یہ بات پہلے ہی طے تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ اور دھرنے کے نتیجے میں کسی بڑی سیاسی یا حکومتی تبدیلی کا امکان موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی سیاسی دھرنوں یا طاقت کے زور پرحکومتوں کو گرانے کے رواج کو بنیاد بنالیا گیا تو مستقبل میں کوئی بھی سیاسی اور جمہوری حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکے گی۔ اس کا نتیجہ کمزور سیاسی و جمہوری نظام اور قومی سطح پر اداروں کی تباہی ہوگا۔ سیاسی اور جمہوری قوتوں کا سیاسی احتجاج یا دھرنے دینا سیاسی اور جمہوری حق ہے، شرط صرف یہ ہونی چاہیے کہ یہ عمل سیاسی اور قانونی دائرہئ کار میں رہ کر ہو اور عدم تشدد پر مبنی ہو۔
مولانا فضل الرحمٰن اور جے یو آئی کو اس لحاظ سے داد دینی ہوگی کہ وہ اپنے آزادی مارچ اور پلان اے میں سیاسی اور قانونی دائرہئ کار میں رہے، اور عدم تشدد کی پالیسی پر عمل کرکے قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کیا۔ اس سے یقینی طور پر مولانا فضل الرحمن اور جے یو آئی کا سیاسی امیج بہتر ہوا اور انہیں میڈیا کی سطح پر جو پذیرائی ملی وہ بھی ان کی سیاسی ساکھ کی بحالی میں مدد دے سکتی ہے۔ اس آزادی مارچ کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی تنہائی بھی کم ہوئی ہے اور وہ سیاسی محاذ پر اپنی اہمیت کو منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
لیکن مولانا فضل الرحمٰن کے جو بنیادی سیاسی مطالبات تھے یعنی وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات کا مطالبہ…… ان کی کوئی سیاسی منطق نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو اپنے ان مطالبات پر پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ اب ان کی توجہ کا مرکز پلان بی ہے۔ اس پلان کے تحت ملک بھر میں جلسے، جلوس، مختلف صوبائی ہیڈ کوارٹرز میں دھرنے، بڑی شاہراہوں کو بند کرنا یا شٹر ڈاؤن کرنا شامل ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے بقول ان کی تحریک وزیراعظم کے مستعفی ہونے اور نئے انتخابات تک جاری رہے گی اوراس کے لیے اگر اُن کو پلان سی، ڈی یا اس سے بھی آگے جانا پڑا تو وہ گریز نہیں کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن کو سوچنا چاہیے کہ اُن کے آزادی مارچ کا جو اہم ہدف تھا وہ اسے حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہوئے؟ اس ناکامی کی چار بنیادی وجوہات ہیں:
(1) دو بڑی جماعتوں یا دیگر اپوزیشن جماعتوں پر انحصار کرکے مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کیا، ان کو یقین تھا کہ مختلف صوبوں اور حتمی طور پر اسلام آباد مارچ میں یہ جماعتیں زیادہ متحرک اور فعال کردار ادا کرکے حکومت پر ایک بڑا سیاسی دباؤ پیدا کرکے ان کی پشت پر کھڑی ہوں گی، لیکن عملی طور پر دونوں بڑی جماعتوں نے ان کو مایوس کیا، اور خود آزادی مارچ میں بھی ان کی شرکت بہت غیر مؤثر تھی۔
(2) اس آزادی مارچ میں عام لوگوں، نوجوانوں، بزرگوں، کسانوں، مزدوروں، عورتوں، اساتذہ سمیت دیگر شعبہ جات کی کوئی نمائندگی نظر نہیں آئی۔ یہ دھرنا محض جے یو آئی کا تھا اور اس میں دینی مدارس کے طلبہ سمیت مدارس سے جڑے اساتذہ تھے۔ یہ نہ تو حکومت کے خلاف کوئی عوامی تحریک تھی اورنہ ہی اس میں عوامی تحریک کی کوئی جھلک ہمیں دیکھنے کو مل سکی۔ اس لیے اس تحریک کا ناکام ہونا فطری امر تھا۔
(3) مولانا فضل الرحمٰن کے پاس بنیادی مطالبہ انتخابی دھاندلی یا سلیکٹڈ حکومت کا تھا۔ مگر احتجاج میں سارے نعروں میں یہودی اور اسرائیلی ایجنٹ، کشمیر کا سودا، مودی کا ایجنٹ، لادین وزیراعظم سمیت ایسے نعرے یا تقریریں کی گئیں جن میں انتخابی دھاندلی کا مسئلہ کمزور تھا۔ یہاں تک کہ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے کوئی شواہد بھی ان کے پاس موجود نہیں تھے۔
(4) ایسے لگتا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کے سوا کوئی اور مطالبہ نہیں تھا، اورنہ ہی اس آزادی مارچ کو میڈیا، اہلِ دانش اور رائے عامہ بنانے والوں کی طرف سے کوئی بڑی پذیرائی مل سکی۔
