پروفیسر اطہر صدیقی
مرنے کے قریب، ایک شخص، ٹوم اسمتھ نے اپنی سب اولادوں کو بلایا اور ان کو نصیحت کی کہ اس کے نقشِ قدم پر چلیں تاکہ انہیں ذہنی سکون ملے، چاہے وہ کچھ بھی کریں۔
اس کی بیٹی سارا نے کہا: ’’اوروں کے والدین نے جنہیں آپ بے ایمان، عوام چور کہتے ہیں اپنے بچوں کے لیے گھر اور جائدادیں چھوڑی ہیں، ہمارا تو یہ گھر بھی جس میں ہم رہتے ہیں کرائے کا ہے۔ معاف کیجیے، میں آپ کے نقشِ قدم پر نہیں چل سکتی، آپ جائیے، ہم کو اپنا راستہ خود چن لینے دیجیے۔“ چند لمحوں کے بعد ان کے والد کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
تین برس بعد سارا ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں انٹرویو کے لیے گئی۔ انٹرویو کمیٹی کے چیئرمین نے پوچھا: ’’تم کون سی اسمتھ ہو؟‘‘ سارا نے جواب دیا: ’’میں سارا اسمتھ ہوں، میرے والد ٹوم اسمتھ اب اس دنیا میں نہیں رہے‘‘۔ چیئرمین نے دخل درمعقولات کرتے ہوئے کہا: ’’اوہ میرے خدا، تم ٹوم اسمتھ کی بیٹی ہو؟‘‘
وہ دوسرے ارکان کی طرف مڑے اور کہا:’’یہ اسمتھ وہ انسان تھا جس نے مجھے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹرز کی ممبرشپ میں داخل کیا تھا اور اس کی ہی سفارش پر مجھے وہ جگہ ملی جہاں آج میں ہوں، اور یہ سب انہوں نے اللہ واسطے میں کیا تھا، وہ تو مجھے جانتے تک نہیں تھے۔ مجھے ان کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ بس یہ سب انہوں نے میرے لیے کیا تھا‘‘۔ وہ سارا کی طرف مڑے ’’مجھے آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا ہے۔ سمجھیے آپ کو یہ نوکری مل گئی۔ کل آجائیے۔ کل آپ کا تقرری خط آپ کا انتظار کررہا ہوگا‘‘۔
سارا اسمتھ اس کمپنی کی کارپوریٹ افیئرز کی منیجر بن گئیں، ان کو دو کاریں مع شوفرز اور ایک ڈوپلیکس دفتر سے جڑا ہوا مل گیا۔ ان کی تنخواہ ایک لاکھ پائونڈ ماہانہ، الائونسز اور دوسرے اخراجات کے علاوہ مقرر ہوئی۔ کمپنی میں دو سال کام کرنے کے بعد کمپنی کا ایم ڈی (منیجنگ ڈائریکٹر) امریکا سے آیا اور اس نے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ وہ استعفیٰ دینا چاہتا ہے اور اپنی جگہ کسی کا تقرر کرنا چاہتا ہے۔ ایک دیانت دار اور راست باز ہستی کی تلاش شروع ہوئی، اور پھر کمپنی کے اربابِ حل و عقد نے سارا اسمتھ کا نام تجویز کیا۔ ایک انٹرویو میں اس سے اس کی کامیابی کا راز پوچھا گیا۔
آنکھوں میں آنسو بھرے، اس نے جواب دیا: ’’میرے ڈیڈی نے یہ راستے میرے لیے چن دیے تھے، ان کے انتقال کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ مالی طور پر تو غریب تھے لیکن راست بازی، نظم و ضبط اور ایمان داری میں بے پناہ رئیس تھے‘‘۔ اس سے پھر پوچھا گیا کہ وہ رو کیوں رہی ہے، اب تو وہ بچی بھی نہیں رہی کہ اپنے والد کو مس کررہی ہے جنہیں گئے عرصۂ دراز ہوا۔
اس نے جواب دیا: ’’مرتے وقت میں نے اپنے والد کی توہین کی تھی ایمان دار اور راست باز انسان ہونے پر۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنی قبر میں مجھے معاف کردیں گے۔ میں اب اس سب کے لیے کام نہیں کرتی ہوں، یہ سب انہوں نے میرے لیے کیا ہے‘‘۔
اس سے آخری سوال کیا گیا: ’’کیا تم اپنے والد کے بتائے ہوئے نقشِ قدم پر چلتی رہوگی؟‘‘ اور اس کا سادہ سا جواب تھا: ’’میں اب اس انسان کی پرستش کرتی ہوں۔ میں نے ان کی ایک بڑی تصویر اپنے رہائشی کمرے میں گھر میں داخل ہونے والے راستے پر لگا رکھی ہے۔ خدا کے بعد جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ ان کا ہے‘‘۔
……٭٭٭……
کیا آپ ٹوم اسمتھ کی طرح ہیں؟ نام کمانا یا پیدا کرنا اہم ہے، چاہے اس کا انعام فوراً ہی نہ ملتا ہو لیکن ایک نہ ایک دن ملتا ضرور ہے، اور اس میں کتنا بھی وقت لگے لیکن وہ قائم بہت عرصے تک رہتا ہے۔
دیانت داری، نظم و ضبط، خود پر قابو اور خوفِ خدا ایک انسان کو متمول بناتا ہے، نہ کہ بہت بڑا بینک اکائونٹ۔
اپنے بچوں کے لیے اچھی وراثت چھوڑیے۔ اس کے لیے بہت زیادہ تیز طبع اور ممتاز ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