امریکہ ترک تعلقات کی حالیہ بدمزگی کی بڑی وجہ شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی اور روس سے فضائی S-400 نظام کی خریداری ہے
ترک صدر رجب طیب اردوان کے حالیہ دورۂ امریکہ کے بارے میں مغرب کے سفارتی و صحافتی حلقوں کی آرا میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ترک صدر نے اپنے مؤقف کے دوٹوک اظہار کے ساتھ مخالفین کو دلائل کے ذریعے قائل کرنے کی کامیاب کوشش کی، جبکہ کچھ لوگ اس دورے کو ناکام قرار دے رہے ہیں۔
جس وقت صدر ٹرمپ اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کررہے تھے کانگریس میں ان کے مواخذے کی کارروائی جاری تھی اور گواہوں کے بیانات ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر ہورہے تھے۔ ملاقات کے بعد صدر اردوان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں جب ایک صحافی نے امریکی صدر سے اُن کے مواخذے کے بارے میں پوچھا تو صدر ٹرمپ نے کہاکہ وہ اس ’’فضول کارروائی‘‘ کے دوران ترک صدر سے قومی امور پر بات چیت کررہے تھے جو ان کے لیے زیادہ اہم تھی۔
صدر ٹرمپ کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کلیدی نکات پر شدید اختلافات کے باوجود صدر ٹرمپ ترک امریکہ تجارتی حجم کو 100 ارب ڈالر تک لے جانے کے لیے سنجیدہ و پُرعزم ہیں۔ ترکی اعلیٰ معیار کا فولاد پُرکشش شرائط پر امریکہ کو فراہم کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ اعتراف کرچکے ہیں کہ امریکی F-35طیاروں کا ڈھانچہ ترک فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ دشمن کی نظر سے پوشیدہ (Stealth) رکھنے کے لیے طیارے کی بیرونی سطح پر دھاتی پرت (Coating)کے بجائے خصوصی Fiber Mat کی تہ جمائی جاتی ہے۔ طیارے بنانے والے ادارے Lockheed Martin کے مطابق یہ ریشہ دار مواد ترک ساختہ فولاد پر آسانی سے جمتا ہے۔
امریکہ ہے تو ایک سیکولر، آزاد خیال اور لبرل معاشرہ، جہاں لاکھوں افراد مذہب کے خانے میں خود کو لادین لکھتے ہیں، لیکن یہاں کے اندازِ فکر پر مسیحی تاریخ، ثقافت اور اقدار کی چھاپ بہت گہری ہے۔ امریکہ بلکہ مغرب و ترکی کے درمیان کشیدگی صدیوں پرانی ہے اور مسیحی دنیا کے لیے ترکی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
استنبول جو پہلے قسطنطنیہ کہلاتا تھا 330ء سے 1453ء تک مختلف مسیحی سلطنتوں کا پایہ تخت رہا۔ 330ء سے 395ء تک رومن ایمپائر اور 395ء سے 1453ء تک مشرقی رومن یا Byzantine سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ کچھ عرصہ یعنی 1204ء سے 1261ء تک کروسیڈرز یا لاطینی مسیحی سلطنت نے اسے اپنا دارالحکومت قرار دیا۔ اسی بنا پر ایک زمانے تک استنبول کو Byzantiumکہا جاتا تھا، جبکہ لاطینی سلطنت نے اس کا نام نیا روم رکھا۔ مسیحی دنیا رومن یا بازنطین سلطنت کے حوالے سے ترکی کو ویسے ہی یاد کرتی ہے جیسے پاکستانی مسلمان لال قلعہ، دلّی کی جامع مسجد اور قطب مینار کا ذکر کرتے ہیں۔
مذہبی پس منظر کے علاوہ ترکی کا محلِ وقوع بھی کچھ ایسا ہے کہ مشرقی یورپ کے لیے ترکی سے گزرے بغیر کھلے سمندروں تک پہنچنے کا اور کوئی راستہ ہی نہیں۔ بحر اسود کے کنارے واقع یوکرین، مالدودا، رومانیہ اور بلغاریہ کی کھلے سمندر تک رسائی صرف ترکی ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ روسی بحریہ کا سب سے مضبوط اور جوہری ہتھیار سے لیس بلیک سی فلیٹ (Black Sea Fleet) بھی بحر اسود میں تعینات ہے۔ روس کے اکثر سیاحتی مراکز بحر اسود کے کناروں پر ہیں جن میں سب سے مشہور سوچی ہے جہاں ہرسال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔
یہاں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے، یعنی تنگ سی تیس کلومیٹر طویل آبنائے باسفورس (Strait of Bosporus) جو اسے بحیرہ مرمرا سے ملاتی ہے۔ مرمرا بھی خشکی سے گھرا ایک سمندر ہے جس کی اوسط گہرائی پانچ سو میٹر سے بھی کم ہے۔ بعض ماہرینِ بحریات (Oceanographers) اسے نہر قرار دیتے ہیں اور جغرافیہ کی قدیم کتابوں میں اسے نہر استنبول کہا گیا ہے۔ ساٹھ کلومیٹر لمبی اور سوا کلومیٹر چوڑی آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) بحیرہ مرمرا کو خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔ اہلِ ترکی آبنائے ڈارڈینیلس کو آبنائے چناکلے کہتے ہیں۔
بحر اسود سے آنے والے جہاز باسفورس سے گزر کر بحیرہ مرمرا میں داخل ہوتے ہیں اور پھر آبنائے چنا کلے یا ڈارڈینیلس سے گزر کر بحر روم آتے ہیں۔ بحر روم سے بحراوقیانوس کا راستہ مل جاتا ہے، جبکہ جنوب ایشیا کی طرف محوِ سفر جہاز نہر سوئز سے گزرکر بحر احمر سے ہوتے ہوئے آبنائے باب المندب کے راستے بحر عرب اوربحر ہند جاسکتے ہیں۔ باسفورس، بحیرہ مرمرا اور ڈارڈینیلس تینوں ہی ترکی کی حدود میں واقع ہیں۔ یہاں سے راہداری و چنگی محصولات کی صورت میں ترک حکومت کو معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے جس کا بڑا حصہ بلدیہ استنبول کے لیے مختص ہے۔
اس آبی راستے پر ترکوں کی گرفت ختم کرنے کے لیے برطانیہ، فرانس اور روس 1915ء میں زبردست حملہ بھی کرچکے ہیں جسے جنگ چناکلے یا گیلی پولی وار (Gallipoli War) کہتے ہیں۔ گیلی پولی جنگ کو معرکے کے بجائے ایک مکارانہ شب خون کہنا زیادہ مناسب ہوگا جب جزیرہ نمائے چناکلے پر پانچ سمت سے حملہ ہوا۔ اس لشکرکشی کا مقصد قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے عثمانی سلطنت کا خاتمہ تھا۔ حملہ آور فوج میں ہندوستان کے گورکھا اور سرزمینِ فلسطین کے یہودی سپاہی بھی شامل تھے جن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ عثمانی سلطنت کے خاتمے پر آزاد اسرائیلی ریاست قائم کردی جائے گی۔ اس جنگ میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فوجی دستے بھی آئے جو ان دو اقوام کی پہلی بڑی بین الاقوامی کارروائی تھی۔ اسی بنا پر حملے کی تاریخ یعنی 25 اپریل کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ آرمڈ کور (ANZAC) ڈے بھی کہا جاتا ہے، جبکہ ترک اسے آخری صلیبی حملے کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 10 مہینہ جاری رہنے والی اس جنگ میں دونوں جانب کے 5 لاکھ سپاہی مارے گئے اور چناکلے اتحادی جہازوں کا قبرستان بن گیا۔
1923ء میں جب اتاترک نے ملک سے اسلامی خلافت ختم کرکے ترکی کو سیکولر ریاست بنادیا تو کشیدگی کچھ کم ہوئی، لیکن اتاترک کی کوششوں اور زبردست پابندیوں کے باوجود اسلام پسند ترک سیاست پر غالب رہے اور جماعت سازی کا حق حاصل ہوتے ہی اسلام پسندوں نے انتخابات میں اتاترک کی ری پبلکن پارٹی کا تعاقب شروع کردیا۔
