میں کون ہوں؟۔

قاضی مظہر الدین طارق
زندگی کہاں سے آئی ہے؟
ہم کہاں سے آئے ہیں؟
ہمارے بدن سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟
کائنات سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟
ماضی سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟
اور
قانونِ فطرت کیا ہے؟
قدیم سائنس اِن بنیادی سوالات کا جواب کئی سو سال سے دے رہی تھی۔
پہلا سوال کہ زندگی کہاں سے آئی؟ اس کے جواب میں ڈارون کے نظریے کی بنیاد پرقدیم سائنس یہ کہہ رہی تھی کہ زمین پر زندگی اچانک ایک حادثے سے آپ سے آپ نمودار ہو گئی، مگر اکیسویں صدی کی جدید سائنس اس کو غلط ثابت کرچکی ہے، کوئی غیرنامیاتی (اِن آرگینک) مادّہ، عام حالات میں نامیاتی مادّے میں کسی بھی صورت تبدیل نہیں ہوسکتا۔
دوسرا سوال کہ: ہم انسان کہاں سے آئے ہیں؟ کے جواب میں وہ کہتی تھی کہ واحد خَلوی حیات سے اِرتقاء پاکر انسان بنا۔
مگر ڈی این اے کے تفصیلی علم کے بعد جدید سائنس حتمی طور پر یہ ثابت کرچکی ہے کہ انسان کا ڈی این اے جانوروں سے اتنا مختلف ہے کہ یہ کسی سے بھی اِرتقا پاکر ہرگز نہیں بن سکتا۔ انسان تو انسان کسی جانور کا ڈی این اے ایک دوسرے سے ارتقا پاکر نہیں بن سکتا۔
تیسرا سوال کہ: ہمارے بدن سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟ قدیم سائنس کہتی رہی کہ کوئی رشتہ نہیں ہے، مگر جدید سائنس اس رشتے کو ثابت کرچکی ہے۔
چوتھا سوال کہ: اس کائنات اور زمین سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟ قدیم سائنس اس رشتے کو بھی تسلیم نہیں کرتی تھی، جبکہ جدید سائنس اس رشتے کو جانتی اور مانتی ہے۔
پانچواں سوال کہ: ماضی سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟ کے جواب میں قدیم سائنس کہتی تھی جو گزر گیا سو گزر گیا، ہم آگے ہی بڑھتے جارہے ہیں، خاتمے کی طرف (لینیئر)جارہے ہیں۔ مگر جدید سائنس اس کے برعکس کہتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز با ر بار دہرائی جارہی ہے، یعنی ری سائیکل کی جارہی ہے، چاہے وہ موسم ہو، کُروی حدت ہو، مخاصمت ہو، معیشت ہو یا تاریخ۔
چھٹا اور آخری سب سے اہم سوال کہ: قانونِ فطرت کیا ہے؟ پھر ڈارون کا غیر ثابت نظریہ علم کی طرح پڑھایا جا رہا ہے کہ فطرت کا قانون ’مقابلہ، ٹکراؤ اور لڑائی‘ہے۔ مگر اب جدید سائنس اس نظریے کو غلط ثابت کرکے کہہ رہی ہے کہ قانونِ فطرت ’ایک دوسرے سے تعاون اور مدد‘ ہے، حیات بھی اسی فطری اُصول پر چل رہی ہے اور قائم ہے۔
ہم اپنے بدن کے اعضاء پر ہی غور کرلیں تو ہمارا نظامِ حیات اِن اعضاء کے آپس میں مقابلے سے نہیں بلکہ مدد سے چلتا ہے۔ دل اور دماغ میں کوئی جھگڑا یا ٹکراؤ نہیں بلکہ تعاون ہے۔
دل اور دماغ کے درمیان مخصوص’اعصاب‘ (نیورائیٹس) کے ذریعے ایک مواصلاتی نظام قائم ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مستقل پیغام رسانی کرتے رہتے ہیں۔ دماغ اچھی اور بری سب معلومات کا مجموعہ ہے، یعنی کہ معلومات میں غرق ہے، مگر دل برائیوں سے پاک اور صاف ہے، اس لیے وہ ہمہ وقت دماغ کو منفی کاموں اور منفی فیصلوں سے بچنے کی تلقین کرتا رہتا ہے، اور دماغ بھی اُس سے ٹکراتا نہیں بلکہ اُس کے مشوروں کو تہِ دل سے مانتا اور عمل کرتا ہے۔
جدید سائنس ایک اور عجیب بات کا انکشاف کررہی ہے کہ ہر خلیے کے ڈی این اے میں جیسا نقشہ (بلو پرنٹ) ہمارے اعضاء کو بنانے کے لیے موجود ہے ویسے ہی اِس کو درست کرنے کے لیے بھی موجود ہے۔
یعنی ہمارے اندر ہی ہماری بیماریوں کا علاج موجود ہے، آئندہ کی جدید طب دوائوں اور چیر پھاڑ سے مبرّا ہوگی۔
یہ صرف باتیں نہیں ہیں، ان کے ثبوت کے لیے ایک نئی کتاب کی ضرورت ہے جو اِن شاء اللہ جلد یا بدیر سامنے آ جائے گی۔
مگرلطف یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اب تک پرانی، غیر ثابت، جھوٹے مفروضوں کی بنیاد پر گڑھی ہوئی سائنس پڑھائی جارہی ہے ، اس کے علاوہ مرکزی ذرائع ابلاغ بھی یہی جھوٹ نشر کیے جارہے ہیں۔
اس سب کی مصلحت ہماری کیا، جدید سائنس دانوں کی سمجھ سے بھی باہر ہے۔
سائنس کی تاریخ کو تاریخی طور پر پڑھانا تو ضرور چاہیے، لیکن اس کو جدید سائنس کے نام سے پڑھنا اور پڑھانا انتہائی علمی بددیانتی اور دھوکا دہی ہے، انسایت کو علم و آگاہی کے بجائے تاریکی میں بھٹکائے رکھنا ہے، خاص کر بچوں اور طالب علموں کو اصل علم سے محروم رکھنا، بے انتہا معیوب ہے۔