فلسطین ،غزہ ایک بار پھر اسرائیلی درندگی کا شکار

عالم اسلام اور مغربی دنیا خاموش تماشائی

دنیا میں کھلی چھت کا سب سے بڑا جیل خانہ غزہ ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش سہہ رہا ہے۔ حالیہ قیامت کا آغاز اُس وقت ہوا جب 12 نومبر کو صبح سویرے غزہ کے شجیعہ محلے میں اسرائیلی فضائیہ نے حرکت جہادِ اسلامی فلسطین کے مرکزی رہنما 40 سالہ بہاابو العطا اور اُن کی اہلیہ اسما کو قتل کردیا۔ خونی ڈرون کے حملے میں ابوالعطا کی شیر خوار بچی لیان، فاطمہ، بیٹے سلیم اور محمد شدید زخمی ہوگئے۔ ہمسائے کا گھر حملے کی زد میں آنے سے ان کی ایک پڑوسن حنان بھی زخمی ہوئی۔ اس واقعے کے کچھ دیر بعد دمشق کے مضافاتی علاقے المزہ میں الجہاد کے ایک اور رہنما اکرم العجوری کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔ اُس وقت عجوری گھر پر نہیں تھے۔ حملے میں ان کی کم سن بیٹی اور بیٹا جاں بحق ہوگئے، جبکہ 6 پڑوسی شدید زخمی ہوئے۔
عورتوں اور بچوں پر بہیمانہ حملے سے مشتعل ہوکر فلسطینیوں نے اسرائیل کی طرف100 راکٹ داغ دیے جن کی بڑی تعداد کو امریکہ کے جدید ترین میزائل شکن نظام آہنی گنبد یا Iron Dome نے غیر مؤثر کردیا۔ اسرائیلی اخبارات کے مطابق اشدود شہر میں ایک 8 سالہ اسرائیلی بچی زخمی ہوگئی۔
الجہاد کے رہنمائوں پر حملے اور اس کے مبینہ ردعمل سے نمٹنے کے لیے اسرائیلی فوج بہت دنوں سے مشق کررہی تھی۔ ڈرون حملے کے ساتھ ہی غزہ کے قریب واقع اسرائیلی بستیوں میں سائرن بجنے شروع ہوگئے اور اسرائیلی فضائیہ قوتِ قاہرہ کے ساتھ غزہ پرٹوٹ پڑی۔ امریکی ساختہ بمبار طیاروں نے نہتے شہریوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ چند گھنٹوں کے دوران 30 سے زیادہ فضائی حملوں میں 48 فلسطینی مارے گئے جن کی اکثریت اُن عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے جو اپنے گھروں کے ملبے تلے دب گئے۔ ان حملوں میں سو سے زیادہ فلسطینی زخمی بھی ہوئے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے تشدد اور انسانی جانوں کے زیاں پر افسوس کا اظہار تو کیا لیکن ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے خواہش مندوں میں صرف برنی سینڈرز نے اسرائیلی سفاکی کی مذمت میں بیان جاری کیا۔ باقی تمام امیدوار خاموش ہیں۔ یورپی یونین نے فلسطینیوں کی جانب سے راکٹ باری کو مہذب دنیا کے لیے ناقابلِ قبول قدم قرار دیا اور شہری آبادی پر اسرائیلی بمباری کی مذمت کے بجائے دونوں فریق کو تحمل و برداشت کی تلقین کی گئی۔ اسلامی دنیا سے صرف ترکی نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی کھل کر مذمت کی اور اسے بے گناہوں کا قتلِ عام قرار دیا۔
بمباری کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور اس بار وسط شہر کے ساتھ زرعی زمینوں اور غلے کے گوداموں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی کے ساتھ غرور سے چُور لہجے میں وزیراعظم نیتن یاہو المعروف بی بی نے کہا کہ اسرائیل کے لیے بمباری کے سلسلے کو طول دینا کچھ مشکل نہیں، فیصلہ فلسطینیوں کو کرنا ہے کہ وہ ان حملوں کو کب تک برداشت کرسکتے ہیں۔ جنگی ہیجان پیدا کرنے کے لیے لام بندی کے اعلان کے ساتھ ریزرو (Reserve)دستوں کو بھی طلب کرلیا گیا۔