1970ء کی دہائی میں پروفیسر نجم الدین اربکان کی ملّی سلامت پارٹی بڑی جماعت بن کر ابھری۔ 1974ء میں اتاترک کی جماعت حکومت سازی کے لیے ملّی سلامت پارٹی سے اتحاد پر مجبور ہوئی اور پروفیسر نجم الدین اربکان مخلوط حکومت کے نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع مقرر ہوئے۔ ترکی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ سیکولرازم کی محافظ ترک افواج ایک ’مولوی‘ کی زیرنگرانی آگئیں۔ صدر اردوان پروفیسر اربکان کو اپنا سیاسی استاد کہتے ہیں۔
اسی دوران یونان کی مدد سے قبرص میں فوجی انقلاب برپا ہوا اور یونانی فوج نے ترک قبرصیوں کا محاصرہ کرلیا۔ وزیر دفاع اربکان نے اپنے ہنگامی اختیارات کا بھرپور استعمال کیا اور پارلیمنٹ سے منظوری کے تکلف میں پڑے بغیر ترک فوج کو قبرص پر حملے کا حکم دے دیا۔ ترک فوج کا حملہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ یونانی فوج ان کا مقابلہ نہ کرسکی اور ترک قبرص کے نام سے جزیرے پر ایک آزاد و خودمختار ریاست قائم ہوگئی۔ اہلِ پاکستان کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ ترک قبرص کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ یونان اور ترکی دونوں ہی نیٹو کے رکن تھے لیکن نیٹو نے کھل کر یونان کا ساتھ دیا۔ بلاشبہ جنگِ قبرص نے ترکی اور مغرب کے تعلقات میں جو دراڑ ڈالی وہ آج تک برقرار ہے۔
جہاں تک امریکہ اور ترکی کے تعلقات کا تعلق ہے تو یہ معاملات ایک عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہیں۔ مسیحی دنیا اور ترکی کی تاریخی چپقلش اور سیاسی آویزش کی بنا پر امریکی مقننہ یا کانگریس میں، جسے یہاں Capitol کہا جاتا ہے، ترکی کے بارے میں اچھی رائے نہیں پائی جاتی، اور صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے فلسطینیوں کی پُرجوش حمایت نے اس خلیج کو مزید گہرا کردیا ہے۔
2010ء میں ترکی نے امدادی سامان سے لدے بحری جہازوں کا ایک قافلہ یا Flotilla غزہ بھیجا۔ قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں کئی ترک رضاکار مارے گئے۔ اس کارواں میں پاکستانی صحافی سید طلعت حسین بھی شامل تھے۔ صدر اردوان مقبوضہ بیت المقدس میں کئی خیراتی اداروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ترک حکومت نے زیارتِ بیت المقدس کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت مسجد اقصیٰ جانے والے ترک شہریوں کو حکومت کی جانب سے اعانت دی جارہی ہے۔ یہ سہولت اُن ترک مسیحیوں کے لیے بھی ہے جو بیت اللحم اور یروشلم میں اپنے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کو جانا چاہتے ہیں۔ جناب اردوان کاکہنا ہے کہ اس سے بیت المقدس کے اردگرد معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ ترک محکمہ اوقاف نے بیت المقدس میں کئی خیراتی منصوبے بھی شروع کررکھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں انھوں نے نقشے کی مدد سے فلسطینیوں کے معاملات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جس پر اسرائیلی حکومت سخت مشتعل ہے۔
امریکہ ترک تعلقات کی حالیہ بدمزگی کی بڑی وجہ شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی اور روس سے فضائی S-400 نظام کی خریداری ہے۔
