مولانا کے دھرنے کا آغاز بھی پراسرار تھا اور اس کا اختتام بھی پراسرار انداز میں ہوا
اسلامی تاریخ اپنی اصل میں مزاحمت کی تاریخ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار جہاد بالسیف سے لوٹتے ہوئے فرمایا کہ اب ہم جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ جہاد بالسیف ’’جہادِ اصغر‘‘ ہے اور جہاد بالنفس ’’جہادِ اکبر‘‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو خارج میں بھی باطل کی مزاحمت کرنی ہے اور باطن میں بھی نفسِ امارہ کی صورت میں موجود باطل کی مزاحمت کرنی ہے۔ اسلام کے اس مثالیے یا Ideal کا اطلاق مسلمانوں کی انفرادی زندگی پر بھی ہوتا ہے، قومی زندگی پر بھی، ملّی زندگی پر بھی اور امتی زندگی پر بھی۔ ظاہر اور باطن کے جہاد کے بغیر نہ مسلمان، مسلمان بن سکتا ہے، نہ مسلمان، مسلمان رہ سکتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تخلیق ایک مزاحمتی روح کا حاصل تھی۔ تاریخ کا جبر مسلمانوں سے کہہ رہا تھا کہ وہ برصغیر میں ’’متحدہ قومیت‘‘ کے فلسفے کو نہ صرف قبول کریں، بلکہ اس پر فخر کریں۔ مگر مسلمانوں نے اسلام کو اپنے تشخص کی بنیاد قرار دیتے ہوئے متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد کردیا اور اسلامی تشخص کی بنیاد پر ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا۔ جس وقت پاکستان کا مطالبہ سامنے آیا، قوموں کا تشخص جغرافیہ، نسل اور زبان کی بنیاد پر متعین ہورہا تھا، مگر مسلمانوں نے قومیت کے اس بت کی پوجا سے انکار کردیا۔ قیام پاکستان کے مطالبے سے 23 سال قبل روس میں سوشلسٹ انقلاب رونما ہوچکا تھا اور سوشلزم آدھی دنیا کو متاثر کرچکا تھا، مگر برصغیر کے مسلمانوں نے سوشلزم کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ مسلمانوں کے لیے دشمنوں کی بھی کمی نہ تھی۔ ان کے ایک طرف وقت کی واحد سپرپاور سلطنتِ برطانیہ تھی، دوسری طرف ہندو اکثریت تھی، تیسری طرف مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ موجود تھے جو متحدہ قومیت پر ایمان رکھتے تھے۔ مگر مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں تینوں قوتوں کی مزاحمت کی۔ قائداعظم نے صاف کہاکہ پاکستان عہدِ حاضر میں اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا۔ قائداعظم کی مزاحمتی فکر کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے واضح طور پر کہاکہ اگر بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوگا تو پاکستان ان کی مدد کے لیے بھارت میں مداخلت کرے گا۔ امت کے تصور کے تحت قائداعظم نے یہ بھی فرمایا کہ ہم فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر ہمیں فلسطینیوں کی مدد کے لیے تشدد کی راہ بھی اختیار کرنی پڑی تو ہم کریں گے۔ یہ تھے وہ نظریاتی آئیڈیلز جن پر پاکستان کی عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے ہماری قومی زندگی کو ’’سمجھوتا ایکسپریس‘‘ بناکر رکھ دیا ہے۔