کچھ لوگ یہ دلیل دیتے تھے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے پیچھے پس پردہ قوتوں کا عمل دخل ہے اور وہ عمران خان کے مقابلے میں ایک متبادل سیاسی حکمت عملی پر غور کررہی ہیں۔ یہ تجزیہ بھی غلط ثابت ہوا اور فوج نے براہِ راست مولانا فضل الرحمٰن کے الزامات کا جواب بھی دیا اور اس سیاسی مہم جوئی سے لاتعلقی کا اعلان کرکے دھرنا سیاست کو کمزور کیا۔ ایک خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو آزادی مارچ کے خاتمے کی صورت میں حکومتی سطح سے کچھ نہ کچھ حاصل ہوگا۔ چودھری برادران کی بھی کوشش تھی کہ فریقین میں کوئی ایسا سمجھوتا ہو جو آزادی مارچ کو بھی سیاسی طور پر مطمئن کرسکے۔ لیکن مولانا فضل الرحمٰن اس محاذ پر بھی کچھ حاصل نہیں کرسکے۔
مولانا فضل الرحمن نے عملی طور پر متحدہ یا مشترکہ اپوزیشن کی سیاست کو بھی کمزور کیا۔کیونکہ سیاست میں بار بار اس طرح کی بڑی سیاسی سرگرمی یا مہم جوئی آسان نہیں ہوتی۔ اب فوری طور پر حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت کے خلاف کوئی بڑی تحریک نہیں چلا سکیں گی۔ اس آزادی مارچ کی ناکامی کی ایک وجہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں اعتماد کا فقدان بھی تھا۔ دونوں بڑی جماعتیں کسی بھی صورت میں مولانا فضل الرحمن کو تحریک کی قیادت عملاً دینے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ جے یو آئی کے مختلف اجلاسوں میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے کردار پر سخت تنقید ہوئی اورکہا گیا کہ ان دونوں جماعتوں کا کردار درست نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی ایک غلطی یہ بھی تھی کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں سمیت اپنی ہی قیادت کو عملی تحریک کے اقدام سے آگاہ نہیں کرسکے۔ ابتدا سے لے کر آزادی مارچ کو ختم کرنے تک وہ گومگو کی کیفیت کا شکار رہے۔
آزادی مارچ کا فائدہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو ہوا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے آزادی مارچ کو اپنے حق میں استعما ل کرنے کی کوشش کی۔ ان جماعتوں کے سامنے بڑے مفادات کی اہمیت کم اورچھوٹے چھوٹے یا ذاتی مفادات کی اہمیت زیادہ بالادست نظر آئی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کی تحریک ختم ہوگئی ہے؟ یقینی طور پر مولانا فضل الرحمٰن خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وہ اپنی اس تحریک کو آگے بڑھانا چاہیں گے۔ لیکن ان کے سامنے چیلنجز ہیں، اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی آگے جاکر جے یو آئی کی یہ تحریک متحدہ اپوزیشن کی تحریک میں بدل سکے گی؟ کیونکہ جب تک یہ تمام جماعتوں یا حزب اختلاف کی تحریک نہیں ہوگی، حکومت پر بڑا دباؤ نہیں ڈال سکے گی۔ اسی طرح اگر مولانا کے پاس انتخابی دھاندلی کے شواہد ہیں تو وہ اس پر وائٹ پیپر جاری کریں تاکہ واقعی ثابت ہوسکے کہ دھاندلی کے شواہد بھی موجود ہیں۔ اس کے لیے ان کو اداروں پر اعتماد کرنا ہوگا،اور یہیں سے ان کو دادرسی کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
حال ہی میں ہم نے دنیا کے مختلف ملکوں میں وہاں کی حکومتوں کے خلاف تحریکیں دیکھی ہیں جن میں سے کچھ تحریکوں کو کامیابی ملی، لیکن اس کی بنیادی وجہ بڑی تعداد میں عوام کا باہر نکلنا تھا۔ اس لیے اگر واقعی حکومت کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلانی ہے تو اس کو عوامی تحریک میں بدلنا ہی حزبِ اختلاف کی کامیابی ہوگی۔چند سیاسی جماعتوں کے کارکنوں یا کسی گروہ کے ذریعے حکومتوں کو گرانا سودمند نہیں ہوتا۔بہرحال تحریک انصاف کے خلاف تحریک چلانا حزب ِاختلاف کا حق ہے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ وہ ایسے کون سے کارڈ کھیلتے ہیں جو واقعی حکومت کو سیاسی پسپائی پر مجبور یا حکومت یا وزیراعظم کو تبدیل کرسکیں۔