شمالی شام کے حوالے سے معاملہ یہ ہے کہ امریکہ شامی کردوں کو اپنا وفادار حلیف سمجھتا ہے جنہوں نے داعش کی سرکوبی کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف ترکی کا کہنا ہے کہ امریکہ کی وفادار ملیشیا Syrian Democratic Force(SDF) دراصل کردش ڈیموکریٹک پارٹی (PKK) اور اس کے عسکری ونگ YPG کا نیا نام ہے۔ ترک عدالت نے PKK کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور کئی مغربی ممالک بھی PKKکو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ خود صدر ٹرمپ دہشت گردی کے حوالے سے PKKکو داعش سے بدتر قرار دے چکے ہیں، لیکن امریکی فوج کے خیال میں SDFکا PKK سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ ملیشیا امریکہ کی انتہائی وفادار حلیف ہے۔
ترکی کی جانب سے روس کے S-400 نظام کی خریداری امریکہ کے لیے بے حد اہم ہے کہ ترکی نیٹو کا اہم رکن ہے اور امریکہ کی دفاعی ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی اپنے فضائی دفاع کے لیے پیٹریاٹ میزائل شکن نظام استعمال کرے۔ امریکی وزارتِ دفاع کے کچھ حلقے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ روس ترک قریبی دفاعی تعلقات سے امریکہ کی حساس ٹیکنالوجی تک روس کو رسائی مل سکتی ہے۔ اسی بنا پر F-35طیاروں کی پیداوار و ترقی کے مشترکہ منصوبے سے ترکی کو ہٹادیا گیا ہے۔
روس سے دفاعی نظام کی خریداری پر ترکی کا مؤقف بہت واضح ہے۔ صدر اردوان کا کہنا ہے کہ منفرد محلِ وقوع کی وجہ سے ترکی کے لیے ناقابلِ تسخیر دفاعی نظام ضروری ہے، اور انقرہ اپنی دفاعی ضرورت کے لیے صرف ایک ملک پر بھروسا نہیں کرسکتا۔ انھوں نے امریکی صدر سے ملاقات میں کہا کہ وہ امریکہ سے پیٹریاٹ میزائل کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکنS-400 بھی ترکی کے دفاع کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترکوں کو کانگریس کے معاندانہ رویّے کی بنا پر امریکی اسلحہ اور تیکنیکی مدد کی فراہمی کسی بھی وقت منجمد یا منسوخ کیے جانے کا خدشہ بھی ہے، اور ان کے خیال میں ایسی صورت حال کے لیے متبادل بندوبست ضروری ہے۔ روسS-400کی تیاری ترکی میں کرنے پر رضامند ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک میں روزگار کے اضافی مواقع پیدا ہوں گے بلکہ مشترکہ منصوبے کے تحت تیار ہونے والے طیارہ شکن میزائل باہمی رضامندی سے دوسرے ملکوں کو بھی فروخت کیے جاسکیں گے۔
ایک اور بڑا مسئلہ امریکہ کی وفاقی عدالت میں ترک سرکاری بینک HALK BANKASI المعروف ہالک (عوامی) بینک کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ہے۔ بینک پر الزام ہے کہ اس نے ایران کے خلاف پابندیوں کو ناکام بنانے کے لیے جو اقدامات کیے وہ منی لانڈرنگ کی تعریف میں آتے ہیں۔ اسی طرح صدر اردوان کو یقین ہے کہ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کی پشت پر امریکہ بہادر اور اُن کے یورپی حلیف تھے۔ ترکی نے جناب فتح اللہ گولن کو اس کا سرغنہ قرار دیا ہے جو امریکہ میں ہیں۔
روس کے دفاعی نظام کی خریداری اور شمالی شام میں فوج کشی کے خلاف امریکی کانگریس پابندیوں کی قرارداد منظور کرچکی ہے، لیکن صدر ٹرمپ ان پر عمل درآمد روکے ہوئے ہیں۔ ان اقدامات کی بنا پر ایک ہفتہ پہلے تک یہ افواہ گردش کررہی تھی کہ شاید یہ دورہ منسوخ ہوجائے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے اصرار پر صدر اردوان امریکہ آنے پر آمادہ ہوئے۔
