مسلمانوں کے لیے یہ بڑے اندوہ و الم کی بات تھی کہ ان کا ایک ہیرو یوں پنجاب کے ایک دور دراز علاقے میں موت کی نیند سلادیا جائے اور پھر اس کی قبر ان کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔ چنانچہ غم و غصے کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور باقاعدہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرگیا۔ وہ لوگ بھی باہم اکٹھے ہوگئے جن کی سیاسی راہیں مدتوں سے جدا تھیں۔ اقبال، سر شفیع اور ظفر علی خان اس تحریک کے روحِ رواں تھے۔ سر شفیع کی سرکار دوستی، ظفر علی خان کی سرکار دشمنی، اقبال کی بے نیازی، سبھی پس منظر میں چلی گئیں۔ قوم کے سامنے اب علم الدین کی لاش کا حصول تھا، چنانچہ تحریک کا نعرہ ’’لاش لیں گے یا لاش بن جائیں گے‘‘ ٹھیرا۔
اقبال اور سر شفیع گورنر سے ملے اور اسے یقین دلایا کہ مطالبہ حصولِ لاش تک محدود ہے اور اگرچہ آج کے دن مسلمانوں کے جذبات کی کوئی حد نہیں، پھر بھی غیر مسلموں کی عزت و ناموس یا مال و دولت ان کے ہاتھ سے محفوظ رہیں گے۔ گورنر نے اس یقین دہانی کے بعد لاش مسلمانوں کے سپرد کردینے کا فیصلہ دے دیا۔ دسمبر کی ایک یخ بستہ صبح کو لاش گاڑی میں لاہور لائی گئی۔ چھائونی کے اسٹیشن پر پل کے نزدیک گاڑی رکی اور گورا فوج کا ایک دستہ تابوت لے کے گورنر ہائوس تک آیا جہاں اسے مسلمان زعما کے سپرد کردیا گیا۔
ایسا جنازہ جو علم الدین کو میسر آیا تاریخ میں خال خال شخصیتوں کو میسر آیا ہوگا۔ لاہور کی نواحی بستیاں تو درکنار، دور دور کے مقامات سے لوگ اتنی تعداد میں آئے کہ اس شہر کے لیے ان کا سنبھالنا دشوار ہوگیا۔ وہ زمانہ ریلوے کی محدود آمد و رفت کا تھا۔ بسوں کی چلت ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ نجی موٹر گاڑیاں ابھی کم تھیں اور مسلمانوں کے یہاں قریب قریب مفقود تھیں، لیکن پھر بھی لوگ جالندھر، امرتسر، قصور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منٹگمری اور ملتان سے کھنچے چلے آرہے تھے۔ نمازِ جنازہ کے لیے وہ میدان منتخب ہوا جسے چاند ماری کہتے ہیں اور جہاں آج کل چوبرجی کے کوارٹر اور دیگر آبادی پھیلی ہوئی ہے۔ یہ علاقہ دریا کی ترائی تک بڑا سرسبز تھا۔ حدِّنظر تک سبزی کے کھیت تھے۔ نمازِ جنازہ کے بعد جب تابوت اٹھایا گیا تو چارپائی سے لمبے لمبے بانس باندھ دیے گئے تھے تاکہ لوگ کندھا دینے کی سعادت سے محروم نہ رہیں۔ جنازے کے آگے آگے پھولوں سے لدی ہوئی ایک بیل گاڑی جارہی تھی جو ہجوم میں پھول تقسیم کرتی جارہی تھی۔ جنازہ نزدیک آیا تو جو لوگ دیر سے کندھا دینے کے لیے منتظر کھڑے ہوتے ایک ہی ریلے میں سڑک سے دور جاپہنچتے۔ چارپائی کے اردگرد جم غفیر تھا۔
اکثر لوگوں نے کمر سے پٹکے باندھ رکھے تھے اور ایک عجیب سرمستی کے عالم میں لہرا رہے تھے اور لاالٰہ الااللہ کا ورد کرتے جارہے تھے۔ الا اللہ کی ضرب پر ہر بار معلوم ہوتا کہ لاہور کی زمین تھرا اٹھی ہے۔ پھولوں کی بارش میں جنازہ آہستہ آہستہ میانی صاحب کے وسط تک بڑھتا رہا۔ قبر کے قریب ازدحام اتنا بے پناہ تھا کہ بڑے بڑے تنومند قبر تک پہنچنے سے عاجز تھے۔ میں نے بدقت تمام جب جھانک کے دیکھا تو لحد میں پھولوں کی سیج بچھی ہوئی تھی۔