48 گھنٹے کی تباہ کن بمباری کے بعد مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نکولے لاڈینوو(Nickolay Mladenov) قاہرہ پہنچے اور جنرل السیسی سے مل کر مصالحت کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اُس وقت تک اسرائیل اپنے تمام اہداف کو تباہ کرچکا تھا، چنانچہ فضائی حملوں کا سلسلہ رک گیا۔ ساتھ ہی اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل اویو کوشاوی نے دھمکی دی کہ اسرائیل ایک بھی دہشت گرد کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔
غزہ پر بمباری اور فائرنگ روز کا معمول ہے لیکن عسکری تجزیہ نگار حالیہ وحشت کا سبب اسرائیل کے سیاسی بحران کو بتارہے ہیں۔ اسرائیلی کنیسہ یا پارلیمنٹ کے انتخابات 9 اپریل کو ہوئے تھے جس میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ لیکوڈ پارٹی کے قائد نیتن یاہو نے قدامت پسند، متعصب اور جنگجو جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن ایسا نہ ہوسکا، اور صدر نے کنیسہ کو تحلیل کرکے 17 ستمبر کو نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔
اس سال کے دوسرے انتخابات بھی فیصلہ کن ثابت نہ ہوسکے اور 120 رکنی پارلیمنٹ میں 33 نشستوں کے ساتھ نیلا و سفید (B&W) اتحاد پہلے، اور نیتن یاہو کا لیکوڈ بلاک 32 کے ساتھ دوسرے نمبر پر آیا۔ مذہبی جماعتوں نے لیکوڈ کی حمایت کا اعلان کیا، چنانچہ اسرائیلی صدر نے بی بی کو ایک بار پھر حکومت سازی کی دعوت دی۔ بی بی نے حسبِ عادت فلسطینیوں کا خوف دلاکر قدامت پسند جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اسی قسم کے جوڑ توڑ کے ساتھ یہ حضرت 2009ء سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ لیکن اس بار ’یہودی مولویوں‘ اور ان کے ایک اہم اتحادی اسرائیل مادر وطن پارٹی (Yisrael Beitein) کے درمیان اتفاقِ رائے نہ ہوسکا اور سانجھے کی یہ ہنڈیا چولہے پر چڑھنے سے پہلے ہی پھوٹ گئی۔ مولویوں اور قوم پرستوں کے درمیان تنازع لازمی فوجی تربیت کے معاملے پر ہے۔
اسرائیل میں لازمی فوجی خدمت کا قانون نافذ ہے، یعنی ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال 8 ماہ، اور لڑکی کو 2 سال فوجی خدمات سرانجام دینی ہوتی ہیں۔ تربیتی مدت ختم ہونے کے بعد بھی لام بندی قانون کے تحت ریاست جب چاہے کسی بھی شہری کو فوجی خدمت کے لیے واپس بلاسکتی ہے۔
لازمی فوجی خدمت کے قانون سے حریدی (Heridi) فرقے کے یہودی مستثنیٰ ہیں۔ حریدی کا عرب و عبرانی تلفظ شریدی ہے جسے انگریزی میں Ultra- Orthodox Jews کہا جاتا ہے۔ حریدی خود کو توریت اور احکاماتِ ربانی یا تلمود (Talmud)کا وارث سمجھتے ہیں اور ان کے یہاں ہر مرد کے لیے توریت و تلمود کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کے لیے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshivaکہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ’’زمین پر بیٹھنا‘‘ ہیں۔ اسرائیل کی یہودی آبادی میں حریدیوں کا تناسب 10 فیصد کے قریب ہے۔