امریکہ ایک ملک تھا مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اسے ’’خدا‘‘ بنالیا، اور سمجھوتے کی نفسیات کے تحت پاکستان کی سیاسی، دفاعی، معاشی اور ثقافتی زندگی کو امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادیوں کے تابع کردیا۔ چنانچہ ہماری اجتماعی نفسیات پر ’’امریکہ پوجا‘‘ کا غلبہ ہوگیا۔ امریکہ پوجا کی پشت پر نہ کوئی نظریہ تھا، نہ کوئی اصول تھا۔ امریکہ پوجا اوّل و آخر ’’طاقت پرستی‘‘ کا شاخسانہ تھی۔ چونکہ امریکہ کی پشت پناہی اور فوج کی وجہ سے جرنیل زیادہ ’’طاقت ور‘‘ ہوگئے اس لیے ہمارے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے قوم کو ’’جرنیل پرستی‘‘ کے نشے کا عادی بنادیا۔ اس سے ’’ڈیل کی سیاست‘‘ پیدا ہوئی، اس سے ’’ڈھیل کی سیاست‘‘ نمودار ہوئی، اس سے ’’سمجھوتوں کی سیاست‘‘ ظاہر ہوئی، اس سے ’’این آر او کی سیاست‘‘ کو فروغ ملا۔ چنانچہ ہماری سیاست ’’Stunted سیاست‘‘ ہے، چنانچہ ہمارے سیاسی رہنما ’’Stunted سیاسی رہنما‘‘ ہیں، چنانچہ ہماری سیاسی جماعتیں ’’Stunted سیاسی جماعتیں‘‘ ہیں۔ واضح رہے کہ Stunted Children وہ بچے ہوتے ہیں جن کا دماغ غذائی قلت کی وجہ سے پوری طرح نشوونما نہیں پاتا۔ لیکن ہماری قومی زندگی صرف سیاسی معنوں میں ’’Stunted‘‘ نہیں ہے۔ ہماری قومی زندگی روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی اور فکری اعتبار سے بھی Stunted ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جو شخص، گروہ یا قوم مزاحمت کرتی ہے، خارج میں موجود باطل اور نفسِ امارہ میں قیام پذیر باطل کے خلاف جہاد کرتی ہے وہی قوم روحانی، اخلاقی، ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور فکری طور پر نشوونما پاتی ہے۔ ان باتوں کا ہماری موجودہ قومی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ اور دھرنے کا آغاز کیا تھا تو ہم نے اُن کے بارے میں چند باتیں عرض کی تھیں۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن پاکستان میں ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ سیکولرازم کا ایک مطلب لادینیت ہے، اور اس کا ایک مفہوم ’’دنیا پرستی‘‘ ہے۔ ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا کے دھرنے کی پشت پر کون ہے۔ ہم نے لکھا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ متحد ہے تو پھر مولانا کسی سول شخص کے لیے اسلام آباد لائے گئے ہیں، اور اگر اسٹیبلشمنٹ متحد نہیں ہے تو پھر مولانا کسی فوجی کے لیے اسلام آباد آئے ہیں۔ مولانا نے تاثر دیا کہ وہ کوئی ’’انقلابی‘‘ ہیں اور ان کے دھرنے سے پاکستان میں ’’نظام‘‘ بدلنے ہی والا ہے۔ مگر بالآخر یہ راز فاش ہوہی گیا کہ اسٹیبلشمنٹ مولانا کو اسلام آباد لائی اور اس کا مقصد عمران خان کو اوقات میں لانا اور انہیں یہ باور کرانا تھا کہ ان کا اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک ’’بوجھ‘‘ بن چکا ہے اور عمران خان کی حکومت کو آج نہیں تو کل جانا ہوگا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے سیاسی حریف بالخصوص عمران خان مولانا کی توہین کے لیے انہیں ’’مولانا ڈیزل‘‘ کہا کرتے تھے۔ یہ ایک شرمناک اصطلاح تھی اور ان کے حریف کبھی اس توہین کا کوئی ’’اخلاقی‘‘ یا ’’عملی‘‘ جواز پیش نہ کرسکے۔ مگر مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں اچانک دھرنا ختم کرکے خود اپنے بارے میں جو اصطلاح وضع کی ہے وہ ’’مولانا ڈیلر‘‘ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ بدقسمتی سے مولانا کی ’’ڈیل‘‘ کی ٹھوس شہادتیں بھی دستیاب ہوگئی ہیں۔ مولانا کے ساتھ ’’ڈیل‘‘ کرنے والے قاف لیگ کے رہنما اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الٰہی نے سلیم صافی سے ان کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا کہا، انہی کی زبانی سنیے:
’’مولانا فضل الرحمٰن نے ایک ’’انڈر اسٹینڈنگ‘‘ کے تحت اسلام آباد مارچ ختم کیا۔‘‘ انہوں نے کہاکہ ’’ہم نے مولانا کو جو کچھ دے کر بھیجا ہے وہ ایک ’’امانت‘‘ ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ کراچی، 16 نومبر 2019ء)۔
پاکستان کی سیاست میں قاف لیگ اور اس کے رہنما اسٹیبلشمنٹ کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مولانا کی ڈیل عمران خان کے ساتھ نہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوئی ہے۔ مولانا کی ’’ڈیل‘‘ کا قصہ صرف پرویزالٰہی نے نہیں سنایا، معروف اینکر اور کالم نگار صابر شاکر نے بھی اپنے کالم میں اس کا ذرا مختلف انداز میں ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا:
’’مولانا دھرنا جاری رکھتے ہوئے اپنے پلان بی پر عمل کرنا چاہتے تھے لیکن عین وقت پر چودھری شجاعت اور پرویزالٰہی نے مولانا کے گھر جاکر اُن کے کان میں کوئی ایسی بات کی کہ مولانا نے فوری طور پر اپنا ارادہ بدلا اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا‘‘۔ (روزنامہ دنیا، 15 نومبر 2019ء)۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ مولانا کے دھرنے کا آغاز بھی پراسرار تھا اور اس کا اختتام بھی پراسرار انداز میں ہوا۔ دھرنے کے آغاز میں بھی کوئی کانا پھوسی ہوئی تھی اور اس کا اختتام بھی کانا پھوسی پر ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے اندازے اور تجزیے کے عین مطابق مولانا کے مارچ اور دھرنے کی پشت پر نہ کوئی مذہبی مسئلہ تھا، نہ کوئی اخلاقی مسئلہ تھا، نہ کوئی تہذیبی مسئلہ تھا، نہ کوئی قومی مسئلہ تھا، بلکہ مولانا ’’شخصی‘‘ اور ’’جماعتی‘‘ مفادات کے لیے بروئے کار آئے۔
سلیم صافی مولانا فضل الرحمٰن کے عاشقوں میں سے ہیں۔ مولانا نے عمران خان کے خلاف مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تو سلیم صافی کا مولانا سے عشق اور بھی بڑھ گیا۔ مگر اب دھرنے کے اصل حقائق سامنے آئے ہیں تو سلیم صافی نے اپنے کالم میں ’’بس! مولانا بس!‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا:۔
’’چند ماہ میں واضح ہوجائے گا کہ مولانا نے کیا کھیل کھیلا ہے۔ کچھ تو ظاہری فائدے ہیں جن سے مولانا نے اپنی جھولی بھردی، لیکن کچھ درپردہ فائدے ایسے ہیں کہ جن کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے۔ ان درپردہ فائدوں کا مولانا اور اُن کے دو تین خاص بندوں کو علم ہے، شاید چودھری برادران کو یا پھر اُن لوگوں کو جنہوں نے عنایات کی ہیں۔
مولانا نے جو درپردہ فائدے اٹھائے، اور جن کی وجہ سے وہ ظاہری حد تک رسوا ہوکر اسلام آباد چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے، ان میں سرفہرست تو یہ ہے کہ انہیں تسلی کرائی گئی کہ کچھ وقت کے انتظار کے بعد ان کی خواہشات پوری ہوجائیں گی۔ اسی طرح کچھ لوگ جو گزشتہ تین سال کے دوران مولانا کا نام سننے کو تیار نہ تھے، نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ رابطے میں آگئے بلکہ مستقبل میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا بھی وعدہ ہوا ہے۔
