ڈاکٹر تحسین فراقی شخص اور شاعر

کتاب : ڈاکٹر تحسین فراقی شخص اور شاعر
مصنف : شکیل احمد
صفحات : 304
ناشر : دارالنوادر۔ الحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور
فون 0300-8898639
ڈسٹری بیوٹر : کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور
فضلی بک سپر مارکیٹ اردو بازار کراچی
ڈاکٹر تحسین فراقی فاضل استاد، بے نظیر محقق، بہترین مترجم، فہیم نقاد، قابلِ ذکر غالب اور اقبال شناس، عمدہ نثّار اور اعلیٰ شاعر ہونے کے ساتھ سچے مسلمان اور محبِ وطن پاکستانی ہیں۔ مجلسِ ترقیِ ادب جب سے ان کے زیرانتظام آئی ہے مجلس بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور اس کے ساتھ ہی علم و ادب بھی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کررہے ہیں۔ اس اجڑے دیار کو انہوں نے گلزارِ ہشتاد رنگ میں تبدیل کردیا ہے۔ ان کا اصل نام منظور اختر ہے۔ تحسین فراقی انہوں نے قلمی نام اختیار کیا جو اب معروف ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش 17 ستمبر 1950ء ہے۔ وہ پتوکی ضلع قصور میں جناب محمود اختر کے گھر پیدا ہوئے۔ آج وہ پاکستان کیا، برصغیر کے صفِ اوّل کے اہل علم میں شمار ہوتے ہیں۔
زیر نظر کتاب جناب شکیل احمد کے ایم فل کے مقالے ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری، فکری و فنی جائزہ‘‘ کی ترمیم و اضافوں کے بعد کتابی شکل ہے۔
کتابی نام ’’ڈاکٹر تحسین فراقی، شخص اور شاعر‘‘ کردیا گیا ہے۔
جناب شکیل احمد فرماتے ہیں:
’’اورینٹل کالج (لاہور) سے ایم اے اردو کی تکمیل کے بعد ایم فل اردو کی خواہش تھی لیکن غمِ روزگار زیادہ دل فریب نکلا۔ بطور لیکچرار شعبۂ اردو سے وابستگی کے بعد یہ خواہش مزید پختہ ہوئی، بالآخر 2011ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ کورس ورک کی تکمیل کے بعد مقالے کے انتخاب میں صدر شعبۂ اردو درویشِ خدا مست ڈاکٹر عبدالعزیز ساحرؔ کی رہنمائی میں موضوع کا انتخاب ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری، فکری و فنی جائزہ‘‘ کی صورت میں طے پایا۔ ساحر صاحب کی وسعت ِ قلب و نظر اور اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے ان کے جنون سے بطور طالب علم میں ازحد متاثر ہوا۔ تشنگانِ علم و ادب کے لیے ایسی ’’شجرِ سایہ دار‘‘ ہستی کو اللہ رب العزت ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھے۔
میرے لیے یہ بات باعثِ مسرت و افتخار ہے کہ میں نے مقالے کی تکمیل ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی نگرانی میں کی۔ استادِ محترم ڈاکٹر ارشدمحمود ناشاد صاحب نے قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائی۔ ان کی شخصیت سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری کا حسین مرقع ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کا تہِ دل سے ممنونِ احسان ہوں کہ انہوں نے میری اس قدر رہنمائی فرمائی کہ میں یہ سطور لکھنے کے قابل ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے اور ان کا اقبال بلند فرمائے۔
مقالے کا باب اوّل ’’تحسین فراقی کی شخصیت، حیات اور خدمات‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ان کا خاندانی پس منظر، تعلیم، ملازمت، ادبی سرگرمیاں، شعر گوئی کا آغاز اور ان کی تصانیف کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اندرون و بیرون ملک ان کی تعلیمی خدمات اور منصبی مصروفیات کا اختصار سے بیان کیا گیا ہے۔ بطور ناظم مجلسِ ترقیِ ادب لاہور، فراقی صاحب کے کارہائے نمایاں اور مستقبل میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے مختلف منصوبوں کے عزائم بھی بابِ اوّل کے آخر میں بیان کیے گئے ہیں۔
