دھرنا ختم ہوچکا ہے اور ملک کا سیاسی منظر بھی بدل رہا ہے۔ جے یو آئی کی قیادت چودھری شجاعت حسین سے ’’ضمانت‘‘ پاکر دھرنا ختم کرچکی ہے۔ جے یو آئی کو امانت کی تشریح یہ کی جارہی ہے کہ تھوڑا صبر کریں سلیکٹڈ تبدیلی رخصت ہوا چاہتی ہے۔ چودھری شجاعت حسین کے ذہن میں کہیں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ حالات ہی ایسے ہوجائیں گے کہ آئندہ تین سے چھ ماہ میں کوئی وزیراعظم بننے کے لیے بھی راضی نہیں ہوگا۔ حکومت کے تالاب میں مسلم لیگ(ق) نے پتھر پھینک کر ارتعاش پیدا کردیا ہے جس کی لہریں نیب کی زد میں آئے سیاسی تنکے آہستہ آہستہ کنارے پر لارہی ہیں۔ اس وقت وزراء کا مؤقف جو بھی ہے، حقائق یہ ہیں کہ ابتدا میں وزیراعظم عمران خان نے خود ہی وفاقی کابینہ کو اطلاع دی تھی کہ نوازشریف بہت بیمار ہیں اور اگر جیل میں اُنہیں کچھ ہوگیا تو حکومت کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد نیب نے ہاتھ اٹھا لیا تو نوازشریف کو عدالت کے ذریعے جیل سے اسپتال بھجوانے کا حکم جاری ہوا۔ اس پیش رفت کے بعدکچھ وزراء کو یاد آیا کہ ریلیف کہانی سے تو تحریک انصاف کے سیاسی بیانیے پر کاری ضرب لگی ہے۔ اس کے بعد سے حکومت ’’کہیں یہ نہ ہوجائے، کہیں وہ نہ ہوجائے‘‘ کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے ۔ اسے ایک بار نہیں، بلکہ کئی مرتبہ مشورہ دیا گیا کہ ملکی معیشت درست کرنے پر توجہ دی جائے، لیکن حکو مت یہ بیانیہ لے کرچلتی رہی کہ سارا کیا دھرا ماضی کے حکمرانوں کا ہے۔ عاقبت نااندیش مشیروں کے باعث یہ دن دیکھنا پڑا کہ نوازشریف کو ریلیف دیا گیا اور بیرونِ ملک بھی جانے دینا پڑا، اس کے باوجود وزیراعظم اور ان کے وزراء سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ حکومت کو چودھری شجاعت حسین، متحدہ قومی موومنٹ اور جی ڈی اے سمیت کسی اتحادی کی حمایت میسر نہیں ہے۔ اس دبائو کو دور کرنے کے لیے ہی وزیراعظم عمران خان نے رخصت پر جانے اور سرکاری مصروفیات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اتحادیوں کے بعد حکومت کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی رولنگ نے بھی پریشان کردیا۔ چیئرمین سینیٹ نے پیغام بھیجا کہ نوازشریف کو کچھ ہوگیا تو منہ پہ لگا داغ دھل نہ پائے گا، اور حکومت مہنگائی کے طوفان اور بے روزگاروں کے غضب سے نپٹنے پہ توجہ دے۔ اس کے بعد سبھی اتحادی عدم اطمینان کی بولی بول رہے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر پر پہلا ہی وار ہوا توحکومت نے قومی اسمبلی میں درجن کے قریب آرڈیننس واپس لے کر اپنا دفاع تو کرلیا ہے، مگر حکومت کی بنیاد ہل چکی ہے۔ اسے مہنگائی، بے روزگاری اور خراب و غیر مستحکم معیشت لے ڈوے گی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک نشست میں بتایا تھا کہ ’’عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم بنانے کا فیصلہ جب کرلیا گیا تھا تو مجھ سے رابطہ کرکے کہا گیاکہ میں اس کی حمایت کروں، لیکن میرے انکار پر مجھے پارلیمنٹ سے ہی باہر کردیا گیا‘‘۔ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ انکشاف اس ملک کی سیاست پر بہت بھاری ہے۔ شاید ماضی کے تلخ سیاسی حالات کے باعث اور دھرنے کے بعد جے یو آئی اب ایک پوزیشن لے چکی ہے کہ اس کی قیادت ہر سیاسی مذاکرات میں شامل ہوگی، لیکن تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی، اب صرف ضامن کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری سیاسی منظرنامے کے دو اہم کردار ہیں، یہ تو طے ہوچکا کہ مستقبل میں دونوں پارلیمنٹ سے باہر ہوں گے، مگر سیاسی لحاظ سے فی الحال انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں کو ریلیف دے کر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی میدان میں بچھے ہوئے کانٹے صاف کیے جارہے ہیں، دونوں سیاسی رہنمائوں کی صحت انہیں سیاست سے باہر کرنے میں مددگار بن رہی ہے، اور یہ بھی فیس سیونگ کی ہی ایک شکل ہے۔ نوازشریف سیاسی لحاظ سے آخری دموں پر ہیں۔ چالیس برس پہلے بھٹو کا انجام پھانسی کی صورت میں ہوا تھا، اب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی دُہائی عبرت کا نشان بننے جارہی ہے۔ بھٹو کے بعد ان کی صاحب زادی نے سمجھوتا کیا، لیکن مسلم لیگ(ن) کی’’بے نظیر بھٹو‘‘ شہبازشریف، نوازشریف کے جیتے جی سمجھوتا کرنے والے ہیں اور کم تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہیں۔ ڈاکٹروں کے سرکاری بورڈ کی سفارشات اور سیاسی حریف کی صحت کی اس کیفیت کے باوجود تحریکِ انصاف نے محض اپنے سیاسی بیانیے کی تشفی کے لیے سیکورٹی بانڈز طلب کیے، عدالت نے ایک نئی ضمانت فراہم کیے جانے پر نوازشریف کو ابتدائی طور پر چار ہفتوں، اور بعد میں صحت کی صورت حال کے پیش نظر مزید مہلت کی گنجائش کے ساتھ بیرونِ ملک بھجوانے کا فیصلہ دیا۔ مسلم لیگ (ن) اب غیر مشروط طور پرکسی بھی تنخواہ پہ کام کرنے کو تیار ہوگی۔ بلاول بھٹو زرداری کے لیے یہی پیش کش ہے، ہوسکتا ہے عمران خان کا جانا شاید مہنگائی و بے روزگاری کے طوفان کی وجہ سے ہو، لیکن سیاسی اعتبار سے یہ یقینا اچھا شگون نہیں ہوگا کہ ’’تبدیلی‘‘ سیاسی شہید بن جائے۔ اور یوں ملک میں سیاسی کشکمش جاری رہ سکتی ہے۔ بلاشبہ اس وقت پاکستان کو درپیش بڑے سیاسی اور سفارتی چیلنجوں کے دیرپا حل کی ضرورت ہے۔ ریاست اور عوام کے مابین عمرانی معاہدے کی تجدیدِ نو ہونی چاہیے۔ سیاسی مکالمے کے لیے تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو اپنا ذہن صاف کرکے بیٹھنا ہوگا، انہیں ایک سال کے اقتدار کے تجربے نے بہت کچھ سکھا دیا ہے، اب ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے زمینی حقائق دیکھنے چاہئیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان خود اپنی کابینہ اور پارٹی میں بھی تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف اس وقت دو واضح گروپوں میں بٹ چکی ہے، اس کے پرانے اور بانی ارکان مزاحمت کررہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان حالات سے سمجھوتا کیوں کرنا چاہتے ہیں! ان کے مدمقابل الیکٹ ایبل گروپ چاہتا ہے کہ مفاہمت پیدا کی جائے۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد نوازشریف کو علاج کے لیے بیرونِ ملک بھجوائے جانے سے متعلق فیصلہ بھی یہ ثابت کرچکا ہے کہ کابینہ میں بھی عمران خان تنہا تھے، دو تین ارکان کے سوا وفاقی کابینہ کی ایک بڑی اکثریت نے ہاتھ کھڑے کرکے نوازشریف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت کے حق میں رائے دی۔ بعد میں عدالتی فورم پر ساری دھند چھٹ گئی۔ یہ بات درست ہے کہ معاملات بہت حد تک طے ہوچکے ہیں، تاہم اپوزیشن کی جلدبازی اور وقت سے پہلے پتے شو کرنے پر اب کسی حد تک رکاوٹ کھڑی ہونے لگی ہے۔ وزیراعظم نے اپنی بقاء کے لیے خود مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس طرح حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایک نئی اعصابی جنگ شروع ہوچکی ہے، لیکن معیشت حکومت کے لیے اصل امتحان ہے۔وزیراعظم ایف بی آر کوہدایت کی ہے کہ کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کیا جائے،8 کھرب کا ٹیکس اکٹھا کرنا کوئی مشکل ہدف نہیں ہے لیکن احتساب نہیں رکنا چاہیے۔
نوازشریف کے طرزِ سیاست سے لاکھ اختلاف سہی، لیکن سچ یہ ہے کہ اُن کی بیماری صرف پلیٹ لیٹس کے اتار چڑھائو تک محدود نہیں، ان کو بہت سے عارضے لاحق ہیں۔ گردوں میں بھی مسئلہ ہے، دل کی شریانوں میں اسٹنٹ بھی پڑ چکے ہیں، دھڑکنیں بھی بے ترتیب ہیں، بلڈ پریشر کی شکایت بھی ہے، حسین نواز نے ایک ٹویٹ میں زہر دینے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے، یہ بات بھی درست ہے کہ طبیعت شدید ناساز ہونے سے پہلے نوازشریف کے درست علاج میں روڑے اٹکائے گئے، ایک سال تک ڈاکٹروں کے ایسے بورڈ بنے جن میں متعلقہ ڈاکٹر موجود نہیں تھے یا انہیں درست تشخیص کا موقع نہیں دیا گیا۔ جب تک طبیعت بہت زیادہ خراب نہیں ہوئی، نوازشریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت نصیب نہیں ہوئی۔اب نواز شریف کی حالت اتنی خراب ہے کہ انہیں بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم کے نام سید علی گیلانی کا خط