یوں مولانا ناکام ہوکر نہیں بلکہ اپنی دانست میں جھولی بھر کر اسلام آباد سے اٹھ گئے ہیں۔ اسی طرح وہ احتجاج میں تیزی لانے کے لیے نہیں بلکہ احتجاج کو دھیرے دھیرے ختم کرنے کے لیے پلان بی کی طرف گئے ہیں۔ گویا پلان اے جتنا سنجیدہ تھا، پلان بی اتنا ہی غیر سنجیدہ ہے، لیکن اب معمولی سی غلطی سے مولانا حاصل کردہ سب کچھ، کھو بھی سکتے ہیں۔
اس پورے عمل میں جس طرح مولانا سے ایک بڑی غلطی اسلام آباد پہنچ کر دو دن کی ڈیڈ لائن دینے کی سرزد ہوئی تھی، اسی طرح اب انہوں نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب فیس سیونگ کے لیے پلان بی کا آغاز کرکے کیا ہے۔ مولانا کے لیے بہتر فیس سیونگ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی صورت میں ہوسکتی تھی، لیکن انہوں نے اس خوف سے دھرنا ختم کرنے کے عمل سے اسے باہر رکھا کہ اس صورت میں ان کے خفیہ طور پر طے پانے والے معاملات کے افشا ہونے کا خطرہ تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کا پلان اے جس قدر جمہوری اور مستحسن تھا، اس قدر پلان بی خلافِ قانون ہے۔
سڑکوں کی بندش ظلم اور قابلِ مذمت قدم ہے۔ یوں بھی عوام کو تکلیف دینا اور معمولاتِ زندگی متاثر کرنا ظلم اور گناہِ عظیم ہے، لیکن پھر اگر وہ نمائشی ہو تو اس سے بھی بڑا ظلم بن جاتا ہے۔
اس لیے بہتر ہوگا کہ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے بجائے مولانا اپنے کارکنوں کو واضح طور پر بتائیں کہ بس کام ہوگیا ہے اور وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ سڑکوں کی بندش کا یہ نمائشی احتجاج بڑا رسکی کام ہے۔ اگر کسی ایک جگہ بھی فساد ہوگیا تو مولانا نے جو کچھ حاصل کیا ہے، اس سب سے محروم بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بس! مولانا بس! جو کچھ ملا ہے، پلیز اس پر قناعت کرلیجیے۔‘‘ (روزنامہ جنگ، 16 نومبر 2019ء)۔
ذرا یاد کیجیے مولانا اپنے مارچ اور دھرنے سے کیا کچھ منسوب کررہے تھے؟ آئین کی اسلامی دفعات کا تحفظ، ختمِ نبوت کے تصور کی پاسداری، مغربیت کی مزاحمت، جمہوریت اور آئین کی بالادستی، ’’سلیکٹڈ‘‘ اور اس کے ’’سلیکٹرز‘‘ کے خلاف جہاد۔ مگر دھرنا اچانک ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ مولانا اور اُن کی مزاحمت بھی ’’سلیکٹڈ‘‘ تھی اور اس کی پشت پر وہی لوگ تھے جنہیں مولانا ’’سلیکٹرز‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے رہے تھے۔ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کامیابی اور ناکامی بھی اللہ ہی دیتا ہے۔ اور کسی کو عزت اور ذلت سے بھی اللہ ہی ہم کنار کرتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن پاکستان میں ’’اسلامی سیاست‘‘ کے علَم بردار ہیں۔ مگر مولانا کے مارچ اور دھرنے سے ثابت ہوا کہ مولانا کے نزدیک سیاسی کامیابی یا ناکامی اللہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ یا ’’سلیکٹرز‘‘ کے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے عوام ہی کا نہیں خواص کا بھی یہ حال ہے کہ اُن کی زبان پر اللہ اور رسولؐ ہیں مگر ان کے عمل کا محرک صرف ’’دنیا‘‘ اور اس کے فوائد ہیں۔ اسی لیے ہم نے اپنے ایک شعر میں عرض کیا ہے:۔
