پیشکش : ابوسعدی
کنیت ابوالحسن، ابوتراب اور لقب حیدر ہے۔ والد کا نام ابو طالب اور والدہ فاطمہ بنت ِ اسد تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ چھوٹی عمر کے لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ بے مثال خطیب، عظیم سپہ سالار اور صاحبِ فکر و بصیرت تھے۔ ان کا عہدِ طفولیت حضورؐ کی تربیت میں گزرا۔ مکہ مکرمہ کے تیرہ کٹھن برسوں میں آپؐ کے ہمراہ رہے۔ ہجرت کے موقع پر اہلِ مکہ کی امانتیں ان کے سپرد ہوئیں۔ پھر مدینہ تشریف لے آئے۔2 ھ میں حضورؐ کے داماد ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت فاطمہؓ سے نکاح ہوا اور ان کے انتقال تک کسی عورت سے شادی نہیں کی، بعد میں متعدد شادیاں کیں، جن سے متعدد اولادیں بھی ہوئیں۔ غزوات میں دادِ شجاعت دی۔ خلافتِ صدیقی میں ذرا توقف سے بیعت کی، مگر پھر بہترین تعاون کا اظہار کیا۔ خلافت ِفاروقی میں مدینہ کے قاضی بنے۔ حضرت عمرؓ کو اپنا داماد بھی بنالیا۔ حضرت عمرؓ بھی ان کی رائے کی قدر کرتے تھے اور ایک مرتبہ یوں فرمایا کہ اگر آج علیؓ نہ ہوتا تو عمرؓ ہلاک ہوجاتا۔ فقہی معاملات، فوجی مہمات اور ریاستی انتظامات میں خلافت ِفاروقی کے مشیر رہے۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو ان کی بیعت کی اور آخر تک دست و بازو رہے۔ ان کی شہادت پر خلافت کا بارِگراں انہی نے سنبھالا، مگر قصاصِ عثمانؓ کے مسئلے نے جنگ ِجمل، جنگ ِصفین اور جنگ ِنہروان جیسے مسائل کھڑے کردیے۔ خوارج کے فتنے نے انہیں شدید پریشان رکھا۔ یہ گروہ اپنی انتہا پسند تقشف کی تحریک میں حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو رکاوٹ سمجھتا تھا، چنانچہ تین خارجیوں نے باہم طے کیا کہ ایک معین دن کو نمازِ فجر میں ان تینوں حضرات کو قتل کردیا جائے۔ ابنِ ملجم نے حضرت علیؓ پر کاری وار کیا، جس کے نتیجے میں 17 رمضان 40ھ کو وہ شہید ہوگئے۔ ان کا زمانہ خلافت چار سال اور نو ماہ کا ہے۔ تمام کبار صحابہؓ کی طرح حضرت علیؓ بھی بہت عابد و زاہد تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تعلیم کو جن صحابہ نے بطور خاص پھیلایا، ان میں انؓ کا نام بہت ممتاز ہے۔ تصوف کے متعدد سلسلے ان کی طرف منسوب ہیں۔ اسلامی تاریخ میں بہت سی باطنی تحریکوں نے ان کی شخصیت سے عقیدت و ارادت ظاہر کی ہے، مگر ان تحریکوں کے گمراہ کن افکار و تصورات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
سرسید اور انگریز جج
ایک دفعہ سرسید کہیں جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے۔ چند دوست بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کا سامان فرسٹ کلاس کے ڈبے میں رکھ دیا گیا اور آپ اپنے دوستوں کے ساتھ پلیٹ فارم پر باتوں میں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں ایک انگریز بھی اسی ڈبے میں آگیا۔ سرسید کا سامان دیکھ کر قلی سے پوچھا کہ یہ کس کا سامان ہے؟ قلی نے اشارے سے بتایا کہ ان کا ہے۔ انگریز غصے میں آگیا اور قلی سے کہہ کر یہ سامان باہر پلیٹ فارم پر رکھوا دیا۔ سرسید نے اپنا سامان باہر دیکھا تو قلی سے کہا کہ سامان اندر رکھ دو۔ اُس نے رکھا ہی تھا کہ گاڑی چل دی اور سرسید بھی جھٹ اندر داخل ہوکر بیٹھ گئے۔ اس پر وہ انگریز جھنجھلا کر بولا: جانتے نہیں میں ہائی کورٹ کا جج ہوں، تمہیں میرے ڈبے میں میرے برابر بیٹھنے کا کیا حق ہے؟ سرسید نے جواب دیا: اگر آپ ہائی کورٹ کے جج ہیں تو میں ہائی کورٹ کے جج کا باپ ہوں۔ اس جواب پر انگریز بہت سٹپٹایا لیکن اُس وقت خاموش رہنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ جب گاڑی اُس اسٹیشن پر پہنچی جہاں سرسید کو اترنا تھا تو وہاں ان کی پیشوائی کے لیے لوگوں کا ہجوم تھا۔ انگریز نے جب سرسید کی یہ قدر و منزلت دیکھی تو بہت حیران ہوا۔ ایک شخص سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ اس نے بتایا: یہ جسٹس محمود کے باپ سرسید ہیں۔ انگریز یہ سن کر اپنے رویّے پر بہت نادم ہوا اور سرسید کے پاس جاکر معافی مانگی۔ (ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ، جون 2004ء)
حکایت خطا سے درگزر
ایک شخص کو باؤلے کتے نے کاٹا۔ کسی نے علاج کے طور پر اس سے کہا کہ: ’’زخم کے لہو میں روٹی تر کرکے اسی کتے کو کھلادو‘‘۔
مجروح نے کہا: ’’بس حضرت اپنا علاج رہنے دیجیے۔ کہیں آپ کی یہ مرضی تو نہیں ہے کہ شہر کے تمام کتے اس خبر کو سنیں کہ میں کاٹنے والے کتے کو روٹی دیتا ہوں تو سب کے سب بائولے بن بن مجھ کو کاٹیں‘‘۔
حاصل: اگر دشمن کی خطا سے درگزر کیا جائے تو دوسرے بدذات لوگوں کو خطا کرنے پر دلیری پیدا ہوتی ہے۔
(نذیر احمد دہلوی، ”منتخب الحکایات“)