حکومت نے حریت رہنما سید علی گیلانی کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ سید علی گیلانی نے پہلا خط ستمبر میں لکھا، اور دوسرا خط ابھی حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کے نام لکھا جو وزارتِ خارجہ اور وزیراعظم آفس کے ذریعے ان تک پہنچ چکا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے خط کے ذریعے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان دوطرفہ معاہدوں شملہ، تاشقند اور لاہور معاہدے سے دست بردار ہونے کا اعلان کرے، ایل او سی پر معاہدے کے تحت باڑ لگانے کے معاہدے کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے، کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستان کی بقا کے لیے یہ اہم موڑ ہے، پاکستان کو کل جماعتی پارلیمانی اجلاس طلب کرنا چاہیے، حکومتی سطح پر کچھ کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ہوسکتا ہے یہ میرا آپ سے آخری رابطہ ہو، علالت اور زائد عمری دوبارہ خط لکھنے کی اجازت نہ دے۔ واضح رہے کہ سید علی گیلانی کی عمر اس وقت اکیانوے سال ہے اور انہیں دل کی بیماری لاحق ہے۔ بھارت سرکار نے انہیں گھر میں نظربند کررکھا ہے اور انہیں ملاقاتوں کے علاوہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ ان کا خط وزیراعظم عمران خان تک ان کے بھتیجے اور کل جماعتی حریت کانفرنس (آزاد کشمیر شاخ) کے رہنما سید عبداللہ گیلانی نے پہنچایا تھا۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ آپ سے رابطہ قومی اور ذاتی ذمے داری ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت سرکار عالمی دہشت گرد نریندر مودی کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر میں مظلوم و نہتے کشمیری عوام کو مسلسل ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہی ہے، اور اس کے لیے بھارت کی انسانیت دشمن سرکار نے ایسا بھیانک طریقہ اختیار کررکھا ہے کہ اسّی لاکھ کشمیریوں کو مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرکے اور وادی سے ذرائع مواصلات کا خاتمہ کرکے قیدِ تنہائی کا شکار کردیا ہے، جبکہ بھارت کی 9 لاکھ فوج رات دن کے کسی بھی پہر جس گھر میں چاہے اسلحہ کے زور پر بلا روک ٹوک گھس کر وہاں مکینوں کو دہشت گردی کا شکار کرسکتی ہے، نوجوانوں کو بلا روک ٹوک گولیاں مار کر شہید کیا جا رہا ہے، بچوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور خواتین کو اجتماعی طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان بدترین حالات میں کشمیری عوام کو جن مسلمان بھائیوں پر اعتماد تھا یعنی پاکستانی عوام… وہ سیاسی، سفارتی و اخلاقی امداد کی مالا جپ رہے ہیں۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والی بھارت سرکار کو تو دنیا کی سلامتی کی کوئی فکر نہ ہو، اور وہ ہر غیر قانونی اقدام کرتی رہے اور کشمیری عوام کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بناتی رہے، اور ہم دنیا کی سلامتی کا راگ الاپتے رہیں، ہم خود کو امن پسند ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں! ویسے بھی مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر پہلے ہی قدم پر بھارت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ حریت رہنما سید علی گیلانی کے خط کا ایک ایک لفظ آنسو بن کر ٹپک رہا ہے، اُن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کے حریت رہنما ہیں، وہ ہم سے کھل کر یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ بھارت کے خلاف اپنی فوجوں کو حرکت میں لائو، انہوں نے اخلاقی پردے میں جتنا ممکن تھا ہم سے مطالبہ کردیا ہے۔ حریت چیئرمین نے وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے گئے ایک خط میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں، اورجموںوکشمیر کی متنازع حیثیت غیر قانونی طریقے سے تبدیل کرنے کے بھارتی فیصلے کے خلاف ان کے خطاب کی تعریف کی۔ انہوں نے کہاکہ لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے باوجود بھارت جدوجہدِ آزادی دبانے میں ناکام ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ لداخ کے مسلمانوں کو ظالم بھارتی فورسز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ اس خطے کے لوگ بھی بھارت کے غیر قانونی اقدام کی مخالفت کررہے ہیں۔ کشمیری عوام کو نوٹس بھیجے جارہے ہیں کہ ان کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جائے گا۔ کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کا عمل جاری ہے۔ بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ بھارت کشمیر کی سیاسی حیثیت ختم کرکے ہماری زمین زبردستی چھیننا چاہتا ہے، پاکستان کی طرف سے کچھ مضبوط اور اہم فیصلوں کی ضرورت ہے۔