ملاقات کے دوران روس سے اسلحہ کی خریداری اور شمالی شام میں فوجی کارروائی کے علاوہ جن موضوعات پر صدر اردوان نے زور دیا اُن میں شامی مہاجرین کی دیکھ بھال، اور سب سے بڑھ کر داعش کے یورپی نژاد قیدیوں کی ان کے ملکوں کو واپسی کا معاملہ شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے باہمی تجارت کے حجم کو100 ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہش پر جناب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران زور دے کر کہا کہ ’’یہ اُسی وقت ممکن ہے جب امریکی کانگریس کی جانب سے ترکی پر لٹکتی پابندیوں کی تلوار کو ہٹالیا جائے‘‘، جس پر صدر ٹرمپ نے اس معاملے پر مل کر کام کرنے کا یقین دلایا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی تجویز کے سلسلے میں سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے اُن لیڈروں سے ملاقات کی جو ترکی کے سخت خلاف ہیں۔ جناب اردوان نے بھی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ لنڈسے گراہم، خارجہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جم رش (Jim Risch)، مسلم مخالف سینیٹر ٹیڈ کروز، سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کی نائب پارلیمانی قائد سینیٹر جونی ارنسٹ اور ری پبلکن پارٹی کے واحد سیاہ فام سینیٹر ٹم اسکاٹ سے خصوصی ملاقات کی۔ اس دوران ترک صدر نے Ipod پر ان سینیٹروں کو PKK اور SDFکی دہشت گردی کے دستاویزی ثبوت پیش کیے۔ وہائٹ ہائوس سے وابستہ صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے ’ترک دوست‘ کو مخالف لابی کے تحفظات کے بارے میں آگاہ کرچکے تھے۔ چنانچہ صدر اردوان پوری تیاری کے ساتھ آئے اور انھوں نے جہاں غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی، وہیں امریکہ سے اچھے تعلقات کے لیے اپنی دلچسپی، اخلاص اور عزم کا اظہار بھی کیا۔ ملاقات کے بعد سینیٹروں کا کہنا تھا کہ شمالی شام میں انسدادِ دہشت گردی اقدامات اور روسی اسلحہ کے بارے میں صدر اردوان کا مؤقف بہت واضح اور دوٹوک تھا۔ ری پبلکن پارٹی کے یہ قدامت پسند رہنما ملاقات کے بعد بھی ترکی کے مؤقف سے پوری طرح متفق نہیں، لیکن اب ان پر انقرہ کا نقطہ نظر پوری طرح واضح ہوچکا ہے۔
Halkbankکے معاملے میں صدر ٹرمپ کے لیے کچھ کرنا ممکن نہیں کہ معاملہ عدالت میں ہے اور ناکام فوجی بغاوت کے بارے میں صدر ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اُس وقت صدر اوباما کی حکومت تھی، اور ان کے خیال میں سابق امریکی صدر کی ناکام و نامراد خارجہ پالیسی نے امریکہ کو شدید نقصاں پہنچایا ہے۔
یعنی روسی دفاعی نظام کی خریداری اور شمالی شام میں فوجی کارروائی کے معاملے پر بات چیت نشستند، گفتند، برخواستند سے آگے نہ بڑھ سکی کہ دونوں ملکوں کا مؤقف بڑا دوٹوک ہے، تاہم مؤقف کی مدلل وضاحت، متنازع امور پر مکالمہ جاری رکھنے اور مل کر کام کرنے کے خوشگوار عزم کے ساتھ صدر اردوان وطن واپس چلے گئے۔
………
اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ تفصیل کے لیے www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