دوسرے باب میں ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کی غزل کا فکری و فنی جائزہ‘‘ پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی عہدِ رواں کی ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ مقدور بھر کوشش کی گئی ہے کہ اس مقالے میں ان کی شاعرانہ جہات کے مختلف پرتو آشکار ہوں۔ غزل کی روایت تحسین فراقی کے ہم عصر شعرا کے ہاں جن فکری و فنی رویوں سے ہم آہنگ تھی فراقی صاحب پر اس روایت کی اثر پذیری بیان کی گئی ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کی غزل کے نمائندہ موضوعات اور فنی خصائص کو قلم بند کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
باب سوم میں ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کی مذہبی و فنی شاعری‘‘ کے عنوان سے ان کی شاعری میں مذہب و ملّت کے ساتھ گہرے روابط کا ذکر ہے۔ مذہب و ملت کے حوالے سے ان کے افکار اور مسلم نشاۃ الثانیہ کی شدید خواہش، عصرِ حاضر میں اتحادِ ملّتِ اسلامیہ کے حوالے سے فراقی صاحب کے نظریات کو نظم کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے۔
باب چہارم میں ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کی نظم کا فکری و فنی جائزہ‘‘ لیا گیا ہے، نیز ان کے منظوم تراجم کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
باب پنجم میں ’’ڈاکٹر تحسین فراقی کا معاصر شعرا میں فکر و فن کے حوالے سے مقام‘‘ متعین کیا گیا ہے۔
یہاں ہم ان کی شاعری اور شخصیت کے متعلق اردو زبان و ادب کے ادباء، ناقدین اور شعرا کی آرا درج کرتے ہیں۔
میرزا ادیب ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری پر اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ہمارے پرانے تذکرہ نگاروں کی تحریروں میں مختلف شاعروں پر رائے زنی کرتے ہوئے فصاحت اوربلاغت کا استعمال عام ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں تحسین فراقی کے ہاں فصاحت تو ہے ہی، مگر جس چیز کو بلاغت کہا جاتا ہے وہ بہت نمایاں ہے۔ شاعر کو لفظوں کی گہری مزاج شناسی کا جوہر حاصل ہے۔ ان کا اسلوب بلیغ ہے۔ تحسین فراقی ایک خلّاق ذہن کے مالک ہیں۔ ان کی تخلیقی کارگاہ سے جو سازوسامان برآمدہوتا ہے اس کا اپنا حسن، اپنی افادیت ہے‘‘۔
نامور نقاد اور ادیب شمس الرحمٰن فاروقی تحسین فراقی کی قدرتِ کلام اور دردمندی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نقاد لوگ بمشکل ہی اچھے شاعر ہوتے ہیں… اب تحسین فراقی کا مجموعہ (شاخ زریاب) ہاتھ آیا تو نام مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں نے ڈرتے ہوئے سوچا، شاید یہ بھی نقاد شاعر/ شاعر نقاد کی قبیل کا مجموعہ ہے، لیکن کتاب کے ورق الٹے تو ہوش اڑ گئے۔ واللہ یہ شاعری ہے۔ ’نعتیہ شہر آشوب‘ جیسا کلام، مومنؔ کے بعد نظر نہیں آیا تھا… مومنؔ جیسی قادرالکلامی نہ سہی، استعارے کا اتنا وفور نہ سہی، لیکن انداز وہی ہیں، جوش وہی ہے، دل وہی ہے، اور دل کا درد وہی ہے۔ اس طرح جوان بیٹے کی موت پر جو نظمیں ہیں ان کی قوت، ان کا درد، ان کی بلاغت درجۂ کمال تک پہنچی ہوئی ہے۔ فارسی کا کلام تھوڑا سا ہے لیکن برجستہ ہے۔ تھوڑا بہت ہم سبک ہندی (ہندی فارسی) والوں کا رنگ ہے، کچھ خسرو کے یہاں سے خوشہ چینی کی ہے۔ نتیجہ خوشگوار ہے‘‘۔
