مظلوم فلسطینی مسلمان اور عالمی برادری کی بے حسی

عالمی استعمار نے اسرائیل کی ناجائز صہیونی ریاست کو جس طرح وجود بخشا وہ کسی صاحبِ بصیرت سے پوشیدہ نہیں۔ یہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، کیونکہ دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسایا گیا اور پھر اس خطے کے اصل مسلمان باشندوں کو دنیا بھر میں بے وطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے اوّل روز ہی سے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے ایجنڈے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا، اور عرب دنیا کی دفاعی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بیت المقدس سمیت وسیع علاقے پر تسلط جما لیا۔ امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں نے زبان سے امن کا پرچار کرنے کے باوجود مسلم عرب ممالک کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی بھرپور سرپرستی کی، اور اس جارحیت کے ذریعے قبضے میں لیے گئے علاقوں پر تسلط قائم رکھنے میں جدید اسلحہ سمیت دامے، درمے، سخنے ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ یک محوری دنیا میں سپر پاور ہونے کے دعویدار امریکہ بہادر کے انتہا پسند صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس تمام عالمی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کی طرف سے طاقت کے بل بوتے پر قبضے میں لیے گئے یروشلم کے علاقے کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کردیا، اور اس ضمن میں عالمی رائے عامہ کے احتجاج کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی گئی۔
امریکہ کی اس شہ اور سرپرستی کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے اصل باشندوں پر اُن کے اپنے وطن میں زندگی اجیرن کررکھی ہے اور ان نہتے اور بے بس شہریوں پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہے۔ انہی ظالمانہ کارروائیوں کے تسلسل میں گزشتہ ہفتے قابض اسرائیلی فوج نے فلسطین کے محصور علاقے غزہ اور شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں فلسطین مسلمانوں کو گولہ باری کا نشانہ بنایا اور غزہ کے علاقے الشجاعیہ میں اسلامی جہاد تنظیم کے رہنما 42 سالہ بہا ابوالنطاکے گھر پر میزائل داغے جس کے نتیجے میں وہ اپنی اہلیہ 39 سالہ اسماء محمد حسن سمیت شہید ہوگئے جب کہ ان کے دو بچے شدید زخمی ہوئے۔ جب کہ دمشق کے نواحی علاقے مزہ میں اسلامی جہاد ہی کے ایک رہنما اکرم العجوری کی رہائش گاہ پر بمباری کی گئی جس سے ان کے بیٹے سمیت گھر کے چھے افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں ایک ہی دن میں 13 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی کردیئے گئے، جب کہ اس سے اگلے روز مزید 17 فلسطینیوں کو شہید اور 70 کو زخمی کردیا گیا جن میں 13 خواتین اور 30 بچے بھی شامل تھے۔ ہمسایہ ملک مصر نے مداخلت کرتے ہوئے فریقین میں جنگ بندی کا معاہدہ کرایا، مگر صہیونی ریاست نے معاہدے کے باوجود فضائی حملے کرکے مزید 12 فلسطینی مسلمانوں کو شہید کردیا جن میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد بھی شامل تھے۔ یوں تین روز میں شہادت پانے والے فلسطینیوں کی تعداد تین درجن سے زائد ہے، اور ظلم کا یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ہنوز جاری ہے، اور اسرائیلی وزیر خارجہ پسرائیل کانز نے نہایت ڈھٹائی سے اعلان کیا ہے کہ مصر کی کوششوں سے جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود فلسطینی مزاحمت کاروں کو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل جاری رکھا جائے گا۔
اس کھلی جارحیت کے خلاف پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، حتیٰ کہ مسلمان ممالک کی جانب سے بھی مؤثر ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے اس معاملے پر جاری کیے گئے بیان میں نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ ان جارحانہ حملوں کا نوٹس لے جو بین الاقوامی اور عالمی انسانی قوانین کے منافی ہیں۔ دفتر خارجہ کے بیان میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل بین الاقوامی سطح پر متفقہ 1967ء سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پر اور القدس شریف کے دارالحکومت کے طور پر ایک قابلِ عمل اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔ ان فلسطینیوں کی مظلومانہ شہادت پر اقوام متحدہ نے بھی انگڑائی لی ہے اور سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹرس نے جاں بحق ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ سے افسوس کا اظہار کیا اور نہایت جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ ہم شہریوں کے قتل کی مخالفت کرتے ہیں، اس لیے اسرائیل سے التجا ہے کہ وہ اس کی فوری تحقیقات کرے۔ سوال یہ ہے کہ حملہ آور مسلمان ہوتے اور مرنے والے عیسائی یا یہودی ہوتے تب بھی اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کا ردعمل ایسی ہی بے حسی پر مبنی ہوتا؟
حقیقت بہرحال یہی ہے کہ فلسطین، کشمیر، میانمر، شام اور لبنان وغیرہ ہر جگہ ریاستی یا ریاست کی سرپرستی میں جاری دہشت گردی میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور فرانسیسی ادارے پولیٹکل کریٹویٹی فائونڈیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چالیس برس میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 91 فیصد سے زیادہ متاثرین مسلمان تھے، مگر اس کے باوجود دہشت گردی کا تمام تر الزام بھی مسلمانوں ہی پر رکھا جا رہا ہے… گویا مسلمان ہی مقتول ہیں اور مسلمان ہی ملزم۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں بجا طور پر توجہ دلائی ہے کہ اقوام متحدہ کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ تعصب پر مبنی ہے، اسے یہ رویہ بہتر کرنا ہو گا۔ پونے دو ارب مسلمانوں کو سلامتی کونسل میں نمائندگی حاصل ہے نہ ویٹو پاور… تاہم اس صورت ِحال کا بڑا سبب وہی ہے جس کی نشاندہی علامہ اقبال نے بہت عرصہ پہلے کر دی تھی ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

(حامد ریاض ڈوگر)