حریدی اسرائیلی سیاست میں بھی بے حد سرگرم ہیں۔ دونوں حریدی جماعتیں یعنی شاس پارٹی (Shas Party) اور متحدہ توریت پارٹی (UTJ) نیتن یاہو کی نظریاتی حلیف ہیں۔ کنیسہ میں ان دونوں جماعتو ں کا مجموعی پارلیمانی حجم 16 ہے۔ بی بی نے مولویوں، مادرِ وطن اور دائیں بازو کی یمین پارٹی سے مل کر حکو مت بنانے کی کوشش کی۔ اس صورت میں لیکوڈ پارٹی اور ان کے اتحادیوں کا پارلیمانی حجم 63 ہوسکتا تھا جو حکومت سازی کے لیے کافی ہے۔ لیکن مادرِ وطن پارٹی مدارس کے طلبہ کے لیے لازمی فوجی تربیت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کردینا چاہتی ہے اور پارٹی کے سربراہ لائیبرمین نے بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ جو پارٹی استثنیٰ ختم کرنے کی حامی نہیں اُس کے ساتھ اتحاد نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف حریدیوں کے لیے لازمی فوجی تربیت کسی صورت قبول نہیں، کہ ان کے خیال میں مدارس سے پونے تین سال کی غیر حاضری درس و تدریس کے نظام کو درہم برہم کردے گی۔ اس اختلاف کی بنا پر بی بی حکومت نہ بنا سکے اور اسرائیلی صدر ریون ریولن (Reuven Rivlin) نے ان کے حریف اور B&Wکے قائد جنرل بینی گینٹز(Benny Gantz) کو حکومت سازی کی دعوت دے دی۔ مسٹرگینٹز کو بھی ایسی ہی مشکلات درپیش ہیں، اور اگر وہ بھی حکومت سازی میں ناکام رہے تو تیسرے انتخابات کی نوبت آسکتی ہے۔
اقتدار بی بی کے لیے بہت ضروری ہے کہ موصوف پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ بطور وزیراعظم استثنیٰ کی بنا پر وہ گرفتاری سے اب تک محفوظ ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ جیسے ہی ان کی حکومت ختم ہوئی، انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ چنانچہ وہ ہر قیمت پر وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ بینی گینٹز نے لیکوڈ سے مل کر ایک قومی حکومت بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن بی بی کا اصرار ہے کہ مخلوط حکومت میں وہی وزیراعظم ہوں گے، جبکہ گینٹز اقتدار کا تاج اپنے سر پر سجانا چاہتے ہیں۔ کنیسہ میں عرب ارکان کی تعداد 13 ہے اور جنرل گینٹز عربوں کو ساتھ ملا کر مولویوں اور قدامت پسند عناصر کے بغیر بھی حکومت بنا سکتے ہیں۔ لیکن حالیہ کشیدگی کے بعد عربوں سے نفرت کی خلیج اتنی گہری ہوچکی ہے کہ عربوں سے ہاتھ ملانا بھی جنرل گینٹز کے لیے سیاسی خودکشی ہوگی۔
کنیسہ کے نومنتخب عرب ارکان کا خیال ہے کہ وزیراعظم کشیدگی بڑھاکر حکومت سازی کی کوششوں کا ناکام بنانا چاہتے ہیں تاکہ ایک اور انتخاب کی نوبت آجائے۔ اس طرح نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے انھیں چار چھ ماہ کی مزید مہلت مل جائے گی۔ عرب سیاسی رہنما ایمن عودہ نے کہا ہے کہ بی بی جنگی ہیجان کو ہوا دے کر اگلے انتخابات میں لیکوڈ کے ساتھ اپنے جنگجو اتحادیوں کے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی اپنی گردن بچانے کے لیے نیتن یاہو بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہارہے ہیں۔ مغربی جمہوریت کا مکروہ چہرہ اب کھل کر سامنے آگیا ہے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
تفصیل کے لیے www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