیشتر فارغ وقت مطالعہ کتب یا مختلف ادبی اور علمی موضوعات پر تحاریر لکھنے میں صرف کرتے ہیں۔ مستقبل میں ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ مزید نمایاں علمی اور ادبی امور سرانجام دیں گے۔ علامہ اقبال نے بھی ایسے ہی نوجوانوں کے لیے فرمایا تھا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
پسندیدہ کتاب :قرآن پاک اور شاہ جو رسالو،شخصیت:حضرت امام حسین ؓ،شاعر :شیخ ایاز اور نقش نایابؔ منگی،ادیب :نصیر مرزا۔ امر جلیل، لباس:شلوار قمیص ،خوراک: بریانی، موسم:بہار،مشروب: شربت صندل
پیغام: میرا آج کے نوجوانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اپنے ملک اور قوم کی خدمت کے لیے بیدار اور ہوشیار ہوجائیں۔ پاکستان کی دل و جان سے قدر کریں، اپنے اپنے شہروں کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں تاکہ اس سے ہمارا وطن خوش حال ہوجائے۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنے شہروں کی تاریخ کا مطالعہ بھی ضرور کرنا چاہیے تاکہ اس طرح سے ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ ہم کتنے باشعور اور مہذب ہیں۔