قریب ہی ایک وسیع گڑھے کے وسط میں مولانا ظفر علی خان کناروں پر امڈے ہوئے ہجوم کو انگریز کی ستم رانیوں کی داستان سنا رہے تھے۔ مجمع حسبِ معمول مسحور تھا۔ جب میاں سر محمد شفیع نے انہیں یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ یہ محل کسی سیاسی تقریر کا نہیں تو مولانا نے بجلی کی طرح تڑپ کر کہاکہ جب تک انگریز کا ظلم ختم نہیں ہوتا، اس کی داستان کیسے ختم ہوسکتی ہے! ہندو کو تو یہ افسانے سناتے عار محسوس نہیں ہوتی ہم کیوں اتنے محجوب ہوں؟ وہ آزادی کے نغمے الاپتے ہیں، ہم غلامی پر کیونکر قانع رہیں؟ سر شفیع نے مولانا کے تیور دیکھے تو ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح وہی راستہ اختیار کیا جو مولانا کا ہر عافیت کوش حریف ایسے موقعوں پر اختیار کیا کرتا تھا۔ تقریر جاری رہی تاآنکہ علم الدین کا جسدِ خاکی لحد میں اتار دیا گیا اور لاہور کا یہ غیر معروف نجار زادہ چند دنوں میں عالمگیر شہرت پاکر اسی شہر کی خاک میں آسودئہ راحت ہوگیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف سبّ و شتم کی تحریک جو ہندوئوں میں اٹھی وہ اُس تحریک کا گھنائونا پہلو تھی جس کی بنا عیسائی علمانے تحقیق کے پردے میں ڈالی تھی، اور جس کے دوران وہ وہ جھوٹ تراشے گئے کہ افشائے حق ہونے کے بعد خود ان کے ہم مذہبوں کی گردنیں ندامت سے جھک گئیں۔ آج یورپ کے علما میں اکثریت اُن لوگوںکی ہے جنہوں نے اس تحقیق و تفتیش کو خود پائے حقارت سے ٹھکرا دیا ہے۔ انگریز جب آزادیِ مذہب کی آڑ میں غیر جانب دار ہوگیا تو گھٹیا قسم کے چند ہندو مصنفوں اور ریفارمروں نے پیغمبرِ اسلامؐ پر نجاست اچھالنے کو پیشہ بنالیا۔ بہرکیف دلّی میں عبدالرشید کے ہاتھوں شردھانند کیفرِ کردار کو پہنچا۔ لاہور میں علم الدین کے ہاتھوں راجپال اور کراچی میں عبدالقیوم کے ہاتھوں شاتمانِ رسولؐ کے اس انجام نے اس تحریک کا خاتمہ کردیا۔
(محمد سعید۔”آہنگ بازگشت“)
نکتہ توحید
بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے!۔
وہ رمزِ شوق کہ پوشیدہ لاالٰہ میں ہے
طریقِ شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے!۔
سرور جو حق و باطل کی کار زار میں ہے
تُو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے!۔
جہاں میں بندۂ حر کے مشاہدات ہیں کیا
تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے!۔
مقامِ فقر ہے کتنا بلند شاہی سے
روش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہیے!۔
-1نکتہ توحید بیان کرنا مشکل نہیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ تیرا دماغ طرح طرح کے بتوں سے آراستہ ہے اور اسے بت خانہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر ایسے دماغ میں توحید کا نکتہ کیونکر سما سکتا ہے؟
-2 لاالٰہ الااللہ یعنی کلمہ توحید میں شوق کا جو بھید چھپا ہوا ہے، اسے بیان تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر اس کے لیے فقیہوں کا سا انداز اختیار کیا جائے تو وہ کیونکر سمجھ میں آئے گا؟
-3 حق اور باطل کی جنگ میں جو سرور، لذت اور لطف ہے، اسے کیا بیان کیا جائے؟ بیان بھی کیا جائے تو تُو کیا سمجھے گا جو رزم و پیکار سے بالکل بیگانہ ہے؟
-4خدا کا سچا آزاد بندہ اس دنیا میں جو کچھ دیکھتا اور تجربہ کرتا ہے، وہ اگر تیرے سامنے بیان بھی کیا جائے تو کس امید پر؟ تیری تو نظر ہی غلامی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ تُو مردِ حق کے مشاہدات سے کیا لذت حاصل کرے گا؟
-5 درویشی کا مقام اور مرتبہ بادشاہی سے بہت بلند ہے، لیکن جس شخص نے بھکاری کے طور طریقے اختیار کررکھے ہوں، وہ اس فرق کو کیونکر ذہن نشین کرسکتا ہے؟