یہ اور بات کوئی مانتا نہیں لیکن
کسی کسی کی تو پروردگار ہے دنیا
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک مذہبی رہنما ہونے کے باوجود بھی مولانا فضل الرحمٰن ’’سمجھوتا ایکسپریس‘‘ کے مسافر ہیں۔ اقبال کا بے مثال شعر یاد آگیا:۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
ہم نے تین چار ماہ قبل انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ عمران خان کے ’’زوال‘‘ کا آغاز ہوگیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کے زوال کا دائرہ مکمل ہوگیا ہے؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا دشوار ہے، مگر عمران خان کو اقتدار میں لانے والی اسٹیبلشمنٹ ان کے حریف کا کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت مولانا فضل الرحمٰن کا مارچ اور دھرنا ہے۔ دوسری شہادت یہ ہے کہ میاں نوازشریف کے بیرونِ ملک جانے کے حوالے سے چودھری شجاعت نے کھل کر عمران خان کی مزاحمت کی۔ انہوں نے صاف کہاکہ (چونکہ میاں صاحب کی اسٹیبلشنمٹ سے ڈیل ہوگئی ہے اس لیے) عمران خان میاں نوازشریف کے باہر جانے کی مزاحمت نہ کریں۔ انہوں نے ملک کے معاشی حالات کی ابتری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ تین یا چھ ماہ بعد کوئی بھی شخص ملک کا وزیراعظم بننا پسند نہیں کرے گا۔ حد تو یہ کہ عمران خان کی اتحادی ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی امین الحق نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں نوازشریف کی بیرونِ ملک روانگی کے حوالے سے کوئی شرط عائد کرنا ٹھیک نہیں۔ قاف لیگ اور ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی مٹھی میں ہیں، چنانچہ وہ اگر عمران خان پر ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید کررہے ہیں تو اس بات کا مفہوم عیاں ہے۔
بلاشبہ عمران خان اور ان کی حکومت کی ناکامی عیاں ہوچکی ہے، مگر عمران خان کی ناکامی صرف عمران خان کی ناکامی نہیں ہے بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی ناکامی ہے، چنانچہ اِس بار صرف ناکام رہنما، ناکام سیاسی جماعت اور ناکام حکومت ہی کو گھر نہیں جانا چاہیے بلکہ ملک و قوم کو ناکام رہنما، ناکام سیاسی جماعتیں اور ناکام حکومتیں دینے والی اسٹیبلشمنٹ کو بھی گھر جانا چاہیے۔ آخر وہ ذہن، وہ علم، وہ فہم اور تجزیے کی وہ صلاحیت کیسی ہوگی جس نے یہ سمجھا کہ ایک کرکٹر قوم کا رہنما ہوسکتا ہے؟ آخر وہ ذہن، وہ علم، وہ فہم اور تجزیے کی وہ صلاحیت کیسی ہوگی جس نے نوازشریف کو قوم کی رہنمائی کے لیے منتخب کیا؟ آخر وہ ذہن، وہ علم، وہ فہم اور تجزیے کی وہ صلاحیت کیسی ہوگی جس نے الطاف حسین کو قومی سیاست کے مرکزی دھارے میں لاکھڑا کیا؟ آخر وہ ذہن، وہ علم، وہ فہم اور تجزیے کی وہ صلاحیت کیسی ہوگی جس نے چار فوجی آمر قوم کو دیے اور چاروں فوجی آمروں سے ملک و قوم کے مسائل حل نہ ہوئے؟ چنانچہ اِس بار عمران خان ہی کو نہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی گھر چلے جانا چاہیے۔