خالد علیم ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعرانہ صلاحیتوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنی شاعری میں داخلی و خارجی کیفیات کو بڑے پُراثر اور پُرشکوہ انداز میں شعری قالب میں ڈھالا ہے۔ کہیں اندھی تقلید نظر نہیں آتی بلکہ اپنے ہم عصر شعرا کے درمیان وہ اپنا الگ اور منفرد راستہ بناتے نظر آتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری پر ان الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں: ’’تحسین فراقی مختلف شعری اصناف مثلا غزل، پابند نظم، آزاد نظم، نعت، رباعی وغیرہ پر یکساں مہارت سے لکھنے پر قادر ہیں۔ اگرچہ ان کے کلام پر عموماً کلاسیکیت کا پر تو دکھائی دیتا ہے مگر اس کے باوجود یہ جدت سے محروم نہیں‘‘۔
جناب شکیل احمد تحریر فرماتے ہیں: ’’تحسین فراقی نے اقبال کے نظریات کا ملخص خوب صورتی اور شاعرانہ مہارت سے عمدگی کے ساتھ اپنی نظموں میں سمو دیا ہے۔ صناع، بدائع اور علم البیان کے استعمال میں ان کی فنی چابک دستی نمایاں ہے۔ تحسین فراقی ملک و ملت کی محبت کے ساتھ ساتھ ان شخصیات سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں جن کی زندگیاں اسلام کے لیے وقف رہیں۔ عالم اسلام کے لیے تڑپ اور درد رکھنے والی بیسویں صدی کی شخصیات میں ایک بڑا نام ابوالاعلیٰ مولانا سید مودودی کا ہے۔ مولانا مودودی کی اسلام اور مسلمانوں کے لیے خدمات بے پایاں ہیں۔ انہوں نے اسلامی تعلیم و نظریات کے لیے ساری زندگی وقف کردی۔ ہر محاذ پر اسلام کا دفاع کیا۔ موتِ عالِم کو موتِ عالَم کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ابوالاعلیٰ مودودی کی وفات کو سانحہ عظیم قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی وفات بڑا المیہ ہے کہ قوم و ملت ان کی رہنمائی سے محروم ہوگئی ۔ ایسی نابغۂ روزگار ہستی فلک کی صدیوں کی گردش کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ نظم ’’بیادِ سید مودودی‘‘ ان کے فکر و فن کے خصائص کی نمائندہ نظم ہے۔ مولانا مودودی کے بارے میں ڈاکٹر تحسین فراقی رقم طراز ہیں:
’’مولانا نے ہر فکر کو جانچا، ہر دبستان کو پرکھا، ہر مکتبۂ فکر کو آنکا، ہر فراز کو دیکھا اور ہر نشیب میں جھانکا۔ ان کی سب سے بڑی متاع تمسک بالقرآن اور تعلق بالسنہ تھی۔ مولانا کی قلمی لڑائی یک رخی اور یک طرفہ نہیں تھی۔ انہیں چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ انہیں بیک وقت سیکولرازم، سوشلزم، کمیونزم، مغربی طرزِ جمہوریت، اتحاد، تشکیک، جعلی تصوف، مردم بیزار اور معاشرہ گریز سریت، باطنیت اور تہذیبِ مغرب کے خلاف شمشیر بکف ہونا پڑا۔ تدین، تدبر، تفکر، تعمق، تحقیق، تفتیش، تعدیل، تعبیر، تشریح اور تعیین ان کے بنیادی ہتھیار تھے جن سے وہ عمر بھر مسلح رہے اور ہر دبستانِ فکر کی کنہ تک پہنچنے میں کوشاں رہے‘‘۔
گو کتاب کا تعارف طویل ہوگیا ہے لیکن ہم اس کو فراقی صاحب کے نعتیہ اشعار پر ختم کرتے ہیں:۔

سانسوں میں ترے نام کے نافے کی ہے خوشبو
سینے میں ترا زمزمۂ ذکر تپاں ہے
ہونٹوں پر درودوں کی شفق پھول رہی ہے
اور آنکھ سے بارانِ گہر بار رواں ہے
تُو نغمۂ فردوس و غنائے دفِ جاں ہے
تُو زمزمۂ تارِ ربابِ دو جہاں ہے

کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔ سادہ مگر رنگین سرورق سے مزین ہے۔