بدقسمتی سے عمران خان کی شخصیت بھی سمجھوتا ایکسپریس کی سواری کرنے والی نکلی۔ کبھی وہ اسٹیبلشمنٹ کے ناقد تھے مگر پھر اسٹیبلشمنٹ کے آدمی بن گئے اور اس پر اطمینان اور فخر کرتے ہوئے پائے گئے۔ کبھی وہ کہا کرتے تھے کہ وہ سرمائے اور Electables کی سیاست نہیں کریں گے، مگر بالآخر انہوں نے سرمائے اور Electables کی سیاست کو اپنے گلے کا ہار بنالیا۔ کبھی وہ کہا کرتے تھے کہ میں خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔ اب وہ آئی ایم ایف کے نرغے میں اتراتے پھرتے ہیں۔ عمران خان نے مختصر سے وقت میں اتنے سمجھوتے کرلیے کہ ان کا اصل تشخص غائب ہوگیا۔ وہ تبدیلی کی علامت بن کر اٹھے تھے، مگر بالآخر Status quo کی علامت بن گئے۔ بلاشبہ ان کا ووٹ بینک ابھی کہیں نہیں گیا، مگر ان میں اپنے اصل تشخص کی طرف لوٹنے کی خواہش اور صلاحیت ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ اتفاق سے اس وقت کی آمد میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
ہماری قومی سیاسی زندگی کی سمجھوتا ایکسپریس کا میاں نوازشریف، اُن کے خاندان اور نواز لیگ سے بھی گہرا تعلق ہے۔ میاں نوازشریف کی بقاء سمجھوتا ایکسپریس کی رہینِ منت ہے۔ وہ جنرل پرویز کے ساتھ سمجھوتا کرکے ہی ملک سے فرار ہوئے تھے۔ اِس بار وہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود سمجھوتے کے ذریعے اور بیماری کے توسط سے ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ ہولناک بات یہ ہے کہ شریفوں کے تمام تر سمجھوتوں کے باوجود میاں صاحب کے ساتھ وہ عظمت وابستہ کی جارہی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ خورشید ندیم نے اپنے تازہ ترین کالم میں انہیں ’’صاحبِ عزیمت‘‘ قرار دیا ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے اردو ڈائجسٹ کے شذرے میں میاں صاحب کے حوالے سے کیا لکھا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔ شذرے کا عنوان ہے:۔
’’زندۂ جاوید نواز شریف‘‘
الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں:۔
’’ہم ان کی شانِ استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی تعمیر میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ناقابلِ فراموش اور مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا یہ عظیم الشان کارنامہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کہ انہوں نے بندوق کے آگے سرنگوں ہونے کے بجائے اپنی خودداری اور سویلین بالادستی کا پرچم بلند رکھا۔ نوازشریف پاناما اور اقامہ کی کٹھنائیوں سے گزر کر زندۂ جاوید ہوچکے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا حال اور مستقبل اس زندۂ جاوید رہنما کے نورِ بصیرت اور شانِ عظمت سے جگمگاتے رہیں گے‘‘۔ (اردو ڈائجسٹ، نومبر 2019ء)۔
اگر مذکورہ بالا اقتباس سے میاں نوازشریف کا نام نکال دیا جائے تو کوئی سمجھے گا کہ اس میں کسی عظیم صوفی، عالمِ دین یا کسی تاریخ ساز رہنما کا ذکر ہوا ہے۔ اس لیے کہ الطاف حسن قریشی نے نوازشریف کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ ہماری تاریخ میں بہت بڑے لوگوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ مگر الطاف حسن قریشی نے ایک قومی مجرم کو ’’نورِ بصیرت‘‘ سے بھی نواز دیا ہے، اس کے سر پر ’’عظمت‘‘ کی چادر بھی ڈال دی ہے اور اسے شہیدوں کی طرح ’’زندۂ جاوید‘‘ بھی بنادیا ہے۔ الفاظ کی ایسی بے حرمتی شاید ہی کبھی دیکھی گئی ہو۔